عصر حاضر کی مسلم ’دانش وری‘ کے نمایاں خصائص میں سے یہ ہے کہ قرآن کریم سے گہرے اور غیر معمولی تعلق کا اظہار کیا جائے، مگر اس کے معانی و مطالب میں خوب کھینچ تان کی جائے اور دور دراز استنباطات کیے جائیں، حدیث کے معتبر و مستند ذخیروں کی طرف رجوع کیے بغیر انھیں اوہام و خرافات پر مبنی، ناقابل اعتبار اور سائنسی و عقلی اعتبار سے لائق رد قرار دیا جائے، عربی زبان کی معمولی شدھ بدھ کے ذریعہ الفاظ قرآنی پر دقیق لغوی بحثیں کی جائیں اور اپنے مستنبط معانی پر اصرار کیا جائے، اپنے اختصاص کے میدان کو دین و شریعت کی روح اور اصل قرار دے کر پورے دین کو اس کے گرد گھمایا جائے۔ ایسی ہی دانش وری کا ایک نمونہ وہ کتاب ہے جو ابھی حال میں’قرآن میں آبی وسائل اور انجینیری‘ کے نام سے منظر ِ عام پر آئی ہے۔اس کے مصنف جناب ڈاکٹر سید وقار احمد حسینی عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد سے سول انجینیرنگ میں گریجویشن کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے تھے، جہاں انھوں نے آبی وسائل کی انجینیرنگ میں ۱۹۶۳ء میں پوسٹ گریجویشن اور ۱۹۷۱ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف وقفوں میں امریکا، ملیشیا اور سعودی عرب کی مختلف جامعات میں تدریسی خدمات انجام دیں،اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں ، امریکی حکومت کے مختلف اداروں اور مسلم ممالک کی مختلف حکومتی و غیر حکومتی انجمنوں کے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سائنسز، ٹکنالوجی اینڈ ڈیولپمنٹ امریکہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ انھیں امریکی شہریت بھی حاصل ہے۔
گزشتہ صدی کے ربع آخر میں عالمی سطح پر بعض مسلم دانش وروں نے جدید علوم کی اسلامی تشکیل (Islamization of knowledge) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ان حضرات کی علمی و فکری کاوشیں اگر اپنی صحیح حدود میں رہتیں تو ان کی کوششیں قابل قدر، موجبِ شکر اور باعثِ فخر ہوتیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ان میں غلو در آیا۔ مبالغہ آمیزی کی جانے لگی، قرآنی آیات سے بہ تکلف تان کر جدید علوم کے اصول و قواعد، بلکہ جزئیات تک مستنبط کی جانے لگیں اور اسے ’قرآن کے سائنسی اعجاز‘ کا نام دیا گیا۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد، بالخصوص توحید اور آخرت پر استدلال کے لیے مظاہرِ کائنات، مثلاً آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، صحرائ، دریا، کشتی، پانی، بادل، برق و باراں، ہوا، آندھی، طوفان، پھول، پھل، پودے، درخت، باغ، کھیتی، غلہ، دھوپ، سایہ، تاریکی ، روشنی وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وجہ استدلال کو اتنا عام رکھا گیا ہے کہ ہر ذہنی سطح کا شخص بہ آسانی اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ اس سے جدید علوم کی کلیات و جزئیات اخذ کی جائیں۔ لیکن اسلامائزیشن آف نالج کے علم برداروں نے شعوری یاغیرشعوری طور پر قرآن کو سائنس کی درسی کتاب بنادیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سورۂ یوسف کی آخری آیت میں ’تَفْصِیْلَ کُلّ شَیْئٍ‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’بعض لوگ ’ہر چیز کی تفصیل‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن میں جنگلات، طب، ریاضی اور دوسرے علوم و فنون سے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۴۳۸) اب اسلامائزیشن آف نالج کے علم برداروں نے یہ پریشانی دور کردی ہے اور تمام طبیعیاتی علوم کی تفصیلات قرآن کریم سے مستنبط کرلی ہیں۔
جناب وقار حسینی کا شمار اسلامائزیشن آف نالج کی فکر پیش کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈھنگ سے تعلیم، آبی وسائل کی انجینیرنگ ، آبی قوانین، ماحولیات، معاشیات ، معاشی انجینیرنگ اور فلسفۂ تاریخ و سائنس جیسے علوم کو ’اسلامیانے‘ کی کوشش کی ہے۔ آبی وسائل کے علوم کو انھوں نے کس طرح ’اسلامائز‘ کیا ہے اور اس کے لیے انھیں کتنی زور آزمائی اور کتنی دور کی کوڑی لانی پڑی ہے اس کے نمونے اس کتاب میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی شخص اپنی آنکھوں پر ہرا چشمہ لگالے تو اسے دنیا کی ہر چیز ہری نظر آنے لگتی ہے۔ یہی حال حسینی صاحب کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک آبی وسائل کاعلم اور انجینیرنگ ’قرآن کا سب سے اہم موضوع‘ ہے، یہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر ’فرض‘ ہے، اس کا شمار ’اعمال صالحہ‘ میں ہوتا ہے، اس سے پہلو تہی ’کفر‘ ہے، حقیقت میں یہی ’فقہ‘ ہے اور اس میدان میں عقل پر مبنی جدید فکر اور سوچ ہی ’اجتہاد‘ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اسلامی علوم اور ٹکنالوجی اپنے علوم کے لحاظ سے اور تخصیصی طور پر آبی وسائل اور دیگر علوم سے بحث کرنے والے اس کے دیگر شعبہ جات قرآن کے سب سے اہم امور ہیں‘‘ (ص۵۷)
علوم آبی وسائل اور انجینیرنگ فی الاصل قرآنی، اسلامی، مذہبی اورالہامی علوم ہیں، اسلامی اخلاقیات اور قانون کی اصطلاح میں بہ حیثیت معلومات عامہ اس علم کا حصول ’فرض عین‘، یعنی ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے، جب کہ ان علوم میں تخصص حاصل کرنا ’فرض کفایہ‘ ہے (ص۵۰)۔
’’آبی وسائل کے علوم کو سیکھنا اوران کوعملی جامہ پہنانا ’اعمال صالحہ‘ کی تعریف میں آتا ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات کا وعدہ کیا ہے (ص۶۳)
پانی یا اس جیسے دیگر قدرتی وسائل کے فروغ کے ذریعے زندگی کے لیے معاون نظام فراہم کرنا ’جہاد‘ ہے (ص۸۶)
آبی وسائل و ذرائع کی بد انتظامی اور غلط استعمال ’کفر‘ ہے (ص۱۹۳)
’’پانی میں شامل نقصان دہ عناصر کی تحقیق کے لیے آبی وسائل کے اسلامی سائنس اور آبی سائنس کے خدائی قانون کا خصوصی علم ’فقہ‘ ہے ‘‘ (ص۱۹۹)۔
علوم آبی وسائل کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے وہ اعداد و شمار سے بھی کام لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’علوم آبی وسائل سے متعلق قرآن میں ۹۴۱ آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ نماز کا ذکر ۸۱ بار، زکوٰۃ کا ۳۲ بار ، حج کا ۸ بار اور روزہ کا ۶ بار ہواہے‘‘۔(ص۵۹)
اولاً یہ اعداد و شمار صحیح نہیں ہیں۔ قرآنی انڈکس پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پھر آبی وسائل سے متعلق قرآنی آیات کی کثرت کی حقیقت یہ ہے کہ مثلاً قرآن میں زمین (الارض) اور آسمان (السماء / السماوات) کے الفاظ ۶۵۰ آیتوں میں آئے ہیں۔ فنّی طور سے یہ آیات علوم آبی وسائل سے کیوں کر متعلق ہوسکتی ہیں؟! اس طرح تو دنیا کے ہر علم اور اس کی ہر شاخ سے ان کو مربوط کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیات اصلاً اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے اثبات کے لیے آئی ہیں، ان کا آبی وسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصنف نے بہ زعم خود ’آبی وسائل کے علم اور انجینیری‘ سے متعلق قرآنی آیات کے اقتباسات نقل کرکے ان کی تشریح کی ہے۔ ان میں سے بہت سی آیات عمومی قسم کی ہیں۔ انھیں کسی بھی موضوع پر فٹ کیا جاسکتا ہے ۔ مصنف نے انہیں خوب کھینچ تان کر علوم آبی وسائل سے متعلق کردیا ہے۔ مثلاً سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت اَلْحَمْدُ للّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کی یہ تشریح کی ہے: ’’تمام عالموں کا پرورش کرنے والا، آبی طبیعیات ارضی کے جہانوں کی تمام قوتوں اور مظاہر کا حاکم، منتظم، پالنے والا اور تکمیل کرنے والا‘‘ (ص۱۰۳) سورۂ بقرہ کی آیت ۱۰۷: أَنَّ اللّہَ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ(آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے) سے یہ استنباط کیا ہے: ’’پانی اور اس سے متعلقہ زمینی وسائل اور فضائی مظاہر کا اللہ تعالیٰ تنہا مالک اور مختارِ کل ہے‘‘ (ص۱۵۸ )۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۰۸: اُدْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً نقل کرکے اس کی یہ تشریح کی ہے: ’’اس کا مطلب طبیعیات و کیمیا، معاشیات و نفسیات و دیگر اشیاء کو خدا نے جس طریقہ پر بنایا، واضح کیا اور حکم دیا ہے اس کو اسی طرح سمجھنا اور اس کا عملی اطلاق کرنا ہے‘‘ (ص۸۳) ’’اسلام کی مکمل اتباع اور اس میں پورے کے پورے داخل ہوجانے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ پانی اور اس سے متعلقہ دیگر قدرتی وسائل و ذرائع کو ترقی دی جائے اور اس کا بہتر استعمال کیا جائے‘‘ (ص۱۷۱) سورۃ الشعراء میں حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں یہ بھی ہے: وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ آیت ۷۹ (جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے) اسے مصنف علم آبی وسائل سے یوں جوڑتے ہیں: ’’خدا ہمیں کس طرح کھانا، پانی اور صحت دیتا ہے اور ہمیں ان کے حصول کے لیے کیا جاننا اور کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں آبی وسائل کی سائنس اورانجینیری کو بھی فروغ دینااور اس کا استعمال کرنا ہوگا‘‘ (ص۱۹۸) سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو دیے گئے اس حکم کا ذکر کیا ہے: أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ ۔۔۔ آیت ۱۲۵ (میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لیے پاک رکھو) اسے انھوں نے آبی وسائل سے یوں مربوط کردیا ہے: ’’اس گھر کو اس کے مقاصد کے حصول کے لیے پاک و صاف رکھنا ضروری ہے ، اس کے لیے لازمی ہے کہ زم زم کے اس چشمہ کو آلودگی سے محفوظ رکھا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے علاقے اور آب اندوختوں کو بھی محفوظ رکھا جائے ‘‘ (ص۱۶۲)۔
غرض کوئی بھی آیت ہو اور اس کا کوئی بھی موضوع ہو، مصنف کھینچ تان کر اسے آبی وسائل کے علم سے جوڑدیتے ہیں اور اس سے اپنا خود ساختہ مفہوم نکال لیتے ہیں۔قرآن مجید میں معنوی تحریف کے نمونے کتاب میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔
مصنف نے کئی مقامات پر مشہور نو مسلم دانش ور محمد اسد کے ترجمۂ قرآن The Massage of the Quran کی تعریف و تحسین کی ہے اور اپنے قارئین کو اس سے استفادہ کا مشورہ دیا ہے۔ اس ترجمۂ قرآن کی خاص بات، جس کی طرف مصنف نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ اس میں آیات کی جدید سائنسی تشریح کی گئی ہے (ص۳۷، ۹۲) آیات کو سائنسی اصولوں کے تابع بنانے اور انھیں نام نہاد عقلی چوکھٹوں میں فٹ کرنے کے معاملے میں مصنف محمد اسد کے ہم فکر ہیں۔ مثال کے طور پر فرعون کی غرقابی اور بنی اسرائیل کی نجات کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مصنف نے البقرۃ: ۴۷- ۵۰ اور طہ : ۷۷-۷۹ کی آیات نقل کی ہیں۔ ان کی تشریح میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’بنی اسرائیل بے خوف ہوکر دریا کو پار کر گئے۔ ان کی اس بے خوفی کی وجہ وہ یقینی معلومات تھیں جو انھیں ایک متعینہ مقام پر مدو جزر کی کیفیات سے متعلق حاصل تھیں۔ موسٰیؑ اور ان کے پیرو ان صحیح ’’سائنسی معلومات‘‘ کا اطلاق کررہے تھے جو یا تو ان کے تجربہ اور مشاہدہ سے انھیں حاصل ہوئی تھیں، یا پھر یہ معلومات انھیں کسی اور ذریعہ سے فراہم کی گئی تھیں‘‘ (ص۱۱۶- ۱۱۷)
جوار بھاٹا والی توجیہ تو اور متجددین بھی کرتے ہیں،البتہ مصنف کی دانشوری اس سے ددو قم آگے ہے۔وہ یہ عقلی توجیہ کرنے کے ساتھ وہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں: ’’اللہ اور اسلام پر ایقان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سمندری جوار بھاٹے (مدو جزر) کی ان گھٹتی بڑھتی کیفیات سے متعلق علم حاصل کریں، تاکہ اس کے فوائد حاصل کرسکیں اوران سے ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے، جیسا کہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے‘‘ (ص۱۱۶)مشکل یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ان کی اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل مدو جزر کی یقینی معلومات کے سبب بے خوف نہیں تھے، بلکہ انھیں تو آخر آخر تک لشکر فرعون کے ذریعے اپنی گرفتاری کا اندیشہ ستارہا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنے پیچھے لشکر کو آتا دیکھا تو گھبراکر پکار اٹھے: اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ الشعرائ:۶۱ ( ہم تو پکڑے گئے) اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو وحی کی کہ سمندر پر اپنا عصا مارو، اس سے سمندر پھٹ گیا اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا: فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقاً فِیْ الْبَحْرِ یَبَساً طہ: ۷۷ (ان کے لیے سمندر میں سے سوکھی سڑک بنالے) لیکن مصنف اس موقع پر آیت کے ساتھ زور آزمائی سے نہیں چوکتے۔ وہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت موسٰیؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ بحر احمر کو پار کرنے کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب (اضرب – ضرب لگاؤ) کریں اور اس کو پار کرنے کے لیے طریقہ (طریقاً) اختیار کریں (ص۱۱۶)۔افسوس کہ قرآن کے الفاظ اور اس کا پورا انداز بیان اس کی تائید نہیں کرتے۔
مترجم کتاب نے آیات قرآنی کاترجمہ بلا صراحت مولانا مودودیؒ کی ’تفہیم القرآن‘ سے لیا ہے۔ اس بنا پر کئی مقامات پر تضاد کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مصنف کچھ کہنا چاہتے ہیں اور مولانا مودودی کے ترجمے سے کچھ اور مفہوم نکلتا ہے۔ مثلاً سورۂ البقرہ: ۱۶۴ میں اِخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ کو اللہ کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مولانامودودی نے اس کا ترجمہ ’رات اور دن کا پیہم ایک دوسرے کے بعد آنا‘ کیا ہے، جب کہ مصنف ’اختلاف‘ سے ’’عدم اتفاق- ناموافقت – حالت، کیفیت یا مرتبہ میں فرق، غیر یکساں، مختلف، ناموزوں، بے جوڑ، یا غیر متفق ہونا‘‘ مراد لیتے ہیں اور رات اور دن کے درمیان اختلاف کو ’سائنسی حقیقت‘ قرار دیتے ہیں (ص۱۱۲-۱۱۳) لِاِیْلَافِ قُرَیْْشٍ کا ترجمہ مولانا مودودی نے یہ کیا ہے’’چوں کہ قریش مانوس ہوئے‘‘، جب کہ مصنف ایلاف کے معنٰی اقرار نامہ، ضمانت اور امان بتاتے ہیں (ص۲۰۰)۔
عصری دانش وری کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ دین کے دوسرے بنیادی ماخذ ’سنت‘ پر ہاتھ صاف کیا جائے، چنانچہ اس معاملے میں بھی فاضل مصنف نے بڑی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’آج سنت سے متعلق وہی کتابیں باقی بچی ہیں جو صرف مشہور و معروف ہیں اور جو نماز کے طریقوں، اسلام کے دیگر ستونوں اور عبادتی رسوم ورواج سے متعلق روایات پر مبنی ہیں۔ ان میں خدا اور رسول سے منسوب وہ غلط روایات بھی شامل ہیں جو غلامی، بلا نکاح باندیوں سے جنسی تعلقات اور عموماً عورتوں سے متعلق ہیں‘‘ (ص۶۷) ان کا خیال ہے کہ ’صحاح ستہ‘ کے نام سے حدیث کی جو کتابیں مسلمانوں میں مقبول ہیں وہ جھوٹی، غیر عقلی ، غیر سائنسی اور اہانتآمیز روایات کا مجموعہ ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’سنت کی جو سب سے مشہور اور زیراستعمال کتب ہیں وہ صحاح ستہ ہیں۔ ان میں بہت سی ایسی روایات اور احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو قرآن، عقل اور طبعی علوم (فطرت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور خدا کی سنت) سے ٹکراتی ہیں، اس لیے انہیں اللہ کے رسول ﷺ سے منسوب کرنا نہایت غلط اور اہانت آمیز ہے۔ مثال کے طور پر بخاری اور دیگر کتب احادیث میں بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے کم تر قرار دیا گیا ہے ، عورتوں کو اپنے شوہروں کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی وغیرہ۔ یہ تمام غلط ’روایات‘ ہیں جو حضرت محمد ﷺ سے منسوب کردی گئی ہیں۔ یہ قرآن میں بتائے گئے معیار تقویٰ کے اصولوں سے ٹکراتی ہیں، لہٰذا یہ صحیح کہلائے جانے کی مستحق نہیں ہیں۔ ان روایات کو جو ’اخلاقی‘ اور عقلی لحاظ سے ناقابل یقین اور سائنسی لحاظ سے غیر صحیح معلوم ہوں انھیں جھوٹی اور خدا اور رسول اکرم ﷺ کی اہانت پر مبنی قرار دے کر چھانٹ دینا چاہیے‘‘ (ص۶۶) اس کی طرح کی نامعقول باتیں بہت سے دانش ور قرآن کریم سے متعلق بھی کہتے ہیں۔ مصنف بار بار اور بہ تاکید کہتے ہیں کہ ’ان نام نہاد مذہبی کتابوں‘ کی جگہ مسلمانوں کو کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو ’حقیقی سنت‘ کی ترجمان اور صحیح حدیث کی کتابیں ہیں (ص۱۲، ۴۳، ۶۳ وغیرہ) حالاں کہ ان کتابوں کا استناد بخاری اور مسلم جیسی کتابوں سے کم تر ہے۔ کتاب الاموال تو بہت بعد میں لکھی گئی ہے۔ امت کے نزدیک ’صحاح ستہ‘ کو قبول عام حاصل ہے، ان میں زندگی کے جملہ پہلوؤں پر معتبر اور مستند حدیثوں کو جمع کردیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابیں زندگی کے صرف ایک خاص پہلو سے بحث کرتی ہیں اور ان میں صرف چند صحیح حدیثوں کے علاوہ روایات و آثار اور دیگر چیزیں بھی بڑی مقدار میں ہیں۔ اس لیے ان کا درجہ امت کے نزدیک صحاح ستہ سے فروتر ہے۔ سنت کو بے اعتبار کرنے، احادیث کا درجہ گھٹانے اور معتبر کتبِ حدیث کو مشکوک بنانے کی کوششیں پہلے دشمنان اسلام انجام دیا کرتے تھے، افسوس کہ اب اس کی کمان نام نہاد مسلم دانش وروں نے سنبھال لی ہے۔ مصنف کی بے خبری کا شاہ کار ان کی یہ تحقیق ہے کہ ’’آبی و زرعی قوانین سے متعلق بخاری میں صرف چند روایات ملتی ہیں، جب کہ امام مالک کے مجموعہ میں ایک بھی روایت اس سلسلہ کی نہیں پائی جاتی‘‘ (ص۶۷) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ان کتابوں کو اٹھاکر بھی نہیں دیکھا ہے ۔ بخاری میں کتاب الوضوئ، کتاب الغسل، کتاب البیوع، کتاب الاشربۃ، کتاب الاطعمۃ، کتاب الحرث، کتاب المزارعۃ اور کتاب المساقاۃ وغیرہ کے تحت اس موضوع کی سیکڑوں احادیث ہیں اور موطا امام مالک میں کتاب الطہارۃ، کتاب البیوع، کتاب المساقاۃ، کتاب الطعام والشراب وغیرہ میں ایسی احادیث خاصی تعداد میں ہیں۔
مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ معروف او رمعمول بہ اسلام کو مسخ اور محرّف قرار دیں۔ وہ دین کے پانچ ستونوں (توحید، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ) کے بارے میں بار بار شکوہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ان میں تحریفات کردی ہیں۔ ان کے نزدیک ’’یہ عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں، بلکہ ان کے ذریعے دیگر اہم مقاصد کا حصول مطلوب ہے‘‘ (۸۹) ’’انحراف اور کج فکری کے حامل مسلمانوں نے ان کو اپنے آپ میں مقصد ٹھہرا لیا ہے اور خود کو ظاہری رسوم کا پابند بنا لیا ہے‘‘ (ص۷۵) انھوں نے ان مقاصد کی بھی وضاحت کی ہے۔ مثلاً: ’’حج کا ایک مقصد روئے زمین کی سیاحت ہے‘‘ (ص۷۷) ’’حج کے ذریعے ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیّا کرنا مقصود ہے جہاں لوگ ایک مشترکہ زبان عربی میں آپسی تبادلۂ خیال و گفتگو کرسکیں، اس کے نتیجے میں خیالات وافکار کی ترسیل ہوتی ہے اور تجارت و تعلقات میں وسعت کے ساتھ ٹکنالوجی کی منتقلی عمل میں آسکتی ہے (ص۱۹۱) زکوٰۃ کی مدات قرآن نے متعین کردی ہیں لیکن مصنف کے نزدیک ’’اس میں وہ پراجکٹ بھی شامل ہیں جو آبی وسائل و ذرائع اور انجینیرنگ کی ترقی سے متعلق ہیں، جیسے سربراہی آب، آب پاشی، زراعت، جہاز رانی اور آبی قدرت کے نظام وغیرہ‘‘ (ص۷۳) ان کے بعض خیالات بڑے دل آزار ہیں۔ مثلاً: ’’مسلمانوں نے حج کے ادارے کو مسخ کرکے رکھ دیا اور خود کو اس فریب میں مبتلا کرلیا کہ صرف چند دعاؤں کے پڑھ لینے اور میکانیکی انداز سے چند رسوم کے ادا کرلینے سے ان کے تمام گناہ دھل جائیں گے۔ خدا نے کبھی اس بات کا وعدہ نہیں کیا کہ حج یا عمرہ کے ادا کرنے سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے‘‘ (ص۷۷)۔
کتاب کے مرکزی موضوع سے ہٹ کر بھی مصنف کی بہت سی باتیں غلط اور گم راہ کن ہیں۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے: ’’نبی ﷺ کے دور نبوت کے پہلے تیرہ سالہ دور میں، جو مکی دور کہلاتا ہے، اس میں شراب کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل در پیش تھے‘‘ (ص۸۵) اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض کرنی ہے کہ سورۂ النحل میں، جو مکی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَراً وَّرِزْقاً حَسَناً آیت ۶۷ (اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی) دوسری بات یہ کہ اس سے مصنف کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ دور میں، جب کہ اہم مسائل در پیش ہیں، حرمتِ شراب کے بارے میں سکوت اختیار کرلینا چاہیے؟! بعض مقامات پر مصنف بڑی بے باکی سے دینی قدروں پر تیشہ چلاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے جانوروں کا گوشت حلال اور قربانی کو مشروع کیا ہے، لیکن موصوف فرماتے ہیں : ’’مویشیوں کو بہ طور غذا ، یہاں تک کہ قربانی کے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کا استعمال زمین کی بہتری اور آب پاشی کے لیے کیا جائے، بلکہ کیا جانا چاہیے‘‘ (ص۱۵۶)
کتاب کے شروع میں مصنف نے چالیس صفحات پر مشتمل مبسوط مقدمہ لکھا ہے۔ اس میں اپنے تعلیمی مراحل کی تفصیل، تدریسی و تحقیقی سرگرمیاں، ملازمتوں کے حصول کی کوششیں، بے روزگاری کے ایام کی دشواریاں، بیوی بچوں سے دوری، کانفرنسوں میں شرکت اور دنیا جہاں کی باتیں تحریر کی ہیں۔ وہ بلا تکلّف اپنی اس ساری جدو جہد کو ’جہاد‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اہل و عیال کی جدائی کو ’بے آب و گیاہ وادی میں حضرت ابراہیم ؑ کے اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑنے‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انھوں نے مختلف ممالک کے ان افراد، اداروں، تنظیموں اور جماعتوں کے نام بھی تفصیل سے تحریر کیے ہیں جنھوں نے ان کے تحقیقی کاموں میں مالی یا اخلاقی تعاون کیا ہے۔ ان میں جماعت اسلامی ہند، جماعت اسلامی پاکستان اور ان کی بعض نمایاں شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ یہ فہرست ناقابل اعتبار معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی سلیم الطبع اور صحیح العقیدہ مسلمان اور کوئی بھی دینی جماعت ایسے مخالفِ دین افکار کی تائید و تصویب نہیں کرسکتی۔اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری سے استفسار کرنے پر انھوں نے ان الفاظ میں برائت ظاہر کی:’’ڈاکٹر صاحب کبھی کبھی مرکز جماعت اسلامی ہند میں قیام کرتے تھے، ہماری مجبوریوں کی وجہ سے اب نہیں کرتے۔ جہاں تک ان کے متجدّدانہ خیالات کا تعلق ہے جماعت اسلامی ہند کا ان سے دور و نزدیک کا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔
یہ کتاب ’قرآن میں آبی وسائل‘ کے موضوع پر مصنف کے مجوزہ سلسلۂ کتب کی پہلی جلد ہے۔ ابھی پانچ جلدیں اور آنی ہیں۔ خدا خیر کرے، ان میں مصنف کے کیسے کیسے ’اجتہادات‘ سامنے آئیں گے۔ اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں جا بسنے والے بعض نام نہاد مسلم دانش وروں کی ذہنی ساخت کس قدر مسخ ہوکر رہ گئی ہے اور وہ اسلامائزیشن آف نالج کے نام پر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں۔
مصنف کی بعض اور کتابیں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ مثلاً ایک کتاب کا عنوان یہ ہے: ’’طبعی علوم و ٹکنالوجی اور مسلم ثقافات کا اسلامیانا: معروف پانچ ارکانِ اسلام میں تحریف اور اسلامی اصلاح‘‘۔ اس میں بھی ان کی سابق الذکر کتاب ’قرآن میں آبی وسائل کا علم‘ کے مباحث کو کہیں من وعن اور کہیں تلخیص کرکے شامل کرلیا گیا ہے۔ مباحث کی تکرار، بے ربطی، غیرمتعلق باتیں ان کتابوں میں نمایاں ہیں۔ اس کے باوجود یہ کتابیں جس اعلیٰ معیار سے طبع ہو رہی اور پھیلائی جا رہی ہیں ان سے بہت سے شکوک و شبہات ذہن میں ابھرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ان کتابوں میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ امت کے لیے فتنہ ہیں۔ افسوس ہے کہ انہیں ’اسلامائزیشن آف نالج‘ کا خوب صورت لیبل لگاکر عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امت کے سنجیدہ، مخلص اور باشعور طبقہ کو ان کا نوٹس لینا چاہیے۔
تحریر محمد رضی الاسلام ندوی،معاون مدیر سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ