قضیۂ غزالی و ابن رشد-اعتراضات کا جائزہ

گزشتہ مضمو ن ‘غزالی اور ابن رشد کا قضیہ’ پر ایک فلسفی عاصم بخشی صاحب نے انگلش میں اعتراضات اٹھائے تھے وہ بھی ماہنامہ الشریعہ میں چھپے تھے ۔ ان کا جو جواب مضمون نگار محمد عبداللہ شارق صاحب نے دیا تھا وہ پیش ہے۔ عاصم بخشی صاحب کی اس تحریر کا اردو ترجمہ حال ہی میں مشہور سائیٹ دانش ڈاٹ پی کے نے پبلش کیا وہ اس لنک سے دیکھا جاسکتا ہے۔(ایڈمن)
٭٭٭
مئی 2014ءکے شمارہ “الشریعہ” میں جناب عاصم بخشی کا مکتوب نظر سے گزرا جس میں غزالیؒ اور ابنِ رشد کےحوالہ سے میرے مضمون (فروری،مارچ2014ء) پر کچھ تعریضا ت پیش کی گئی ہیں.زیرِ مکتوب کے اندر انہی تعریضات کے جواب میں کچھ توضیحات پیش کرنا مقصود ہیں.
1.مکتوب نگار کو اعتراض ہے کہ غزالی ؒ کا دفاع کرتے ہوئے میں نے اپنے مضمون میں ناقدینِ غزالیؒ کےجس “فرضی حملہ” کے خلاف جوابی کاروائی کی ہے،اس حملہ کا کوئی حوالہ اور ماخذ نہیں بتایا اور نہ ہی اس حملہ کے ذمہ دار کی نشان دہی کی ہے.اطلاعاََ عرض ہے کہ غزالی پر یہ “فرضی حملہ”آج روشن خیالوں کے ہر دوسرے جتھے کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا اعتراف مکتوب نگار نے بھی چند سطروں کے بعد کیا ہے.ویسے میرے مضمون کی ابتداء میں ڈاکٹر سلیمان دنیا کی عبارت بھی موجود ہے جو اس بات کی شہادت ہے کہ غزالیؒ پر یہ حملہ عالمی اور غیر علاقائی نوعیت کا ہے اور بعض اوقات اس میں بڑے بڑے دانشور بھی ملوث رہتے ہیں.اب وہ خود ہی بتائیں کہ اس صورتِ حال میں اس “حملہ” کی فی لاواقع موجودگی کو ثابت کرنے کےلئے آخر کسی ایک مخصوص مقالہ کا حوالہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
مکتوب نگار کی رائے میں غزالیؒ پر مختلف الخیال حلقوں کی طرف سے مختلف نوعیت کی تنقیدات کی جاتی ہیں،ان میں سب سے غیر علمی اور سطحی تنقید وہی ہے جو ہمارے نام نہاد مسلم معقولین اور متجددین کی طرف سے ہوتی ہے اور جس کے خلاف جوابی کاروائی کا بیڑا میں نے اٹھایا ہے.مذکورہ تنقیدی حملہ کوسطحی اور غیر علمی قرار دینا بالکل بجا،لیکن اس طرح سے اگر وہ اس طرح سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس غیر علمی تنقید کا جواب دینا بھی ٖفضول اور زائد از ضرورت کا م ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مکتوب نگار کی سادہ لوحی ہے.گمراہ کن غلط فہمیوں کو اگرصرف غیر علمی اور سطحی کہہ کر چھوڑ دیا جائے تو بعض اوقات وہ اتنی تناور ہوجاتی ہیں کہ ان کے خلاف بولنا بےاثر ہوجاتا ہے.غزالیؒ کو پوری عقلی روایت کا مخالف گرداننا اور سائنس و مضہب کی ہم آہنگی کے خلاف سمجھنا ایک غلطی ہے اور اور یہ غلطی آج غزالیؒ کے محض نقد کاروں سے ہی نہیں،بلکہ غزالی ؒ کے بعض سادہ لوح مریدوں سے بھی اسی غلطی کا ارتکاب ہوتا ہے اور وہ بزعم خود اس “رویہ” کوغزالی ؒ کی خوبی سمجھتے ہیں.یعنی غزالیؒ خود اپنی کتاب “تہافت” اور”المنقذ” میں جس رویہ کی باربار مذمت کرتے ہیں کہ “حکمت وفلسفہ” کی مطلق تنقید سے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں.جس رویہ کو وہ”صدیق للاسلام جاہل” یعنی اسلام کے نادان دوست کا رویہ کہتے ہیں اور جس کے خلاف غزالی ؒ کے بعض مذمتی بیانات ہم مضمون میں نقل کرچکے ہیں،اسی رویہ کو غزالیؒ کے “اپنے” اور مخالف،دونوں ہی غزالی کی طرف منسوب کرتے ہیں،اس کو “ثابت “کرنے کے لئے باقاعہ مورچے لگاتے ہیں اور پھر داد کے منتظر ہوتے ہیں.ہمارے مکتوب نگار دوست کا خیال ہے کہ اپنوں اور غیروں کی اس سنگین غلطی کو ابھی بھی صرف سطحی اور غیر علمی کہنے پر اکتفاء کیا جائے،
3.مسلم “حکیموں” اور فلسفیوں میں کچھ تو وہ تھے جنہوں نے خود کو غیر ما بعدالطبیعیاتی علوم تک محدود رکھا،جبکہ کچھ نے ما بعدالطبیعیات(الہٰیات) میں بھی ٹانگ اڑائی اور یوں دین کے دائرہ میں دخل اندازی کی.یہ دخل اندازی کیوں ناروا تھی،اس موضوع پر کچھ گفتگو میں اپنے مضمون میں کرچکا ہوں.مکتوب نگار کا نکتہِ اعتراض یہ ہے کہ”مسلم” حکماء کے ہاں یہ خطِ تقسیم غیر حقیقی ہے.”مسلم” حکماء کا علمی منبع وماخذ یونانی علمیت تھی اور یونانی علمیت ایک اکائی کانام ہےجس کا ایک لازمی جزو ما بعدالطبیعیات بھی تھی. یونانی علمیت کا کوئی قاری،متعلم اورماہر اس کے کسی خاص جزو کو نظر سے گزارے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ بہت مشکل تھا کہ یونانی علمیت کے تمام اجزاء اس کی نظر سے گزریں مگر اسی علمیت کا ایک لازمی جزو”ما بعدالطبیعیات” اس کی نظر سے اوجھل رہ جائے.مکتوب نگار کی یہ ساری گفتگو اغلباََ درست ہیں اور میں نے کوئی بات سرے سے ایسی نہیں کی جس کے جواب میں وہ یہ سب کہنے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں.بعض حکماء کے بارے میں میرا یہ مؤقف اور حسنِ ظن ہےکہ”انہوں نے خود کو غیر الہٰیاتی علوم تک محدود رکھا”اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ سرے سے یونانی الہٰیات ان کی نظر سےہی نہیں گزری. اس کا مفہوم اور مدعا فقط یہ تھا کہ انہوں نےما بعدالطبیعیات کےلئے تائید و حمایت کی کوئی پوزیشن اختیار نہیں کی اور اس معاملہ میں خود کویونانی الہٰیات کا دفاعی فریق نہیں بننے دیا.یوں بھی دیکھاجائے تو فی نفسہ کفریات کامطالعہ نہیں،بلکہ اس کی تائید وتصدیق اصل میں قابلِ اعتراض چیز ہے،ورنہ تو وہ بہت سے فلسفی بھی اس کی زد میں آجائیں گے جو یونانی الہٰیات کے ناقد ہیں مثلاََ خود غزالیؒ اور ابوالبرکات بغدادیؒ وغیرہ،کیونکہ یہ حضرات صرف یونانی الہٰیات کا مطالعہ ہی نہیں بلکہ اس پر عبور رکھتے تھےاور کمازکم ان لوگوں کو تو برے فلسفیوں کی کیٹیگری میں شامل کرنا ہمارا مدعا ہرگز نہیں تھا.اگرمضمون میں میرے مدعا کے ابلاغ میں کوئی سقم رہ گیا تو امید ہے کہ اب اس کا ازالہ ہوچکا ہوگا.میری پہلی قسط میں صفحہ 16 کی ساری گفتگو کو اگر سیاق وسباق کے ساتھ پڑھ لیا جائے تو وہ”محدود رکھنے” کے اسی مفہوم کے متقاضی ہے اور اس میں مذکورہ حکماء کے ساتھ ہمارے حسنِ ظن کے قرائن بھی موجود ہیں جس سے مذکورہ بالا خطِ تقسیم کی موجودگی بھی ثابت ہوتی ہے.
مکتوب نگار کی رائے میں،اس راقم نے خود ہی سائنس اور فلسفہ کو گذشتہ تاریخ کے اعتبار سے مرتکز اور ہم معنیٰ کہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یونانی علمیت بشمول اپنی الہیات و غیر الہٰیات کے چ کے سامنے ایک”کل ” اور اکائی کی حیثیت سے موجود تھی اور مسلم حکماء کی اس سے مشغولیت بھی ایک اکائی کی حیثیت سے ہی تھی.اطلاعاََ عرض ہے کہ سائنس اور فلسفہ کے جس ارتکاز اور وحدتِ اطلاق کی بات مکتوب نگار میری طرف منسوب کرکے “خطِ تقسیم” کو غیرحقیقی ثابت کرنا چاہتے ہیں،اس حوالہ سے میرے مضمون کا مواد بھی درحقیقت “خطِ تقسیم” کی نشان دہی کرتا ہے اور اس بات کا قرینہ ہے کہ “مسلم “حکماء و فلاسفہ میں دلچسپی کے دائر ے مختلف رہے تھے،وہ بے شک”جامع العلوم” رہے ہوں گے مگر ضروری نہیں کہ الہٰیات میں نفیاََ یا اثباتاََ ان کی دلچسپی بھی یکساں رہی ہوں.چنانچہ پہلی قسط میں صفحہ 16 کی درمیانی پیراگراف کو دوبارہ پڑھ لیجئے.
4.بشمول کچھ اور فلاسفہ و حکماء کے، میں نے محمد بن زکریہ رازی،البیرونی،عباس بن فرناس (اس کو مسلم بن فرناس لکھنا شائد میری غلطی تھی) وغیرہ کے بارہ میں یہ لکھا تھا کہ” ہمارے علم کے مطابق” انہوں نے خود کو غیر مابعد الطبیعیاتی علوم تک محدود رکھا. اب میں سے کسی کے بارہ میں اگر یہ ثابت ہوتا ہےکہ وہ فی الواقع خالصتاََ غیر الہٰیاتی “حکیم” نہیں تھے تو اس میں کوئی حرج نہیں،ہمیں بھی کسی کو بہ ہر صورت یہ ثا بت کرنے پر اصرار نہیں اور اسی وجہ ہی سے ہم نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں ” ہمارے علم کے مطابق” کی شرط کا اضافہ مضمون کے متن میں ہی کردیا تھا.ثابت تو صرف یہ کرنا مقصود تھا کہ کچھ حکماء بہرحال ایسے بھی تھے جنہوں نے خود کو غیر الہٰیاتی علوم تک محدود رکھا اور اس کے قرائن بھی موجود ہیں. باقی دی گئی مثالوں میں سے اگر کوئی مثال اس صورت کے مطابق نہیں ہے تو اس سے ہمارے اساسی مؤقف پر کوئی زد نہیں پڑتی. رازی اور عباس بن فرناس کے بارہ میں مکتوب نگار کی دی گئی معلومات درست ہوسکتی ہیں کہ انہوں نے خود کو غیر مغیر الہٰیاتی علوم تک محدود نہیں رکھا،مگر البیرونی کے بارہ میں ان کایہ کہنا کہ وہ”ہندویات” کا ماہر تھا، کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ وہ ہندویات کا ماہر تو تھا،لیکن کیا ہندو کفریات کی کوئی تصدیق و تائید یا اس ضمن میں کوئی قابلِ اعتراض بیان بھی اس سے منقول ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس کا شمار انہی “حکماء” میں ہونا چاہئے جنہوں نے خود کو الہٰیات میں کوئی نئی اور “متنازعہ” ایجاد پیش کرنے سے محفوظ رکھا اور جنہیں کبھی بھی مسلم معاشرے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا. مکتوب نگار کو یہاں پر ایک بار پھر “محدود رکھنے” کام معنیٰ سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے.
5.مکتوب نگار کی رائے میں اگر ہم غیر متعصب ہوکر دیکھیں تو دیکھیں گے کہ بوعلی سینا وغیرہ مسلم فلاسفہ،افلاطونی روایت کے غضب ناک حملہ کے خلاف مسلسل برسرِ پیکارہیں جس کی بہرحال تحسین ہونی چاہئیے.مکتوب نگار کو چاہئے کہ وہ خود ان کی اس جدوجہد پر ذرا تفصیلی کلام کریں اور یہ بھی بتادیں کہ اگر کسی ملحد میں صدقہ و سخاوت جیسی کچھ اچھی صفات پائی جاتی ہوں تو کیا اس کی وجہ سے اس کے الحاد وبےدینی سے چشم پوشی کرلینی چاہیے؟
6.میں نے لکھا تھا کہ ایک مسلمان کے فلسفیانہ غور وفکر کو شرعی حدود وقواعد کا پابند ہونا چاہیے.مکتوب نگار کو اعتراض ہے کہ” قرآن میں باقاعدہ تلقین کی گئی ہے کہ حق وسچ کو تلاش کرنے کے لئے انفس و آفاق میں غور کیا جائے،فلسفیانہ غور وفکر کو نام نہادشرعی حدود کا پابند بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہےکہ متجسس دماغ اس کو قبول کرلیں،الا یہ کہ ماضی کی کلیسائی جبرکی تاریخ دہرائی جائے.” اطلاعاََ عرض ہےکہ فلسفیانہ غور وفکر میں حتمیت و قطعیت کوئی چیز نہیں ہوتی جس کا اعتراف مکتوب نگار بھی کریں گے اور یونانیوں اور”اسلامیوں” کا علمِ الہٰیات تمام کا تمام ظن و تخمین پر ہی مبنی ہے.اس میں ان مسائل کو قطعی عقائد کی طرح پیش کیا گیا ہےجن کی کوئی قطعی دلیل قطعاََ موجود نہیں ہے. جن چیزوں کا حتمی علم نہ ہو ،ان کے بارہ میں فلسفیانہ غور وفکر جاری رکھنا اور بالآخر ظن و تخمین کی بنیاد پر کوئی بھی رائے قائم کرلینا کیسا ہے اور قرآنی تعلیم اس کے بارہ میں کیا ہے؟ سنئے:” وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَٰئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا “(الاسراء:آیت36) یعنی جن چیزوں کا کوئی حتمی علم تمہیں نہیں ہے ان کے پیچھے مت پڑو،کیونکہ دید،شنید اور دھڑکتا دل،ان سب کو اپنی اپنی طرف سے جواب دہ ہونا ہے.” یعنی اسی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے مشتبہ امور میں بے مقصد اور بے نتیجہ غور وفکر کرکے اپنی توانائیاں ضائع نہ کرو،خصوصاََ جب کہ معاملہ مقدس الہٰیا تی شعائر کا ہوں تو غیبی حقائق کے بارہ میں اٹکل پچو لگانا ان مقدس شعائر کی بےحرمتی اورحق تلفی کاسبب بن کر ایمان کے لئے بھی خطرناک ہوسکتاہے.مشرکینِ مکہ کا ملائکہ کو مؤنث سمجھنا ظن و تخمین پر مبنی اسی فلسفیانہ غور وفکر کا ہی نتیجہ تھا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھاکہ کیا تم فرشتوں کی تخلیق کے وقت موجود تھے؟یونانیوں کی الہٰیات بھی تمام کی تمام ظی وفرضی باتوں پر مبنی ہے،معدودے چند باتوں کے علاوہ کسی بھی چیز کی کوئی قطعی و حتمی دلیل موجود نہیں ہے.غزالیؒ کی تہافت کا ایک بڑا حصہ محض یہی ثابت کرنے کے لئے ہے جس کی تفصیلی نشاندہی ہم اپنے مضمون میں کر چکے ہیں.اسلام کاخدا فلسفیوں کے خدا کی طرح کوئی سائنسی فارمولا ٹائپ کی کوئی چیز نہیں ہےجس کا کوئی وقار اور احترام نہ ہوں.یہاں تو ہر اس چیز کا بھی احترام ہے جو سچائی کے ساتھ منسوب ہوجائے. اسلامی عقائد اور غیبی تصورات جہاں تک ثابت ہیں،وہ سب کے سب عقلاََ بلکہ ہدایتاََ ثابت ہیں اور کسی بھی انسانی رشتہ سے زیادہ ان کا تقدس اور احترام واجب ہے.کیا کوئی بھی معقول انسان اپنے محترم اور عزیز رشتوں کو ظن و تخمین پر مبنی فلسفیانہ غور وفکر کا میدان بنانا پسند کرسکتا ہے؟اگر نہیں تو قطعیت کے ساتھ ثابت ان اسلامی عقائد کوفلسفیانہ غور وفکر کا شوق پورا کرنے کےلئے تختہء مشق بنانا اور بنا کسی معقول دلیل کے ان کے بارہ میں رائے قائم کرلینا بھی قابلِ مذمت ہے اور مذکورہ بالا آیت کی رُو سے اس پر سخت جواب دہی کا اندیشہ .ہے
قرآن میں انفس وآفاق اور کائنات مکے اندر جو غوروفکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے،اس کے حاصلِ معنی پر ہم اپنے مضمون”تدبرِ کائنات کے قرآنی فضائل”(الشریعہ-جون 2014ء) میں تصیلی کلا م کر چکے ہیں.اس سے نہ تو الہٰیاتی امور میں ظن وتخمین پر مبنی فلسفیا نہ غوروفکر مراد ہے اور نہ ہی طبیعیاتی امور کے اندر ہونے وال سائنسی و تجرباتی غور و فکر.ہاں البتہ وہ روحانی اور الہٰیاتی غوروفکر ضرورمراد ہے کہ جس کی طرف کائنات بھی پورے زور وشور کےساتھ انسان کو دعوتِ التفات دے رہی ہے،جس سے انسان میں خالقِ کائنات کی عظمت،قوت،قدرت،بادشاہت،رحمت،حکمت،علمی وسعت اور لامحدود بڑائی کے تصورات راسخ ہوں،جس غوروفکر کے نتائج بالکل قطعی اور عام فہم ہیں اوران میں کوئی فلسفیانہ جھول یا اشتباہ نہیں پایا جاتا جیسے وجودِ باری تعالی ،توحید اور خالق کی تقدس آمیز صفات(قدیر،علیم،عظیم،کریم وغیرہ) اور جس غوروفکر کے نتیجہ میں ہی اسلامی الہٰیاتی تصورات کا اتنا تقدس طے پایا ہے کہ ان کے بارہ میں اٹکل پچو لگانا،بغیر یقین کے لب کشائی کرنا اور فلسفیا نہ غوروفکر کامیدان بنانا ان کی بےحرمتی قرار پاتا ہے.
فلسفیانہ غور وفکر ایک مشغلہ ہے اور یہ مشغلہ ایک حد تک مباح بھی ہوسکتاہے،بشرط یہ کہ اپنی جائز حدو د تک محدود رہے. الہٰیات کے تقدس کے پیشِ نظر اس میں کوئی ایسی رائے قابلِ قبول تو کجا قابلِ برداشت بھی نہیں ہے جو ظنی وتخمینی انداز پر مبنی ہو،صرف وہی آراء یہاں قابلِ قبول اور معتبر ہیں جو عقلاََ پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہوں یا پھر وحی کے قطعی ذریعہ سے ماخوذ ہوں،باقی جتنے مشتبہ احتمالات ہیں،ان کے بارہ میں کچھ کہنے اور سوچنے سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہی عافیت کا راستہ ہے اور کم از کم مقدس الہٰیاتی شعائر کےبارہ میں ایمان کے لئے خطرناک اور خدا کی ناراضگی کا باعث بننے والے ایسے رویہ کاتحمل کوئی مسلمان تو بالکل نہیں کرسکتا.مثلاََ وقت اور “زمان “کے”قدمِ وحددث ” کی مثال لے لیجئے جو مکتوب نگار نے بلاوجہ چھیڑی ہے اور پھر خود اظہار کیا کہ اس بحث کا کوئی تسلی بخش،حتمی اور قطعی فلسفیانہ جواب نہیں ہے.یہ بحث مذکورہ آیت کی رو سے قابلِ مذمت ہے.اپنے ایمان کے لئے اتنا ہی کافی ہےکہ ” اللہ خالق کل شیء” یعنی اللہ ہر چیز کا خالق ہے.(الانعام:102) اس کی تفصیل میں جاکر ہم ان بہت سی چیزوں کابھی نام لے سکتے ہیں جو عام فہم ہیں،جن کا تصور کرنے کے لئے کوئی فلسفیانہ پیچ وتاب کھانے کی ضرورت نہیں ہے اور جن کا ذکر خود خدا نےانسان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کیا ہے،مثلاََ سورج و چاند،زمین و آسمان،ستارے اور سیارے،پہاڑ ودریا،بادل و بارش،گرمی و سردی، صحت و بیماری، جن و انسان،چرند پرند،دن و رات ، ہفتے و مہینے اور دوسری بہت سی چیزیں. باقی رہی “زمان” جیسی پیچیدہ تصوراتی اور خیالی چیزیں جن کے بارہ میں طے ہےگیا کہ ان پر جتنی بحث کرلی جائے وہ بے نتیجہ رہیں گی،ان کا کوئی قطعی حل انسانی فہم وادراک میں نہیں ہے(الا یہ کہ تانیثِ ملائکہ کی طرح کا کوئی “حل ” فرض کرلیا جائے)،بلہ محض ان جیسی چیزوں کا تصور کرنے کے لئے ہی انسانی عقل کا پہلے مصنوعی و غیر فطری تفکرات کا عادی ہونا ضروری ہے تو جب ایسی چیزوں کا تعلق مقدس دینیاتی امور سے بھی ہوں تو ایسی چیزوں کے بارہ میں نہ سوچنا اور ان کے پیچھے نہ پڑنا ہی سلامتی کاراستہ ہے.خود ساکتہ “نتیجہ” اخذ کرنے میں اگر کوئی اوچ نیچ ہوگئی ہو یا بارگاہ ِ الوہیت کے آداب کی حق تلفی ہو گئی ہو تو اپنی نجات ہی خطرے میں پڑ جائے گی،کسی دوسرے کا کوئی نقصان نہیں ہوگا.جبکہ دماغی بوکاٹقوں کے وقتی تلذذ کےلئے اپنی نجات کو خطرے میں ڈالنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے.بقول علامہ اقبال؛
خرد ہوئی زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں،لاالہ الا اللہ
رہا معاملہ متجسس دماغوں کااور کلیسائی جبر کا تو گذارش یہ ہے کہ شرعی نقطہء نظڑ متجسس دماغوں کو پسندیدگی کو دیکھ کر نہیں طے کیا جاتا،البتہ سائنسی تدبر کے خلاف کلیسائی جبر کو مذمت ہم بھی سمجھتے ہیں،لیکن مابعد الطبیعیاتی شعا ئر کر بارہ میں فلسفیانی تتخمین بازی پر عائد کردہ پابندی کو ماضی کے کلیسائی جبر کے ساتھ جوڑنا ناقابلِ فہم اور افسوسناک ہےہمارے ہاں مسلم اہلِ علم مثلاََ غزالیؒ وغیرہ تقریباََ ایک ہزار سال پہلے ہی یہ وضاحت دے چکے ہیں(جس طرح کی چیزوں میں کلیسانے جبر کا مظاہرہ کیا ) ایسی چیزوں میں فلسفیوں کےساتھ مناظرہ کرنا ہی نامعقول اور خود دین کے مقدمہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہۓَمیری دوسری قسط کی آخری پیراگراف کو ذرا توجہ سے دوبارہ پڑھ لیجئے.
7.مکتوب نگار نے سائنس کی تعریف کا بھی سوال اٹھایا ہے تو ہمارے نزدیک سائنس نام ہے مدی کائنات پر غیر روحانی و غیر الہٰیا تی تدبر کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا. اب اگر ما بعد الطبعیاتی سوالات سائنس کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں تو ٹھیک ہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں،مگر جو اعتراض پہلے فلسفہ پر ہوتا تھا،اب وہ سائنس پر ہوگا کیونکہ اصل اعتراض اسی سرگرمی پر ہے جو الہٰیاتی تقدسات کےخلاف ہے، خواہ وہ سائنس کہلائے یا فلسفہ. الہٰیات میں صرف قطعی اور حتمی بات قابلِ قبول ہے،اگر فلسفہ یا سائنس کوئی نیا”انکشاف” کرتے ہیں جو واقعتاَ قطعی ہو اور نیا بھی ہو تو اسلام کو اس پہ کیا اعتراض ہوسکتا ہے،مگر علماََ ایسا کوئی انکشاف ہوگا نہیں.فلسفہ کہیں،سائنس کہیں،دماغی کاوش کہیں، عقلی روایت کہیں یا کچھ اور،اسلام کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ قطعیت کےساتھ ثابت اسلامی شعائر کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان پر غیر یقینی مشتبہات کی نشانہ بازی سے باز رہیں،یہی ہم آہنگی منصفانہ ہے،مطلو بھی ہے اور اس کے اثبات ہم نےغزالی ؒکے حق میں کیا تھا.
8.مکتوب نگار نے غزالیؒ اور ابنِ رشد کے جن چند ضمنی اختلافات کی طرف اشارہ کیا ہے،وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں. غزالیؒ کا مقدمہ جیسا کہ ہم مضمون میں عرض کرچکے ہیں ،فارابی ،بوعلی سینا اور ان کے پیروکاروں کے خلاف تھا.اس کے مقابلے میں ابنِ رشد کا جواب اب اسی صورت میں جواب کہلانے کا مستحق ہوتا کہ وہ فارابی اور بوعلی سینا کی طرف سے کوئی تسلی بخش قسم کی صفائی دیتے لیکن ہم عرض کرچکے ہیں کہ وہ اس حوالہ سے بالکل ناکام رہے.پس چند ضمنی اور لفظی اختلافات کو نمایاں کرنا کیا معنیٰ رکھتاہے؟
میرا اندازہ ہے کہ مکتوب نگا رنے میرے مضمون سے متعلق جو قابلِ ذکر اور دریافت طلب نکتے اٹھائے تھے،ان کی مناسب وضاحت ہوچکی.
والسلام محمد عبداللہ شارق

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password