فلسفہ –تعارف و مقاصد

فلسفہ یونانی زبان کے لفظ philosophia اور انگریزی کے لفظ philosophy کا معرب ہے۔ اس کا لفظی مطلب “حُبِ دانش” بنتا ہے۔ شروع میں اس لفظ کا استعمال ہر قسم کے غور و فکر اور اس فکر سے حاصل کیے گئے علم کے لیے ہوتا تھا، پھر رفتہ رفتہ اس لفظ کو وحیِ الہی اور الہامی علوم کے مقابل غور و فکر سے حقیقتِ کائنات اور ماورائے کائنات کی گتھیاں سلجھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اب لفظ فلسفہ بہت سے دیگر معانی میں مستعمل ہے جیسے:
۱۔ کوئی نظریہ یا نظریات کا مجموعہ فلسفہ کہلاتا ہے۔ مثلاً کارل مارکس کا فلسفہ، لیمارک کا فلسفہ، ڈارون وغیرہ کا فلسفہ۔
۲۔ کوئی عقیدہ یا عقائد کا مجموعہ فلسفہ کہلاتا ہے۔ مثلاً اسلامی فلسفہ، عیسائی یا احمدی فلسفہ وغیرہ۔
۳۔ کسی مظہر کے حقائق تک منطقی یا مشاہداتی طور پر بیان کرنے کو بھی فلسفہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً دماغ کا فلسفہ، دل کا یا محبت اور عشق کا فلسفہ وغیرہ۔
۴۔ کسی بھی منطقی اور پیچیدہ گفتگو جو کے مظاہر قدرت، طبیعات یا ماورائے طبیعات کے علوم کے حوالے سے ہو اسے بھی فلسفہ کہتے ہیں۔
۵۔ کسی خاص علم کی بنیادوں اور ماخذات کے منظم اور منطقی جائزے کو بھی فلسفہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً ریاضی کا فلسفہ، کیمیا کا فلسفہ یا حیاتیات کا فلسفہ وغیرہ۔
۶۔ زندگی سے متعلق معاملات، سیاسیات، معاشرت، معاشیات، دینیات، ادبیات، فلاح و بہبود کی بہتری کے نظریات بھی فلسفے کا حصہ ہیں۔
غرضیکہ فلسفہ اپنے معانی میں اتنا وسیع لفظ ہے کہ کائنات کا کوئی علم ایسا نہیں جس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ فلسفے سے نہ ہو۔
ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھ کر میں فلسفہ کی تعریف اس طرح کرتا ہوں کہ:
کوئی بھی علم یا مشاہدہ جو اپنے دائرے میں اپنے سچ اور اپنے جھوٹ رکھتا ہو وہ فلسفہ ہے۔
چونکہ فلسفہ کی اصل یونان ہے تو واضح ہے کہ اس کا آغاز بھی وہیں یونان سے ہوا ہے۔ معلوم تاریخ میں پہلا فلسفی جو ہمارے علم میں ہے اسے طالیس (Thales) کے نام سے جانا جاتا ہے جو آیونیا (Ionia) یعنی قدیم یونان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا دور تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح ہے۔ ہمیں فی الوقت یہاں فلاسفہ کی تاریخ سے سروکار نہیں، بس اتنا سمجھ لیجئے کہ طالیس وہ پہلا آدمی تھا جس نے دنیا پر غور و فکر کا آغاز کیا، سورج، چاند ستاروں اور دیگر چیزوں کو غور سے دیکھنا اور سمجھنا چاہا۔ چناچہ اس نے چھٹی صدی قبل مسیح میں ہونے والے سورج گرہن کی پیشنگوئی گرہن کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے ہی کردی جو سچ بھی ہوئی۔ اسی طرح اس کے نزدیک زمین اور تمام مادی اشیاء پانی سے وجود میں آئیں۔
مختصر یہ کہ فلسفہ اپنے ابتدائی دور میں صرف چند سوالات سے شروع ہوا تھا جیسے:
یہ کائنات کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟
کائنات کے وجود کا کوئی مقصد ہے یا نہیں؟
یہ سورج، چاند، ستارے، گرہن، طوفان، زلزلے وغیرہ کیسے اور کیوں آتے ہیں؟
کیا اس کائنات کو بنانے والا کوئی ہے یا یہ اپنے آپ ہی بن گئی ہے؟ اور کیا اس کے وجود کے پیچھے کوئی شعوری قوت یا ذہن موجود ہے؟
کیا یہ کائنات قدیم ہے یا حادث؟
انسان کی اس کائنات میں کیا حیثیت ہے؟
موت اور زندگی کیا ہیں؟
یہ پیڑ پودے، چرند و پرند کہاں سے آئے ہیں؟
زمین گول ہے یا چپٹی؟ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے یا زمین سورج کے گرد؟
آسمان اپنی ماہیت میں کیا ہے؟
روح کیا چیز ہے؟
“حقیقت” کیا ہے؟
غرض اس قسم کے سوالات سے فکر و فلسفہ اور حکمت کا آغاز ہوا جس میں وقت کے ساتھ وسعت پیدا ہوئی۔
بہر حال ہم وقتاً فوقتاً مختلف فلاسفہ کے افکار اور اقوال کو زیرِ گفتگو لائیں گے۔ فی الوقت اتنا کچھ تعارف کے لیے کافی ہے کہ کائنات، مظاہرِ قدرت، اور حقیقتِ اشیاء اور ان سے تعلق رکھنے والے سب معاملات فلسفے کا موضوع ہیں۔
٭فلسفہ کی شاخیں:
روایتی فلسفہ میں جو اہم شاخیں ہیں ان کی تعداد پانچ ہے جو کہ اس طرح ہیں:
۱۔ مابعد الطبیعات یا ماورائے طبیعات::: دنیا بلکہ کائنات سے ماورا موجودات سے متعلق شاخ۔ الٰہیات اور وجودیات اسی شاخ کا موضوع ہے۔
۲۔ علمیات::: یہ شاخ علم، اس کے ماخذات، ابدی سچ، جھوٹ، حقیقت کو جاننے کے ماخذات کے معتبر اور غیر معتبرہونے پر بحث کرتی ہے۔
۳۔ منطق::: بحث اور فکری سہو سے بچنے کے اصول یعنی کس طرح کوئی عقلی دلیل قائم کی جائے، اور عقلی موشگافیوں میں غلطیوں سے باز رہا جائے، یہ اس شاخ کا موضوع ہے۔
۴۔ اخلاقیات::: اچھائی، برائی، شیطانی اور رحمانی طور طریقے اور زندگی گزارنے کے لیے بہترین اصول وغیرہ پر بحث اس شاخ کا موضوع ہے۔
۵۔ جمالیات::: حسن و جمال، ذوق، لطف اور ان سے متعلق حواس اور تخیلات اس شاخ کا موضوع ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر کئی شاخیں ہیں جو بعد میں فلسفہ کا موضوع بنی ہیں۔ جیسے:-
لسانیات: یعنی زبان کا فلسفہ، انسان نے کب، کیسے اور کیوں بولنا شروع کیا؟ انسان کو بولنے پر برانگیختہ کرنے والے عناصر کیا تھے؟ کیا جذبات کی موجودگی الفاظ کے بغیر ممکن ہے؟ اور اس طرح کے دوسرے سوالات اس شاخ کا موضوع ہیں۔
قانون و فقہ: یعنی کوئی بھی قانون کن بنیادوں پر بننا چاہیے؟ کس کس پر کوئی قانون کس طرح لاگو ہوگا؟ برے اور بھلے، مجرم اور معصوم قرار دینے کے اصول وغیرہ کی بحثیں اس شاخ کا موضوع ہیں۔
اسی طرح ریاضی، سائنس کے اصول اور مذہبیات وغیرہ۔ البتہ یہاں ہماری توجہ مسبوق الذکر فلسفہ کی اہم شاخوں کی جانب ہی رہے گی۔ اور اس میں مابعد الطبیعات اور منطق اہم ترین ہیں۔ چند موضوعات اسلامی عقائد و مسائل کے حوالے سے علمیات اور اخلاقیات سے بھی زیرِ بحث آیا کریں گے۔ یہاں میں نے پانچ شاخوں کا ذکر کرکے ان کے حوالے سے ایک دو سطروں میں ان کے موضوعات کی وضاحت کردی ہے۔
ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password