یہ مسئلہ… ہیومن ازم کی وہ جہت ہے جو ’’مذاہب کی اصلاح‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ ادیان کے پر کترنے سے متعلق ہے۔ ہر مذہب اپنا اپنا ڈسکورس رکھے، اس سے کب گزارہ ہوتا ہے!
تو پھر کیا کیا جائے…؟
ہمارے حالیہ ابلاغی و تحقیقاتی رویے کچھ یوں تشکیل ہونے چاہئیں:
ہر مذہب بات اپنی ہی کرے، یہ اس کا حق ہے، مگر اس کےلیے ڈسکورس ہیومن ازم کا لے! چلیں پورا ڈسکورس نہ لے (ذرا وقت کےلیے) آدھا ہی لے، مگر لے سہی!
- کم از کم بھی، اپنے مذہب کی وہ باتیں جو سب انسانوں کے مابین مشترک اور سب کےلیے قابل قبول ہیں (قرآن میں مذکور ’’کلمۃٌ سواءٌ‘‘ کی دجالی تفسیر) [1] ان کو زیادہ آگے لے کر آئے۔ یعنی انسانیت کے یہاں جو امور ’غیر متنازعہ‘ ہیں ان کو ’’متنازعہ‘‘ امور کی نسبت ذرا زیادہ اہمیت دے دے۔ اب دیکھیے نا ہم نے آپ کے مذہب کو کوئی ہاتھ تھوڑی لگا یا ہے۔ وہ ’’متنازعہ‘‘ امور بھی آپ کے مذہب کا حصہ رہے اور یہ ’غیر متنازعہ‘ امور بھی۔ ہم نے دونوں کو نہیں چھیڑا۔ ہم نے تو صرف اتنا کہا ہے کہ آپ اپنے ہی مذہب کے ایک حصے کو (جوکہ تمام انسانوں کے ہاں ’غیر متنازعہ‘ ہے اور جوکہ سچی بات ہے ہمیں بھی آپ کے مذہب میں بہت اچھا لگتا ہے) ذرا زیادہ نمایاں کردیں۔ اس پر ’’زور‘‘ کچھ زیادہ دے دیں!
- پھر اگلے مرحلے میں، وہ ’غیرمتنازعہ‘ امور جو ہمیں آپ کے مذہب میں بہت پسند آئے ہیں، ذرا اس انداز میں بیان کریں کہ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ ’انسانی‘ اور ’بین الملل‘ لہجے لیے ہوئے ہو۔ اس کے بہت زیادہ حوالے آپ اپنے ہی مذہب کے مخصوص دلائل سے دیں گے تو اس میں ’آفاقیت‘ universality نظر نہیں آئے گی؛ لہٰذا جب وہ مسئلہ سب انسانوں کے ہاں غیرمتنازعہ ہے تو اس کو بتانے اور سمجھانے کا اسلوب بھی اگر ’غیرمتنازعہ‘ ہی ہو تو سونے پر سہاگہ رہے؛ تب یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کےلیے ’قابل قبول‘ ہوگا؛ دوسرے مذہب والے بھی اس سے ’متاثر‘ ہوں گے اور خود آپ کے مذہب کی پذیرائی بڑھے گی۔ یعنی ان احکام کے ’عقلی‘ اور ’منطقی‘ اور ’فطری‘ دلائل زیادہ دیں۔ خود آپ نے دیکھا ہوگا جب آپ ان احکامِ دین کی ’عقلی توجیہ‘ فرماتے ہیں تو سب ’پڑھے لکھے‘ اس پر اَش اَش کر اٹھتے ہیں اور نکتہ ور اس پر سر دھنتے ہیں۔ البتہ جب آپ اُن ثقیل عبارتوں کی طرف جاتے ہیں جو اکثر لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتیں یا ’اَسناد‘ وغیرہ کی بحث لاتے ہیں تو آپ نے نوٹ کیا ہوگا اکثر ’باشعور‘ لوگ اس وقت جمائیاں لے رہے ہوتے ہیں۔ آج کل زمانہ ہی ایسا ہے حضرت! جن کالجوں یونیورسٹیوں میں یہ پڑھتے ہیں وہاں دراصل ان کا مزاج ہی کچھ ایسا بن جاتا ہے کہ ’غیرعقلی‘ باتیں ان کے ہاں زیادہ وزن نہیں پاتیں۔ مگر آپ ٹھیک سمجھ گئے ہیں؛ اب ماشاءاللہ آپ ان کو دلیلیں ہی وہ دیتے ہیں جو ان کو ’دلچسپ‘ لگیں۔ یعنی ایک ’ریشنل‘ سا انداز! بس یہ ترکیب کسی وقت نظر سے اوجھل نہ ہو!
- ابھی تک ہمارے ساتھ چلنے میں اگر آپ کو مزہ آیا ہے، اور دنیا بھر کے کیمرے آپ کے چہرے کے شیدائی ہونے لگے ہیں… تو پھر اپنے دین کے اِن مسئلوں کو جو انسانوں کے مابین ’غیرمتنازعہ‘ ہیں، اپنے دین کا ’’اصل‘‘ ٹھہرا دیں۔ کچھ اس انداز سے ان پر گفتگو کرلیا کریں کہ ادیان کا ’’اصل مقصود‘‘ ہی یہ ہے۔ یعنی ہر مذہب کی جو کوئی بھی ’مخصوص عبادات‘ ہیں ان کا حقیقی مقصود ایک ’اچھا انسان‘ پیدا کرنا ہی ہے۔ بلکہ آپ غور کریں تو خود آپ کو اپنے مذہب ہی سے اس بات کے ڈھیروں دلائل مل جائیں گے کہ آپ کے مذہب میں پائی جانے والی سب عبادتوں اور ریاضتوں کا مقصد ایک ’اچھا انسان‘ پیدا کرنا ہے۔ تو پھر نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے مذہب کے وہ خاص امور یا عقائد یا عبادات جو دوسرے مذاہب میں نہیں ہیں، یعنی جو انسانوں کے مابین متنازعہ ہیں ، وہ بھی درحقیقت ان امور کی خاطر ہیں جو سب انسانوں کے ہاں متفق علیہ ہیں۔ اِنہی متفق علیہ امور کو ہم ’’اخلاق‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ دین کا اصل خلاصہ ’’اخلاق‘‘ ہی ہے۔ پس آپ کے دین کی یہ چیزیں جو ہر انسان کو اچھی لگیں گی، آ پ کے دین کے محکمات ہوئے۔ یہ اصل ہیں۔ بنیاد ہیں۔ مقصود ہیں۔ آپ سے آپ ثابت ہیں۔ خودبخود سمجھ آتے ہیں۔ مرکزی حیثیت کے مالک ہیں۔ جبکہ وہ امور جو انسانیت کے مابین متنازعہ فیہ ہیں، ایک طرح کے متشابہات ہوئے۔ یہ ’محکمات‘ کی جانب لوٹائے جائیں گے۔ یعنی ’محکمات‘ کی روشنی میں سمجھے اور تفسیر کیے جائیں گے۔ اور یہ تو آپکو معلوم ہے کہ ’متشابہات‘ جہاں کہیں ’محکمات‘ سے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوں وہاں ’محکمات‘ ہی override کریں گے (یعنی ’متشابہات‘ کو بےاثر کریں گے)۔ اِسی کو علمی زبان میں ’’تاویل‘‘ کہتے ہیں! یہاں سے ہر مذہب کے وہ امور جو ’انسانیت کے مابین متفق علیہ امور‘ کو مجروح کرتے معلوم ہوں ، خودبخود ایک ’’تاویل‘‘ کے ضرورت مند ہوجائیں گے۔ اِس بات کی ’’ضرورت‘‘ اگر آپ کے اہل مذہب میں محسوس ہونے لگے تو دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے دیدہ ور آپ کے یہاں پیدا ہوجائیں گے اور دنوں کے اندر آپ کےلیے دین کی ایک ’تفسیر نو‘ تیار کردیں گے۔ اِن ’دیدہ وروں‘ کو آپ کے اہل مذہب سے توجہ لے کر دینے میں خود ’’ہم‘‘ بھی حسبِ توفیق حصہ ڈالیں گے۔ ’انسانیت‘ کا کچھ بھلا ہوجائے، اس سے بڑھ کر بھلا کیا نیکی ہے!
- اس کے علاوہ، مذاہب کے وہ اجزاء جن کو ’’غیبیات‘‘ کہا جاتا ہے… کچھ حرج تو نہیں کہ خود ان ’’غیبیات‘‘ کو بھی حتی الامکان قوانینِ طبیعت کی بنیاد پر بیان explain کرکے دے دیا جائے!اس سے ’جدید انسان‘ کا آپ کے مذہب پر کچھ یقین ہی بڑھ جائے گا، کوئی نقصان تو نہیں! یہاں سے؛ انسانوں کو آپکے مذہب کے بیان کردہ معجزات اور خرق عادت واقعات وغیرہ کی ’سائنسی توجیہ‘ بھی میسر آجائے تو آخر اس میں خرابی کیا ہے! لہٰذا سب نہیں تو آپ کے اہل مذہب میں کچھ سورما ضرور ایسے ہونے چاہئیں جو اپنے مذہب کے حوالے سے انسانیت کے ’اشکالات‘ خود سائنس ہی کی روشنی میں دور کردیں! آپ جانتے ہیں، سائنس ’’ہومن اسٹ‘‘ مذہب میں ’’حقیقت کے ادراک‘‘ کا واحد مستند ذریعہ ہے۔ اب جو چیز ’’سائنس‘‘ کی بنیاد پر ہی قابل توجیہ explainable ثابت کر لی جائے، یا کم از کم ایک اہل مذہب میں اس کا زعم ہی پیدا کرلیا جائے کہ دیکھو ہمارے دین کی فلاں اور فلاں بات ’سائنس کے عین مطابق‘ نکل آئی… تو اس سے آپ کا مذہب ’ہیومن اسٹ‘ بنیادوں پر نسبتاً زیادہ کوالیفائی qualify کرلیتا ہے… اور یہ عمل مسلسل ’ارتقاء‘ کی طرف بڑھتا ہے۔ یعنی ’’ہیومن ازم‘‘ کے شیڈ آپ کے مذہب میں خودبخود جھلکنے لگتے ہیں۔ ’’ہیومن ازم‘‘ والے اس سے متاثر ہوں نہ ہوں، آدمی خود ہی یہ پوشاک پہن پہن کر خوش ہوتا رہتا ہے!
- اس سے کچھ رجحانات آپ کے یہاں آپ سے آپ تشکیل پائیں گے۔ آدمی صاف نہ بھی کہے، یا نہ بھی سمجھے، اس کا ذہن خودبخود ان ’توجیہات‘ کی طرف جائے گا جو ’جدید انسان‘ کے خانے میں بآسانی بیٹھتی ہوں۔ ’مخصوص نظامِ تعلیم‘ پر قائم ایک مربوط اور بھاری بھرکم جہانی عمل (دیوہیکل یونیورسٹیاں، کالج، سکول، ریسرچ ادارے جن پر کھربوں خرچ ہوتے ہیں) خودبخود یہ انتظام کرے گا کہ ’جدید پیرائے‘ ایک مذہبی دانشور کے تحت الشعور میں جا اتریں… یہاں تک کہ اپنے مذہب کے ’روایتی فہم‘ سے وہ ایک خاص وحشت اور انقباض محسوس کرنے لگے اور اُس کے یہاں اشیاء کی ایک مخصوص ’تلاش‘ پیدا ہو۔ بس اگر یہ ’’تلاش‘‘ پیدا ہوجائے (جوکہ اصل محنت طلب کام ہے) تو آپ جانتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ کبھی ہو نہیں سکتا کہ ایک چیز کی ’’ضرورت‘‘ بول بول کر اپنا آپ بتائے اور اس کی کوکھ سے کوئی ’دریافت‘ یا ’ایجاد‘ نکل نہ آئے! خدا کے اِس جہان میں یہ ممکن ہی نہیں۔ ہر دور اپنی ’پنسلین‘ کی تلاش میں رہتا ہے؛ اور ’پنسلین‘ اپنے وقت پہ جا کر لازماً دریافت ہوجاتی ہے! اس کےلیے کوئی بہت معیاری لیبارٹری بھی درکار نہیں؛ کسی میلی کچیلی لیبارٹری سے اس کے ظہور کرنے کا امکان کہیں بڑھ کر ہوتا ہے! ایسی ڈھیروں لیبارٹریاں بےشک پہلے سے یہاں ہوتی ہیں؛ مگر ’’زمانہ‘‘ جب تک اس کےلیے ’بےتابی‘ ظاہر نہ کرے تب تک یہ ہی رونمائی کی روادار نہیں ہوتی۔ پس زمانے کو ایک چیز کےلیے صرف ’طلب‘ سامنے لے کر آنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد ’رسد‘ کا ایک ایسا زوردار عمل پھوٹتا ہے جو کہیں روکے نہ رکے؛ اور زمانے کی ’طلب‘ مختلف کوالٹیوں میں پوری ہونے لگتی ہے!
- یہ ’’رسد‘‘ ظاہر ہے کسی ایک ہی انداز میں سامنے نہیں آتی۔ ہر ہر چیز کا اپنا اپنا گاہک ہے۔ یہاں ایک ہی ضرورت مختلف ’سطحوں‘ اور مختلف ’معیاروں‘ پر پوری ہوتی ہے۔ سب دھارے مل کر ایک ہی عمل کی تشکیل کرتے ہیں اور وہ ہے مذاہبِ عالم کا زیادہ سے زیادہ ’’ہیومن ازم‘‘ سے ہم آہنگ ہونا۔ اس اصل واقعہ کی صحت میں البتہ کوئی کلام نہیں۔ ہر مذہب میں اس وقت جو ’نئی تحقیقات‘ سامنے آرہی ہیں ان میں قدرِ مشترک آپ کو یہ ایک ہی چیز نظر آئے گی: ہر مذہب ’’ہیومن ازم‘‘ کے مسلسل قریب آ رہا ہے… اور اِس ناطے ہر مذہب دوسرے مذہب کے قریب آرہا ہے۔ اس کےلیے ہر ہر مذہب کے اندر اپروچز approaches البتہ بےحد مختلف اختیار کی جائیں گی، مگر اپنے ’آخری نتیجے‘ end product میں مشترک دکھائی دیں گی۔ عالمی ساہوکار کو البتہ ’آخری نتیجے‘ سے ہی غرض ہے۔ ’ بیچ کے مراحل‘ (process phases) ظاہر ہے عبوری (transitional) ہی ہوں گےاور ان کے اندر بڑی حد تک مذہب کا اپنا اندازِ علم (اور اپنی epistemology ) ہی استعمال ہوگی، اس کے بغیر ظاہر ہے چارہ نہیں۔ یہاں پر (یعنی ’’پراسیس‘‘ کے دوران) اگر آپ مذہب کا اپنا اندازِ علم اختیار نہیں کریں گے تو ’مذہب‘ آپ کا ساتھ نہیں دے گا اور آپ کا وہ ’اینڈپراڈکٹ‘ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ کم از کم اہل مذہب اس کو ہاتھ نہیں لگائیں گے جبکہ یہ ضرورت اہل مذہب کےلیے ہی درپیش ہے؛ غیر مذہبی لوگوں کو تو یہ سب پاپڑ بیلنا ہی نہیں وہ تو سیدھا سیدھا ’’ہیومن اسٹ‘ فلاسفہ کے خریدار بن سکتے ہیں۔ جب یہ ضرورت ’اہل مذہب‘ کے معاملہ میں درپیش ہے تو ’’پراسیس‘‘ لامحالہ مذہب کے اپنے اندازِ علم سے کام لیتے ہوئے ہونا چاہئے۔
’مذہبِ اسلام‘ کے کیس میں اس کی ایک تقریبی مثال:
پرویزیت اپنے ’اینڈ پراڈکٹ‘ کے معاملہ میں ’ہیومن اسٹ‘ پیراڈائم کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری کرتی۔ جب تک اس سے ’بہتر‘ کوئی چیز دریافت نہیں ہوئی تھی آپ نے دیکھا اس کی اچھی خاصی پزیرائی ہوئی اور وہ ایک نعمتِ غیرمترقبہ کے طور پر دیکھی گئی۔ ’’اصلاحِ مذہب‘‘ کےعالمی ایجنڈا کے حق میں یہ ایک نہایت اعلیٰ پیش رفت ہوتی مگر اس میں نقص یہ تھا کہ ’’پراسیس‘‘ کے معاملہ میں وہ (پرویزیت) مذہب کا اپنا اندازِ علم اختیار کرنے میں بہت زیادہ ناکام تھی؛ لہٰذا ’’اہل مذہب‘‘ میں پذیرائی پانے سے رہ گئی۔ اب ’غیرمذہبی‘ لوگوں کےلیے تو پرویزیت بھی ایک ’تکلف‘ کے حکم میں تھی، ان کےلیے تو ویسے ہی ’مستند ہے مغرب کا فرمایا ہوا‘۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ خود ’مذہب‘ ہی کی گردن مروڑ کر اس کو ’’ہیومن ازم‘‘ کے گھاٹ پر لایا جائے۔ پرویز کا رخ بےشک بہت ’صحیح‘ تھا مگر ’مذہب‘ کی گردن اس بدبخت سے مروڑی ہی نہ جا سکی تھی۔ لہٰذا پٹ کر رہ گیا۔ وہ بہت ’باہر باہر‘ سے زور لگاتا رہا اور خاصے اَن گھڑ طریقے سے کام لیتا رہا۔ اُس کی ’تحقیقات‘ پر بچے ہنس لیتے تھے۔ اب ’ہیومن اسٹ‘ ایجنڈا کوئی بچوں کا کھیل تو نہیں ہے۔ ایسی غیر معیاری چیزیں اس کے کس کام کی! لہٰذا وہ جتنی بھی دیر رہا مجبوری کا نام شکریہ تھا، اور مجموعی طور پر ایک ناکام تجربہ تھا۔ البتہ پرویز کے بعد کی ’پیش رفتیں‘ جو آپ اِس وقت دیکھ رہے ہیں اُن میں آپ کو پرویز کی نسبت بہت زیادہ ’پختگی‘ نظر آئے گی۔ خاصا ’اوریجنل ورک‘ معلوم ہوگا۔ کم از کم پرویز کے مقابلے پر یہ ’’عالمی ضرورت‘‘ وہ بہت اچھے معیار پر پوری کرتی ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں ذرائع ابلاغ کو آلِ پرویز اب یاد تک نہیں۔ اِن کی آغوشِ محبت اب اِن ’نئی دریافتوں‘ کےلیے کہیں بڑھ کر دستیاب رہنے لگی ہے۔ میڈیا کا لاؤڈسپیکر اِن ’نئی پیش رفتوں‘ کو امت میں پذیرائی دلوانے کےلیے برسرِ مہم صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
البتہ جیسے ہم نے کہا، مذاہب کو ’’ہیومن ازم‘‘ کے گھاٹ پر لانے کا یہ عالمی پراجیکٹ مختلف سطحوں اور مختلف مراحل میں کام کرے گا۔ حالیہ عشروں کے دوران ’’پراسیس‘‘ کے معاملہ میں چھُوٹ دینا ایک ضرورت ہے۔ لہٰذا ’’پراسیس‘‘ کے دوران ہیومن ازم کے مسلّمات کو اچھا خاصا نظر انداز کردیا جانا بھی قبول ہوگا بشرطیکہ ’’اینڈ پراڈکٹ‘‘ آپ جاندار دے سکیں۔ اینڈ پراڈکٹ ’’جاندار‘‘ ہونے سے مراد ہے کہ ’مذہب سے وابستہ طبقے‘ ہی ایک بڑی تعداد میں اس عالمی گھاٹ سے پانی پینے کےلیے ہانک کر لائے جائیں (غیرمذہبی طبقوں کو ہانکنے کی ضرورت نہیں)۔ آپ ’’اینڈ پراڈکٹ‘‘ جاندار دیتے ہیں تو ’’پراسیس‘‘ میں آپ نے جتنی بھی ’غیر ہیومن اسٹ‘ اپروچ اختیار کی ہے، فی الحال قابل قبول ہے، بلکہ غنیمت ہے، خصوصاً اسلام کے معاملہ میں جس سے نمٹنا کسی پہاڑ سے ٹکرانے کے مترادف ہے۔ یہاں تو اتنا مل جانا بھی ’ہزار نعمت‘ ہے!
البتہ جب مذہبی طبقوں کی ایک بڑی تعداد کو اِس عالمی گھاٹ کی چاٹ لگوا دی جائے گی (اور جو کہ ’اسلام‘ کے معاملہ میں خاصا وقت طلب اور محنت طلب مرحلہ ہے) تو پھر توجہ ’’پراسیس‘‘ پر بھی دی جائے گی۔ یعنی جب اینڈ پراڈکٹ ایک ’’مسلّمہ‘‘ اور ایک ’’محکم‘‘ کی حیثیت اختیار کر جائے تو پھر ’’پراسیس‘‘ کےدوران اختیار کیے گئے مقدمات بھی ’تنقیح‘ کے عمل سے گزارے جائیں گے، تاآنکہ یہ بھی ’’ہیومن اسٹ معیاروں‘‘ سے ہم آہنگ ہوجائیں، خواہ اس کےلیے جو بھی کرنا پڑے۔
کئی ایک مذاہب میں اس محاذ پر اچھی خاصی کامیابی پا لی گئی ہے (صرف اسلام مزاحمت دے رہا ہے!)۔ یہودی اور عیسائی مذہبی پیشوائیت clergy میں خاصے بڑے بڑے گروہ ایسے سامنے آگئے ہیں جو کھل کر کہتے ہیں کہ ہمارے مذہبی صحیفے صرف تبرکاً پڑھے جانے کےلیے ہیں ؛ ان صحیفوں کے ’مشکل مقامات‘ کو ان کے ظاہری مفہوم پر لینا ہرگز درست نہیں۔ (’مشکل مقامات‘ سے مراد: ان صحیفوں کی وہ نصوص جو ماڈرن ہیومن اسٹ پیراڈائم سے صاف ٹکراتی ہیں)۔ وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر کہتے ہیں کہ ہمارے صحیفوں کی ان نصوص کو بغیر تاویل کیے پڑھنا غلط اور انتہاپسندی ہے اور اِس روشن خیالی enlightenment کے دور میں تو معاملہ اس کا متحمل ہی نہیں ہے؛ یہاں تک کہ ایسے سرپھروں کو جو تورات و انجیل کی نصوص کو اب بھی ان کے ظاہری و طبعی معانی پر ہی لیتے ہیں انہوں نے باقاعدہ ایک نام دے رکھا ہے: literalist۔ مراد ہے: ’لفظ پرست‘ یا ’ظاہری‘۔ لفظ پرست تفسیر literal interpretation of the text کی بجائے اُن کے یہاں تاویلی تفسیر figurative interpretation of the text کہیں زیادہ مقبول ہوچکی ہے۔[2]
اب اگر ’مطلق حق‘ آپ کی نظر میں اپنے دور کے رائج حوالے ہیں تو ’فگریٹو تفسیر‘ آپ کو خودبخود آپ کے پسندیدہ گھاٹ پر لے چلے گی البتہ خوشی کی بات آپ کےلیے اس میں یہ ہوگی کہ آپ اس چیز کے ’مذہبی‘ تقاضے پورے کر چکے ہیں! پیشوا چونکہ خرانٹ ہے لہٰذا وہ یہیں تک رہے گا، البتہ معتقدین کی ایک تعداد اس یقین سے سرشار ہو گی کہ یہ مذہب کا اپنا ہی اقتضاء اور مفہوم ہے!
مسئلہ یہاں بھی نہیں رکا، تاریخ سے متعلق جنگ و جدل کے جو واقعات تورات و انجیل میں آتے ہیں ان کی ’تمثیلی تفسیر‘ ظاہر ہے ممکن ہی نہیں اور یہ واقعات بھی کوئی ایسے ویسے نہیں بلکہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں اور جوکہ تورات و انجیل کی رُو سے ان کے ’انبیاء‘ کے ہاتھ پر رونما ہوئے ہیں یا انبیاء کی شریعت پر سختی سے کاربند ’مذہبی لوگوں‘ کے ہاتھ پر۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ یہاں ’تمثیلی اندازِ تفسیر‘ لاگو کرتے ہوئے ہم ’قتل‘ اور ’ذبح‘ کا معنیٰ ’پھول پھینکنا‘، ’سر کاٹ کر لٹکانے‘ کا مطلب ’رفعت و سربلندی بخشنا‘ اور ’دشمن کی لڑکیوں کو اٹھانے‘ سے مراد ’رومانس‘ کرتے چلے جائیں! بائبل کے اِن خوفناک مقامات کی کسی بھی غیرحقیقی تفسیر پر تو بچے کھلکھلا اٹھیں گے۔ تو پھر ’ہیومن ازم‘ کی عدالتِ عالیہ میں اس پر کیا بیان دیا جائے؟ زیادہ کوشش تو ان کی یہی ہوتی ہے کہ بائبل کے یہ صفحات نہ ہی کھلیں۔ پھر بھی جب اس کی ’توجیہ‘ کرنا پڑ ہی جائے تو:
à کبھی یہ روش ہوتی ہے کہ وہ لوگ (انبیائے بنی اسرائیل وغیرہ) بھی آخر انسان ہی تھے اور انسان ’خطا کا پتلا‘ ہے! (صرف ہیومن ازم ’خطا سے مبرأ‘ ہے جو نبیوں کی بھی معاذ اللہ ’’اصلاح‘‘ کرسکتا ہے!)[3]
à اور کہیں یہ روش کہ ہر دور کی نیکوکاری اُس دور کے معیارات پر رکھ کر جانچنی چاہئے جس دور میں کوئی انسان پایا گیا ہو؛ لہٰذا یہ غلط تو ہے مگر اُس دور کےلیے یہ بات کوئی ایسی غیر معمولی نہیں ہے؛ وہاں یہ بات عام معمول تھا۔ (اس بات کو اگر ہم اپنے الفاظ میں کہیں تو وہ یہ کہ: بھائی اُس دور میں ’نیکی اور بدی‘ کا شعور ہی اتنا تھا؛ انبیاء کو آپ ’نیکی اور بدی‘ کے کسی مطلق پیمانے پر مت ماپئے کیونکہ اس پر تو وہ واقعتاً پورا نہیں اتریں گے، بس آپ یہ دیکھئے کہ انبیاء خود اپنے دور کے لوگوں کی نسبت کتنے اچھے تھے؛ ’بھلائی‘ کے اس نقطے تک پہنچنا تو جہاں انسانیت آج کھڑی ہے انبیاء سمیت کسی کےلیے بھلا ممکن ہی کب تھا! یہ تو چیز ہی آج آئی ہے)۔ عین یہی بات دورِحاضر کی ایک مستشرق جس پر ہمارے بہت سے اسلام پسند فدا ہوتے ہیں، کیرن آرمسٹرانگ Karen Armstrong کو میں نے ایک ڈاکومنٹری میں نبی خاتم المرسلینﷺ کی بابت بیان کرتے ہوئے سنا تھا۔ یہ بی بی نبیﷺ کا گرمجوش ترین دفاع کرتے ہوئے ہمیں بھی ایک ’لقمہ‘ دے رہی تھی… جب اس نے کہا کہ محمد(ﷺ) نے اپنے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بائبل میں مذکور داوٗد ( ؑ ) کے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیے ہوئے سلوک سے ہزارہا گنا بہتر ہے، تب بنو قریظہ وغیرہ ایسے واقعات کی طرف اشارہ کرکے اس سے دریافت کیا گیا تو اس کی توجیہ یہی تھی کہ محمد (ﷺ) کو اُن کے اپنے زمانے کی اخلاقیت کے معیاروں پر ماپو، وہ بہت بلند نظر آئیں گے؛ خود اپنے زمانے کے معیاروں پر مت ماپو![4] (یعنی یہ سب ’ہیومن ازم‘ اور ’اینلائٹنمنٹ‘ سے پہلے کے قصے ہیں؛ جب دنیا میں تھا ہی اندھیرا تو کیا یہ غنیمت نہیں کہ ان انبیاء نے اپنے آپ کو ’’اپنے دور سے آگے‘‘ ثابت کردکھایا!)۔ - ’’اصلاحِ ادیان‘‘ کے اِس ’ہیومن اسٹ‘ ایجنڈاکا ایک بڑا محاذ ’’تقاربِ ادیان‘‘ ہے، یعنی مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لے کر آنا اور ان کے مابین پائی جانے والی سرحدوں کو برائے نام سے برائے نام کردینا۔ اِسی ایجنڈا کا ایک دوسرا نام ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ ہے۔ یہاں پر اس کا بھی کچھ بیان کیا جاتا ہے:
آپ جانتے ہیں ہر مذہب اپنے آپ کو کچھ ایسی حقیقتوں پر مبنی مانتا ہے جن کو ٹھکرانا اُس کی نظر میں دنیا کا سب سے بڑا پاپ اور سب سے گھناؤنا فعل ہے۔ ’’کفر‘‘ کا تصور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے؛ یعنی اس کی بتائی ہوئی حقیقتوں کو نہ ماننا یا رد کردینا۔ یقیناً ہر مذہب کے یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ تعامل dealing اور پراَمن بقائے باہمی peaceful co-existence کا بھی کوئی نہ کوئی نسخہ پایا جاتا ہے (ہیومن ازم کے جنم پانے سے پہلے بھی مختلف مذاہب کے ماننے والے کسی سانجھی سرزمین commonly shared land میں پراَمن زندگی گزارنے کے بہت سے طریقے جانتے تھے! یہ کوئی پہلا نظریہ نہیں جس نے ’’مختلف مذاہب پر چلنے والے انسانوں‘‘ کو پرامن بقائے باہمی کا کوئی طریقہ دریافت کرکے دیا ہو! یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہیومن ازم کے ظہور سے پہلے بھی اور بعد بھی انسانوں کی بیشتر جنگ و خونریزی ’مذہب‘ کے ماسوا بنیادوں پر ہی ہوتی رہی ہے۔ زن، زر، زمین، اقتدار درحقیقت فساد فی الارض کے قدیم ترین اسباب چلے آتے ہیں)۔ لیکن اس کے باوجود ایک مذہب کا دوسرے کو باطل، گمراہی، ضلالت، باعثِ ہلاکت جاننا ایک معلوم حقیقت ہے۔ بلکہ سمجھ آنے والی چیز ہے۔
’’مذہب‘‘ کوئی کلب نما چیز کبھی نہیں رہی؛ یہ ایک بےانتہا سنجیدہ چیز کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ یوں سمجھیں، جس مقصد کےلیے ’’زندگی‘‘ ملی ہے، اُس مقصد کو پورا کرنے کا نام آدمی کے نزدیک ’’مذہب‘‘ یا ’’دین‘‘ تھا۔ ’’فلاح‘‘ اور ’’نجات‘‘ کا تمام تر تصور اس ’’مذہب‘‘ کے ساتھ وابستہ تھا جس کو آدمی اپنے لیے اختیار کرتا ہے۔ ’’نامرادی‘‘ اور ’’تباہی‘‘ کا تمام تر تصور اُس ’’مذہب‘‘ کو نہ ماننے یا ٹھکرا دینے کے ساتھ منسلک رہا ہے۔ غرض ’’مذہب‘‘ یا ’’دین‘‘ سے زیادہ سنجیدہ کوئی چیز آدمی کے نزدیک دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی تھی۔ چنانچہ ایک ہی خطے میں باہم پراَمن زندگی گزارنے کی بےشمار صورتیں رکھنے کے باوجود، مذاہب اور ادیان کے مابین ہمیشہ ایک خلیج پائی گئی ہے۔ اس کی اصل وجہ وہ ’’دعویٰ‘‘ ہے جو ہر مذہب انسان کے سامنے رکھتا رہا ہے؛ یعنی اس کو فلاح اور نجات سے ہمکنار کرنا اور نامرادی و تباہی سے تحفظ دلانا؛ خاص اس وجہ سے کہ ہر مذہب کے پاس انسان کو دینے کےلیے اِس فانی اور حقیر دنیا سے بڑھ کر کچھ افق ہیں لہٰذا یہ مسئلہ خود اِس دنیا سے ہی (جس کی تزئین و آرائش ہیومن ازم کا اصل الاصول ہے) بڑا ہوجاتا ہے اور یہ دنیا اس کے سامنے کمتر اور حقیر ہوجاتی ہے۔ اس راز کو پانے کا نام آدمی کے نزدیک ’’ایمان‘‘ تھا اور اس کو ٹھکرا دینے کا نام ’’کفر‘‘۔ ہر مذہب اپنے لیے ایسے ہی ایک اسٹیٹس کا دعویدار رہا ہے؛ اور ’’مذاہب‘‘ دنیا میں کچھ ایسے ہی سنجیدہ اسٹیٹس رکھنے والی اکائیوں کا نام ہے۔ ایک مذہب فی الحقیقت مذہب نہیں ہے اگر وہ اپنے سے متصادم چیز میں بھی حق کا امکان مانے۔
مذہب ’سچائی‘ کے ایک دعویٰ کا نام ہے اگرچہ وہ کتنا ہی جھوٹا دعویٰ کیوں نہ ہو۔ ایسا دعویٰ اگر سچا نہیں تو اس کی ’’تکذیب‘‘ ضروری ہے اور اگر سچا ہے تو اس پر ’’ایمان‘‘ لانا واجب؛ کیونکہ بات ’’خدا‘‘ کے حوالے سے کی گئی ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے اور کائنات کا حقیقی فرماں روا۔اُس کے نام پر کہی جانے والی ایک بات لازماً یا سچ ہے یا جھوٹ اور بہردوصورت قابل فیصلہ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی رُو سے سب سے بڑا ظلم اور سب سے گھناؤنا پاپ دنیا میں کوئی ہے تو وہ ’’خدا کے نام پر جھوٹ باندھنا‘‘ ہے۔ اور یہ تو ہم جانتے ہیں، دنیا کا ہر مذہب ’’خدا کے نام پر ایک دعویٰ‘‘ ہے۔ لہٰذا یہ کوئی ’نظرانداز‘ یا ’حاشیائی‘ کر دی جانے والی چیز نہیں۔ قرآنی پیراڈائم اِس معاملہ میں نہایت صریح ہے: یا اُس پر ایمان لانا واجب ہے یا اس کا کفر کرنا۔ یعنی ہر دو صورت اس کو اہمیت دینا اور اس کی بابت ’غیرجانبداری‘ ختم کرنا واجب ہوا۔’’خدا کے نام پر دعویٰ‘‘ سے بڑھ کر توجہ دینے کی چیز دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں؛ اِس حد تک توجہ کہ یا اس پر ایمان لایا جائے گا یا اس کا کفر کیا جائے گا۔
البتہ… ’’خدا‘‘ اتنا اہم ہو جائے؛ یہ تو ’’ہیومن ازم‘‘ کی موت ہوئی۔ ’’انسان‘‘ کی مرکزیت تو یہاں ختم ہوکر رہ گئی! ’’ہیومن اسٹ‘‘ عقیدہ تو پاش پاش ہوگیا! ’’خدا‘‘ کے نام پر دو متضاد دعوے قرآنی پیراڈائم میں کتنی ہی اہمیت اور توجہ دینے اور ’فیصلہ‘ کرنے کی بات ہو؛ بلکہ اس سے اہم تر مسئلہ دنیا میں کوئی ہو ہی نہ… پھر بھی ’’ہیومن اسٹ‘‘ پیراڈائم میں یہ مسئلہ نظرانداز اور رفع دفع کرانے کا ہے۔ ’’خدا‘‘ ہردوصورت میں اتنا اہم نہیں ہے کہ اس بنیاد پر انسانوں کے مابین بدمزگی ہو، اور یہ تو خیر اُس کی حیثیت ہی نہیں کہ اُس کے نام پر انسان دو فریقوں میں بٹ جائیں۔ انسانوں کی تقسیم ہوسکتی ہے تو صرف ایسے مسئلہ پر جو ہیومنزم خود تجویز کرے! لہٰذا ’مذہب‘ اپنی اس حیثیت میں کہ یہ ’’خدا کے نام پر ایک دعویٰ‘‘ ہے جس کو ماننا یا رد کرنا ضروری ہے، ہیومنزم کے ہاں بنیاد سے مسترد ہے۔ ’’خدا‘‘ کے نام پر کی گئی ایک بات کی، خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ، سرے سے یہ اوقات نہیں ہے۔
’’ہیومن ازم‘‘ اصل میں تو مذاہب کو یہی کہنا چاہتا ہے کہ تم کوئی چیز نہیں ہو، لیکن یہ کہنے کا طریقہ اُس کے ہاں یہ ہے کہ وہ انہیں ایک دوسرے سے گلے ملنے کا حکم دے! یعنی ہر دو طرف کے اہل مذہب ہی نہیں (اس طرح کے کچھ ’اسباق‘ تو پہلے سے پائے جاتے ہیں!) بلکہ خود ’مذاہب‘ ہی اب ایک دوسرے سے گلے ملیں، آئے روز مسکراہٹوں کا تبادلہ اور پیارومحبت کے پیمان کریں! مثال کے طور پر…:
ایک مذہب صدیوں اپنے پیروکاروں کو یہ بتاتا آیا ہو کہ خدا کا کوئی بیٹا ہے اور (معاذ اللہ) خدا کا وہ بیٹا بربادی اور تباہی سے نجات پانے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے مقابلے پر دوسرا مذہب اپنے پیروکاروں کو جو بنیادی ترین سبق دیتا رہا ہو وہ یہ کہ: ’خدا کی اولاد‘ ایسا عقیدہ رکھنے سے بڑھ کر کوئی تباہی اور بربادی نہیں؛ ’خدا کا بیٹا‘ تو ایسا لفظ ہے جس پر زمین لرز اٹھے، آسمان کانپ جائیں اور پہاڑ گر پڑیں۔ پس یہ ’’اختلاف‘‘ فریقین کےلیے ایک سنجیدہ ترین مسئلہ ہوا۔ ایسے ’’سنگین اختلاف‘‘ پر انسان کو صبح شام سوچنا ہے اور اپنی سوچ اور عقل کی سب توانائیاں اِس معاملہ میں کوئی ’’فیصلہ‘‘ کرنے پر صرف کردینا ہیں۔ ایسا جان لیوا سوال انسان کی زندگی میں کھڑا کیا ہی نہیں جاسکتا جب تک ’’مذاہب کے اختلاف‘‘ کو دنیا کا سب سے سنجیدہ اور سب سے سنگین ایشو نہ مانا جائے۔ یہاں؛ ’’ہیومن ازم‘‘ آتا ہے اور دونوں کو کہتا ہے ’چھوڑو اِن باتوں کو، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، جو خدا کا بیٹا مانتا ہے مانتا رہے، جو خدا سے بیٹے کی نفی کرنا چاہتا ہے کرتا رہے، مگر اس کو ایسا سنجیدہ مسئلہ نہ بنائے، اب ’مہذب‘ ہوجانے کا وقت آچکا ہے، یہ کوئی ’’اختلاف‘‘ یا ’’نزاع‘‘ کھڑا کرنے کی بات تھوڑی ہے، تم دونوں نہ صرف ایک دوسرے کےلیے بلکہ ایک دوسرے کے ’مذہب‘ کےلیے اچھے کلمات بولو۔ نہ صرف ایک دوسرے کا بلکہ ایک دوسرے کے ’موقف‘ کا احترام کرو۔ اب ایک کا مذہب ہے کہ ’’خدا کے بیٹے پر ایمان رکھنا نجات کا واحد ذریعہ ہے‘‘۔ دوسرے کا مذہب ہے کہ ’’خدا کا بیٹا ماننا بربادی کا سب سے بڑا موجب ہے اور ایک ایسا جرم جس سے پہاڑ گر پڑیں اور آسمان لرز اٹھیں‘‘۔ اِدھر ’’ہیومن ازم‘‘ کی ہدایت ہوتی ہے کہ ’’خدا کے بیٹے پر ایمان کو نجات کی بنیاد ماننے‘‘ کا مذہب ’’خدا کا بیٹا ماننے کو ہلاکت جاننے‘‘ کے مذہب کےلیے اچھے کلمات کہے اور ’’خدا کا بیٹا ماننے کو بربادی کہنے‘‘ کا مذہب ’’خدا کا بیٹا ماننے کو شرطِ نجات ٹھہرانے‘‘ کے مذہب کےلیے اچھے کلمات بولے! یعنی اتھاہ درجے کی منافقت! بلکہ… خود اپنے ہی دعویٰ کی تکذیب!
البتہ ’’ہیومن اسٹ‘‘ کی نظر میں اس کو ’منافقت‘ کہنا بھی ایک فضول بات ہے! اس کی نظر میں مذہب بس ایک واجبی سی چیز ہے؛ اس کی اوقات اس سے بڑھ کر ہے ہی نہیں کہ ایک آدمی کو کدو پسند ہے تو دوسرے کو بھنڈی؛ اب اس میں کیا ’منافقت‘ اور کیا ’کتمانِ حق‘! یہ ہے ہیومن ازم کا اصل مدعا۔ ’’تقارب‘‘ اور ’’محبت باہمی‘‘ کے پیغام نشر کروانے سے اصل مراد یہی ہے کہ اِس دنیا میں تمہاری آبرو کیا ہے! تمہاری یہ وقعت کہاں کہ تم انسانوں کے باہمی تعلقات طے کرو؟! ’’وابستگی‘‘ اور ’’بیزاری‘‘ کے پیمانے وضع کرتے پھرو!! یہ شان ہماری ہے کہ انسانی رشتوں اور حدبندیوں کا تعین ہم کریں۔ تم اپنی اوقات سے مت بڑھو۔ ’دوسرے‘ کی بابت ’’موقف‘‘ رکھنے کا زعم دل سے نکال دو (مسلمان کا – خواہ وہ مسلمان کتنا ہی پراَمن ہو – کافر ملتوں کو کافر کہنا بجائے خود ایک غیرمہذب اور قابل نفرین فعل ہے؛ اس کو چاہئے خود جتنی اللہ اللہ کرنی ہے کرےمگر دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو ’’کافر‘‘ کہنے سے خبردار رہے؛ اس کا زمانہ لد چکا!)۔ دراصل یہ ایک پیغام ہے جو ’’کرسمس کیک‘‘ ایک مسلمان مولوی کے دست ِ مبارک سے کٹوا کر اور اس کو اخبار کے صفحۂ اول پہ شائع اور ٹی وی کے مرکزی خبرنامے میں نشر کروانے کی صورت میں پوری دنیا کو دیا جاتا ہے، کہ ’’تقاربِ ادیان‘‘ کا یہ ہیومن اسٹ ایجنڈا اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے میں اس مقام کو پہنچ چکا ہے۔
ہماری یہ دینی تحریکیں جو بڑے اخلاص کے ساتھ ’کرسمس کیک‘ کاٹنے پہنچتی ہیں، صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ آج سے نصف صدی پیشتر یہ کیوں اس عالمی ایجنڈا کے نخرے نہیں اٹھایا کرتی تھیں اور اِن کے بانیوں اور بزرگوں نے کیوں اِس ’تقریبِ سعید‘ کا اہتمام نہیں کیا؟ اس کی یہ وجہ پیش کرنا کہ یہ ضرورت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے حالیہ سیناریو میں سامنے آگئی ہے، اس کی ایک نہایت بودی اور سطحی توجیہ ہے۔ ’’ہیومن اسٹ‘‘ ایجنڈا ایک ایسا عالمی دیوہیکل ایجنڈا ہے کہ خود ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اس کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ لہٰذا اُدھر جتنی کامیابی وہ ہمارے مجاہدین کی کسی بڑی فوج کو مار کر حاصل کرتے ہیں، اِدھر اُتنی ہی کامیابی وہ ہمارے ایک ’فضیلۃ الشیخ‘ سے ’کرسمس اِیو‘ پر دعائے خیر کرواکے حاصل کرتے ہیں۔ یہ دونوں واقعے اُن کی ’’بیک وقت پیش قدمی‘‘ پر دلیل ہیں اور ایک ہی ’مطلوبہ‘ تصویر کو مکمل کرنے کا ذریعہ۔ عالمی افق پر چڑھتی چلی آنے والی اِس اندھیری گھٹا پر ہمارے ان بھائیوں کی ذرہ نظر ہو تو یہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے بھی بڑھ کر اِس خطرے کو توجہ دیں جو ہمارے یہاں ’’دین‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کو ایک حددرجہ ’ثانوی‘ حیثیت کے خانے میں پھنکوانے جارہا ہے… یعنی ’’دین‘‘ اور ’’دین کی بنیاد پر اختلاف‘‘ کو اس کی اس حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے محروم کرنے جارہا ہے جو خالقِ کائنات نے اس کو دے رکھی ہے؛ اور اصل میں دیکھیں تو ’’خالقِ کائنات‘‘ ہی کی وہ حیثیت ختم کرانے جارہا ہے جو زمین و آسمان میں اُس کو حاصل ہے اور جس کا انکار ’’ہیومن ازم‘‘ کے سوا آج تک کسی دین نے نہیں کیا۔ اس کی وجہ البتہ بڑی سادہ ہے۔ ’’ہیومن ازم‘‘ وہ پہلا دین ہے جس کا خدا ہی اصل میں ’’انسان‘‘ ہے۔ (اس سے پہلے، مذہب اگر جھوٹا بھی ہو تو اس کا خدا ’’آسمان والا خدا‘‘ ہی ہوتا تھا جس کو ہیومن ازم نے اب ’انسان‘ سے تبدیل کردیا ہے) [5] ۔ ہاں اِس ہیومن ازم کے خدا ’’انسان‘‘ کی حیثیت پر حرف آئے، پھر دیکھئے گا ہیومن ازم کے پنڈت اور پروہت اس پر کیسے چیختے ہیں!
یہ ہے اصل میں مذاہب کی ’اصلاح‘! اس ایجنڈا (تقاربِ ادیان) کی ہزارہا جہتیں ہیں۔ کہیں ہر ہر مذہب کی تفسیرِ نو re-interpretation کرائی جا رہی ہے۔ مذہب میں معروف بہت سے مواقف، بہت سے احکام، بہت سے رویوں اور بہت سی روایات کو فرسودہ ٹھہرایا جارہا ہے۔ بہت سی نصوص کو پڑھنے کےلیے ’فگریٹو‘ اندازِ مطالعہ متعارف کرایا جارہا ہے۔بہت سی اشیاء پر ’مٹی ڈالنے‘ کی ترغیب دلائی جارہی ہے۔ مذہب کی بہت سی اشیاء کو ’جدید پیراڈائم‘ میں رکھ کر سمجھنے کی راہ دکھائی جارہی ہے۔ بہت سے مواقف، بہت سے احکام، بہت سے رویوں اور بہت سی روایات کو، کچھ ایسے ’دلائل‘ کی بنیاد پر جو پہلوں کی توجہ نہیں لے سکے تھے، آج نئے سرے سے ’’دین‘‘ کی باقاعدہ سند کے ساتھ سامنے لایا جارہا ہے؛ اور جو ان ’دلیلوں‘ کا انکار کرے اور اس کے مقابلے پر پہلوں کے دستور کا پابند رہے اس کے سر پر ’’طعنۂ تقلید‘‘ کی لٹھ دے ماری جاتی ہے۔ مغرب کی فکری مصنوعات کو ایک ایک کرکے ’اسلامائز‘ کرنے کا عمل انجام پا رہا ہے۔ کافر ملتوں کےلیے ’’کافر‘‘ نہ ہونے کے سرٹیفکیٹ زیر طباعت ہیں۔
یہ کام تو ہمارے کچھ گھاگ دانشوروں کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔ البتہ یہاں کے سادہ لوح مولویانِ کرام کا بھی اِس ایجنڈا کو آگے بڑھانے میں کوئی حصہ ڈلوایا جاسکتا ہے؟ کیوں نہیں۔ آپ کرسمس آئے تو کیک کاٹنے کی تقریب کو رونق بخش آئیے گا؛ ایک بڑی تصویر کے بننے میں آپکی یہ چھوٹی اور معمولی سی تصویر کتنا بڑا حصہ ڈال دےگی، شاید آپکو اندازہ نہیں۔ ابھی تھوڑی دیر میں آپ کو دیوالی کےلیے بھی یہ زحمت کرنا ہوگی! اور یہاں سے ادیان کی تاریخ میں باقاعدہ ایک نیا چیپٹر کھل جائے گا۔ فی الحال یہ اسکی شروعات ہیں؛ یہ ایک بہت بڑے عمل کا ایک بہت چھوٹا سا آغاز ہے؛ خصوصاً اگر (خدانخواستہ) آپکے حالیہ عالمی جہاد کا خاتمہ کردینے میں کامیابی پا لی جاتی ہے تو پھر دیکھئے گا ’’مذاہب میں نئے رویوں‘‘ کے حوالے سے آپ کی یہ ’ہلکی پھلکی‘ شروعات کس ’’زوردار عمل‘‘ میں ڈھلتی ہیں!
اس لیے ہم سمجھتے ہیں عامۃ الناس کی سطح پر یہ ہیومن اسٹ ایجنڈا اپنے ظہور کےلیے ’’تقاربِ ادیان‘‘ کو ایک نہایت اہم ذریعہ سمجھتا ہے۔ باقی باتیں بہت گہری ہیں اور فی الحال اچھےاچھے صاحب علم لوگوں کو بھی سمجھ آنے والی نہیں، البتہ ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ کی اچکنیں زیب تن کروانا اس کا ایک ’عام فہم‘ اور آسان ذریعہ ہے۔ خصوصاً مسلم معاشروں کے حق میں۔ ’’ملتوں کا فرق‘‘ جس کو پتھر پر لکیر بنانے کےلیے اسلاف کا زور لگ گیا تھا، جس کی خاطر سب ہجرتیں اور جہاد ہوئے، جس کے دم سے افریقہ، یورپ، وسط ایشیا اور ہند کے صنم کدے ٹوٹے… ’’ملتوں‘‘ کا یہ فرق آج کرسمس کیک کی طرح کاٹ دیا جائے گا… اور ہر طرف سے تالیاں!!! کوئی ’تنگ نظر‘ مولوی تھوڑی ہیں ’جدید تقاضوں‘ سے ہم آہنگ اور ’بدلتی دنیا‘ میں اپنے فرائض سے آگاہ ہستیاں ہیں! تصور تو کیجئے، وہ قوم جو دنیا بھر میں بت توڑنے کےلیے اٹھی تھی آج وہ زرق برق حلیوں کے ساتھ بتوں کی تقریبات میں شریک ہونے جارہی ہے! اور اس عمل کے حرام ہونے پر ’دلیل‘ مانگ رہی ہے! بت کدے جو کبھی روئے زمین پر اِس امت کی پیش قدمی سے لرزا کرتے تھے، آج اِسی کے جبہ و دستار سے رونق پائیں گے!
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ
اور یہاں شاید… أضَاعُوا الدِّینَ کُلَّہ!
فحسبنا اللہ ونعم الوکیل
یہ ہے ’عالمی ہم آہنگی‘…! آپ خود دیکھ سکتے ہیں اس کےلیے ’ترکِ جہاد‘ کہاں کافی ہے (وہ تو بہت پرانی بات ہوچکی)…! اس کےلیے تو آپ کو خود ’دیر وحرم‘ ہی کے فاصلے کم کرنا ہوں گے! شرک اور توحید کی جنگ کو نظریاتی سطح پر ہی واپس لینا ہوگا! آخر ہم کب سمجھیں گے کہ معاملہ کس خطرناک نقطے تک پہنچ چکا ہے۔
تحریر حامد کمالدین
حوالہ جات:
[1] کَلِمَۃٌ سَوَاءٌ کے حوالہ سے دیکھئے ہماری کتاب ’’شروط لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی فصل: ’’میثاقِ لا الٰہ الا اللہ‘‘۔
[2] خود ہمارے ساتھ یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔ امریکہ کے ایک اسلامک سنٹر کو دیکھنے کےلیے آئی ہوئی ایک بڑے مقبول چرچ کی پادری عورت کے ساتھ گفت وشنید میں جب ہماری جانب سے اس کو ایک قولِ مسیحؑ (متیٰ، باب 10، جملہ 34 http://mojzat.org/urdu-bible/matthew-10) کا حوالہ دیا گیا کہ ’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر امن کرانے آیا ہُوں۔ امن کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہُوں‘‘۔ ہمارا کہنا تھا کہ عیسی علیہ السلام نے زمین پر اپنے تمام تر عرصہ کے دوران کسی قتال میں حصہ نہیں لیا، اب لامحالہ اپنے نزول کے بعد وہ اپنے ’منکروں‘ کے ساتھ قتال فرمائیں گے، اور یہ بات ہمارے نبیﷺ کی دی ہوئی خبر کے بالکل مطابق بنتی ہے۔ ’مسیح کے منکروں‘ سے ہمارا اشارہ وہ عورت صاف سمجھ گئی۔ امن peace کی گردان کرنے والی وہ عورت جو ’مذہبی جنگ‘ کو انسانیت کے حق میں ایک سنگین جرم، اور مسیحؑ کو ’’امنِ عالم‘‘ اور ’’مذہبی جنگوں کو غلط ٹھہرانے‘‘ پر تاریخِ عالم کا سب سے بڑا حوالہ قرار دے رہی تھی، بائبل کے اِس حوالے پر ہماری تصحیح کرنے لگی:
’ مگر ہم اس کو ’لِٹرل تفسیر‘ کے ساتھ نہیں لیتے؛ اس سے مراد یہ نہیں۔ یہاں ہم ’’تلوار‘‘ سے مراد لیتے ہیں: ’علم کی قوت‘۔
یعنی جان ہی چھوٹی!
یہ ہے تفسیر کا ’تمثیلی‘ منہج figurative study of the text جو اِس وقت یہود و نصاریٰ کے کثیر مذہبی پیشواؤں کے ہاں مقبول ہے۔ اسے دیکھ کر ہم اپنے ذہن میں سوچ رہے تھے کہ اُن کی یہ ’تمثیلی تفسیر‘ ہماری ’’باطنی تفسیر‘‘ کے آگے کیا ہے؛ کبھی وہ ہمارے (بعض) ملحد صوفیہ اور رافضہ کی تفسیر سن لیں تو اس پر سر ہی دھنیں؛ اور کیا بعید اس کے احیاء کا وقت بھی ایک بار پھر آیا چاہتا ہو!
[3] جبکہ اصل مسئلہ یہاں پر ’قصور‘ یا ’خطا‘ کا نہیں ہے جو (معاذ اللہ) انبیاء کے حوالے سے ذکر ہورہا ہے؛ مسئلہ ’’ادراکِ حق‘‘ کا ہے اور ابنیاء کے حوالے سے یہ ایک بڑی جرأت کی بات ہے۔
[4] یہی بات ہمارے نبیﷺ کے دفاع کیلئے مشہور یہ برطانوی مستشرقہ اپنے اِس مضمون میں کہتی ہے:
On Muhammad’s treatment of Banu Qurayzah, a jewish tribe
The massacre of the Qurayzah was a horrible incident, but it would be a mistake to judge it by the standards of our own time. This was a very primitive society: the Muslims themselves had just narrowly escaped extermination, and had Muhammad simply exiled the Qurayzah they would have swelled the Jewish opposition in Khaybar and brought another war upon the ummah. In seventh-century Arabia an Arab chief was not expected to show mercy to traitors like the Qurayzah. The executions sent a grim message to Khaybar and helped to quell the pagan opposition in Medina, since the pagan leaders had been the allies of the rebellious Jews. This was a fight to the death, and everybody had always known that the stakes were high. http://www.globalwebpost.com/farooqm/study_res/karen_arm/qurayzah.html
آگے چل کر وہ یہ واضح کرتی ہے کہ یہود کے ساتھ یہ کوئی مذہبی منافرت نہیں تھی بلکہ ایک قبائلی وسیاسی معاملہ تھا۔ واضح رہے، ہمارا یہ مقصد نہیں کہ یہ عورت لازماً بدنیت ہے۔ ایک غیر مسلم عورت نبی ﷺ کے ’دفاع‘ میں واقعتاً کچھ غیر معمولی حدوں تک گئی ہے۔ رسول اللہﷺ کےلیے (معاذ اللہ) اس سے ملتےجلتے ’عذر‘ تو اب آپ بہت سے ’مسلمانوں‘ سے سنیں گےیہ عورت تو پھر غیر مسلم ہے! (کہیں کہیں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ درپردہ مسلمان ہے)۔ یہ امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ غیرمسلم ہونے کے باوجود وہ ہمارے نبیﷺ سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہوئی ہواور آپؐ پر اٹھنے والے جن اعتراضات کا جواب صرف ’’آپؐ کی رسالت‘‘ پر ایمان ہی کے پیراڈائم میں رہتے ہوئے دیا جاسکتا تھاوہاں اس نے کچھ اِس انداز سے توجیہ کرلینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا یقیناً ممکن ہے۔ لیکن کیا خیال ہے جس انداز میں ہمارے پڑھےلکھے آرمسٹرانگ کو اپنے نبیؐ کا دفاع کرتا دیکھ کر خوشی سے اچھل رہے ہوتے ہیں، ہمارے یہ ’’محمدﷺ کی رسالت پر ایمان‘‘ رکھنے والے بھی وفورِ جذبات میں اُسی پیراڈائم کے خریدار بن جائیں… تو کیا ہو!
[5] سب سے بڑھ کر حیرت البتہ ہمارے اُن ’علمائے توحید‘ پر ہوتی ہے جو یورپ کے دیے ہوئے اِس دینِ جدید کو ’’شرک‘‘ کہنے سے گریزاں ہیں! یعنی وہ پرانا انسان جو ’’خدا‘‘ کے نام پر جھوٹ بھی گھڑتا ہے تو اس لیے کہ ’’خدا‘‘ کی اس کے ہاں کوئی حیثیت ہے، اُس کی نظر میں ایک چیز بہت اعلیٰ حیثیت میں ’’سچائی‘‘ تسلیم ہی نہیں ہوسکتی جب تک اس چیز کی نسبت خدا سے نہ ہو، نیز وہ اپنے اور خدا کے مابین ’’واسطے‘‘ گھڑتا اور ان کے در کا سوالی ہوتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں خدا کے تقرب کا ’’ذریعہ‘‘ بنیں… تو یہ تو ہوا شرک اور عبادتِ طاغوت۔ البتہ جو خدا کی ایسی کسی بھی حیثیت کو نہ مانے، اور جس کی نظر میں خدا کے نام پر سچ کی کوئی ایسی بڑی اہمیت ہے اور نہ جھوٹ کی؛ جس کے نزدیک خدا کے در تک پہنچانے والے واسطوں کی ضرورت تو بعد میں ہوگی خود ’’خدا‘‘ ہی کی کوئی ایسی ضرورت نہیں؛ یہ بڑی دیر سے خدا کی اِس مرکزیت ہی کو ختم کرکے اس کی جگہ پر ’’انسان‘‘ کو فائز کر چکا جو اب اس کی نظر میں ایک مستقل بالذات ہستی ہے اوراپنے سب فیصلے کرنے میں مکمل طور پر آزاد… تو اس کو ’’شرک‘‘ اور ’’عبادتِ طاغوت‘‘ کہنا ہمارے اِن نیک حضرات کی نظر میں شدت اور انتہاپسندی ہے!