”ایہا الولد” میں امام نصیحت فرماتے ہیں:
”اول یہ کہ جہاں تک ھوسکے کسی سے مناظرہ نہ کر کیونکہ اس میں بہت سی آفتیں ہیں اور فائدے سے زیادہ نقصان ھے۔ مناظرہ و بحث بازی کا یہ کام برے خصائص مثلا ریاکاری، حسد، غرور، کینہ، دشمنی، فخر اور ناز وغیرہ کا سرچشمہ ھے۔ اگر تیرے اور دوسرے شخص کے درمیان کوئی مسئلہ چھڑ جائے اور تیری خواھش ھو کہ حق ظاھر ھو تو اس مسئلے پر بحث کرنے میں تیری نیت کی درستگی کی دوعلامات ہیں:
1) اگر حق تیری یا تیرے مخالف کی زبان سے ظاھر ھو تو تو اس میں کوئی فرق نہ کرے یعنی دونوں صورتوں میں راضی رھے کہ بہرحال حق ظاھر ھوگیا
2) تو تنہائی میں بحث کرنے کو ترجیح دے۔ اگر دوران بحث تجھے یقین ھوجائے کہ تو حق پر ھے اور مخالف صرف بحث بازی کررھا ھے تو تو خبردار ھوجا اور اس سے بحث نہ کر اور بات کو وہیں ختم کردے (یعنی اپنے نفس کو آڑے نہ آنے دے کہ میں تو ابھی غالب ہی نہیں آیا) ورنہ خوامخواہ رنجش پیدا ھوگی اور کوئی فائدہ نہ ھوگا”