اعتراض: مبشر زیدی نے کہا کہ وہ اعلانیہ اگناسٹک ہیں ۔ یعنی خدا سے متعلق شک میں مبتلا ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وہ علمی جستجو میں ہیں اور اسلام میں علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے ۔ یہ انہوں نے اس لیئے بتایا کہ انہیں ملحد نہ سمجھا جائے ۔ ملحد خدا کا انکار کرتے ہیں جبکہ اگناسٹک خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر کنفیوز ہیں ۔
مزید انہوں نے کہا کہ سائنسی فکر اور غیب پر ایمان یکجا نہیں ہو سکتے لہٰذا ہمیں اختلاف رائے پر اتفاق کر لینا چاہیئے ۔ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مسجد کے ملا سے سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں جبکہ انہیں ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔
تبصرہ :ملحد اور اگناسٹک میں کیا فرق ہوتا ہے یہ میں آج تک نہ جان پایا ۔ اگناسٹک کہتے ہیں کہ ہم خدا کا انکار نہیں کرتے مگر اقرار بھی نہیں کرتے ۔ شک کی سی کیفیت ہے ۔ شائد ہو یا شائد نہ ہو ۔ اگر ہمیں خدا کے ہونے کا “پکا” ثبوت مل جائے گا تو ہم ایمان لے آئیں گے ۔
اس معاملے میں دو باتیں ہیں جو غور طلب ہیں ۔پہلی یہ کہ اس وقت کائنات میں خدا کے ہونے کی جتنی بھی نشانیاں ہیں وہ گویا اگناسٹکس کے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔دوسری یہ کہ اگناسٹکس درحقیقت یہ جملہ کہہ کر ملحدوں کو ڈھیٹ اور بے وقوف قرار دیتے ہیں ۔ یعنی اگر اگناسٹک کی تعریف یہ ہے کہ اگر ان کو خدا کے ہونے کا پکا ثبوت مل جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے تو پھر ملحد کی تعریف یوں ہو گی کہ ملحدوں کو اگر خدا کے ہونے کا پکا ثبوت مل جائے تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ ظاہر ہے پھر اگناسٹکس کی نظر میں ملحد ڈھیٹ اور بے وقوف ٹہرے ۔ اور اگر یہ سمجھا جائے کہ نہیں نہیں ۔ اگر ملحدوں کو بھی خدا کے ہونے کا پکا ثبوت مل جائے تو یقیناً وہ بھی ایمان لے آئیں گے تو میرا کنفیوژن بہرحال برقرار رہے گا کہ پھر اگناسٹک اور ملحد میں فرق کیا ہے ؟
اب یہ اگناسٹکس اور ملحدوں کا آپسی معاملہ ہے کہ اگناسٹک ملحدوں کو بے وقوف ڈھیٹ اور بے غیرت سمجھتے ہیں یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملحد اور اگناسٹک ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔دونوں ہی خدا کو نہیں مانتے ۔
اب بات کرتے ہیں معیار کی ۔اگناسٹکس کو اگر خدا کے وجود کے پکے ثبوت مل جائیں تو وہ ایمان لے آئیں گے ۔ گویا وہ ہر بات پر پکے ثبوتوں کے بعد ہی ایمان لاتے ہیں ؟ پھر تو انہوں نے ایک معیار بھی مقرر کر رکھا ہو گا ثبوت پرکھنے کا ۔ایک معیار تو یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کا عینی مشاہدہ ہو گا تبھی ایمان لایا جائے گا ۔دوسرا یہ کہ عینی مشاہدہ نہ بھی ہو تو محض نشانیوں پر خدا کے وجود کو تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔
سائنس کے علم میں ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ہم بہت سے نظریات پر بغیر عینی مشاہدے کے محض کچھ شواہد کی بنیاد پر بھی یقین لے آتے ہیں ۔ بعض دفعہ تو ثبوت بھی ٹھوس نہیں ہوتے ۔ شکوک و شبہات کی کیفیت برقرار رہتی ہے مگر پھر بھی ہم ایمان لے آتے ہیں ۔ جیسے عقیدہ ارتقاء کو ہی لے لیجیئے ۔یک خلوی جرثومے سے زندگی کا آغاز ہوا ۔ مگر یک خلوی جرثومے کو زندگی کہاں سے ملی یہ ہم نہیں جانتے مگر ایمان لے آئے اس نظریے پر ۔ ایک طرف سائنس کسی بے جان شے سے جاندار شے کے تخلیق ہو جانے کو نہیں مانتی ۔ دوسری طرف وہ یہ مانتی ہے کہ پہلا یک خلوی جرثومہ جو پیدا ہوا وہ زندہ تھا اور جن تین کیمیکلز سے وہ تخلیق ہوا وہ مردہ تھے ۔یعنی ایک بیانیہ یہ ہے کہ بے جان سے جاندار وجود میں نہیں آسکتا اور دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ ارتقاء کے آغاز ہی میں تین بے جان کیمیکلز ملنے سے زندہ جرثومہ وجود میں آچکا ہے ۔یہ دونوں بیانیئے سائنس کے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے متضاد ۔
ہم نے ساڑھے چودہ ارب سال پہلے ہونے والے بگ بینگ کا بھی عینی مشاہدہ نہیں کیا ۔ مگر کچھ شواہد ایسے ملے ہیں کہ اب بگ بینگ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔
نتھنگ سے سمتھنگ کو سائنس نہیں مانتی ۔ لکڑی کی میز بنانے کے لیئے لکڑی تو بہرحال چاہیئے ۔ اگر لکڑی نہ ہو تو لکڑی کی میز نہیں بن سکتی ۔ مگر بگ بینگ میں کچھ معاملات بڑے ہی مشکوک ہیں ۔ مثلاً سائنس کے مطابق زمان و مکان کا آغاز بگ بینگ کے ساتھ ہی ہوا تھا ۔ وقت اور جگہ اس وقت بنی جس وقت کائنات بنی ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب جگہ ہی نہیں تھی تو وہ مادہ یا توانائی جس سے یہ کائنات بنی وہ کہاں موجود تھا ؟ کسی بھی چیز کو موجود ہونے کے لیئے جگہ بھی تو درکار ہے ۔ اگر جگہ ہی نہیں تھی تو اس کا مطلب بگ بینگ سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا ۔ پھر اس کچھ بھی نہیں سے سب کچھ بن گیا ۔یعنی ایک طرف سائنس نتھنگ سے سمتھنگ کو نہیں مانتی مگر دوسری طرف وہ گول گھما کر نتھنگ سے پوری کائنات کے وجود میں آجانے کو مانتی ہے ۔
فیس بکی سائنسدانوں (ملحدوں) سے جب یہ پوچھا جاتا ہے تو معصومیت سے کہتے ہیں کہ ابھی ہم یہ نہیں جانتے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا ۔ یہ سوال ہی ہم سے مت پوچھو ۔ خود اگناسٹک سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اپنی کتاب میں اس سوال کے پوچھنے پر پابندی لگا چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب زمان و مکان کا آغاز ہی بگ بینگ سے ہوتا ہے تو یہ سوال ہی غلط ہے کہ اس سے پہلے کیا تھا ؟
سوال صرف مولویوں سے پوچھنے چاہیئں ۔ سائنسدانوں سے سوال نہیں پوچھنا چاہیئے ۔ بدتمیزی ہوتی ہے ۔ سائنس پر ایمان باالغیب لانا چاہیئے اچھے بچوں کی طرح ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کی پانی صرف مذہب کے معاملے میں ہونا چاہیئے ۔ سائنس میں دودھ کتنا ہے اور پانی کتنا یہ جاننے کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ۔
بگ بینگ کے ساتھ صرف زمان و مکان ہی وجود میں نہیں آئے بلکہ تمام فطری قوانین بھی بگ بینگ کے ساتھ وجود میں آئے ہیں ۔ بقول مہوش خان صاحب یہ فطری قوانین کائنات ہی کے پیدا کردہ ہیں ۔ گویا کائنات کی پیدائش کے وقت یہ فطری قوانین موجود نہیں تھے ۔ایک منطقی اصول ہے کہ کوئی شے یا تو فطری قوانین کے تحت پیدا ہو گی یا پھر معجزاتی طور پر ۔ اگر ہم مان لیں کہ فطری قوانین کو خود کائنات نے پیدا کیا تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بگ بینگ کے وقت جو کائنات وجود میں آئی وہ فطری قوانین کے تحت وجود میں نہیں آئی ۔ کیوں کہ فطری قوانین تو موجود ہی نہیں تھے ۔
یعنی سائنس کے مطابق کائنات معجزاتی طور پر وجود میں آئی ؟
یہ تو تھے چند معاملات ۔ اب میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ سائنس کے معاملے میں خود میں بھی اگناسٹک ہوں ۔ یعنی میں سائنس کے معاملات پر بھی شکوک و شبہات رکھتا ہوں ۔ میرے پاس سائنس پر شک کرنے کے لیے معقول وجوہات بھی موجود ہیں کہ اکثر و بیشتر سائنس کو اپنی ہی تھیوریز پر یو ٹرن لیتے پایا گیا ہے ۔عقل کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ شک خدا کے وجود کے بجائے سائنس کے بیانیے پر کیا جائے ۔ سائنس خدا کا اقرار نہیں کرتی مگر انکار بھی نہیں کرتی ۔ سائنس محض یہ کہتی ہے کہ ہمارے پاس خدا کے ہونے کی کوئی دلیل نہیں ۔
اب فرض کیجیے آپ کسی انجان راستے پر جا رہے ہیں ۔ کوئی شخص آپ کو بتاتا ہے کہ آپ سے دس قدم کے فاصلے پر دلدل موجود ہے جس میں پھنس گئے تو نکلنا مشکل ہے ۔ مگر سائنس کا اس معاملے میں بیانیہ یہ ہو کہ ایسی کسی دلدل سے سائنس واقف نہیں تو آپ کا عمل کیا ہو گا ؟آپ تین کام کر سکتے ہیں ۔
یا تو سائنس پر ایمان لے آیئے اور اعتماد کے ساتھ اسی راستے پر قدم بڑھا دیجیئے ۔ آگے آپ کی قسمت ۔دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اس شخص کی بات پر بھروسہ کر لیں اور راستہ بدل لیں ۔تیسرا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ خود تحقیق کر لیں ۔
آپ نے کہا کہ علم کی راہ میں مرنے والا شہید ہوتا ہے تو یقیناً آپ تیسرا راستہ اپنائیں گے ۔ لیکن اس بات پر تحقیق کے دوران یقین کی منزل تک پہنچنے کے دوران آپ کا عمل کیا ہونا چاہیئے ؟یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سائنس پر یقین پختہ رکھتے ہوئے تحقیق کرتے رہیں مگر راستہ نہ بدلیں ۔ اگر تو دلدل تک پہنچنے سے پہلے آپ کی تحقیق پایہ تکمیل تک پہنچ گئی تو آپ کے پاس دلدل کے ہونے یا نہ ہونے کا حتمی علم آجائے گا اور آپ اس مناسبت سے فیصلہ کر سکیں گے ۔لیکن اگر آپ کی تحقیق پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے آپ دلدل تک پہنچ گئے تو یہ فیصلہ آپ کو ڈبو دے گا ۔
کسی عقلمند انسان کا رویہ یہ ہونا چاہیئے کہ جب تک تحقیق جاری ہے اس وقت تک اس شخص کی رپورٹ کو سچ سمجھا جائے تاکہ جان کا نقصان نہ ہو ۔شک ضرور کریں مگر شک کرنے کا طریقہ بھی تو سیکھ لیں ۔
اس شخص کی بات پر بھروسہ کر کے تحقیق کرنے میں آپ کا نقصان کچھ نہیں ۔ اگر دلدل ہوئی تب بھی آپ چونکہ پہلے ہی بھروسہ کر چکے تھے لہٰذا بچ جائیں گے ۔ اگر دلدل نہ ہوئی تب بھی آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ۔مگر سائنس پر بھروسہ کرنے میں خطرہ یہ ہے کہ اگر سائنس کا بیانیہ سچ ہوا تو آپ بچیں گے ورنہ دلدل میں پھنس جائیں گے ۔
ایمان بالغیب دونوں طرف ہے ۔ خدا کے راستے میں بھی اور سائنس میں بھی ۔ خدا کو مانتے ہوئے سائنسی فکر و جستجو جاری رکھی جا سکتی ہے ۔ اگر تحقیق و جستجو کے دوران موت بھی آگئی تو فائدے میں رہیں گے ۔ خدا کا انکار کرتے ہوئے خدا پر تحقیق کی صورت میں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ آپ کی موت آنے سے پہلے آپ کی تحقیق مکمل ہو جائے ۔ ورنہ بربادی ہے ۔
امید ہے بات سمجھ آگئی ہو گی ۔
تحریر محمد سلیم