کیا سلطنت عثمانیہ ومغلیہ کےدورمیں مسلم دنیامیں کوئی سائنسی ترقی نہیں ہوئی؟

بارہویں صدی عیسویں میں تاتاریوں کے حملوں سے مسلمان سیاسی زوال کا شکار ہوئے جس کا اثر ہر شعبے کیساتھ سائنسی و صنعتی ترقی کو بھی پہنچا ۔اس انتشار کے دور کے بعد مسلمانوں کو جب سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کی صورت میں حکومت ملی تو وہی تسلسل دوبارہ قائم ہوگیا۔ اس دوران اسلامی دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی شرح پہلے کی نسبت سست رہی لیکن بالکل ختم نہیں ہوئی ، مسلمانوں نے ایسا سسٹم ترتیب دیا جس سے یہ دونوں سلطنیں دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں میں شمار ہونے لگیں ۔ بعد کے سامراجی اقتدار اور دور محکومی اور غلامی نے اس دور کی مسلمانوں کی ہر ایجاد و دریافت اور ترقی پر پردہ ڈال دیا ۔ نوآبادیاتی لوٹ مار میں مسلمانوں کے وسائل و مادی ذخائر کیساتھ انکا سارا علمی ذخیرہ بھی مسلم ملکوں سے یورپ کی لائبریریوں میں منتقل کردیا گیا ۔ یورپ کی لائبریریوں میں انہی کتابوں کے انبار کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا۔
مگروہ علم کے موتی ‘ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ
لوگ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ گزشتہ صدیوں میں مسلمان سائنسی طور پر ترقی کیوں نا کرسکے لیکن کوئی اس پہلو کو نہیں دیکھتا کہ سامراجی نوآبادیاتی ڈاکوؤں نے کیا مسلمانوں کو اس قابل چھوڑا کہ وہ سائنسی یا صنعتی ترقی کی طرف توجہ کرسکیں ۔شَشی تھرور بھارتی پارلیمان کے رکن اور مشہور محقق ہیں۔ لکھتے ہیں “جب برطانوی سلطنت نے بھارت کو فتح کیا تھا تب وہ دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں سے تھا۔بھارت میں کپڑا سازی کی صنعت عالمگیر شہرت کی حامل تھی۔ بنگال کے جولاہے اعلیٰ درجے کی ململ تیار کرنے میں عالمی سطح پر شہرت رکھتے تھے۔ جہاز سازی کی صنعت میں بھی بھارت کسی سے کم نہ تھا۔ فولاد کی صنعت بھی گئی گزری نہ تھی مگر کوئی بھی عجائب گھر ایسا نہیں جو بتائے کہ برطانوی راج میں کس طرح اِن تمام شعبوں میں بھارت کی برتری اور مہارت ختم کی گئی۔۔ ۱۷۰۰ء عیسوی میں عالمی پیداوار میں بھارت کا حصہ ۲۷ فیصد تھا۔ ڈھائی صدیوں کی لُوٹ مار کے بعد جب برطانوی حکمران یہاں سے رخصت ہوئے تب بھارت کا شمار دنیا کے غریب ترین اور ناخواندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ برطانوی راج کے دوران ہندوستان کے وسائل بہت بڑے پیمانے پر انگلینڈ منتقل کیے جاتے رہے۔ ایک استعماری قوت اپنے زیر نگیں علاقوں کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول میں رکھنے کے لیے جو قوانین نافذ کرتی ہے وہ قوانین کسی آزاد ریاست کی بہبود کو یقینی بنانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انگریزوں کا چھوڑا ہوا قانونی اور تعلیمی ڈھانچا آج بھی ہماری اجتماعی زندگی سے چمٹا ہوا ہے اور اِس سے گلوخلاصی میں بظاہر غیر معمولی دلچسپی لینے والے خال خال ہیں۔ نو آبادیاتی دور کی اِن بلاؤں کو گلے لگانے والوں کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ اِن کے ہاتھوں بھارت کو ماضی میں کتنا نقصان پہنچتا رہا ہے اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔ ذہنوں سے انگریزوں کی غلامی کا بیج نکال پھینکنا آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے”۔

مغلیہ سلطنت:
ابنِ بطوطہ اپنے سفرنامہ میں لکھتا تھا کہ ’’صلیبی جنگوں کے زمانہ سے ہندوستان کی تجارت وینس اور جینوا کی راہ سے یورپ کے ملکوں سے ہورہی ہے۔ ہندوستان کے لوگ خوشحال ہیں۔‘‘ محمد تغلق نے دہلی میں سوتی کپڑے کا ایک کارخانہ قائم کیا تھاجس میں پانچ ہزار کا ریگر کام کرتے تھے۔ مار کوپولو بتاتا ہے کہ ’’راس امید اور شنگھائی کی تمام درمیانی بندرگاہوں میں ہندوستان کا بنا ہوا کپڑا افراط سے فروخت ہوتا ہے۔‘‘ مہذب دنیا میں ڈھاکہ اور مرشد آباد کی ململ کا استعمال عظمت اور برتری کا ثبوت تھا۔ یورپ کے ہر ملک میں ان دوشہروں کی ململ اور چکن بہت زیادہ مقبول تھی۔ ہندوستان سے سوتی اور اُونی کپڑے شال دوشالے ،ململیں اور چھینٹیں برآمد کی جاتی تھیں۔ ریشم ،کمخواب اور زربفت کے لئے احمد آباد دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اٹھارھویں صدی میں ہندوستانی کپڑوں کی انگلستان میں اتنی مانگ ہو گئی تھی کہ اسے بند کرنے کے لئے حکومت کو بھاری ٹیکس لگانے پڑے تھے۔ پارچہ بانی کے علاوہ لوہے کے کام میں بھی ہندوستان بہت زیادہ ترقی کر چکا تھا۔ لوہے سے تیار شدہ اشیا ہندوستان سے باہر بھی بھیجی جاتی تھیں۔ اورنگ زیب کے عہد میں ملتان میں جہازوں کے لئے لوہے کے لنگر ڈھالے جاتے تھے۔ جہاز سازی میں بنگال نے بہت ترقی کرلی تھی۔
نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ1700ء کی دہائی میں جنوبی ایشیا صنعتی ترقی میں بہت آگے تھا اور 1820ء تک برطانیہ کے صنعت کار یہاں پر لوہا سازی کی تربیت لینے آیا کرتے تھے۔ریل کے انجن بنانے کی جو صنعت بمبئی میں تھی وہ ٹیکنیکل طور پر برطانیہ کے برابر تھی۔برصغیرکی لوہے کی صنعت اور بھی زیادہ ترقی کرسکتی تھی اگر برطانیہ کی جانب سے امپورٹ پر ڈیوٹیاں نہ لگائی جاتیں۔دوسرے لفظوں میں برطانیہ نے دانستہ طور پر ہندوستان کی لوہے اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو برباد کیا۔برطانیہ نے وہاں ٹیکسٹائل پر ڈیوٹی اوربعد میں مکمل پابندی عائد کردی تھی۔آگے چل کر و ہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان تہذیبی لحاظ سے بھی برطانیہ سے بہت آگے تھا۔مثال کے طور پر جتنی کتابیں صرف بنگال میں چھپتی تھیں اتنی تعداد میں اس وقت پوری دنیا میں نہیں چھپتی تھیں۔ڈھاکہ کا شہر اس حد تک ترقی یافتہ تھا کہ اس کا مقابلہ لندن سے کیا جاسکتا تھا۔ 1840ء کے بعد ہندوستانی مال کی یورپ کو ایکسپورٹ پر پابندی لگادی گئی۔نتیجتاََ ہندوستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ،شپ بلڈنگ،دھات ،گلاس اور کاغذکی صنعت تباہ و برباد ہو گئی اور یوں ہندوستان ایکسپورٹ کی بجائے کاٹن،رنگ اور چمڑے کا خام مال پیدا کرنے والا ملک بن کر رہ گیا جبکہ ہندوستان کے تمام ماہر کاریگر برطانیہ منتقل کر دئیے گئے۔یہ خطہ آج تک دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔”
ایک اندازے کے مطابق نوآبادیاتی نظام کی بدولت برطانیہ نے ہر سال 2سے5ارب ڈالر ہندوستان سے لوٹے یوں اسی لوٹ مار کے سبب برطانیہ کی ترقی ممکن ہوئی۔اس طرح برطانیہ ایک خوش حال ملک جبکہ ہندوستان ایک پسماندہ زرعی ملک بن کررہ گیا ۔آدم اسمتھ جو کہ سرمایہ داری نظام کا بابا آدم کہلاتا ہے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دنیاکی سب سے بڑی ڈکیت اور لوٹ مار کرنے والی کمپنی قرار دیا۔اس کی مثال اس نے یوں دی کہ Barrington نامی ایک برطانوی جہاز جب انڈیا کے لئے روانہ ہواتو اس میں 27,300پائونڈ مالیت کا مال تھااور جب یہ جہاز انڈیا سے واپس انگلینڈ گیا تو اس میں 119,304پائونڈ مالیت کا مال لدا ہواتھا۔ مشہور مورخ عرفان حبیب لکھتے ہیں کہ سترھویں صدی میں ہندوستان اور یورپ میں زراعت ،صنعت اور آرٹ و ثقافت ہم پلہ تھے ۔دونوں ریاستوں میں محض فرق یہ تھا کہ ہندوستان کے پاس نیوی اور فوج نہ ہونے کے برابر تھی۔ان کا مزید کہنا ہے کہ سولہویں صدی میں ہندوستان میں 120 بڑے اور 3200 چھوٹے شہر تھے اور ان شہروں میں ہنرمند افراد بڑی تعداد میں آباد تھے۔آگرہ اور فتح پورسیکری لندن سے بڑے شہر تھے جبکہ دہلی کی آبادی پیرس سے زیادہ تھی۔
اٹھارویں صدی تک یورپین سیاح چین،جاپان اور ہندوستا ن سے متاثر نظرآتے تھے۔نو آبادیاتی دور میں میں غلاموں کی تجارت، جہازوں کو لوٹنا، دولت اکٹھی کرناقتل و غارت میں ملوث ہونا ناصرف درست قرار دیا گیا بلکہ اس قبیح جرم کو قابل فخر بھی قرار دیا گیا۔ہر قسم کے جرائم کو درست قرار دیئے جانے کے بعد انہوں نے امریکہ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مقامی باشندوں کا کھل کر قتل عام کیا۔اس پس منظر میں فرانسیسی صدر کا اپنے نوآبادیاتی مظالم پر دنیا سے معافی مانگنا بہت اہم ہے ۔
سائنسی شعبے میں مغلیہ دور میں مشاہداتی فلکیات یا Observational astronomy میں بہت پیش رفت ہوئی۔ تقریبا سو کے قریب فلکیاتی زیج کے مسودے مرتب کیے۔ ہمایون نے دہلی کے قریب فلکیاتی مشاہدات کے لیے ایک ذاتی رصدگاہ بنائی ۔ مغل فلکیاتی مشاہدات میں استعمال ہونے والے فلکیاتی آلات اور مشاہداتی تراکیب بنیادی طور پر اسلامی فلکیات سے حاصل کی گئی تھیں. مغل سلطنت کے زوال کے دوران، امبر کے ہندو بادشاہ جے سنگھ دوم نے مغل فلکیات کا کام جاری رکھا. ,18 ویں صدی کے آغاز میں انہوں نے الغ بیگ کے سمرقند کے فلکیاتی مشاہدات کے مقابلہ کے لئے کئ بڑی رصد گاہیں تعمیر کیں جن کو یانترا مندیر کا نام دیا گیا تاکہ سدھانتا اور اسلامی زیج سلطانی کے مشاہدات کو بہتر بنایا جا سکے، اور صدیوں میں ابتدائی ہندو موافقت اور زیج سلطانی کے اسلامی مشاہدوں کو بہتر بنانے کے لئے. اس کے استعمال شدہ آلات اسلامی فلکیات سے متاثر تھے، جبکہ کمپیوٹنگ کی تکنیکوں کو ہندی فلکیات سے اخذ کیا گیا تھا.
مغل بھارت میں ایجاد کی جانے والی سب سے زیادہ قابل قدر فلکیاتی ایجاد ایک بے مثال آسمانی کرہ یا Celestial globe تھا. ,یہ 998 ھ (1589-90 عیسوی) میں کشمیر میں علی کشمیری بن لقمان کی طرف سے ایجاد کیا گیا تھا، اور بعد میں مغل سلطنت کے دوران لاہور اور کشمیر میں بیس دیگر اس طرح کی گلوب تیار کی گئیں. ,
شیخ دین محمد نے مغل کیمیا دان نے شیمپو پیدا کرنے کے لئے مختلف الکلیوں اور صابن پیدا کرنے کے لئے استعمال ہونے والی تکنیکوں کوبیان کیا . یہ حقیقت میں شیمپو کا موجد تھا۔برطانیہ میں، اس کو کو کنگز جارج چہارم اور ولیم چہارم دونوں کے شیمپونگ سرجن کے طور پر مقرر کیا گیا تھا.
ٹیپو سلطان اور حیدر علی کو عسکری مقاصد کے لیے ٹھوس ایندھن راکٹ(سالڈفیول راکٹ)ٹیکنالوجی اور میزائلوں کے استعمال کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
شیر میسور ٹیپو سلطان شہادت 1799 ء تاریخ میں پہلی بار جنگی راکٹ ایجاد کیا اسی پر مزید تحقیق کرکے انگریز فوج نے جدید راکٹ بناتے ہیں۔1793ء سے 1794ء کے دوران ٹیپو کی تعمیر کردہ flint lock blunderbuss gun آج تک اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے۔ٹیپو کے راکٹوں کی بنیاد پررائل وولوک آرسینل نے ملٹری راکٹوں پر تحقیق شروع کی ۔یہ تحقیق 1801ء میں شروع ہوئی اور اس کی بنیاد ٹیپو کی کی ٹیکنالوجی تھی۔ راکٹ فائز کے لیے فوجیوں کو تربیت دی جاتی تھی کہ وہ راکٹ اس زاویے سے لانچ کریں جو راکٹ کے سلنڈر کے قطر (ڈایا میٹر) اور ہدف سے فاصلے کے ذریعے معلوم کیا جاتا تھا ۔آج کی جدید فزکس اسے Projectile کے اصول کے نام سے استعمال کررہی ہے ۔پہیوں والے راکٹ لانچر جوایک ہی وقت میں 5سے 10راکٹ فائر کرتے تھے ،بھی استعمال کیے جاتے تھے۔اس تحقیق کا نتیجہ 1805ء میں ٹھوس ایندھن راکٹوں(سالڈ فیول راکٹ)کی صورت میں سامنے آیا۔اسی پر ولیم کانگریو نے A concise account of origin and progress of rocket system لکھی ۔
مغل بادشاہ اکبر (1556-1605) کا دور فنون لطیفہ کے لحاظ سے کافی زرخیز ثابت ہوا ۔ اسی کے دور میں فن تعمیرات اور فن خطاطی اور دوسرے اسلامی فنون ایرانی، ترکی اور ہندوستانی امتزاج سے اک نئی شکل میں پیدا ہوئے۔ فن تعمیرات میں سب سے قدیم مغل یاد گار بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ ہے جو کہ اکبر کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس مقبرے کو میرک مرزا گیاس نے ڈیزائن کیا تھا اسی طرح اسی کے دور میں آگرہ میں موجود لازوال مغل تعمیرات اکبر کے دور میں ہوئیں ۔اسی طرح اکبر نے مقامی پینٹرز تیار کرنے کے لیے ایک اکیڈمی بھی بنائی جس میں ایرانی پینٹرز مقامی لوگوں کو تربیت دیتے تھے۔
جہانگیر (1605-1627) نے اپنے دور سلطنت میں فنون لطیفہ پر خاص اثر ڈالا وہ فنون لطیفہ کو تخیلاتی عمل کی بجائے زندگی کے لیے ضروری شے تصور کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے پینٹنگز میں تصوراتی بیانات کے بجائے اپنی زندگی کے واقعات کو کینوس پر اتارنے میں ترجیح دی۔ منصور اور منوہر اس دور کے مشہور مصور تھے۔ اسی طرح اس نے ریت کے پتھروں کی بجائے ماربل کے استعمال کو تعمیرات کا حصہ بنایا۔ اس کی تعمیرات کی تعداد اگرچہ محدود ہے لیکن اس کا اثر بہت گہرا ہے۔
شاہ جہان (1628-58) نے تاج محل بنوا کر مغلیہ فن تعمیر کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ اسی طرح اس نے دہلی میں لال قلعہ بنوایا اور دوسرے فنون کو بھی بام عروج عطا کیا۔ مغلیہ فنون لطیفہ کا دورِ عظمت جو ہمایوں سے شروع ہوا تھا وہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت تک آکر ختم ہو گیا۔ اسی دور میں مغلیہ اکیڈمی کو بھی ختم کر دیا گیا اور بہت سے فنکار مغل دربار چھوڑ کر علاقائی درباروں سے جڑ گئے۔مغلیہ دور کی یاد گار تعمیرات نہ صرف فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ چند یاد گار تعمیرات یہ ہیں۔ بادشاہی مسجد لاہور جو کہ اورنگ زیب نے 1671 میں بنانے کا حکم دیا تھا اور یہ 1673 میں مکمل ہوئی تھی۔ اسی طرح نولکھا محل جس کی 1631میں تعمیر شروع ہوئی اور 1633 میں مکمل ہوئی چونکہ اس پر لاگت نو لاکھ آئی تھی اس لیے اس کا نام نو لکھا محل پڑ گیا۔اسی طرح اعتماد الدولہ کا مقبرہ جو کہ آگرہ میں واقع ہے یہ 1622 سے 1628 کے درمیان تعمیر ہوا اس کو بے بی محل اور تاج محل کا ابتدائی نمونہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نور جہاں نے اپنے باپ مرزا گیاس بیگ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسی طرح لاہور قلعہ، شالیمار باغ، مسجد وزیر خان، قلعہ آگرہ، مسجد وزیر خان، اور شاہ جہان مسجد ٹھٹھہ اپنے دور کی عظیم یادگاریں ہیں۔ اسی طرح یونیسکو نے برصغیر پاک و ہند میں جن مقامات کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جو برصغیر پاک وہند کے مسلم دور کی یاد گار ہیں۔

سلطنت عثمانیہ:
خلافتِ عثمانیہ (خلافتِ راشدہ، خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعد) اسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت تھی۔ اس میں تقریباً 642 سال از 1282ء تا 1924ء تک 37 حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔ یہ سلطنت بھی اپنے دور کی بڑی معاشی اور صنعتی طاقتوں میں شمار ہوتی تھی ۔
1577 ء میں تقی الدین نے استنبول کی رصد گاہ تعمیر کی، جہاں انہوں نے 1580 تک مشاہدات کیے. انہوں نے سورج کے مدار کا انحراف یعنی eccentricity of the Sun’s orbit اور چاند کی سالانہ اوج مدار قمر یا Apogee کو شمار کیا. ,انہوں نے 1551 ء میں عثمانی مصر میں بھاپ سے چلنے والا پہلا انجن یعنی سٹیم انجن ایجاد کیا جو بعد میں ریلوے کی ایجاد کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
ہلوسی بہست وفات1948 ء خون کی نالیوں کی ایک بیماری دریافت کرتا ہے جسے بہست سنڈروم کہا جاتا ہے۔ہلوسی بیس فروری 1889ء کو استنبول میں پیدا ہوا اور آٹھ مارچ 1948ء کو فوت ہوا۔وہ ترکی سے تعلق رکھنے والا مسلمان ماہر امراض جلد(ڈرماٹا لوجسٹ)اور سائنسدان تھا۔ہلوسی نے خون کی نالیوں کی سوزش (Inflammation of blood vessels)کی ایک بیماری کو 1937ء میں دریافت کیا ج13146ے اس کے نام پر بہست کی بیماری(Behcet disease) کا نام دیا گیا۔ 1924ء میں اس نے ڈرماٹالوجی(امراض جلد) پر ترکی کا پہلا جریدہ Dermatologisische Wochenshriftشائع کیا جس میں اس نے آتشک اور دوسرے جلدی امراض خی تمیزی تشخیص(Differential diagnosis) پر مفصل معلومات ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائنسدان ایک ہی وقت میں آتشک یا Syphilisاور دیگر امراض جلد کے متتعلق جان سکتے تھے۔یہ کتاب آج تک اس میدان میں اہم سمجھی جاتی ہے اور اسے Clinical and practical syphilis,diagnosis and related dermatoses کہا جاتا ہے۔
1660 ء میں عثماني سلطنت کے ابراہیم افندی نے نوئیل دورت کی فرانسیسی فلکیاتی تسنیف (1637 میں لکھی گئی تھی)، کاعربی میں ترجمہ کیا. ,شیرافدین صابونکوغلو۔۔Şerafeddin Sabuncuoğlu نے دنیا کا پہلا علم جراحی یا سرجری کا اٹلس مرتب کیا جو کہ اسلامی دنیا سے آخری اہم طبی انسائیکلوپیڈیا تھا. اگرچہ اس کا کام زیادہ تر ابو ابو قاسم الزہراوی کی تصنیف التصریف پر مبنی تھا، صباقوکوگلو نے اپنی طرف سے کئ جدتیں اس فن میں متعارف کرائی. پہلی بار خواتین خاتون سرجنوں کو بھی نمائش دی گئی تھیں.
ایک گھڑی جو اقلیوں یعنی منٹوں میں وقت بتاتی تھی عثمانی گھڑی ساز، میشور شیح دیدMeshur Sheyh Dede نے 1702 میں ایحاد کی.
19 ویں صدی میں اسحاک افندیIshak Efendiنے عثماني اور وسیع مسلم دنیا میں مغربی سائنسی نظریات اور ترقی کو مناسب ترکی اور عربی سائنسی اصطلاحات کے انعقاد کے ساتھ اپنے مغربی سائنسی کتابوں کے ترجمہ کے ساتھ متعارف کرایا .
19 ویں صدی کے آغاز میں مصر نے محمد علی پاشا کے تحت مصر میں صنعتی مینوفیکچررز کے لئے بھاپ انجن کا استعمال شروع کیا جس میں لوہے کا کام، ٹیکسٹائل مینوفیکچررز، کاغذ ملوں اور ہولنگ ملیں hulling millsبھاپ کی طاقت کی سے چلائی جانا شروع ہوئیں۔
عثمانی سلطنت میں اصل نسخے سے کتابوں کے ترجمہ کے ساتھ مکمل لائبریریوں کا ایک بڑا ذخیرہ تعمیر کیا گیا . 15 ویں صدی میں مقامی اور غیر ملکی نسخوں پر کام شروع ہوا. سلطان محمد دوم نے عثمانی تعلیمی اداروں کے لئے بطلیموس کی جغرافیائی کتاب کا ترجمہ کرایا ۔ ماہر فلکیات،ریاضی دان اور ماہر فزکس یا طبیعیات علی القشجی مشہور مدر س تھا۔
ایک تحقیق کے مطابق ترقی کے علی مصطفیٰ مشرفہ پاشا شہادت 1950 ء آئن سٹائن کے مقابلے میں تھیوری آف ریلٹیویٹی اور مادے اور توانائی کی باہمی تبدیلی کو بیان کیا ۔جب آئن سٹائن نے مصر کا دورہ کیا تو اس نے خصوصاً مصطفی سے ملنے کی گزارش کی۔اس تحقیق میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ مادے اور توانائی کی تبدیلی کی مشہور مساوات E=mc2 آئن سٹائن او رمصطفی نے اکٹھے پیش کی۔ لیکن اس مساوات کا تذکرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن کا نام تو لکھا جاتا ہے اور مصطفی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کا ایک تاریخ ساز پروجیکٹ حجاز ریلوے کا تھا جو دمشق سے مدینہ تک جاتی تھی۔ اصل منصوبہ میں لائن کو مکہ تک جانا تھا لیکن پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے کی وجہ سے یہ مدینہ منورہ سے آگے نہ جا سکی۔ یہ عثمانی ریلوے نیٹ ورک کا ایک حصہ تھی جس کا مقصد استنبول سے دمشق کی لائن کو آگے تک پھیلانا تھا۔ حجاز ریلوے، بلادِشام کے قدیم دارالحکومت دمشق سے اپنے آخری پڑائو مدینہ منورہ تک آتی تھی۔ اولی العزم لوگوں کی محنت اور انجینئرنگ کا یہ عظیم الشان شاہکار آج آثارِ پارینہ بن چکا ہے۔ اس کے بچے کھچے آثار مدینہ منورہ سے دمشق تک اپنے عہد کے یادگار نشانات کے طور پر باقی ہیں۔ دولتِ عثمانیہ کی حجاز ریلوے کی خاص نشانی ”سلطان بوگی” دمشق کے قدیم ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ہے اور اس میں عوامی ریستوران کھلا ہے جبکہ اس کے قریب ہی پرانے زنگ آلود ریلوے انجن اور بوگیاں کھڑی ہیں
انیسویں صدی کا پورا عہد مشرق و مغرب کے براہ راست ٹکراؤ کا عہد تھا، دنیائے اسلام کی سب سے بڑی قوت سلطنت عثمانیہ کے براہ راست روابط مغربی ممالک سے وسیع پیمانے پر شروع ہوئے ، تجارت، سفارت ، جنگ، صلح، معاہدات اور اس طرح کے بہت سے نئے نئے تعلقات سلطنت عثمانیہ اور مغربی طاقتوں کے درمیان سامنے آنے لگے ۔ مشرق و مغرب کے درمیان آمد و رفت کی بڑھتی رفتار نے بہت سے نئے معاشی، معاشرتی ، تجارتی ، قانونی مسائل پیدا کیے- اس وقت یہ ضرورت پیش آئی کہ اسلام کےقانون تجارت اور انٹرنیشنل ریلیشن اینڈ لاء کو اس طرح مرتب اور مدون کیا جائے کہ پیداہونے والے مسائل کے بارے میں ایک مسلم اور غیر مسلم دونوں کو معلوم ہو کہ انکے حقوق اور فرائض کیا ہیں ۔ اس طرح کے اسباب کی بنا پر سلطنت عثمانیہ میں ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں سلطنت کی مجلس شور ی کے ارکان ، بعض جج صاحبان اور برصغیر کے مشہور فقہی علامہ ابن عابدین شامی شریک تھے ۔ انہوں نے بیس سال کی مدت میں سلطنت عثمانیہ کے زیر سرپرستی مجلۃ الاحکام العدلیہ کی تدوین کی ۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا پہلا مدون اور کوڈیفائیڈ سول لا ء بنا ۔ 1876 سے لے 1925 تک کا زمانہ اسی قانون کی حکمرانی کا زمانہ ہے۔
جون 1909ء میں عثمانیہ فضائیہ کی بنیاد رکھی گئی یہ دنیا کی قدیم ترین جنگی ہوا بازی کے اداروں میں سے ایک ہے۔ فضائی جنگ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر عثمانی حکومت نے اپنے عسکری ہوا بازی کے منصوبے کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ سلطنت عثمانیہ نے 3 جولائی 1912ء کو استنبول میں فضائی اکادمی کے قیام کے ذریعے اپنے ہوا بازوں اور طیاروں کی تیاری اور اپنے افسران کی تربیت کا آغاز کیا۔ ترک ہوا بازوں کی نا تجربہ کاری کے باعث بلقان جنگوں کے پہلے مرحلے (1912ء) میں متعدد جہازوں کا نقصان اٹھانا پڑا تاہم دوسرے مرحلے (1913ء) میں انہیں کئی کامیابیاں ملیں۔ جون 1914ء میں استنبول میں ہی نئی عسکری اکادمی “بحری ہوا بازی اکادمی” کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی یہ عمل رک گیا ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانی فضائیہ کئی محاذوں پر لڑی جن میں مغرب میں گلیسیا، مشرق میں قفقاز اور جنوب میں یمن کے علاقے تک شامل تھے۔ عثمانی فضائیہ کو از سر نو منظم کرنے کی کوششیں جاری تھیں کہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور استنبول پر اتحادیوں کے قبضے کے ساتھ ہی ان کا خاتمہ ہو گیا۔

تدوین و ترتیب: ڈاکٹر احید حسن
حوالہ جات:
1:Sharma, Virendra Nath (1995), Sawai Jai Singh and His Astronomy, Motilal Banarsidass Publ., pp. 8–9, ISBN 81-208-1256-5
2: Baber, Zaheer (1996), The Science of Empire: Scientific Knowledge, Civilization, and Colonial Rule in India, State University of New York Press, pp. 82–9, ISBN 0-7914-2919-9
3:Teltscher, Kate (2000). “The Shampooing Surgeon and the Persian Prince: Two Indians in Early Nineteenth-century Britain”. Interventions: International Journal of Postcolonial Studies, 1469-929X. 2 (3): 409–23. doi:10.1080/13698010020019226.
4:Savage-Smith, Emilie (1985), Islamicate Celestial Globes: Their History, Construction, and Use, Smithsonian Institution Press, Washington, D.C.
5:Ágoston and Alan Masters, Gábor and Bruce (2009). Encyclopedia of the Ottoman Empire. Infobase Publishing. p. 583. ISBN 978-1-4381-1025-7.
6:Ragep, F. J. (2005). “Ali Qushji and Regiomontanus: eccentric transformations and Copernican Revolutions”. Journal for the History of Astronomy. Science History Publications Ltd. 36 (125): 359–371. Bibcode:2005JHA….36..359R.
7: Sevim Tekeli (1997). “Taqi al-Din”. Encyclopaedia of the history of science, technology and medicine in non-western cultures. Encyclopaedia of the History of Science. Kluwer. Bibcode:2008ehst.book…..S. ISBN 0-7923-4066-3.
8: El-Rouayheb, Khaled (2015). Islamic Intellectual History in the Seventeenth Century: Scholarly Currents in the Ottoman Empire and the Maghreb. Cambridge University Press. pp. 18–9. ISBN 978-1-107-04296-4.
9: Ahmad Y Hassan (1976), Taqi al-Din and Arabic Mechanical Engineering, p. 34–35, Institute for the History of Arabic Science, University of Aleppo
10: Ben-Zaken, Avner (2004). “The Heavens of the Sky and the Heavens of the Heart: the Ottoman Cultural Context for the Introduction of Post-Copernican Astronomy”. The British Journal for the History of Science. Cambridge University Press. 37: 1–28. doi:10.1017/S0007087403005302.
11: Bademci, G. (2006). “First illustrations of female Neurosurgeons in the fifteenth century by Serefeddin Sabuncuoglu”. Neurocirugía. 17 (2): 162–5. doi:10.4321/S1130-14732006000200012.
12:Horton, Paul (July–August 1977). “Topkapi’s Turkish Timepieces”. Saudi Aramco World: 10–13. Retrieved 12 July 2008.
13: Jean Batou (1991). Between Development and Underdevelopment: The Precocious Attempts at Industrialization of the Periphery, 1800-1870. Librairie Droz. pp. 193–196. ISBN 9782600042932.

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password