ہیومن ازم اپنے عمومی تصور اور مفہوم میں ایک سادہ سی بات ہے جس کے قائل مذہبی لوگ بھی ہیں۔چناں چہ اس پہلو سے لوگ اسلامی کی اخلاقی تعلیمات / تصوف وغیرہ سے مربوط کر کے بھی اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ لیکن ہیومن ازم ایک مربوط نظامِ افکار کے طور پر کوئی ایسی چیز نہیں جس کو چھوٹتے ہی “اسلامائزیشن” کے مرحلے سے گزارنے کی سفارش کی جائے۔ یہ نظامِ فکر “انسان” کے “خود کوزہ وخود کوزہ گر وخود گل کوزہ” کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے۔ خاص طور پر الحادی ہیومن ازم پر ژاں پال سارتر جیسے ملحد فلسفیوں کی وجودیت (Existentialism ) کے گہرے اثرات ہیں۔ ایک نظامِ افکار کے طور پر ہیومن ازم کے قائلین کے افکار میں مندرجہ ذیل سات چیزیں جزوِ لاینفک ہیں، جنھیں آکسفرڈ سے شائع ہونے والی Stephen Law کی مختصر کتاب Humanism سے اپنے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے، تفصیل کے لیے کتاب دیکھی جا سکتی ہے۔مصنفِ کتاب سٹیفن لا ، لندن کے ایک انگریز فلسفی ہیں۔
1- ہیومنسٹ حضرات کے نزدیک science اور reason و ہ دو فیصلہ کن کسوٹیاں ہیں جن پر زندگی کے جملہ مظاہر کو پرکھا جانا چاہیے۔کوئی بھی نظامِ فکروعقیدہ عقلی جانچ پرکھ( rational scrutiny) سے بالا تر نہیں سمجھا جا سکتا۔
2- ہیومنسٹ حضرات دہریے(atheists ) (خدا کے منکر)یا کم از کم لاادری(agnostic) (خدا کے بارے میں عدمِ علم کے تصور پر یقین رکھنے والے)ہیں۔ وہ خدا کے وجود کے بارے میں متشکک(sceptical) ہیں۔ اسی طرح وہ فرشتوں، شیاطین اور دیگر مافوق الفطرت تصورات کے بارے میں بھی شک کا شکار ہیں۔
3- ہیومنسٹ حضرات مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا (عیش توبس دنیا ہی کا ہے جس میں ہم جیتے مرتے ہیں۔ ) پر یقین رکھتے ہیں اور” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” ان کا مطمحِ نظر ہے، اس لیے “تجمل حسین خاں ” کو چاہیے کہ اس عیش سے بقدرِ ظرف ومقدور اپنا حصہ پائے۔ جنت ودوزخ محض ڈھکوسلے ہیں۔یہ افکار نظام عقیدہ کے لیے rational scrutiny کو معیار قرار دینے کا لازمی نتیجہ ہیں۔
4- یہ حضرات اخلاقی اقدار کی اہمیت کے قائل ضرور ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہماری اخلاقیات کو ان امور پرا ستوار ہونا چاہیے جو واقعتا انسانیت کو پسند ہیں اور ان کی دنیاوی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کے منفی دعاوی کی نفی کرتے ہیں کہ کسی خدا کے بغیر بھی اخلاقیات کو وجود ہو سکتا ہےیا کسی خدا یا مذہب کے بغیر بھی ہم اچھے ہو سکتے ہیں، تاہم وہ مذہب اور عقیدے کے علاوہ دیگر امور کی بنیاد پر بھی اخلاق کی توجیہ پیش کرتے ہیں۔
5- یہ ہماری انفرادی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے اخلاقی تصورات کا تعین کریں، بجائے اس کے کہ ہم یہ ذمے داری خدا یا مذہب جیسی کسی خارجی چیز کو بخشیں۔
6- ہماری زندگیاں کسی خدا ئی مداخلت کے بغیر بھی با معنی ہو سکتی ہیں۔مثال کے طور پر پبلو پکاسو، آئن سٹائن وغیرہ کی زندگیاں بھرپور اور معنویت سے پر تھیں، خواہ وہاں خدا ہو یا نہ ہو۔
7- ہیومنسٹ حضرات سیکولر ہیں۔ وہ ایک ایسے جمہوری سماج کی تشکیل کے خواہاں ہیں، جہاں ریاست مذہب کے بارے میں غیر جانب دار رہتی ہے، افراد کو اس معاملے میں آزادی بخشتی ہے کہ افکار چاہے مذہبی ہوں یا الحادی، انھیں ان پر نقد کا پورا حق حاصل ہے، وغیرہ۔ (Humanism ,p:17, 18)
تحریر سید متین احمد