دین، عقل اور جدیدیت


جدیدیت دین کے بارے میں تین رویے رکھتی ہے: انکار، تشکیل اور لاتعلقی۔ ایک رویہ اور ہے، لاادریت Agnosticism۔ لیکن یہ اصل میں لاتعلقی کا حصہ ہے۔ جدیدیت کی تشکیک Classical Skepticism نہیں ہے بلکہ انکار کو مکمل اور مدلل کرنے کا عمل ہے اور اس کے جو مظاہر ہیں وہ یوں لگتا ہے کہ انکار کی تبلیغ کے ذرائع ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ تشکیک بھی دراصل انکار ہی ہے جس پر اس لیے باریک سا پردہ ڈالا گیا ہے تاکہ دین کے ماننے والوں کے ذہن کو بے بس کرکے انکار پر مجبور کردیا جائے۔ ان تمام رویوں کے پیچھے ایک ایسا Rationalism کارفرما ہے جس میں عقل، علم، حقائق وغیرہ کی تعبیر کلاسیکی فلسفے کی طرح آزادانہ انداز سے نہیں کی گئی بلکہ ایک خاص تصورِ حقیقت اور مقصدِ زندگی کے تحت انہیں define کیا گیا ہے اور ان کے کردار کو محدود بھی کیا گیا ہے۔ گویا جدیدیت میں علم کی تشکیل کا عمل شے کو مرکز بناکر نہیں بلکہ ذہن کو غالب کرکے ہوتا ہے۔ یعنی عمومی تصورِ علم کے مطابق علم، معلوم یعنی شے کے تابع نہیں ہے بلکہ عالِم یعنی Subject کے پابند ہے۔
اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ شے کیا ہے؟ بلکہ یہ ہے کہ شے کو کیسا ہوناچاہیئے؟ اس مجموعی فضا میں کم از کم بیسیوں صدی تک دین کے بارے میں جدیدیت کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اسے مطابقِ عقل ہونا چاہیئے۔ کیونکہ انسان مجبور ہے کہ صحیح و غلط کا فیصلہ عقل کی روشنی میں یا کم ازکم عقلی اطمینان کے ساتھ کرے۔ بظاہر اس بات کا دوسرا حصہ یعنی عقلی اطمینان، کچھ ایسا غلط نہیں نظر آتا، لیکن اس میں چالاکی یہ ہے کہ جس عقل کے اطمینان کو شرطِ ردو قبول بنایا جارہا ہے خود اس عقل کی تعریف یک طرفہ، مصنوعی اور جبری ہے۔ مثلاً اسی بات کو دیکھ لیجیے کہ دین کو معقول ہونا چاہیئے۔ اس میں ایک بنیادی ترین بات، زور زبردستی کے ساتھ چھپائی گئی ہے اور وہ یہ کہ خود عقل کو کیا ہونا چاہیئے؟ عقل کو بھی تو مطابقِ دین ہونا چاہیئے۔ کیونکہ عقل اپنی ماہیت میں محتاج الی الغیر ہے اور یہ غیر اس کا کوئی تصورنہیں ہے بلکہ واقعی اور آزادانہ حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں معقول، عقل ہر مقدم ہے۔ عقل کی ساری سرگرمیاں اور اس کا ہر کردار کچھ شرائط سے مشروط ہے جنہیں اس نے خود سے اپنے اوپر نافذ نہیں کیا۔ تو اگر اہلِ دین یہ کہیں کہ وہ binding شرط دین ہے یاوحی ہے تو اس میں کوئی عقلی اور منطقی غلطی نہیں ہے۔ یعنی دین وہ شرط ہے جو عقل کے مادۂ تعقل، اندازِ فہم، مزاجِ علم اور حدودِ کار کا حتمی تعین کرتی ہے۔ جیسے کہ مثال کے طور پر جدیدیت کیلیے یہ حیثیت ان کے نظریے یا دنیا کو حاصل ہے۔ عام طور پر مذہبی لوگ اس چال کو سمجھ نہیں پاتے، اس لیے اس طرح کی باتوں کے مقابلے میں غیر مطلوب رویے اختیار کرلیتے ہیں۔ جدیدیت کے ہر سوال کو ایک الزامی جواب کے ساتھ face کرنا چاہیئے۔ اس بات میں کیا غلطی ہے بلکہ کیا شبہہ ہے کہ عقل ایک ماقبلِ تعقل تناظر میں رہ کر کام کرتی ہے۔ جدیدیت نے اس کو ارادی تناظر بنادیا ہے۔ یہ بہت بھیانک کاروائی ہے، لیکن اس میں غلطی کی نشان دہی کیےبغیر ہم جدید لوگوں سے کہ سکتے ہیں کہ تم بھی تو عقل کیلیے ایک binding perspective مانتے ہو۔
عقل و نقل کے بارے میں ہمارا تصور یہ ہے کہ:
۱) نقل حجت ہے عقل پر۔
۲) وحی ایک واقعہ ہے اور اگر اس کی نقل تواتر کے ساتھ ثابت ہے تو عقل اس کی مخاطب کی حیثیت سے محض ایک کردار رکھتی ہے اور وہ ہے، ثابت شدہ نقل کے محتویات contents کو نقل ہی کی شرائطِ صحت پر سمجھنا اور سمجھنے کے بعد اسے تعقل کی تمام سرگرمیوں پر حاکم بنانا۔ یعنی ثابت شدہ نقل اگر عقل کے کچھ مسلمات کے خلاف ہو تو معقولیت کا اٹل تقاضہ یہی ہے کہ ان مسلمات کو ترک کردیا جائے، اور سب جانتے ہیں کہ عقل اپنے مسلمات کو کسی حجت تک پہنچ جانے کے بعد رد کرتی رہتی ہے۔ بعض مرتبہ یہ تردید حسی تجربے کی وجہ سے ہوتی ہے، بعض مرتبہ کسی نئی منطق کو قبول کرنے کی بدولت ہوتی ہے۔ یعنی محرکِ تردید خارج میں ہوتا ہے۔ اب وحی سے بڑا واقعہ کیا ہوسکتا ہے۔ اگر تجربے اور مشاہدے سے مسلمات کو چھوڑا جاسکتا ہے تو وحی سے تو بدرجۂ اولی ترک کیا جاسکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ عقل بھی اللہ کی مخلوق ہے، اور اس کے ذمے دو کام ہیں: ایک اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو سمجھنا اور ایک اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرنا۔ فطرت کی سمجھ میں عقل تقریباً آزاد اور خودمختار ہے اور ہدایت کے قبول میں قبلِ قبول آزاد ہے بعد از قبول منفعل passive۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ عقل کی کامل تعریف ہے جسے عقل کی تحقیق و تجزیہ کرنے والے ہر علم کیلیے بآسانی واجب التسلیم بنایا جاسکتا ہے۔ عقل کیلیے وحی میں مشمول حقائق کو ماننا از روئے عقل واجب ہے اور جاننا محال۔ اس کا ماننا چونکہ وحی پر منحصر ہے اور اس کی ہدایت یابی کے اقتضا کی تکمیل کرتا ہے لہذا عقل کی مجموعی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ماننے، یعنی ایمان کو، جاننے، یعنی علم کی صحت اور افادیت کی بنیاد بنائے۔ اس طرح عقل، وحی سے سند پاکر اپنے تمام کاموں کو بھی، جو خواہ ہدایت سے متعلق ہوں یا فطرت سے، مستند بنالیتی ہے اور اگر عقل وحی سے استناد نہ پاسکے تو تعقل کا نتیجہ اس صحت و افادیت سے محروم رہے گاجو ہدایت اور فطرت دونوں میں مشترک ہے۔ عقل ہدایت کے مقولےcategory ہی میں اپنی تعریف پوری کرتی ہے۔ فطرت کے دائرے میں اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ہمارا تصورِ عقل یہ ہے کہ عقل، ہدایت اور افادیت کا تالیفی ملکہ ہے اور اس کا کام ہدایت رسانی اور افادیت رسانی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ واضح رہے کہ افادیت چاہے عارضی ہو یا دائمی، ہدایت کے تابع ہے، کیونکہ حقیقی افادیت کا شعور ہدایت یابی ہی سے میسر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل خود شعورِ انسانی ہے۔ شعور کو چاہے جس عینک سے دیکھا جائے اس کا قِوام ِوجود، ہدایت ہی ہے جو ہمارے نزدیک وحی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
محمد رشید ارشد،شعبہ فلسفہ, پنجاب یونیورسٹی لاہور

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password