مذاہب حاضر کیے جائیں!

چنانچہ آج ہر مذہب ’ہیومن ازم‘ کی عدالت میں ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ اپنی ’اچھی باتیں‘ اس کے حضور زیادہ سے زیادہ نمایاں، اور اپنی وہ باتیں جو اِس عدالت میں رد ہوسکتی ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ پیچھے کرنے لگا ہے! اپنی ان ’قابلِ اعتراض‘ باتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے، یا ہیومن اسٹ پیراڈائم کے ساتھ ان کی زیادہ سے زیادہ مطابقت کروانے کی خاطر ان کو ’تاویل‘[1] کے عمل سے گزارتے ہوئے… ہر مذہب آج یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ نمبر لینے کےلیے کوشاں ہے؛ اور اپنی کارکردگی روزبروز ’بہتر‘ کرنے لگا ہے۔ ہر ہر مذہب کے حاصل کردہ نتائج پر آپ اگر ایک نظر دوڑا لیں اور چند عشرے پیشتر کی صورتحال کے ساتھ اس کا سرسری موازنہ ہی کرلیں، تو آپ دنگ رہ جاتے ہیں… خدایا! یہ تو مذاہب کی ’اصلاح‘ بھی ہے!
’مذاہب‘ جو کبھی ’’انسان‘‘ کی اصلاح کرنے بیٹھے تھے اور ہزارہا سال تک اِس کو جہنم، تباہی، عذابِ الٰہی، ’دیوتاؤں‘ کی پکڑ، ’دیویوں‘ کے روٹھ جانے، پریوں کے بگڑ جانے، ارواح کے انتقام، اور نجانے کیسی کیسی بھیانک اشیاء سے ڈراتے اور مرعوب کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ بےچارے کا ڈر ڈر کر برا حال ہوگیا تھا… حضرتِ ’’انسان‘‘ جاگے، اور اپنے ’اختیارات‘ اور اپنی ’حیثیت‘ و ’صلاحیت‘ معلوم کی، تو اُلٹا اِن مذاہب کی اصلاح کر ڈالی اور اِن کو ایسا سیدھا کیا کہ اب ایک ایک مذہب ’بندہ‘ بن کر حضرت کی درگاہ سے دوا لینے پہنچتا ہے! ہر مذہب باقاعدہ یہاں ’علاج‘ کروانے آتا ہے، جوکہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور آئے روز اپنے ناقابل یقین نتائج سے حیران کرتا ہے!
یہاں سے مذاہب کی تاریخ میں باقاعدہ ایک تحریک سامنے آئی جوکہ اب دنیا کا ایک مقبول ترین فیشن بھی ہے، تحریک بھی، اور ایجنڈا بھی: religious reform یعنی مذاہب کی اصلاح۔ یہ کوئی ہمارا دیا ہوا لفظ نہیں، اور نہ یہ کوئی فقرہ چست کرنے والی بات ہے۔ یہ ایک باقاعدہ اصطلاح ہے جو اِس تاریخی عمل کو خود اہل مغرب کی طرف سے دی گئی: ’’ادیان کا ریفارم‘‘، اور جوکہ ’’ہیومن ازم‘‘ کے ضمنی نتائج میں شمار ہونے والی ایک بہت بڑی عالمی حقیقت ہے۔ سب باخبر لوگوں کا ماننا ہے کہ ’’ہیومن ازم‘‘اِس لحاظ سے لادین فلسفوں ہی نہیں روحانی مذاہب کی تاریخ کا بھی ایک نہایت عظیم قابل ذکر واقعہ ہے۔ ایک ایسا واقعہ جس نے ادیان ایسی ’خودسر‘ اور ’عقل‘ سے بالاتر ’مافوق الفطرت‘ چیز کا رخ موڑ دیا۔ اس کے پر کُتر ڈالے۔ ایک نری ’غیر روحانی‘ چیز جس نے ’روحانیت‘ کا دھارا بدل دیا۔ بلکہ ادیان کی ہیئت ہی تبدیل کر ڈالی۔ یہاں تک کہ سب مافوق الفطری مذاہب ’انسان‘ کا کلمہ پڑھنے لگے! اپنی اِس کامیابی پر خود ’ہیومن اسٹ‘ حیران ہیں؛ شروع میں یہ بات اُن کے اپنے وہم و گمان میں نہ ہو گی کہ سب ’خدارسیدہ‘ مذاہب اِس رند کی دست بوسی کو ایک دن یوں حاضر ہوں گے!
زیادہ لوگ تو ’ہیومن ازم‘ کو ایک ایسے فلسفے کے طور پر ہی لیتے رہے تھے جو خدا (یا ’خداؤں‘!) کی بجائے انسان کی مرکزیت پر اعتقاد رکھتا ہے، جس کی بنیاد پر انسان نے اپنے معاملاتِ زندگی اب خود اپنے ہاتھ میں لےلیے ہیں اور ان کو خدا (یا ’خداؤں‘!) کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا ہے جس کےلیے اسے یہاں کے پنڈتوں، گیانیوں، احبار، رہبان اور مشائخ کے پاس جانا ہوتا اور ان کے نخرے اٹھانے پڑتے۔ انسان نے فیصلہ کیا کہ کوئی بیرونی قوت اپنے اِن ’مخصوص نمائندوں‘ کے ذریعے اس کو اپنے قیود اور ضوابط کا پابند نہ کرے؛ بلکہ کوئی قیود اور ضابطے اگر اس کی ضرورت ہیں تو یہ بات وہ خود اپنی سوچ سے طے کرے، کیونکہ اپنے برے بھلے کی تمییز یہ انسان خود کرسکتا ہے، خیروشر کا شعور اِس کو بدرجہ اتم حاصل ہے، اچھائی اور بھلائی خود اِس کے پاس بہت ہے اور بھلائی کی آفاقی قدریں خود اِس کو بہت سمجھ آتی ہیں، اس کےلیے خدا اور آخرت کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں، اور اگر کسی کی ضرورت ہیں تو وہ لائے مگر اس کو اپنے تک رکھے اور اس کو کوئی ایسا ’مطلق حوالہ‘ بنانے کی کوشش نہ کرے جس پر انسان کا خوب یا بد ہونا ’موقوف‘ ہی ہو کر رہ جائے۔ خیر اس کے بغیر بھی پائی جاسکتی ہے۔ اور شر سے اس کے بغیر بھی اجتناب ہوسکتا ہے۔ بلکہ ’’ہو رہا‘‘ ہے!!! لہٰذا کوئی ایسے آسمانی حوالے جو کسی شخص کے اپنے دل کو تسکین دیتے ہیں وہ سب پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے۔ وہ ایک ’اضافہ‘ ہوتو ہو ’’اصل‘‘ نہیں ہے۔ ’’حوالہ‘‘ وہ نہیں ہو سکتا۔ ’’سند‘‘ ہم اُس کو نہیں کہیں گے۔ ایسی اشیاء ’موضوعی‘ ‘subjective’ ہی ہوسکتی ہیں یعنی جس کے من کو بھائیں وہ انہیں اختیار کرے؛ مگر سب کو ان کا پابند نہ کرے۔ ’’خیر‘‘ ایک مطلق و مستقل حوالے کے طور پر البتہ وہ ہے جو انسان کو سمجھ آئے۔ اور ’’شر‘‘ بھی وہ ہے جو انسان کو سمجھ آئے۔ اور جب خیر اور شر کی تعریف ہی یہ ہے[2] تو خیر اور شر کے حوالے ’آفاقی‘ universal ہی رہیں گے، یعنی جن میں انسانوں کے مابین نزاع نہ ہو اور نہ کسی ایسے نزاع یا جھگڑے کی اِس جہان میں اجازت ہونی چاہئے۔
بہت ہولیا، انسان خدا (یا ’خداؤں‘!) کے نام پر بہت لڑ لیا؛ ایسے جھگڑے خرد کی اِس دنیا میں اب مزید برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ اب یہ تو کوئی جاکر خدا (یا ’خداؤں‘!) کو سمجھاتا کہ اِس ڈھیر ساری عقل کے مالک انسان کی دنیا میں خدا کو اگر ایک آفاقی حوالہ universal reference بننا تھا تو اُس کو یہاں اتنے متضاد و مختلف الخیال مذاہب کے ذریعے انسانوں سے رابطہ نہیں کرنا چاہئے تھا! یہ تو اپنا اعتبار credibility خود کھو دینے والی بات ہوئی! کون اِن کے اختلافات کا فیصلہ کرتا پھرےکہ اِن میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون؛ اِس جھوٹ سچ کے فیصلے نے ہی تو خدا (یا ’خداؤں‘!) کے نام پر یہ اتنی ساری لڑائی کروائی ہے؛ جو اِس جھگڑے کا ’فیصلہ‘ کرنے چلے کیا وہ خود بھی اِس کا فریق نہ بن جائے گا؟! اور ویسے اس کے بغیر ہمارا کونسا کام رُکا ہے جو سب کچھ چھوڑ کر یہ فیصلہ کرنے چلیں کہ خدا کے نام پر بولنے والوں میں یہاں کون سچا ہے اور کون جھوٹا؛ لہٰذا ہم تو بلا تمییز اِن سب سے کہیں گے کہ مہربانی فرما کر آپ ہمیں یہ کارِجہان نبیڑنے دیں اور اپنے یہ جھگڑے اٹھا کر باہر تشریف لےجائیں، اُدھر یہ شوق پورا کریں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؛ ہماری تو یہ ضرورت نہیں ہے! پس خدا کے نام پر سچ بولنے والے بھی دنیا میں اگر کوئی ہیں (اور جن کو زمین کے تین جڑے ہوئے براعظموں کے وسط میں بسنے والی ڈیڑھ ارب کی ایک امت کے یہاں ’’خدا کے فرستادہ انبیاء‘‘ کہا جاتا ہےاور جن کی ایک ایک بات کو ان کے ہاں پوری سند کے ساتھ تلاش کیا جاتا ہے) تو ہماری بلا سے[3]، وہ اتنے ہی غیرمتعلقہ ہیں جتنے وہ لوگ جو آپ کے خیال میں خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ لہٰذا ’آسمانی قوتیں‘ اگر کہیں ہیں بھی تو انسانوں کے ساتھ ’کومیونی کیشن‘ کے معاملہ میں پہلے قدم پر وہ ایسی فاش غلطی کر بیٹھی ہیں کہ اس سے سارا مسئلہ الجھ کر رہ گیا ہے (اور جس کی بنیاد پر ہم نے تو اپنی طرف سے ان کو ’فیل‘ کردیا ہے) اور جس سے لازم آچکا ہے کہ خدا کے نام پر جھگڑنے والے اِن سبھی طبقوں کو بلاامتیاز ہم اپنی دنیا سے باہر کردیں۔ (هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ)[4] سچے اور جھوٹے، سب باہر جا کر جھگڑیں؛ ہمارے پاس نہیں! اور باہر بھی ہم ان کو ایک حد تک ہی جھگڑنے دیں گے؛ اِس دنیا کا امن و امان اب ہماری ذمہ داری ہے؛ ’خدا‘ کے ہاتھ میں یہ دنیا دے کر ہم نے بہت دیکھ لیا، اب ’خدا‘ والوں کے ہاتھ میں یہ دنیا نہیں رہی ہے تو خود دیکھ لو پچھلی دو صدی سے دنیا کیسا امن و سکون کا گہوارہ ہے![5]
چنانچہ زیادہ لوگوں نے تو ’’ہیومن ازم‘‘ کو ایک ایسے فلسفے کے طور پر ہی لیا تھا جو خدا (یا ’خداؤں‘!) کو ہٹا کر زمین کے سب معاملے ’’انسان‘‘ کو سونپتا ہے۔ اس میں انسان آپ ہی اپنا مقصود ہے؛ کوئی اور ہستی ایسی شان نہیں رکھتی کہ یہ اُس کےلیے پیدا ہوا ہو اور وہ اِس کی مقصود اور معبود ہو، اور یہ اُس کی رضاجوئی کےلیے پریشان ہوتا پھرے۔ اس میں انسان کی اُن ’طبعی‘ خوبیوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جو خیر اور شر کی تمییز کرنے میں ایک مستقل بالذات حوالہ ٹھہرتی ہیں اور اس کے ماسوا کسی ’حوالے‘ کی محتاجی ختم کروادیتی ہیں۔ جس کا آپ سے آپ نتیجہ ہوگا کہ یہ ’اچھائی‘ اور ’برائی‘ کا صرف ایک ایسا تصور قبول کرے جو انسانوں کے مابین نزاعی[6] نہ ہو۔ یوں انسان کو اُن سب اختلافی حوالوں سے بےنیاز کردینے کے بعد (ان ’اختلافی حوالوں میں ظاہر ہے سرفہرست ’مذاہب‘ آتے ہیں)، کہ جب اِس کے پاس صرف وہ قدریں بچتی ہیں جن پر ’آفاقی‘ (universal) اور ’غیرنزاعی‘ (non-controversial) ہونے کا ٹھپہ ہو[7]… انسان کو اپنی ’انسانیت‘ نکھارنے، ’بھلائی‘ اور ’خدمتِ خلق‘ کرنے اور ’برائی‘ اور ’زیادتی‘ سے اجتناب کرنے کے اعلیٰ ترین اسباق دیے جاتے ہیں۔ تو پھر اب خوب، بد، درست، غلط، جائز،ناجائز، واجب، مباح، رشتوں ناطوں کی نوعیت اور رہن سہن کے جملہ امور یہ ’’انسان‘‘ (اپنے کچھ ’’مخصوص‘‘ دماغوں کے ذریعے) ’’خود‘‘ طے کرسکتا ہے؛ انبیاء کو اِس معاملہ میں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں…! اس لحاظ سے ’’ہیومن ازم‘‘ وہ اصل زہرناک شجر ہے جس پر ابھی تک ’ڈیموکریسی‘، ’کیپٹل ازم‘، ’سیکولرزم‘، ’نیشنلزم‘، ’لبرلزم‘، ’کمیونزم‘ ایسی خوفناک ڈالیاں نمودار ہوئیں اور اسی طرح کی اور بےشمار ڈالیاں ابھی مزید پھوٹ سکتی ہیں۔ یا یوں کہئے اِن سبھی کا الٰہ ایک ہے (’انسان دیوتا‘) اور دین بھی ایک ہے (’انسان دیوتا کی خوشنودی‘)، پھر بھی اِن کے مذاہب یا تو متنوع ہیں یا متضاد۔(مثال کے طور پر اس دین کا ایک ہی اصول ’’انسان کی آزادی‘‘ کی تفسیر کیپٹل ازم کے ہاں جو ہوتی ہے کمیونزم کے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے؛ جبکہ اصول دونوں کا ایک ہے: ’انسانی آزادی‘)۔ پس اصل دین ان سب لوگوں کا ایک ہے: ہیومن ازم، باقی اس کی شاخیں ہیں۔
’’ہیومن ازم‘‘ کو اِس پہلو سے تو سبھی جانتے ہیں۔ اور اس حوالے سے یہ ایک باقاعدہ دین ہے ان سب روایتی مذاہب کے مقابلے پر جو انسان کو ایک مستقل بالذات ہستی کے طور پر لینے کی بجائے اسے ایک مافوق الفطری طاقت ( یا ’طاقتوں‘) کا پرستار بناتے ہیں۔ ’’ہیومن ازم‘‘ کا ایک الگ تھلگ دین ہونا بھی کوئی باعث تعجب بات نہیں۔ روایتی مذاہب کے مقابلے پر ایک نیا دین، اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ ادیا ن ایک دوسرے کے حریف ہوں، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ انسانوں کا ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں چلے جانا بھی کوئی انہونی خبر نہیں۔ ہر دین کا اپنا ایک ڈسکورس ہے جو چاہے اسے قبول کرے اور جو چاہے اس کو مسترد کرےاور کسی دوسرے دین کے ڈسکورس میں اپنی تسلی ڈھونڈے۔ کہیں تسلی نہیں ہوتی؛ خود کوئی دین گھڑ لے۔ ’’ہیومن ازم‘‘ بھی ان ادیان میں سے ایک دین ہوا؛ کسی کی تسلی ہیومن ازم میں ہوتی ہے تو وہ سو بار اسے قبول کرے۔ہمارے اور اس کے فیصلے کےلیے قیامت کا ایک دن طے ہے؛ اور موت تک اس کی مہار ڈھیلی ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟
تحریر حامد کمالدین
حوالاجات:
[1] تاویل… جوکہ یہاں پر سب سے زیادہ ’قدر‘ پانے اور سب سے بڑھ کر ’دستگیری‘ کے لائق مانی جانے والی چیز ہے! ہر مذہب آج بڑی تیزی کے ساتھ اِس ’عمل‘ سے گزارا جا رہا ہے اور اس کی ’نہ سمجھ آنے والی‘ باتیں طریقے طریقے سے دورِ حاضر کے تصورات کے مطابق ’ایڈجسٹ‘ کی جا رہی ہیں؛ figurative study of the spiritual text کے تحت۔ اس پر کچھ بات آگے آ رہی ہے۔
[2] خود ہمارے مذہبی جدت پسندوں کے بقول: معروف اور منکر کی حقیقت ’ازروئے اسلام‘ بھی یہی ہے، یعنی ’رائے عامہ‘ جس کی تشکیل آپ جانتے ہیں کو ن کرتا ہے؛ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں!
[3] اس کو ہمارے علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں ’’کفرِ اعراض‘‘ کہتے، اور جوکہ انبیاء کے ساتھ کفر کرنے کی سب سے عام صورت ہے۔ ’’کفرِ اعراض‘‘ کی تعریف کرتے ہوئےامام ابن قیم فرماتے ہیں:
وأما کفر الإعراض فأن يعرض بسمعه وقلبه عن الرسول ، لا يصدقه ولا يکذبه ، ولا يواليه ولا يعاديه ، ولا يصغي إلى ما جاء به البتة (مدارج السالکین ج 1 ص 347)
’’رہا کفرِ اعراض تو وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کان بھی رسول کی جانب سے پھیر لے اور اپنے دل کی توجہ بھی؛ نہ وہ رسول کی تکذیب کرے اور نہ تصدیق۔ نہ وہ رسول کا ساتھی ہے اور نہ رسول کا دشمن۔ یہ رسول کی بات پر کان دھرنے کےلیے ہی تیار نہیں‘‘۔
[4] (الحج: 19) ’’یہ دو فریق جن کا جھگڑا اپنے رب کی بابت ہے‘‘۔
[5] ایسا ’امن کا گہوارہ‘ ہے کہ دورِ ماضی کا انسان اِس پر رشک ہی کرے! یہ خود جانتا ہے، بیسویں صدی کے نصف اول میں لڑی گئی صرف دو ’عالمی جنگوں‘ میں جو ہرگز ہرگز ’خدا‘ کے نام پر نہیں لڑی گئیں ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں انسان لقمۂ اجل بنے۔ اِس کے بعد نصف صدی تک چلنے والی ’سرد جنگ‘ میں جو ہرگز ہرگز ’خدا‘ کے نام پر نہیں لڑی گئی کروڑوں انسانوں نے زندگی اور آزادی سے ہاتھ دھوئے؛ یہاں تک کہ آدھی صدی یوں گزری کہ ’ایٹمی جنگ‘ تمام اہل زمین کے سروں پرکسی ’کوہِ بنی اسرائیل ‘ کی طرح لٹکتی رہی، اور ایسا اِس زمین نے آج تک کبھی نہیں دیکھا تھا، اور جوکہ اب بھی ختم نہیں ہوگیا ہے بلکہ وہ صورتحال مسلسل سُلگ رہی ہے اور آئندہ عشروں میں اس سے کہیں زیادہ بھڑک کر سامنے آسکتی ہے… اس سارے فساد کا، جو زمین نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، حوالہ دور نزدیک سے ’’خدا‘‘ نہیں تھا بلکہ ایک ’انسانی مسئلہ‘ تھا کہ دولت کا حصول اور تقسیم کس طرح ہو (کیپیٹل ازم اور کیمونزم کا جدل)۔ یہ ہے بیسویں صدی کا قصہ؛ پوری تاریخ انسانی میں اتنا خون نہ بہا ہوگا جتنا اِس ایک ہی صدی میں بہہ گیا۔ کون اِس ’ہیومن‘ جانور کو بتائے کہ فساد اور خونریزی خود اِس کی خصلت میں ہے (جس کا حساب دینے کیلئے ہم انبیاء کے پیروکار اِس نفس کو تزکیہ دیتے اور ’’مالکِ یومِ الدین‘‘ کا وِرد کرتے ہیں، جو اگر دل میں اتر جائے تو کسی کا خون کرنا تو درکنار آدمی کسی کا بال بیکا کرتے ہوئے بھی جوابدہی کے خوف سے کانپتا ہے)۔ ظلم اور بغی دراصل اِس درندے کی سرشت میں ہے جو زمین کو قتل گاہ بناتی ہے؛ اِس ظلم اور زیادتی کو تو ’خدا‘ اور ’ایمان‘ کے کھاتے میں ڈالنا البتہ بھلائی اور انصاف کو اپنی (ہیومن) نیچر سے جوڑنا اِسکا غرور اور تکبر ہی نہیں بلکہ شیطنت ہے کہ اِسے حجت بنا کر یہ مخلوق کو قائل کرتا پھرے کہ وہ ’خدا‘ کو اِس ’’اپنی‘‘ دنیا سے باہر کردیں۔ وَلَا يَحِيقُ الْمَکْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ
[6] البتہ اِس ’نزاع‘ کا فیصلہ کرنے کےلیے ایمپائری ایک خاص فریق کے ہاتھ میں رہے گی جس کو ’’مذہبِ ہیومن ازم‘‘ کے پنڈت کہئے اور جوکہ ’’انسان‘‘ کے نام پر ویسی ہی ’دکانیں‘ لگاتے، ویسا ہی ’جھوٹ سچ‘ بولتے اور ویسا ہی ’خون‘ بہاتے ہیں جو اِس سے پہلے ’’خدا‘‘ کے نام پر ہوتا رہا۔ کسے معلوم نہیں کیپٹل ازم اور کمیونزم کی جنگ میں معبود ہر دو طرف یہی ’انسان‘ اور ’نیچر‘ تھی جس نے مغربی بلاک پر کچھ ’وحی‘ کی تو مشرقی بلاک پر کچھ اور! چلئے ’’خدا‘‘ کی تو یہ شان ٹھہری کہ اِس فانی جہان میں وہ یوں مخلوق کے روبرو نہ آئے کہ یہاں ہر کسی سے ہم کلام ہو }وَمَا کَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَکُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَکُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ (آل عمران: 179) ’’اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ وہ تم سب کو غیب کا علم دے دے؛ (تمہیں غیب سے مطلع کرنے کےلیے تو) اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے منتخب کرتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر ہی۔ اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرلو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے‘‘ (اور اِسی ’’بڑے ثواب‘‘ میں یہ شامل ہے کہ ایک دن یہ آدم زاد اُس ذاتِ کبریاء سے اور وہ اِس سے ہم کلام ہو۔ پس مالک کا انسان سے ہم کلام ہونا ایک ’’ثواب‘‘ اور ’’جزاء‘‘ ہے جوکہ اُس کی شرطوں کو پورا کرنے کا انعام ہے اور اُس کی شرط ہے: بن دیکھے اُس پر ایمان، اور اپنی دنیا میں اُس کے رسولوں کی پزیرائی، اور زمین پر ایک پرہیزگاری کی زندگی؛ جس کے نتیجے میں وہ لازماً ایک دن اِس کو اپنے حضور باریابی بخش دے گا اور اس سے باقاعدہ ہم کلام ہوگا اور اِس کی ہر ہر خواہش پوری کرے گا اور خود اپنے پاس سے اِس کو بہت کچھ دے گا۔ البتہ وہ انسان جو مالک کی شرطوں کو پورا کرنے کی بجائے الٹا مالک پر ’’شرطیں‘‘ لگائے کہ وہ یہاں آکر ہر ہر انسان سے ہم کلام کیوں نہیں ہوتا، یعنی مالک کا اِس سے ہم کلام ہونا مالک کا اِس پر انعام اور ثواب نہ ہو بلکہ اِس کا مالک پر ’ڈیمانڈ نوٹس‘ ہو جس کو پورا نہ کر پانے کی صورت میں مالک کو ہی اِسکے ’التفات‘ سے محروم رہنا ہو؛ جبکہ اُس کے اِسکی جانب پیغمبر بھیج دینے اور کتابیں نازل فرما دینے سے اِسکا وہ ’’ڈیمانڈ نوٹس‘‘ پورا نہ ہوتا ہو… تو ایسے شخص کو بھی وہ حکمت اور دانائی کا مالک بھولا نہیں ہے؛ اِس کیلئے بھی اُس نے ’بہت کچھ‘ تیار کر رکھا ہے، صرف اِسکے وہاں پہنچنے کی دیر ہے، اِسکو معلوم ہوجائے گا کہ یہ زمین کس کی تھی، یہ جان کس کی ڈالی ہوئی تھی، یہ ’نیچر‘ کس کے کہنے پر اِسکا پانی بھرتی تھی اور یہ ’’مہلت‘‘ اِسکو کس مقصد کےلیے ملی ہوئی تھی!){، غرض مالک کی تو یہ شان ٹھہری کہ وہ یہاں اِس سے براہِ راست ہم کلام نہ ہو بلکہ اِسے آنکھیں، کان، دل اور دماغ دے دینے اور اپنی قدرت کی نشانیاں ہر طرف پھیلا دینے کے بعد ’’رسول‘‘ بھیجنے اور ’’کتابیں‘‘ نازل فرما دینے پر ہی فی الحال اکتفا کرے؛ اور یوں اپنی پہچان کرانے میں ہی اِس کا ایک نہایت خوبصورت و پرلطف امتحان کرے؛ پس وہ ذاتِ کبریاء تو سامنے نہیں آتی تو اس کی کوئی وجہ ہے… یہ ’نیچر ماتا‘ اور ’انسان دیوتا‘ تو یہیں پایا جاتا ہے؛ اِس کی ’وحی‘ بھی اِس قدر مختلف؟! کہ اِس دیوتا سے ملنے والی ’وحی‘ کی اتباع میں ہردو فریق (سرد جنگ کے دو فریق، جن کے مابین تقریباً پورا ’گلوب‘ تقسیم ہوگیا تھا) ایک دوسرے کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے تک چلے جائیں… اور ’’انسان دیوتا‘‘ سہما ہوا، پون صدی تک اس پر ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘؟!
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کمیونسٹ بلاک کے گھٹنے ٹیک دینے کے بعد ’’انسان‘‘ کے نام پر بہایا جانے والا خون بظاہر کچھ تھم گیا ہے… تو اِس کو ’یونی پولر‘ ورلڈ کا کمال کہئے! کوئی بھی ایک فریق دنیا میں ’آل اِن آل‘ ہوجاتا ہے تو کچھ دیر کےلیے ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے؛ اس میں تعجب کی کیا بات؟ (ایسی گرمی اور گھٹن میں کسی نئی جنگ کی گھٹائیں ضرور اٹھ رہی ہوتی ہیں جو اپنے تشکیل پانے میں ذرا وقت لیتی ہیں، البتہ لوگ ان کی طرف توجہ اسی وقت کرتے ہیں جب وہ ’’برسنے‘‘ ہی کےلیے چڑھ آئیں)۔ ہم کہتے ہیں، ’’خدا‘‘ کو ماننے والا کوئی فریق بھی اگر اس قدر غالب آجائے جتنا سرد جنگ کے اختتام پر کیپٹل اسٹ بلاک غالب اور سر چڑھ کر بولنے لگا ہے تو دنیا میں ’کسی بڑی جنگ‘ کے خطرات اتنے سے ضرور ٹل سکتے ہیں جتنے سے اس وقت ’ٹلے ہوئے‘ دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ وہ سچا مہربان خدا جس کی خبر ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے دی ہے، اُس کو ماننے والے اگر کسی وقت زمینی عمل پر اس حد تک غالب آجائیں جتنا اِس وقت کیپٹل بلاک غالب آیا ہوا ہے تو ہم على وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ زمین صدیوں تک کےلیے فی الواقع امن اور چین کا گہوارہ بن جائے۔ اس ’پوسٹ کولڈ وار‘ سے تشکیل پانے والی ایک جعلی وغیرطبعی صورتحال کا کریڈٹ البتہ اگر ’خدا کو زمین سے بےدخل کردینے‘ ایسی ملعون پیشرفت کو دیا جائے تو اس سے بڑا جھوٹ اور گمراہ کن اسلوب کوئی نہ ہوگا جس کےلیے فی الوقت ’دانشوری‘ کے نام پر تالیاں پیٹی جا رہی ہیں!
[7] یہ ٹھپہ جہاں بنتا اور ’اپ گریڈ‘ ہوتا ہے اس کا اوپر کچھ ذکر ہوچکا۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password