الحاد کی حمایت میں ایک عام تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ سائنس کی موجودگی میں خداکی ضرورت نہیں کیونکہ سائنس انسان کے ہر سوال کا جواب دینے کی استطاعت رکھتی ہے۔ یعنی سائنس بمقابلہ خدا! یہ علمی خیانت ہے جس کے مرتکب بڑے بڑے اسکالر ہیں۔
خدا کا انکار کسی بھی شخص کا ذاتی نظریہ ہی ہوتا ہے مگرجب کوئی عالم یا ماہر طبعیات اپنی علمی حیثیت میں اسکا اظہار کرتا ہے تو ایک تاثّر یہ بنتا ہے کہ اسکا علم بھی اسکی تائید کرتا ہوگا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سائنس کا دائرہ کار میٹا فزکس نہیں ہے لیکن پھر بھی جدید اسکالر خدا کو بھی طبعی پیرایوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جدید دور میں اکثرسائنسدان خدا کے وجود کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ سائنس خدا کی منکر ہے ، اسکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لبرل طبقہ سائنسی نظریات کا سہارا لیکر لادینیت اور دہریت کی ترویج کرتا ہے۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی جدید سائنس منکرِ خد اہو سکتی ہے؟
کائنات کے کسی بھی مظہرکی تشریح دراصل کسی نہ کسی سسٹم کی تشریح ہوتی ہے جو علم کہلاتا ہے اور اس طرح ریسرچ تو علوم کے ذخیرے میں اضافے کا نام ہوا۔ سطحی نظر سے دیکھیں تو علم کا حصول یا کسی دریافت کو انسان اپنی کامیابی گردانتا ہے لیکن گہرائی میں جاکر غور کریں تو علم کی موجودگی پر سوال اٹھتا ہے کہ یہ موجود کیسے ہے؟ میتھ، الجبرا، جیومیٹری اور دیگر علوم کے قوانین کس بنیاد پر وجود پذیر ہوئے؟ کیا خود بخود؟لیکن یہاں مناسب یہ ہوگا کہ پہلے ہم یہ جان لیں کہ جدید سائنسی علوم ہمیں ہمارے یعنی انسان کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں اور کیا نہیں کہ اسی سے ان کے دائرہ ٔ کار کا اندازہ ہو گا۔ مثلاً سائنس انسان کے جسم کے اندر کے سسٹم کو جان سکتی اور بتا سکتی ہے۔ جدید سائنس انسانی جسم کے ریشے ریشے کی تفصیل بتانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک بیمار شخص کے مرض کی تشخیص میں تمام دستیاب علوم اور لیبارٹری آلات ہمیں ایک رپورٹ مہیّا کرتے ہیں جس کی تفصیلات کسی ذی حیات کی موجودگی (انسان) اور اس میں موجود کوئی بیماری یا غیر معمولی حالت کی تصدیق یا تردید کرتی ہیں لیکن آپنے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی لیبارٹری ٹیسٹ میں مریض کی نشاندہی بھی ہوجائے یعنی اسکا نام بھی ٹیسٹ سے پتہ چل جائے۔ اسکا تعیّن کہ یہ رپورٹ کس شخص کی ہے صرف انسان ہی کرتا ہے نہ کہ کوئی ٹیسٹ یا آلات۔!!
یہی اہم ترین اور بنیادی نکتہ ہے جو سائنس کی حدود کار واضح کرتا ہے۔ سائنسی معلومات دراصل ہمارے اطراف مدفون علوم کی انسانی کھوج کے سیّال نتائج ہوتے ہیں۔ ان خام معلومات سے انسان نتائج اخذ کرکے اس سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ یہی معلومات نظریات کی تخلیق و تدوین میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ اس طرح معلومات کا مہیّا کرنے والاایک غیر جانبدار ذریعہ ہے جسے ہم نے سائنس کا نام دیا اورجس کی عقلی نظریات کے تعیّن میں محدود افادیت ہے۔ یہ صرف اور صرف انسان ہے جو کوئی نظریہ اخذ کرتا ہے سائنس نہیں۔ حقیقت میں علم (سائنس) اور انسان اپنے اپنے دائرۂ کار کے بموجب مل کر ہی کسی نتیجے یا نظریئے کا تعیّن کرتے ہیں۔ اس دور کے انسان کا تضاد یہ ہے کہ وہ سائنس کو فریق بناکر اس سے خدا کی تصدیق یا تردید کرانے پر کمر بستہ ہے جبکہ، جیسا ہم نے جانا، مفرد سائنس تو انسان کی بھی شناخت یا شخصی تصدیق سے قاصر ہے جو طبعی وجود رکھتاہے نہ کہ خداکی کہ جو شعور سے ماوراہے۔!
نئی سائنسی دریافتیں اور معلومات دراصل کسی نہ کسی اوجھل سسٹم کو ظاہر کرتی ہیں جس کی ابتدائی معلومات کی بنیاد پر انسان یہ تلاش کرتا ہے کہ اس سسٹم کی ساخت کیا اور کیوں ہے؟ سسٹم کے اندراس “کیوں” ہونے کے اسباب و علل کی چھان بین آخر کار ایسے نکتے پر لے آتی ہے کہ وہاں پر کیوں پر مبنی سوالات کے جو ابات سے سائنسی علوم قاصر ہوجاتے ہیں۔ مثلاً: ہم کیوں سانس لیتے ہیں تو جواب ہے کہ پھیپھڑے پھیلتے سکڑتے ہیں، یہ کیوں پھیلتے ہیں تو جواب یہی کہ زندگی کی وجہ سے، مگر سوال کہ زندگی کیوں ہے تو اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں۔ اس مقام پر انسان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ نتائج سے کیا اخذ کرے کہ کوئی سسٹم خود بن گیا یا بنایا گیا۔ یہیں پر انسان میں تفریق ہوتی ہے۔ ایسے مقام ِ دانش پر عقل، منطق اور استدلال پر انفرادی یا اجتماعی فیصلے ہوتے ہیں جو خالص انسانی ہوتے ہیں نہ کہ سائنس کے! اب جن سائنسدانوں یا مفکّرین نے یہ تائثر دیا یا دیتے ہیں کہ سائنس ایک فریق ہے جو خدا کے نہ ہونے کی تصدیق کر رہی ہے تو جان لیں کہ انہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا۔ یہ علم کی وضاحت کی خیانت ہے۔
ہم یہاں مختصراً سائنسی پیش رفت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں کہ عشروں پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ کائنات میں زندگی کے احیاء کے لیئے صرف مناسب طرز کا ستارہ اور اس سے مناسب فاصلے پر موجود کوئی سیّارہ ہونا ہی کافی تھا۔ اس طرح ایک اندازے کے مطابق کائنات میں ایک سیپٹلین septillion یعنی ایک کے آگے اکیس صفر کے برابر سیّارے زندگی کے لیئے مانوس فضا رکھتے تھے۔ گویااس نظریئے کے مطابق کائنات میں اندازاً بے حساب سیّاروں پر زندگی مختلف شکلوں موجود ہوسکتی تھی۔ لیکن وقت گزر نے کے ساتھ نئی معلومات سے زندگی کے احیا ء کے لیئے لازم لوازمات میں، جو کبھی چند تھے، اضافہ ہوتا گیا جو بڑھ کر دو سو تک جاپہنچے۔ مزید یہ کہ ان میں توازن کی چھان بین سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لازم لوازمات میں تناسب کے معمولی سے فرق کا مطلب زندگی کی تباہی ہے۔ اس طرح نئی معلومات کے بموجب زندگی کے لیئے مانوس ماحول والے سیاروں کی تعداد کھربوں سے گھٹتے گھٹتے چند ہزار رہ گئی۔ مزید یہ بھی جان لیں کہ توانائی کی چار قوّتیں جو کائنات کے جاری نظم کی ذمّہ دار ہیں اگر ان کے تناسب میں نہ محسوس ہونے والا انتہائی معمولی فرق بھی آجائے تو کائنات ختم ہوجائے گی۔
موجودہ دور کے سب سے قابل سائنسدان اسٹیون ہاکنگ جو خدا کے قائل نہیں وہ علمی طور پر وضاحت تو کرتے ہیں کہ کائنات “خود بخود” کیسے بنی یا بن سکتی ہے، لیکن اس عمل سے پہلے وہ ثقل gravity کے قانون کا موجود ہونا لازم ٹھیراتے ہیں، یعنی نیست ( کچھ بھی نہ ہونا) میں بھی کسی قانون کی موجودگی! جو مضحکہ خیز سے بھی ایک درجہ اوپر ہے۔ ان کا فرمانا ہے، “کیونکہ ایک قانون، جیساکہ کشش کا قانون، موجود ہے تو کائنات نیست سے خود کو نہ صرف بنا سکتی ہے بلکہ بنائے گی، اس طرح کہ جیسے وضاحت کی گئی باب ۶ میں۔ ۔ ۔ ۔ ـ””Because there is a law like Gravity, Universe can and will create Itself from Nothing in the manner discribed in chapter 6…..”Stephen Hawking, The Grand Design, page 227
کیا یہ مفروضہ یا دلیل سائنسی ہوسکتی ہے جس کی بنا پر خدا کے وجود کو سائنس مسترد کردے؟ یہ تو منطقی بھی نہیں کیونکہ اگر نیست nothing ہے تو اس میں قانون نہیں اور اگر قانون ہے تو پھر وہ نیست نہیں! یہ تو بڑی سادہ بات ہے۔یہیں پرآگے یہ بھی لکھتے ہیں کہ “اچانک تخلیق ہی وجہ ہے کہ یہاں نیست nothing کی جگہ ہست thing ہے اور کائنات اور ہم موجود ہیں۔ ہمیں کائنات کا نظام چلانے کے لیئے خدا کو پکارنے کی ضرورت نہیں۔”ہاکنگ صاحب کی اس دلیل بلکہ تصورکو کہ نیست nothing میں قانون ثقل موجود تھا، قبول کرنے والے افراد بھی ہیں اور اس کا مضحکہ اُڑانے والے بھی۔
جیسا کہ ہم نے جانا کہ کسی سائنسدان کی رائے اسکی ذاتی رائے ہوتی ہے سائنس کی نہیں۔ جو لوگ ان کے انکار خدا کو، جو نصف تصوراتی وغیر منطقی مفروضے پر اور نصف علم پر مبنی ہے، قبول کرتے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ سائنسی تھیوریز غیر منطقی مفروضات پر استوار نہیں کی جاتیں۔ گویا کائنات کا اس طرح بننا کوئی ثابت شدہ سائنسی حقیقت نہیں بلکہ ایک شخص کا کھلا غیر منطقی استدلال ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو وہ غیر ارادی طور پر کائنات کی تخلیق کے وقت کسی قوّت کے قانون کی موجودگی کا اقرار کرکے خدا کے کردار کا بالوسطہ اقرار بھی تو کر رہے ہیں!
ذرا سوچیں۔
کبھی الحاد کی چوٹی پر کھڑے سائنسدان اپنے پچھلے نظریات کی تردید کرتے کرتے جس ڈھلان پر لڑھک رہے ہیں وہ جلد ان کو زمین پر لا ڈالنے والا ہے۔ کیونکہ دلیل اور بے داغ منطق سے خالی تصوّراتی نظریات کی سائنس میں گنجائش نہیں۔ تمام احباب خواہ وہ نظریاتی طورپر سیکولر ہوں، یا لبرل، دہریہ ہوں یا سائنس سے مرعوب دنیا دار و بے عمل مسلمان یہ اچھی طرح جان لیں کہ سائنس کے اپنے بڑھتے قدم ہی خسدا کے انکار کے تمام باطل نظریات کو غلط ثابت کرنے والے ہیں، بلکہ زیادہ درست یہ کہنا ہوگا کہ علمی اور عقلی طورتو ثابت ہونے میں کسر نہیں رہ گئی بس انسان کی انا کہ ضد کا بندھن کب ساتھ چھوڑے۔
عرض یہی ہے کہ قرآن کے چیلنج کو معمولی نہ لیں جس میں کہا گیا ہے کہ انسان کو عنقریب اس کے اندر اور کائنات میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ اس پر واضح ہوجائے گا کہ یہی سچ ہے۔ ۔ ۔ (قرآن۔ 53:41(
تو اس وقت کامنکرین بھی انتظار کریں اور ہم بھی کرتے ہیں!