معجزات کی سائنسی افادیت

معجزات کے عقلی و سائنسی پہلووں پر مختلف محققین نے طبع آزمائی کی ہے ، صاحبِ تفسیر عثمانی مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ‘ اسلام اور معجزات’میں لکھا کہ معجزات قوانین فطرت کے خلاف نہیں ہوتے بلکہ ایک اعلی قانون فطرت پر ہی مشتمل ہوتے ہیں جسکو ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے جان نہیں پاتے اور اسے قوانین فطرت کے خلاف سمجھنے لگتے ہیں جیسے اگر آج سے تین صدی پہلے کا کوئی آدمی جہاز کو اڑتا دیکھ لے تو وہ اسے بھی معجزہ خیال کرے گا ۔پیش نظر تحریر معجزات کے موضوع پر ایسے ہی نکات کو بیان کرتی ایک منفرد تحقیق ہے جو جدید مسلم تشکیکی ذہن کے اطمینان کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ ہمارا اس تحریر کی ہر بات اور نتیجے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈمن
٭٭
معجزات کا موضوع صدیوں سے فلاسفہ، متکلمین اور مسلم علماء و مفکرین کے ہاں زیرِ بحث رہا ہے اور حقیقت معجزہ، تاویل معجزہ، دفاع معجزہ، معجزات انبیاء اور معجزات خاتم الانبیاء جیسے اہم اور متنوع موضوعات پر مشتمل تصنیفی ادب کا بہت بڑا ذخیرہ کتب خانوں کی زینت بن کر اہل علم کی تسکین و تشفی کا سامان بہم پہنچا رہا ہے۔ یہ موضوع مسلم اور غیر مسلم ہر دو مفکرین کی فکری جولا نگاہوں کا مرکز رہا ہے۔ غزالیؒ، رازیؒ اور ابن تیمیہؒ کی تحقیقات، ان کی علمی، فکری اور ذہنی توانائیوں کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ متاخرین میں سے سرسید احمد خان، شبلی نعمانی، ڈاکٹر اقبال، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، سید سلمان ندوی، عبدالباری ندوی، غلام احمد پرویز اور شیخ مصطفیٰ صبری بک نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے معجزات کی تشریح و توضیح کی ہے۔ [1]مغربی فلسفہ میں سے وولسٹن (Woolston)، ہکسلے (Huxley)، ہیوم(Hume) نے انکار معجزات پر عقلی استدلال سے کام لیا ہے جس پر خود مغربی مفکرین نے نقد و جرح (Criticism) کی ہے۔[2]
قرآن حکیم نے جو کہ تاقیامت پوری انسانیت کے لئے خالق کائنات کی طرف سے آخری صحیفہ ہدایت ہے، انبیاء کرام ؑ کے متعدد معجزات کو محفوظ کر دیا ہے اور قرآن حکیم کی شہادت ان معجزات کے یقینی ہونے کا قطعی ثبوت ہے۔
قرآنیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے یہ سوال راقم کے ذہن میں بار بار کھٹکتا رہا کہ سابقہ انبیاء کرام کے خوارق و معجزات کا قرآن حکیم میں تفصیل اور تکرار کے ساتھ اعادہ کس حکمت کے تحت ہوا ہے؟ قرآن حکیم کا عمومی اسلوب تو واضح ہے کہ وہ غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف ان واقعات و مضامین کو اجمال و اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے جن میں انسانیت کے لئے ہدایت و راہنمائی اور وعظ و نصیحت کا کوئی نہ کوئی پہلو موجود ہو۔ معجزات کے حوالے سے ہمارے لئے اس کتاب ہدایت میں راہنمائی کا کون سا پہلو موجود ہے؟ راقم نے اس مقالہ میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نتائج فکر قطعی اور حتمی نہیں۔ نہ ہی راقم کو ان کی صحت پر اصرار ہے۔ تاہم ان پر بحث کی کافی گنجائش موجود ہے جنہیں اپنے محدود اور ناقص علم کی روشنی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
محققین کے نزدیک معجزہ وہ خلاف عادت چیز ہے جو سوال اور دعویٰ (نبوت) کے بعد ظاہر ہو جو ہر حیثیت سے محال نہ ہو اور لوگ باوجود کوشش اور تدبیر کے اس قسم کے معاملات میں پوری فہیم و بصیرت رکھتے ہوئے بھی اس کے مقابلہ سے عاجز ہوں۔ (حد المعجزة ان يظهر عقيب السؤال والدعویٰ ناقصاً للعادة من غير استحالة بجميع الوجوه يعجز الناس عن اتيان مثله بعد التجهد والاجتهاد اذا کان بهم حذاقة وزرافة فی مثل تلک الصنيعة)۔[3]
بعض دیگر علماء نے سوال اور مطالبے کی شرط ذکر نہیں کی کیونکہ بہت سے معجزات سوال اور مطالبے کے بغیر بھی پیش ہوتے رہے۔
معجزہ کے ذریعہ چونکہ ایسا واقعہ ظہور میں آتا ہے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہوتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مدعی نبوت رب العالمین کا نمائندہ ہے جس نے اس کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اپنی براہ راست مداخلت سے وہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیا ہے اس لئے یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ معجزات سے مقصود بنیادی طور پر نبی کی نبوت و صداقت اور قدرت خداوندی کا اظہار و اثبات ہے مگر یہ دعویٰ، جب کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ معجزات کا ظہور اسی مقصد کے لئے ہے، ہماری ناقص رائے میں محل نظر ہے۔ کیونکہ سب معجزات نہ تو کفار کے مطالبے پر پیش کئے گئے اور نہ ہی ان سے مقصود نبوت کی تائید و تصدیق تھی۔ بہت سے معجزات کا مقصد مومنین کی مادی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل و مشکلات کا ازالہ بھی تھا۔ انبیاء کرام نے انسان کی روحانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ان کی مادی فلاح اور ترقی کے وہ نمونے پیش کئے جن پر آج سائنس ترقی کی معراج تک پہنچنے کے باوجود بھی انگشت بدنداں ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے کئی ایک معجزات اسی نوعیت کے ہیں جو اسرائیلیوں کے سامنے ظاہر ہوئے جو موسیٰؑ کی نبوت پر ایمان اور قدرتِ الٰہیہ پر اعتقاد رکھتے تھے مثلاً صحراء سینا میں ان کے لئے خوراک کا انتظام ہوا: ﴿وَأَنْزَلْنَا عَلَيْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى﴾[4] یعنی ﴿اور ہم نے تم پر من و سلویٰ اتارا﴾ اور ان کے پانی کا انتظام کیا: ﴿فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ﴾[5] یعنی ﴿ہم نے کہا پتھر پر اپنا عصا مارو پھر اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے﴾، سورج کی گرمی اور تپش سے حفاظت کے لئے بطور معجزہ بادلوں کے سائے کا انتظام ہوا: ﴿وَظَلَّلْنَا عَلَيْکُمُ الْغَمَامَ﴾[6] یعنی ﴿ہم نے ان کے لئے بادلوں کے سایہ کا انتظام کیا﴾۔
حضرت عیسیٰؑ کے طب سے متعلقہ معجزات جن کے ذریعے وہ مادر زاد اندھوں اور کوڑھ کے مریضوں تک کا علاج فرما کر انہیں تندرست کر دیتے تھے یہ بھی اسی نوع سے متعلق ہیں۔ اس قسم کے معجزات سے اصل مقصود تو قدرت الٰہی کا اظہار و اثبات ہے مگر ان کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ معجزات بظاہر مظاہرِ فطرت کی تسخیر اور ان سے استفادہ کو عملاً ممکن بنا کر سائنسی ترقی کا اہم محرک (Motive) بھی ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے اس امکان کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کائنات میں جو واقعات بصورت معجزات خلاف عادت طور پر ظاہری اسباب کے بغیر ظہورمیں آئے ہیں ان کا اسباب کے تحت بھی وجود میں آنا ممکن ہے۔ سوائے ان معجزات کے جن کے متعلق یہ بتلا دیا گیا ہو کہ ان کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی جیسا کہ قرآن مجید کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی مثل ایک سورۃ بھی پیش نہیں کی جا سکتی[7] جو کہ آنحضرت ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے اور قیامت تک انسانیت کے لئے کھلا چیلنج ہے۔
علم و تحقیق کے میدان میں مشاہدات و تجربات کے ذریعے جو چیز سائنسی حقیقت (Scientific Truth) کی حیثیت اختیار کرتی ہے، ابتداء میں اس کی حیثیت ایک مفروضے کی ہوتی ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے جن جن شعبوں میں انسانیت نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ان کے بہترین نمونے معجزات انبیاء میں موجود ہیں۔ محققین اور سائنسدانوں نے انہی مفروضات کی بنیاد پر اپنے تجربات و مشاہدات کے ذریعہ مادی اسباب کے تحت اور فطرتی قوانین (Law of Nature) کے دائرے میں بہت سی ان چیزوں کو ممکن بنا دیا ہے جنہیں اس سے قبل ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔ آج بھی ان نمونوں (Models) کو سامنے رکھ کر ترقی کی ان منازل کو طے کیا جا سکتا ہے جن تک انسانیت کی رسائی تا حال ممکن نہیں ہو سکی۔ مسلمانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں علمی پسماندگی کے پسِ منظر میں معجزات کے متعلق یہ مباحثہ (Debate) اور نقطۂ نظر اہل علم و تحقیق کی خصوصی توجہ کا طالب ہے جس کی طرف مسلم علماء نے کوئی توجہ نہیں دی البتہ اس اہم نقطہ کی بنیاد ہمیں اس گفتگو سے ملتی ہے جو برصغیر کے نامور محدث اور اپنے دور میں اسلامی شریعت و فلسفہ کی نابغہ شخصیت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ (جن کے علوم و معارف سے ڈاکٹر اقبال مرحوم فیضیاب ہوئے) اور ڈاکٹر اقبال کے درمیان ہوئی۔ علامہ کشمیری نے اقبال مرحوم سے اپنی گفتگو میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [8] راوی لکھتے ہیں:
ڈاکٹر اقبال مرحوم کے سامنے حضرت شاہ صاحب (مولانا انورشاہ کشمیری ؒ) نےجو علمی جواہرات بیان فرمائے ان میں ایک موضوع یہ تھا کہ امت میں سائنس و طبعیات میں جو حیرت انگیز ترقیاں ہوئی ہیں انبیاء کے معجزات میں ان کی نظیریں موجود ہیں اور انبیاء کرام کے معجزات میں یہ چیزیں قدرت نے اس لئے ظاہر کروائیں کہ یہ آئندہ امت کی ترقیات کے لئے تمہید ہوں اور فرمایا کہ “ضرب الخاتم” میں اس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔[9]
اس نقطۂ نظر کی روشنی میں جب ہم معجزات کا جائزہ لیتےہیں تو ہمیں آج بھی ان کی افادیت اور اہمیت نمایاں نظر آتی ہے۔جنہیں قرآن حکیم تکرار اور اعادے کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ ان معجزات نے نہ صرف مفروضات کو سائنسی حقائق بنانے میں مدد دی ہے بلکہ وہ آج بھی سائنسی ارتقاء کا ایک اہم محرک ہیں۔ معجزات کی سائنسی افادیت کی توضیح درج ذیل مثالوں سے بخوبی ہوسکتی ہے:
۱۔قرآن حکیم میں ہے جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کا حکم ہوا۔ ﴿قُلْنَا يَا نَارُ کُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ﴾[10] یعنی ﴿ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم ؑ پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا﴾ اگرچہ آگ جلاتی ہے مگر اس سے آکسیجن کو خارج کر دیا جائے تو وہ فوراً بجھ جاتی ہے ممکن ہے اللہ نےاپنی قدرت کے ذریعے آگ کو ٹھنڈا کر دیا ہو یا ان کے جسم میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی ہو۔ (دوسری توجیہ زیادہ قرین قیاس ہے( جس کے ذریعے ان پر آگ اثر انداز نہ ہو سکے یہ معجزہ آگ سے تحفظ کے فطرتی قوانین تک رسائی کے لئے اہم محرک ثابت ہوا ہے اور آج ایسے مخصوص پینٹس (Paints) ایس بس ٹاس (Aesbestos) اور فائر پروف لباس وجود میں آ چکے ہیں جن کے استعمال کے ذریعہ آگ کے اثرات سے بچا سکتا ہے اور خلانورد (Astronaut) خلائی سفر میں ایسا لباس استعمال کرتے ہیں جن پر آگ اثر انداز نہیں ہوتی اور قرآن کریم نے اس معجزہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ دوسرے مقام پر اسی قسم کے لباس کی پیشنگوئی کر کے سائنسی تحقیق کے لئے مہمیز کا کام دیا ہے: ﴿وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِيلَ تَقِيکُمُ الْحَرَّ﴾[11] یعنی ﴿اور تمہارے لئے ایسے لباس بنا دیئے جو تمہیں گرمی (آگ) سے بچاتے ہیں﴾۔
۲۔قرآن حکیم نے حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ ولادت کو جو بغیر باپ کے ہوئی، حضرت آدمؑ کے ساتھ تشبیہ دی ہے: ﴿إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُنْ فَيَکُون﴾[12] ﴿بے شک اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ جیسی ہے اسے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا ہو جا تو وہ ہو گیا﴾۔ جو بغیر ماں باپ کےپیداہوئے۔ آج جدید سائنس مرد کی کسی بھی نوعیت کی وساطت کے بغیر کنواری لڑکیوں کے بطن سے بچے پیدا کرنے کے کامیاب تجربات کر رہی ہے۔ [13] اور جدید تجربات بتلا رہے ہیں کہ ولادت کی دیگر صورتوں کا بھی وجود میں آنا ممکن ہے۔ حشرات الارض میں تو یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بہت سے جاندار نر کی جانب سے بار آوری کے بغیر ہی پیدا ہوتےہیں اور غیر جنسی تولید کے ذریعے افزائش نسل کرتے ہیں۔ بھڑوں (Wasps) میں بھی یہ صورت ہے جن میں نسل نر کے توسط کے بغیر صرف مادہ ہی سے چلتی ہے۔[14]
مگر انسانوں سے متعلق کئے جانے والے جدید تجربات بتلا رہے ہیں کہ ولادت کی دیگر صورتوں کا بھی وجود ممکن ہے اوریہ تجربات قرآن کے آدمؑ اور عیسیٰؑ کی تخلیق اعجازی پر مہر تصدیق ثبت کر کے تشکیکی ذہنیت کو مطمئن کر سکیں گے۔
۳۔حضرت عیسیٰؑ کے دور میں فنِ طب (Medical Science) عروج پر تھا مگر آپ نے اپنے معجزات کےذریعے اس فن کو عروج کمال (Climax) تک پہنچا دیا۔ آپؑ باذن الٰہی بے جان سے جاندار پیدا کر دیتے تھے ﴿أَنِّي أَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّينِ کَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَکُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ﴾[15] یعنی ﴿میں تمہارے لئے گارے سے پرندے کی شکل بنا دیتا ہوں پھر اس میں پھونکتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے﴾، آپ مردوں کو زندہ کرتے تھے ﴿وَأُحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ﴾[16] اور لاعلاج مریضوں، مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے اللہ کے حکم سے ﴿وَأُبْرِئُ الْأَکْمَهَ وَالْأَبْرَصَ﴾۔[17]
میڈیکل سائنس انتہائی ترقی کے باوجود تا حال اس منزل کو نہیں پا سکی کہ وہ حیات کے قانون سے واقف ہو سکے۔ البتہ اس سمت میں پیشرفت جاری ہے اور انسانی جسم کو منجمد کر کے اسے طویل عرصے تک زندہ رکھنے کے تجربات ہو رہے ہیں اور یہ نمونے ہمیں تحقیق و تفکر کی دعوت دے رہے ہیں اور اگر مادی اسباب، غذا، ادویہ اور سرجری وغیرہ کے ذریعے ان منزلوں کی طرف قدم بڑھایا جائے تو کامیابی کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ممکن ہے کسی وقت مردوں کو زندہ کرنے کی تدبیر سے بھی انسان واقف ہو جائے اور خود آپﷺ نے ایک حدیث میں “دجال” کے متعلق یہ پیشن گوئی فرمائی ہے کہ وہ مردے کو زندہ کرے گا۔ حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان جب دجال کےمنہ پر اسے جھوٹا کہے گا تو اسے دجال کے حکم پر آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد دجال اسے حکم دے گا کہ زندہ ہو جا وہ صحیح سلامت اٹھ کر زندہ ہو جائیگا۔ پھر دجال اس سے سوال کرے گا کہ اب میرے بارے میں کیا کہتے ہو تو وہ جواب دے گا کہ مرنے کے بعد مجھے تیرے جھوٹا ہونے کا مشاہدہ ہوا ہے اس لئے اب تو مجھے تیرے جھوٹا ہونا کاپورا یقین ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ دجال کو دوبارہ مومن کے مارنے پر قدرت نہ ہو گی۔
محقق فاضل مولانا مناظر احسن گیلانی نے اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے احیائے موتیٰ کو انسان کے لئے ممکن قرار دیا جس کی وجہ وہ انسانی زندگی کے قانون سے واقفیت قرار دیتے ہیں۔[18]
واضح رہے کہ قرآن مجید نے احیاء موتیٰ سے متعلق متعدد معجزات مختلف پیغمبروں کے حوالے سے ذکر کئے ہیں مثلاً حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ چار پرندوں کا زندہ ہونا۔[19] حضرت عزیرؑ اور ان کے گدھے کا سو سال بعد زندہ ہونا۔[20]
گویا قرآن حکیم کے مطابق اس مادی زندگی میں مردہ کےزندہ ہونے کے متعدد نمونے گزر چکے ہیں۔
۴۔معجزات موسیٰؑ میں قرآن حکیم نے عصاء موسوی کے اژدھا بن جانے کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔ اس نمونہ کو سامنے رکھ کر ماہیت اشیاء کی تبدیلی کے مفروضے کو سائنسی حقیقت بنانے پر توجہ دی جا سکتی ہے۔
انقلاب ماہیت کی توضیح کو ایک سائنسدان سر افرانسیس ینگ ہسبڈ کے ایک اقتباس سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے جو دراصل اس نے وجود باری کے اثبات میں پیش کیا ہے وہ لکھتا ہے:
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری یہ زمین کھولتے ہوئے سورج سےنکلی تھی تو ان بے پناہ تبدیلیوں پر حیرت ہوتی ہے جن کی آخری کڑی دامن کوہ کا ننھا سا رنگین پھول تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیر مرئی طاقت نے ناچتے ہوئے شعلوں کو رام کر کے مسکراتے ہوئے پھولوں میں بدل دیا … جب سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وادی تبت کا ننھا سا پھول کسی وقت بھڑکتے ہوئے سورج کا شعلہ تھا تو اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سورج کے شعلے سے پھول تک کا طویل سفر کسی راہنماء کی نگرانی میں طے ہوا ہو گا ورنہ ایک شعلے میں اتنی دانش کہاں کہ وہ ہزاروں انقلابات سے گزر کر از خود پھول کی ہیئت اختیار کر سکے۔[21]
اس اقتباس کی روشنی میں یہ سمجھنا ہمارے لئے زیادہ آسان ہے کہ سائنسدانوں کے نزدیک اگر سورج کے شعلے سے پھول تک کا سفر کروڑوں اربوں سال میں طے ہو سکتا ہے تو عصا کا اژدھا بننا اور اشیاء کی ماہیت کا تبدیل ہونا کیونکر مستبعد (Improbable) ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے تحقیق و تجربات کی روشنی میں انسان کی رسائی ان قوانین تک ہو سکے جن کے ذریعے ماہیت کی تبدیلی کا طویل عمل (Long process) مادی اسباب کے تحت کم سے کم وقت میں ممکن ہو سکے جس کے نمونے انبیاء کے معجزات میں پیش ہو چکے ہیں۔
۵۔حضرت داؤدؑ کےمعجزات میں سے ایک معجزہ ان کی خوش الحانی اور صوتی تأثر ہے۔ جب وہ زبور کی تلاوت اور خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہوتے تو حیوانات و جمادات ، پہاڑ اور پرندے بھی ان کی ہمنوائی کرتے۔ قرآن میں ہے: ﴿إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ. وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً کُلٌّ لَهُ أَوَّابٌ﴾[22] یعنی ﴿ہم نے پہاڑوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا۔ کہ وہ صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اورپرندے بھی جمع رہتے تھے اور سب ان کے فرمانبردار تھے﴾۔ اس معجزے سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ صوتی تاثرات کے ذریعے حیوانات اور پرندوں تک کو مسخر کیا جا سکتا ہے اوریہ کہ جمادات تک میں ایک قسم کی حیات اور شعور موجود ہے جس کی بناء پر وہ تسبیح میں مشغول رہتے تھے اور اس کی تائید دوسری قرآنی آیت سے بھی ہوتی ہے: ﴿وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾[23] یعنی ﴿کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی نہ بیان کرتی ہو﴾۔
آپﷺ کے معجزات میں بھی ایسی متعد مثالیں موجود ہیں جن میں نباتات و جمادات کے احساس و شعور کا سراغ ملتا ہے۔ مثلاً درختوں اور پتھروں کا آنحضرتﷺ کو سلام کہنا۔[24] درخت کے خشک تنے کا آنحضرتﷺ کے فراق میں رونا وغیرہ۔[25]
۶۔حضرت داؤدؑ نے زرہوں، جنگی آلات اور ہتھیاروں کو ترقی دے کر ایسی جدید صنعت ایجاد و متعارف کروائی جس سے لوگ اس سے قبل متعارف نہ تھے۔ اس ٹیکنالوجی میں مہارت کی بدولت آپ نے اپنا دفاع اس حد تک مضبوط کیا کہ قرآن حکیم بھی انہیں ﴿ذَا الْأَيْد﴾ [26]یعنی ﴿بڑی قوت و طاقت والا﴾ کے القاب سے یاد کرتا ہے اور آپ کی قائم کردہ حکومت کی مضبوطی اور استحکام کی تعریف کرتا ہے: ﴿وَشَدَدْنَا مُلْکَهُ﴾[27] یعنی ﴿ہم نے ان کی سلطنت کو مستحکم کیا﴾۔
حضرت داؤد ؑ کا یہ معجزہ لوہےکی افادیت کا تصور اجاگر کر کے راہنمائی کر رہا ہے کہ لوہے کو کسی بھی سائنسی عمل (Scientific Process) کے ذریعے نرم کر کے (پگھلا کر) دفاعی ٹیکنالوجی اور مفید ایجادات کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آج لوہے اور اسلحہ کی صنعت کی ترقی حضرت داؤدؑ کی معجزانہ صلاحیت اور اس فن میں ان کی دلچسپی اور مہارت کے ذریعے ممکن ہوئی ہے اور جس طرح داؤدؑ نے دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت حاصل کر کے مستحکم اور مضبوط حکومت کی بنیاد رکھی آج امت مسلمہ اس ماڈل کو اپنا کر مادی اور روحانی غلبہ کے ذریعے طاغوتی قوتوں کو زیر کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو امن و سلامتی اور حقیقی ترقی و فلاح سے آشنا کر واسکتی ہے۔ قرآن حکیم اس دفاعی ٹیکنالوجی کی اہمیت کوذوالقرنین کے واقعہ سے بھی اجاگر کرتا ہے اور مشرق و مغرب میں اس کی فتوحات اور جنگی مہموں کی نشاندہی کرتا ہے۔[28] جسے قرآن کی رو سے اپنے دور کی جدید ترین ٹیکنالوجی میں بھر پور مہارت حاصل تھی اور اس کے ذریعے اس نے اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا اور یاجوج ماجوج جیسی وحشی مخلوق کی یلغار روکنے کے لئے لوہے، پگھلے ہوئے تانبے اور پتھروں پر مشتمل ایسی دیوار تعمیر کی جو سد ذوالقرنین کے نام سے مشہور تھی۔ یہ نمونے امت مسلمہ کو دعوت فکر دے رہے ہیں کہ “سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری حاصل کر کے آج بھی اپنے دور کے یاجوج ماجوج کی یلغار کو روک کر اپنے دفاعی حصار کو اس قدر مضبوط بنا سکتی ہے کہ کسی کو اس میں شگاف اور رخنہ ڈالنے کی ہمت و جرأت نہ ہو سکے۔ اور وہ دفاعی حصار سد ذوالقرنین کی طرح اس قدر مضبوط ہو جائے کہ قرآن کے الفاظ میں﴿فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا﴾[29] یعنی ﴿یعنی ان میں نہ تو اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے﴾ کی تعبیر ان پر صادق ہو سکے۔
واضح رہے کہ جدید سائنس اور فولادی صنعت (Steel Technology) میں مہارت کے بغیر اس منزل تک رسائی ممکن نہیں جس کی اہمیت اور افادیت کی طرف قرآن حکیم کی ایک دوسری آیت غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔ ﴿وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ﴾[30] یعنی ﴿ہم نے لوہے کو اتارا (پیدا کیا) جس میں بڑی قوت ہے اور لوگوں کے لئے بے شمار فوائد ہیں﴾۔
۷۔معجزات یوسفؑ میں سے ایک اہم معجزہ خوابوں کی درست تعبیر ہے جو حضرت یوسفؑ نے جیل میں مقید دو قیدی ساتھیوں اور بادشاہ کے خوابوں کے جواب میں بتلائی تھی۔[31] احادیث میں آنحضرت ﷺکی مختلف پیشنگوئیوں کا بھی ذکر ہے جن میں سے بعض خواب کے ذریعے آپ کو معلوم ہوئیں جو در حقیقت معجزات ہیں۔ معجزات ہماری اس طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ مستقبل کی پیش بینی ممکن ہے۔ خوابوں کے علم میں تحقیق کے ذریعہ ہم مستقبل میں پیش آنے والے کئی ایک واقعات کی پیشنگوئی کر سکتے ہیں اور ممکنہ خطرات اور مصائب و مشکلات سے تحفظ کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ جب کہ حضرت یوسفؑ کی قحط سالی سے تحفظ کے لئے کی جانے والی کاوشوں سے ظاہر ہے جن کا قرآن حکیم نے خاص طور پر حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے نہ صرف خواب کی درست تعبیر بتلائی بلکہ اپنی حکمت و دانش کے ذریعہ بہتر منصوبہ بندی کر کے ملک مصر کو خشک سالی کے مضر اثرات سے بھی بچا لیا۔ یہ میدان تا حال سائنسدانوں کی تحقیق و توجہ کا طلبگار ہے اور اس میں تحقیق و تجربات کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
۸۔حضرت سلیمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے تسخیر جنات و طیور اور تسخیر ہوا کے معجزات عطاء فرمائے تھے۔ حضرت سلیمانؑ کا لشکر نہ صرف انسانوں پر مشتمل تھا بلکہ ان کے زیرِ تصرف جنات اور پرندوں کے بھی الگ الگ لشکر تھے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ﴾[32] یعنی ﴿اور سلیمان کے پاس ا ن کے لشکر جنات انسانوں اور پرندوں کی صورت میں جمع تھے﴾۔ قرآن کریم کے بقول ان کے لئے شیاطین مسخر تھے ۔ ﴿وَالشَّيَاطِينَ کُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ﴾[33] ان کے لئے شیطانوں کو تابع کر دیا گیا تھا جو معمار اور غوطہ زن تھے جن سے وہ دیگر کام بھی لیا کرتے تھے۔[34] انہوں نے سرکش شیاطین کو جو تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھے اپنی روحانی قوت کے بل بوتے پر تخریبی سرگرمیوں کے لئے آزاد چھوڑنے کے بجائے مسخر کر کے تعمیری اور مثبت کاموں میں لگا دیا تھا جو حضرت سلیمانؑ کا اعجاز اور عظیم کارنامہ ہے۔ یہ معجزہ راہنمائی کرتا ہے کہ اس کائنات کے اندر مخفی قوتیں اور مخلوقات موجود ہیں جنہیں مسخر کر کے ان سے تعمیری کام لئے جا سکتے ہیں، اور اس بات کا امکان ہے کہ کل ہماری دسترس میں وہ مادی اسباب اور قوانین بھی آ سکیں جن کے ذریعے ان قوتوں کی تسخیر بھی ممکن ہو سکے۔ (جنہیں آج بھی بعض روحانی اسباب کے ذریعہ مسخر کیا جا سکتا ہے)۔
واضح رہے کہ اب مخفی علوم (Parapsychology) کی تحقیقات کے ذریعہ مخفی قوتوں کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جانے لگا ہے۔ سائنسدان اور عقل پرست جو اس سے قبل جنات کے وجود کے منکر تھے اب انہیں ممکن سمجھے لگے ہیں۔ سٹیفن ایچ ڈول اور کارل سیگان جیسے نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں جنات جیسی مخلوق کا پایا جانا ممکن ہے جو بغیر غذا کے زندہ ہو، اور جس کے لئے فضا میں پرواز کرنا اور نگاہوں سے غائب ہو نا اور مختلف شکلیں اختیار کرنا ممکن ہو۔
ڈاکٹر ھیرالڈسی ارے نے “The Chemical World” میں سلیکون ، سلفر اور فلورین گیس سے مرکب ایسی مخلوق کے وجود کو ممکن ثابت کیا ہے جسے نہ غذا کی ضرورت ہو اور نہ ہی وہ مسلسل ایک خاص ہیت میں موجود ہو۔ جنات کے وجود کو بعض امریکن Spiritual Scientiests ڈاکٹر سرلاج، ڈاکٹر سرجیمسن اور پروفیسر جوڈ نے بھی اپنی تحقیقات کے ذریعے ثابت کیا ہے۔[35]
۹۔حضرت سلیمانؑ کو بطور معجزہ پرندوں کی بولیوں کا علم بھی عطاء ہوا۔ قرآن میں ہے: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ﴾[36] یعنی ﴿اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے﴾۔ قرآن حکیم نے حضرت سلیمانؑ کی چیونٹیوں کی گفتگو سننے اور ھُدھُد پرندے سے ان کے مکالمہ اور گفتگو کا خاص طور پر حوالہ دیا ہے۔[37] پرندوں کی بولیوں کے علم کو جسے قرآن حکیم حضرت سلیمانؑ کے معجزانہ کمالات میں سے قرار دیتا ہے اس علم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے متعلق تفصیلی واقعات اور باہمی مفصل گفتگو کو بھی نمایاں کر رہا ہے جس کے ذریعے اس علم کے سمجھنے کی بھی ترغیب مل رہی ہے۔ آج اس علم میں دسترس حاصل کر کے اور حیوانات اور پرندوں کی تربیت کے ذریعے انسانی فلاح و بہبود کے متعدد مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں اور کئے جا رہیں ہیں جن کا تصور ان معجزات نے فراہم کیا ہے۔ قرآن حکیم کے بیان کے مطابق حضرت سلیمانؑ ھُد ھُد پرندے سے پیغام رسانی کا کام لیتے تھے اور مفسرین کے نزدیک پانی کی تلاش میں بھی اس سے مدد لیتے تھے اور بعض پرندے اپنی غیر معمولی ذہانت اور فطری جبلت کی بناء پر زیادہ مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں جیسا کہ ھُد ھُد پرندے کی گفتگو سے واضح ہے جسکی تفصیل قرآنی آیات میں دی گئی ہے۔ Animal Sciences میں اس تصور کی روشنی میں حوصلہ افزاء پیش رفت ہو رہی ہے اور شاید وہ دن دور نہیں جب انسان حیوانوں اور پرندوں کی بولیوں کو سمجھنے پر اس طرح قادر ہو جائے جس طرح وہ خود انسانی بولیوں کو سمجھنے پر قدرت رکھتا ہے۔
Ethology اور Ornithrology جیسے حیاتیاتی علوم بہتر طور پر جانوروں کی حرکات و سکنات اور بولیوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
۱۰۔حضرت سلیمانؑ کو تسخیر ہوا کا معجزہ بھی عطاء ہوا۔ قرآن حکیم میں ہے؛ ﴿وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ﴾[38] یعنی ﴿اور سلیمانؑ کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ ان کی صبح کی منزل بھی اور شام کی منزل بھی ایک ماہ بھر کی ہوتی﴾ یعنی ہوا ان کے تخت کو اڑا کر ایک ماہ کی مسافت کو صبح یا شام کے وقت میں طے کرا لیتی تھی اس معجزے نے پرندوں کی طرح ہوا کے دوش پر اڑنے کی انسانی خواہش کو مہمیز دی اور اس تصور کو ممکن بنا دیا کہ انسان فضا میں سفر کر سکتا ہے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مسافت کو طے کر سکتے ہے۔ آج جدید ترین اور تیز رفتار سواریوں نے نقل و حمل کو آسان بنا دیا ہے اور قرآن حکیم کی ایک آیت میں بھی انسانی تحقیق و تجربہ کو ایک پیشنگوئی کے ذریعے مزید تحریک دی گئی ہے: ﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾[39] یعنی ﴿اور وہ ایسی چیزیں (سواریاں) بھی پیدا کرے گا جنہیں تم نہیں جانتے﴾۔ احادیث نبویﷺ می ں زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ پیشنگوئیاں موجود ہیں۔
حضرت سلیمانؑ کے ایک صحابیؓ آصف برخیا نے آنکھ جھپکنے سے کم مدت میں ملکہ سبا کے تحت کو تقریباً 900 میل کے فاصلے سے حاضر کر کے یہ تصور بھی دیا ہے کہ مادی اجسام کی اس قدر تیز رفتاری سے بھی نقل و حرکت ممکن ہے۔ جو آج کی سائنس کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان معجزاتی نمونوں کے زیرِ اثر تحقیقی تجربات ہو رہے ہیں۔ آج سائنسدانوں نے صوتی لہروں کو ریڈیائی لہروں میں تبدیل کر کے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آواز،تصاویر اور پیغامات کو دور دراز مقامات تک پہنچانے اور وصول کرنے کا مرحلہ تو بڑی کامیابی کے ساتھ کر لیا ہے مگر مادی اجسام کی اس تیز رفتاری کے ساتھ نقل و حرکت تاحال ممکن نہیں ہو سکی مگر یہ سوچ فروغ پا رہی ہے کہ شاید مستقبل میں ایسا ممکن ہو سکے۔ اشیاء اور اجسام الیکٹرانوں اور پروٹانوں کی لہروں میں تبدیل کر کے روشنی کی رفتار پر سفر کر سکیں اور آنکھ چھپکنے میں بعید فاصلوں تک منتقل کئے جا سکیں اور پھر ان لہروں کو بھی جمع کر کے انہیں اصلی حالت میں لانا شاید ممکن ہو سکے گا۔ بہرحال معجزات اس امکان کی تائید کرتے ہیں۔
۱۱۔آنحضرتﷺ کے معجزات میں سے سفرِ معراج وہ عظیم معجزہ ہے جس کے ذریعے آپﷺ مسجد اقصیٰ اور ساتوں آسمانوں سے بھی گزر کر لامکاں تک جا پہنچے اور کھربوں نوری سال سے بھی زائد مسافت طے کر کے ایک لمحے میں واپسی کا سفر طے کر لیا۔[40] تیز رفتاری کی اس سے بڑھ کر مثال ممکن نہیں۔ اس سفر میں آپ کی سواری کا نام احادیث میں براق آیا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی تیز بجلی اور روشنی کے ہیں گویا وہ روشنی کی رفتار سے بھی کئی گناہ زیادہ تیز تھی۔ حضورﷺ کے واقعہ معراج نے جس کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ فضا، فلکیات، طبیعات اور سماعی علوم کی طرف انسانوں کو تشویق دلائی اور تسخیر کائنات کے بند دروازوں کو کھولنے کی ترغیب دی۔ خلائی راکٹ براق ہی کی ایک ادنیٰ شکل اور مادی نمونہ ہے جس نے تسخیر ماہتاب کو ممکن بنایا اور جس کی پیشنگوئی قرآن حکیم نے چودہ سو سال قبل کر دی تھی ﴿وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ. لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ. فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾[41]یعنی ﴿قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے تم یقیناً طبق در طبق ضرور سواری کرتے جاؤگے تو انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے﴾۔ معلوم نہیں خلائی فتوحات اور تسخیر کائنات کے اس سفر میں ابھی انسان نے کن کن منزلوں کو طے کرنا ہے۔ منزل مصطفیٰ تک رسائی ممکن نہیں تاہم اس رستے کی گرد راہ ہی کو پا لینا بھی غنیمت ہے۔ اقبال مرحوم نے معراج کے سی پہلو کی طرف اپنے اس شعر میں متوجہ کیا ہے:
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
۱۲۔انبیاء کرام کی غیر معمولی قوتوں کے پیشِ نظر وہ کچھ دکھائی دیتا ہے جنہیں عام نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں ان کی نگاہوں کے سامنے مادی حجابات اٹھائے دیئے جاتے ہیں وہ فرشتوں اور جنات کو جنت اور دوزخ کو دیکھ لیتے ہیں جب قریش مکہ نے آنحضرت ﷺ کے مسجد اقصیٰ کے سفر (اسراء) اور سفر معراج کو جھٹلایا اور آپ سے مسجد اقصیٰ کے متعلق تفصیلات طلب کیں تو احادیث میں ہے کہ مسجد آپﷺ کی نگاہوں کے سامنے کر دی گئی۔[42]
غزوہ موتہ میں آنحضرتﷺ نے جھنڈا اٹھانے والوں کی شہادت کا منظر مدینہ میں دیکھ لیا۔[43] غزوہ خندق میں چٹان کی ضرب سے پیدا ہونے والی چمک میں آنحضرتﷺ نے شام، ایران اور یمن کے شاہی محلات دیکھ لئے۔[44] نیز آپﷺ ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: “ان الله تعالیٰ طویٰ لي الارض حتی رأيت مشارقها و مغاربها” یعنی “بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین سکیڑ دی حتی کہ میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا”۔[45]
آنحضرتﷺ کے روحانی کمالات جب صحابہؓ میں منتقل ہوئے تو حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ میں خطبہ کے دوران ہزاروں میل دور کی مسافت پر موجود لشکر کے سپہ سالات حضرت ساریہؒ کو “يا سارية الجبل” یعنی “اے ساریہ! پہاڑ کی طرف” کے الفاظ کے ساتھ راہنمائی کر کے لشکر کو فتح سے ہمکنار کرا دیا۔[46]
آج جدید ذرائع ابلاغ و مواصلات (Communication Technology) نے نہ صرف ان معجزات کو قابل فہم بنا دیا ہے بلکہ اس میدان میں انسان کی مسلسل تک و دو کے مزید مثبت نتائج سامنے آنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔
۱۳۔آنحضرتﷺ کا ایک عظیم معجزہ شق القمر یعنی چاند کا آپ کی انگشت مبارک سے دو ٹکڑے ہونا۔ ہمیں دیگر سیاروں تک دسترس اور اس کرہ ارضی سے کی جانے والی انسانی تبدیلیوں کی قدرت کے امکانات کو ظاہر کر کے نامعلوم دنیاؤں کی تسخیر کی تحریک دے رہا ہے اور انسان نے اپنی تحقیق و تجربات کے ذریعے اس میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کر لی ہیں۔
معجزات کے اس مطالعہ کی روشنی میں ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ معجزات کا ظہور آج بھی ممکن ہے۔ کل اگر وہ معجزات انبیاء کے ہاتھوں مادی اسباب کے بغیر یا روحانی اسباب کے تحت باذن الٰہی وجود میں آئے تھے تو آج سائنسی تحقیقات و تجربات کے ذریعے مادی اور ظاہری اسباب کے تحت ان کے وجود میں آنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اب ان کی حیثیت سائنسی انکشافات و دریافت اور ایجاد کی ہو گی نہ کہ معجزات کی، البتہ ان معجزات کا اعادہ ممکن نہ ہو گا جن کے متعلق یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی نظیر پیش کرنا ممکن نہیں۔ اس بحث سے خدانخواستہ معجزات کی اہمیت کم کرنا مقصود نہیں بلکہ معجزات انبیاء کی اہمیت، عظمت اب بھی اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ وہ مادی اسباب کے بغیر ظہور میں آئے جب کہ جدید سائنسی انکشافات و ایجادات مادی اسباب کی مرہون منت ہیں۔ معجزات کے متعلق یہ نقطۂ نظر انسان کے ذوق تحقیق کے لئے مہمیز کا کام دے سکتا ہے اور تحقیق کے بند دروازوں کو کھولنے کے ساتھ ساتھ ہمارے فکری زاویوں کی تشکیل اور ذہنی افق کی توسیع میں بھی نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معجزات ابنیاء تحقیق و تدبر کی کلید (Key)، علم و حکمت کا خزانہ اور مادی وروحانی ترقی کا زینہ ہیں جن کے ذریعے معراج کمال تک پہنچا جا سکتا ہے، جو درحقیقت مذہب کا مقصود ہے اور مذہب کی حقیقی روح ہی کے ذریعے ایک ایسی متوازن زندگی کی تشکیل و تعمیر ممکن ہے جو دنیوی اور اخروی سعادتوں کی ضمانت دے سکے۔
پروفیسر ڈاکٹر ازکیاء ہاشمی، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس، ہزارہ یونیورسٹی، مانسہرہ

حواشی و حوالہ جات


[1] امام غزالی ؒ نے “المنقذمن الضلال” میں، ابن تیمیہ نے “الجواب الصحیح” اور مجموعہ فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ میں، رازی نے “تفسیر کبیر” میں، سر سید احمد خان نے “تفسیر القرآن” میں، مولانا شبلی نعمانی نے “الکلام اور علم الکلام میں، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے (Reconstruction of Religious thoughts) اور دیگر نثری تحریروں میں، مولانا بدر عالم نے ترجمان السنۃ میں، مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنے رسالہ “اسلام اور معجزات “ میں، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نے “قصص القرآن” میں، اور شیخ مصطفیٰ صبری بک نے “موقف العقل والعلم والعالم” میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے۔
[2] تفصیل کے لئے دیکھئے: The Encyclopedia of Philosophy. Vol-5 (New York). Pp. 346-353; Enxyclopaedia Britanica. Vol-12, p 269-274
[3] ابو شکور، التمہید فی بیان التوحید، ص۷۱
[4] القرآن الکریم، سورۃ البقرہ، ۲: ۵۷
[5] القرآن الکریم، سورۃ البقرہ، ۲: ۶۰
[6] القرآن الکریم، سورۃ البقرہ، ۲: ۵۷
[7] القرآن الکریم، سورۃ البقرہ، ۲: ۲۳
[8] ضرب الخاتم: حدوث عالم پر علامہ کشمیری کا انتہائی فکر انگیز رسالہ ہے جو عربی اشعار کی صورت میں آپ نے مرتب کیا ہے۔ یہ رسالہ سولہ صفحات پر مشتمل ہے جسے المجلس العلمی کراچی نے ۱۳۸۲ھ میں طبع کیا۔
[9] حیات انور،ص ۱۸۱۔۱۸۲، بحوالہ “مولانا انور شاہ کشمیری کے علوم و معارف”، مرتب کردہ: مولانا محمد اقبال قریشی۔ ط: ۱۹۸۰ء، دارالاشاعت، کراچی، ص۵۰
[10] القرآن الکریم، سورۃ الانبیاء : ۶۹
[11] القرآن الکریم، سورۃ النحل : ۸۱
[12] القرآن الکریم، سورۃ آل عمران، :۵۹
[13] ششماہی “السیرۃ العالمی، مقالہ سائنسی تجربیت کی روحانی بنیادیں”، ڈاکٹر مظہر بقا، ط: ۱۹۹۹ء، ص ۹۷
[14] ایضاً؛ نیز دیکھیں: Principle & process of Biolog، بحوالہ : ششماہی “السیرۃ العالمی، مقالہ سائنسی تجربیت کی روحانی بنیادی” ، ڈاکٹر مظہر بقاء، ط:۱۹۹۹ء، ص۹۷۔۱۰۱
[15] القرآن الکریم، سورۃ آل عمران، :۴۹
[16] القرآن الکریم، سورۃ آل عمران، :۴۹
[17] القرآن الکریم، سورۃ آل عمران، : ۴۹
[18] مناظر احسن گیلانی، الدین القیم، ط: ۲۰۰۱ء، مکتبہ سعدیہ، کراچی، ص ۴۰
[19] القرآن الکریم، سورۃ البقرۃ، ۲: ۲۶۰
[20] القرآن الکریم، سورۃ البقرۃ، ۲: ۲۵۹
[21] ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک، وجود باری تعالیٰ اور توحید”، ط: ۱۹۸۶ء، مکتبہ قرآنیات، لاہور، ص ۱۲۳
[22] القرآن الکریم، سورۃ صٓ، : ۱۸۔۱۹
[23] القرآن الکریم، سورۃ بنی اسرائیل، : ۴۴
[24] بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر الجن؛ مسلم، کتاب الفضائل
[25] بخاری، کتاب الجمعہ، باب الخطبۃ علی المنبر
[26] القرآن الکریم، سورۃ صٓ، : ۱۷
[27] القرآن الکریم، سورۃ صٓ، : ۲۰
[28] القرآن الکریم، سورۃ الکہف، : ۸۳۔۹۷
[29] القرآن الکریم، سورۃ الکہف، : ۹۷
[30] القرآن الکریم، سورۃ الحدید، : ۲۵
[31] القرآن الکریم، سورۃ یوسف، : ۳۶۔۴۹
[32] القرآن الکریم، سورۃ النحل، : ۱۷
[33] القرآن الکریم، سورۃ صٓ، : ۳۷
[34] القرآن الکریم، سورۃ السباء، : ۱۳
[35] روزنامہ جنگ، کراچی، اکتوبر، ۱۹۹۰ء، بحوالہ : خزینہ، مرتب: اسلم شیخو پوری، دارالاشاعت کراچی، ص ۲۴۰۔۲۴۲
[36] القرآن الکریم، سورۃ النحل، : ۱۶
[37] القرآن الکریم، سورۃ النحل، : ۱۸۔۲۸
[38] القرآن الکریم، سورۃ الزخرف، : ۱۲
[39] القرآن الکریم، سورۃ النحل، : ۴
[40] بخاری ومسلم، باب المعراج
[41] القرآن الکریم، سورۃ الانشقاق، : ۱۸۔۲۰
[42] ایضاً
[43] بخاری، باب غزوہ موتہ
[44] بخاری و مسلم، غزوہ احزاب
[45] صحیح مسلم، ۲/ ۳۹۰
[46] مشکوٰۃ المصابیح، حدیث ۵۴۶

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password