فرض کیجیے! آپ ایک اندھیری رات کو، طوفانی بارش میں، اپنی گاڑی پر، کسی ایسے راستے سے گزر رہے ہیں، جس کے بارے میں، آپ بہت کم جانتے ہے۔ پس، بادل گرج رہے ہیں، بجلی بھی کڑک رہی ہے، سفر جاری رکھتے ہوئے، آپ دیکھتے ہیں کہ اچانک، سڑک دو اطراف میں تقسیم ہورہی ہے، آپ شش وپنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے، آخر کونسا راستہ اختیار کیا جائے، اسی اثناء میں، آپ کو قریب ہی ایک ٹریفک سائن بورڈ نظر آتا ہے، جس کے اوپر راستے کے تعین کے حوالے سے رہنمائی موجود ہے، آپ جب اس سائن بورڈ کو پڑھنے کے لیے، کار قریب لے جاتے ہیں، تو یہ بھی معلوم پڑتا ہے، کہ اس سائن بورڈ کا پول، انتہائی خوبصورت سنگ مرمر کے پتھرکا بنا ہے، آپ گاڑی کی ہیڈلا ئیٹ یا ٹارچ سے سائن بورڈ کا پیغام پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ اس کے بعد، درست سمت میں، اپنی اصل منزل کی طرف، سفر جاری رکھ سکیں۔ لیکن اگر، آپ، اس سائن بورڈ کے پول کی ظاہری خوبصورتی سے شدید متاثر ہوتے ہوئے، اس پر درج، سمت کے تعین پر غور و فکر کرنے کے بجائے، اپنی گاڑی پر اسی پول کے گرد چکر لگانا شروع کر دیں، یا پھر وہیں کھڑے ہو کر، اس پول کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرتے رہیں، تو کیا آپ کبھی اپنی منزل پر پہنچ سکیں گے؟چاہے، آپ اپنے د ل ودماغ، میں کتنا ہی، یہ یقین پیدا کر لیں، کہ یہی میری منزل، مطمع نظر اور مقصود ہے، اور ساری عمر، اس سائن بورڈ کی انفرادی سطح پر، حمدوثنا میں گزار دیں۔ اور اس پہلو کو قطعاً نظر انداز کر دیں، کہ اس سائن بورڈ کا اصل مقصد تخلیق کیا ہے؟ اور اس پر لکھی علامت میں کیا پیغام پوشیدہ ہے؟ کیا آپ کا اپنایا گیا یہ طرز عمل، عقلی اور درست ہو گا؟ اورکیا یہ رویہ آپ کو منزل تک پہنچا سکے گا؟؟
اب ذرا، اس مثال کا اطلاق، فطرت کی سیکولرلائزیشن کی سرگرمی پر کر کے دیکھتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے، تصور کیجیے، کہ اس کائنات کی تمام مادی مخلوقات (اشیاء) اور فطری مظاہر، اپنی جمالیاتی خوبصورتی میں، اور درجہ کمال کو پہنچی ہوئی بناوٹ اور صورتی تاثر کی وجہ سے، اُس پرُ کشش پول اور سائن بورڈ کی طرح ہیں، جن پر کوئی نہ کوئی، علامت درج ہے، اورجو کسی حقیقی جہت یا منزل کی طرف ہماری رہنمائی کر رہیں ہیں۔ لیکن ہم کسی سیکولر تصور جہاں یا طرزفکر کے تحت، ان مخلوقات اور مظاہر (علامتوں) میں چھپے پیغام سے، جان بوجھ کر لاتعلقی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور اپنے تئیں، مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں، کہ سائن بورڈ میں موجود، تمام علامتیں، اشارے اور پیغامات، غیرضروری، اضافی اور بے مقصد ہیں۔ اور انکا اصل مقصد تخلیق صرف یہ ہے کہ ہم ان تخلیقات کے حسی مشاہدے کے ذریعے، حاصل ہونے والی معلومات کی، مدح سرائی میں مشغول رہیں یا پھر سنگ مرمر کے پول کی خوبصورتی کو سراہتے رہیں، اور اسی سرگرمی کو اپنے مشاہدے، تجربے اور حاصل شدہ علم کاحتمی مقصود سمجھیں۔ شاید عقل سلیم رکھنے والا کوئی بھی شخص، یہ طرزعمل اختیار نہ کرے، لیکن یہ عظیم المیہ ہے، کہ فطرت کو سیکولر لائزکرنے کے ضمن میں بھی، جدید انسان نے بعینیہ، یہی کام کیا ہے، حالانکہ اس فطری دنیا میں موجود، تمام مخلوقات اور فطری مظاہر (فطری قوانین) کا خالق (بلکہ ٰالخالق)، اللہ ہے، اسلیے، یہ تمام مخلوقات اور مظاہر، وہ سائن بورڈ اور اُس پر لکھی، علامتوں کی طرح ہیں، جو ہمیں، ہمارے خالق تک لے کر جانے کی نیت سے، تخلیق کیں گئیں ہیں۔ لیکن ہم نے ان مخلوقات اور مظاہر فطرت کے مجرد مطالعے، کو ہی علم کا حقیقی مقصود بنا لیا ہے۔ گویا، اس جزوی اورناقص مطالعے کے ذریعے، خدا کے قریب جانے کے بجائے، خود انہیں(مظاہر فطرت کو ہی)، خدا کا مقام دے دیا ہے۔ اور یوںحقیقی خد ا کو، خود سے دور کر لیا ہے۔
تصور فطرت کو، سیکولرلائز کرنے کا طریقہ کار:
تصور فطرت، کو سیکولائز کر نے کے لیے، فطری علوم (انسانی علوم )کو سیکولرلائز کر نا پڑتا ہے، اور یہ فطری علوم، نقلی بھی ہو سکتے ہیں، اور عقلی بھی۔ دراصل، ہر انسانی علم اور مادی شئے (بشمول جاندار اور انسان) کا، جتنا تعلق، مادہ، اور مادی دنیا میں موجود، کسی چیز کے ساتھ، ایک افقی Horizental (دنیاوی) سطح اور مرتبے پر، ہوتا ہے، اُتنا ہی ماورائیت پر مبنی، روحانی اور عمودی تعلق Vertical، الخالق (اللہ تعالی) کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
اولاً، جب کسی نقلی (مذہبی) علم کا ربط، کائنات کے آفاقی نصب العین سے، علیحدہ کیا جاتا ہے، یا دوسرے لفظوں میں، جب کسی نقلی (مذہبی) علم کا ربط، خالق کائنات سے علیحدہ کیا جاتا ہے، تو پھر مذہبی علم کے دنیاوی پہلووں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، دنیا کو برتنے کے نام پر، غیر متوازن قسم کی دنیا پرستی سکھائی جاتی ہے۔ اسلام میں حد اعتدال سے باہر نکلی ہوئی ایسی مذہبی مباحثت، جن میں اجتماعیت، معا شرت، سیاسی نظام و انقلاب، اسلامی سیاسی ریاست کے قیام، اور اس سے جڑے، تمام تر موضوعات کو، زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اسکے برعکس، اس فکر کے تحت، تعلق باللہ، تزکیہ نفس اور آخرت میں کامیا بی کے حصول کی طرف، کم توجہ دلائی جاتی ہے، حالانکہ دنیا وی زندگی کے فرائض و معاملات تو، محض نقلی( مذہبی) علوم کی افقی سطح پر تشریح ہے، ہم دیکھتے ہیں، اس رحجان کے تحت، 19ویں صدی اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں، جمال الدین افغانی اور سر سید احمد خان، جیسے تجدد پسندووںسے لے کر نیاز فتح پوری اور پردیز احمد تک کے مفسرین اسلام تک، ہمیں یہی فکری رحجان، شعوری یا لاشعوری طور پر نظر آتا ہے۔ جنھوں نے، قرآن کی تفسیرَ علمی Scientific Exegesis، کرتے ہوئے، اسلامی تصورجہاں کو افقی سطح، (محض دنیاوی سطح پر) بیان کیا۔ چنانچہ، اس اصول کے تحت کبھی، جنوں اور فرشتوں کو علیحدہ، ماورائی مخلوق ماننے سے صریحاًانکار کیاگیا، تو کبھی انہیں، ریلوے انجن کے دھواں کے مساوی قرار دیا گیا۔ یوںاسی بیمار اور مستعار فکرکے تحت، ہمارے مسلم تجدد پسند وںنے، عیسائی متوکلیمین(Theologians) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، علم غیب سے جڑے تمام ماورائی معاملات(آخرت، جنت، دوزخ اور ہبوط آدم وغیرہ )کی، محض، مادی اور حسی عالم کی سطح پر وضاحت کی اور اسے زیادہ قطعی بتلایا۔
دوئم، عقلی علوم میں، تصور ٖفطرت، کو درج ذیل، دو طریقوں سے سیکولرلائز کیا گیا:
- فطری مظاہر کی وضاحت کر تے ہوئے، فطرت (Nature)، کا خدا کے ساتھ متحرک ربط اور تعلق، کو مبہم یا نظرانداز کر کے، بتدریج، علمی بحث سے علیحدہ کر دیاگیا۔
- حسی مشاہدے اور تجربے پر مبنی سائنسی طریقہ کار (استخراجی یا استقرائی) کے ذریعے سے، کسی بھی مظہر فطرت کی وضاحت کو، معتبر یا ترجیحاً قطعی، سمجھا گیا۔
دراصل، حسی مشاہدے اور تجربے کے دوران، مروجا سائنسی تخفیفیت (Reductionism) کے اصول کے تحت، کسی حقیقی شئے، یا مظہر کو، کمیتی (Quantity) اور کیفیتی (Quality)، درجہ بندی کے تحت بانٹ لیا جاتاہے، کمیتی حصے کی تو، سائنسی آلات کے ذریعے، برُی بھلی پیمائش کر لی جاتی ہے، لیکن، کیونکہ، انسانی عقلی علوم ابھی، اس درجے پر نہیں پہنچے کہ، کسی شئے کے کیفیاتی حصے کی وضاحت، ٹھیک طریقے سے کرسکیں۔ مثلاً کسی سیب کے رنگ، اور پھول کی خوشبو کی سائنسی پیمائش، ابھی بھی، قطعی انداز سے نہیں کی جا سکتی۔
خدا نے، اس کائنات کو پیدا ہی نہیں کیا، بلکہ اسے ہر لمحے تھام بھی رکھا ہے۔ یوں، وہ محض ماورائیت (Transcendence) نہیں ہے، بلکہ، نفوذ کلی (Immanence) بھی ہے وہ اس کائنات میں ہونے والے ہر فطری مظہر میں شریک ہے
اسی طرح، کسی سائنسی مشاہدے، تجربے اورتحقیق، کے نتیجے میں، جو مساوات (فارمولاجات) وضع کیے جاتے ہیں، ان میں، کئی قسم کے مفروضات (Assumptions)، مستقلات (Constants)، اور پابندیوں (Constraints) کا لحاظ رکھاجاتا ہے۔ یوں یہ کسی بھی سائنسی فارمولے یا مساوات، میں، وہ حصہ ہوتا ہے، جس کی حقیقی کیفیت اور ماہیت، مشتبہ اور غیر حتمی رہتی ہے۔ اور اس باب میں بھی، ہماری علمی بے بسی کا بین، ثبوت ہے، بلکہ آگے بڑھ کر کہنا چاہیے، کہ یہ نامعلوم ریاضیاتی اکائیاں، خدا کے اس کائنات میں جاری وساری، متحرک کردار کی وضاحت ہے، آخر، اُس ایک خدا نے، اس کائنات کو پیدا ہی نہیں کیا، بلکہ اسے ہر لمحے تھام بھی رکھا ہے۔ یوں، وہ محض ماورائیت (Transcendence) نہیں ہے، بلکہ، نفوذ کلی (Immanence) بھی ہے وہ اس کائنات میں ہونے والے ہر فطری مظہر میں شریک ہے، بلکہ کسی فطری مظہر کے برپا ہونے کی، سب سے بڑی علت ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا، کہ ہم مسلمان، اسلامی تصور جہان کے تحت، اس اَدھ بدُھ جبریت پر غور اور تدبرکرتے، اور خدا کے اس کائنات میں جاری و ساری منصوبے سے، آگاہی حاصل کرتے، اور انصاف پر مبنی، توازن کے اصول کے مختلف پہلووں کو، دنیا والوں کے سامنے منکشف کرتے۔ یوں، سائنسدانوں پر بھی، وہ سکینت نازل ہوتی، جو ابھی تک اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام کے، حق تعالی کے ساتھ، عمودی سطح پر، تعلق قائم کر نے کی صورت میں نازل ہوتی رہی ہے۔ لیکن سیکولر فکر کے تحت، پچھلے پانچ سو سالوں میں، تحریف شدہ مسیحیت کی، مذہبی فکر اور تصورجہاں سے مایوس ہو کر، جس مغربی سیکولر انسان نے، اس فطری دنیا میں، خدا تعالی کے متحرک کردارکو مسترد کردیا ہے، ہم نے دین حق کے معاملے میں، مغربی انسان کے اس نتیجے کو، بغیر جانچے قبول کر لیا ہے۔
لہذا، تصور فطرت کو سیکولرلائز کرنے سے مراد، زندہ جاوید اور متحرک (Vibrant) خدا کے کردار، کو محدود کرنا ہے، اس لیے، ایسی تمام مباحث، جن میں مذہب کے دائرہ عمل کو، محدود یا چھوٹا کر نے کی بات کی جاتی ہے، یا انفرادی یا ذاتی سطح تک پابند کرنے کی، تجویزیں دیں جاتیں ہیں، اُس کا اصل مقصد، ِاس دنیا میں خدا کے متحرک کردار کو محدود کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہ کتنا بڑا لمیہ ہے، کہ آجکل، جدید انسان کو، خدا اُس وقت یاد آتا ہے، جب کوئی طوفان، زلزلہ، خدائی ؑعذاب یا ناگہانی آفت، نازل ہوتی ہے۔ یا فطر ی قوانین سے ہٹ کر، کوئی خرق عادت واقعہ (معجزہ) رونما ہوتا ہے، یعنی ہمارے لاشعور میں خدا کا تحرک، خلاف معمول واقعے کے ساتھ منسلک ہے، کیا تمام اشیاء اورمظاہر فطرت کا معمول اور کسی خاص قوانین کے تحت کام کرتے رہنا، الخالق کی زبردست کاریگری اورمتحرک کردار کی دلیل نہیں ہے ؟خدا صرف وہ تو نہیں، جو سورج کو قیامت کے روز مغرب سے نکالے گا، بلکہ خدا تو وہ بھی ہے، جو ہر روز سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ پھر ہم آخر کس طرح، اُس بزرگ وبرتر ہستی کو، فطری علوم کے مطالعے کے دوران، نظرانداز کر سکتے ہیں یا سیکولر تصور فطرت سے، اس کے کردار کو محدود کر سکتے ہیں۔ حالانکہ، یہ جہاں تو، اُس کی طرف متوجہ کرنے والی، نشانیوں سے معمور ہے۔
تحریر اطہر وقار عظیم ، بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے