اگر کوئی خالق ہے جو ہر تخلیق کو مقصدیت کیساتھ پیدا کرتا ہے تو پھر ان لاکھوں آوارہ اور اجاڑسیاروں کا کیا مقصد ہے؟
پوچھا جاتا ہے کہ اگر ہماری زمین کا بہترین نظم، متعین مقصدیت اور زندگی کا خوبصورت ارتقاء کسی صاحب شعور خالق کا وجود ثابت کرتا ہے تو پھر ان کہکشاؤں میں آوارہ تیرتے لا تعداد بیابان سیاروں کا کیا مصرف ہے ؟ ..
اس سوال کو چار زاویوں سے پرکھا جاسکتا ہے:
پہلا یہ کہ انسان کا علم اپنے بیمثال ارتقاء کے باوجود بھی انتہائی محدود ہے. انسان کی علمی محدودیت کا آج بھی یہ عالم ہے کہ وہ کھربوں ستاروں و سیاروں کے بیچ ایک نقطہ برابر زمین کے بارے میں بھی پانچ سات فیصد سے زیادہ علم نہیں رکھتا. ایسی عاجزی میں جسارت کرکے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی محدود علم سے ان بیشمار سیاروں کے مقصد کو اب تک سمجھ نہیں پاۓ مگر امید ہے کہ جیسے باقی اشیاء مقصد سے خالی نہیں، اسی طرح ان سیاروں کا بھی متعین مقصد ہوگا جسے ہم مستقبل میں شائد بہتر جان پائیں. اس سے زیادہ کچھ بھی کہنا محض تجاوز ہے
دوسرا زاویہ ایک مثال سے سمجھیئے، اگر آپ ایک ایسے بڑے میدان میں ہیں جہاں آپ کو سو دو سو مٹی کے بے ہنگم ٹیلے نظر آتے ہیں. کوئی چھوٹا کوئی بڑا، کوئی سوکھا کوئی گیلا، کوئی سخت کوئی نرم .. مگر پھر اچانک ان ٹیلوں کے بیچ ایک شاندار شیش محل نظر آتا ہے. اونچے دروازے، متوازن کمرے، حسین فرش، چمکتی کھڑکیاں. اب اس حسین تعمیر کو دیکھ کر کوئی یہ احمقانہ استدلال نہیں کرے گا کہ کیونکہ باقی دو سو ٹیلے بے ہنگم پڑے ہیں، اسلیئے اس محل کا کوئی معمار نہیں ہوگا ! .. حد سے حد یہ کہا جا سکتا ہے کہ معمار نے کسی وجہ سے ان دو سو ٹیلوں میں سے اس ایک کا انتخاب کیا ہے. لاکھوں اجاڑ سیاروں کی موجودگی اپنی جگہ ایک حقیقت، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ یہ بہترین ترتیب و نظم والی زمین اور اس پر بسنے والی زہین مخلوق کسی زہین تر خالق کے بناء خود بخود وجود پا گئی؟ نہایت احمقانہ بات ہے.
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ سائنس اپنی تمام تر محدودیت کے باوجود کچھ ایسے سراغ پا گئی ہے جو ان اجاڑ سیاروں کی توجیح بیان کر رہے ہیں. مثال کے طور پر کوسمولوجی (علم فلکیات) کے حالیہ انکشافات یہ بتاتے ہیں کہ مشتری یعنی جوپیٹر اپنے حجم کی وجہ سے نظام شمسی کو مہلک ٹکراؤ سے محفوظ رکھتا ہے ، اسی طرح کئی سیاروں کے بارے میں آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ کائنات میں کشش ثقل کے نظام کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. ایک سائنسی تھیوری ‘ بٹر فلائی افیکٹ ‘ کے نام سے رائج ہے، جو یہ بیان کرتی ہے کہ یہ ساری کائنات ایک مشترکہ اکائی کے طور پر کام کر رہی ہے، یہاں ایک تتلی کا پنکھ پھڑپھڑانا بھی مستقبل کے کسی بہت بڑے واقعہ کے رونما ہونے کی علت ہوتا ہے. صاف نظر آتا ہے کہ جوں جوں انسانی علم ترقی پاۓ گا ، خلا میں تیرتے ان آوارہ سیاروں کے وجود کی مقصدیت سمجھ آتی جائے گی.
چوتھا اور آخری زاویہ صرف اہل ایمان کے لئے ہے اور جسکا اشارہ قران حکیم دیتا ہے. وہ جہاں سائنس کی اس دریافت پر مہر لگاتا ہے کہ واقعی ایک روز یہ ساری کائنات ایک عظیم حادثے سے دوچار ہوگی اور ہماری زمین تباہ و برباد ہو جائے گی. وہاں قران یہ بھی خبر دیتا ہے کہ ایک بار پھر زندگی کی بساط سجائی جائے گی ، زمین و آسمان کو نۓ زمین و آسمان سے تبدیل کردیا جاۓ گا (سورہ ابراہیم ٤٨). اسوقت زمین اور آسمان کو نئی ندرت اور نئے فطری اصولوں سے آراستہ کیا جاۓ گا. وہ واشگاف انداز میں کہتا ہے کہ اب اس نئی زمین کا حجم اتنا چھوٹا نہ ہوگا بلکے اسے کئی گنا بڑھا دیا جائے گا (سورہ آل عمران ١٣٣). ظاہر ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب یہ تیرتے بیشمار مادے کے ڈھیر (سیارے) موجودہ زمین میں ضم کردیئے جایئں. لہٰذا ایک مومن کے لئے یہ سوچنا قرین قیاس ہے کہ جو خدا انسان کے بچے کو بھی ارتقاء سے گزار کر وجود بخشتا ہے وہی خدا اس کائنات میں موجود تمام سیاروں یا ستاروں کو ایک عظیم تر مقصد کی تکمیل کے لئے ارتقاء سے گزار رہا ہے. ان ستاروں کا بننا یا ٹوٹنا سب اسی منصوبے کے جزو ہیں.
عظیم الرحمان عثمانی