کسی ایک تھریڈ پر ایاز نظامی اور میرے دوران یہ بات زیر غور آئی کے میرے اور ایاز نظامی کے درمیان ون تو ون مباحثہ یا مکالمہ ہونا چاہئے۔ اس پر ایاز نظامی نے کہا کہ میں ان کی ویب سائٹ جراءت تحقیق میں سے کوئی بھی مضمون منتخب کرلوں اور وہ اس پر بحث کرنے کے لئے تیار ہیں۔
اس پر میں نے ان کی ویب سائٹ پر موجود ایک مضمون آزادی فکر اور انسانی حقوق پر مباحثے کا عندیہ دیا۔ بحث کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ میرے اور ایاز نظامی کے علاوہ کوئی بھی کمنٹ نہیں کرے گا اور کرنے کی صورت میں کمنٹ کو ڈلیٹ کردیا جائے گا۔
مضمون میں ویسے تو بہت ساری باتیں قابل گرفت تھیں، لیکن ہم نے ابتداء کرنے کے طور پر مضمون کا سب سے پہلا نکتہ لیا۔ یہ ایک دعوی تھا کہ ہم سب آزاد اور برابر ہیں۔
میں نے اس دعوی پر تین طرح سے گرفت کی۔
1۔ یہ جملہ “ہم سب آزاد ہیں” خلاف واقعہ اور غیر واضح ہے۔ اس کا کوئی واضح مطلب نہیں نکلتا اور اگر کوئی مطلب نکلے بھی تو وہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔
2۔ یہ جملہ “ہم سب برابر ہیں” بھی خلاف واقعہ اور غیر واضح ہے۔ اس کا کوئی واضح مطلب نہیں نکلتا اور اگر کوئی مطلب نکلے بھی تو وہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔
3۔ یہ دونوں دعوی ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ یعنی اگر ہم برابر ہیں تو آزاد نہیں ہوسکتے اور اگر آزاد ہیں تو برابر نہیں ہوسکتے۔
ان تینوں پؤائنٹ کی تشریح آپ کو مناظرے کے اٹیچمنٹ میں مل جائے گی۔
اس کے جواب میں ایاز نظامی صاحب نے واعظانہ اور ناصحانہ انداز میں بہت سارے دعوی کئے۔ لیکن وہ دعوی اپنی نوعیت میں کچھ ایسے تھے کہ ان کا کوئی ثبوت ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ بس کچھ دعوے کئے گئے تھے اور ہم سے توقع کی جارہی تھے کہ ان دعووں کو جوں کا توں قبول کیا جائے۔
وہ انہی دعووں کو ہی دہراتے رہے اور جب میں نے بار بار ان کے دعووں کی قلعی کھولی تو موصوف ایک ہفتے تک غائب رہے۔ جب واپس آئے تو ان کی پوری بحث مابعد الطبیعات میں ہی پھنس کر رہ گئی۔ ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح یہ ثابت کریں کہ مجھے مابعد الطبعیات کا مطلب نہیں معلوم۔ اس بارے میں آگے مزید تفصیل آئے گی۔ لیکن آنے کے بعد انہوں نے غلطی سے ایک بات کا اعتراف کیا کہ وہ مجھے اپنی بات سمجھا نہیں پارے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بحث سے پہلے انہیں بالکل ہی اندازہ نہیں تھا اس مضمون میں کتنی بڑی غلطی کی گئی ہے۔ جو بات غلط ہے اس کو ثابت تو نہیں کیا جاسکتا لیکن انہیں غلطی ماننا بھی نہیں تھا۔ اگر انہیں اندازہ ہوجاتا تو وہ کبھی اس موضوع پر بحث کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ آخر میں بحث اسی بات پر اٹک گئی کہ موصوف نے مجھ سے غیر متعقلہ سوالات پوچھ کر یہ مطالبہ کیا کہ میں بحث کے لئے اپنی اہلیت ثابت کروں۔ یہ بات صراحتاً شرط کے خلاف تھی اور پھر جس بنیاد پر وہ میری اہلیت پر سوال اٹھا رہے تھے اس بنیاد پر وہ کئی بار بحث کی اہلیت کھوچکے تھے۔
بحث کے دوران جس قسم کی وارداتیں ہوئیں اس پر میرے تاثرات نیچے بیان کر رہا ہوں۔
بحث کا بنیادی نکتہ ہی یہ تھا کہ انسان کیسے آزاد کیسے ہیں اور انسان برابر کیسے ہیں۔
میں نے انسان کے آزاد ہونے کی وضاحت طلب کی تو موصوف کا طرز عمل کچھ یوں تھا۔
1۔ بار بار اپنے دعؤوں کو ہی دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے۔
2۔ میں نے سمجھانے کے لیے جب کہا کہ یہ مابعد الطبیعاتی دعوی ہے تو یہ مابعد الطبعیات کی ہڈی گلے میں اٹکائے رہے۔ اصل موضوع پر آنے کے بجائے مابعد الطبیعات پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
3۔ جب میں نے یہ کہا کہ مابعد الطبیات ہونے یا نہ ہونے سے بھی ہمارے اصل مقدمے پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو بھی اصل مقدمے کی طرف آنے سے مسلسل انکاری رہے اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس بحث کا اصل مقدمے سے کوئی تعلق بھی ہے۔
4۔ جب میں نے یہ کہا کہ اگر یہ آزادی مابعد الطبیعات سے نہیں نکلی ہے تو پھر کہا سے نکلی ہے۔ موصوف کافی تگ و دو کے بعد یہ بتانے پر آمادہ ہوئے کہ یہ اخلاقیات اور علم معاشرت سے ہے۔ جب میں نے یہ پوچھا کہ ایک قوم کی اخلاقیات کو دوسری قوم پر کیسے مسلط کیا جاسکتا ہے تو موصوف کو خاموشی میں ہی عافیت نظر آئی۔ ویسے موصوف نے اس کو علم معاشرت بھی قرار دیا تھا۔ اگر علم معاشرت سے مراد سوشیل سائنس ہے تو اس کی بہت ساری شاخیں ہیں جیسے معاشیات، عمرانیات، نفسیات، اینٹھروپولوجی وغیرہ۔ اب پتہ نہیں یہ اصلاً کونسے علم سے نکلا ہے۔ یا شاید انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ واضح جواب دینے کی صورت میں بری طرح سے پھینس جائیں گے۔ اور جیسے ہی میں نے واضح کیا کہ اخلاقیات فلسفے کی شاخ ہے موصوف کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر اس ٹاپک پر بات کرنے کے لئے آمادہ ہی نہ ہوئے۔
5۔ بحث کا ایک اہم موضوع تھا “سب انسان برابر ہے” اس موضوع پر تو جناب اپنے دعوے میں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ پائے۔ بار بار یہی بات دہراتے ہیں۔
6۔ برابری کی دلیل میں انہوں جو بات کہی اس کے کوئی معنی ہی متعین نہیں ہوتے۔ دلیل یہ دی کہ فطرت تمام انسان سے برابری کا سلوک کرتی ہے۔ اول تو دلائل کے میدان میں فطرت کا تعین ہی نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں بتانا چاہئے تھا کہ فطرت سے کیا مراد ہے۔ برابری کا سلوک کرنے سے کیا مراد ہے یہ بھی واضح نہیں تھا۔
7۔ میں نے برابری کے دعوی کی قلعی کھولنے کے لئے ایک سوال پوچھا۔ اگر فطرت سب کے ساتھ برابری کا سلوک نہ کرتی تو ایسا کیا جوتا جو اب نہیں ہورہا ہے۔ جواب ندارد۔
8۔ میں نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ برابری والا دعوی ان فالسی فیبل ہے۔ اٹیچمنٹ میں ان فالسی فائیبل کی پوری وضاحت ہے۔ موصوف اس طرف آئے ہی نہیں۔ بس ایک دعوی کردیا کہ ہمیں علم منطق کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔
9۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک ہفتے کی غیر حاضری کے بعد باقاعدہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ اصل موضوع پر تو بات بن ہی نہیں سکتی اس لئے اب بحث کو دوسری طرف ہی موڑنا ہے۔ اس لئے مابعد الطبیعات کی ٹاپک لے کر بیٹھ گئے اور پوری کوشش یہی رہی کہ اصل مقدمے پر بات ہونے ہی نہ پائے۔
10۔ میں نے کوشش کی کہ مابعد الطبیعات کی ٹاپک کی طرف نہ جایا جائے۔ لیکن موصوف کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس موضوع پر بحث کو طول دے کر اپنے علمیت کا بھرم رکھا جاسکتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے مابعد الطبیعات فلسلفے کا مشکل ترین موضوع ہے اور اس پر عملا کسی نتیجہ پر متفق ہونا بہت مشکل ہے۔ اور اس بحث میں پڑنے کے بعد تھریڈ لامتناہی طور پر طویل ہوجاتا اور عام قارئین بحث میں دلچسپی کھودیتے۔ اپنی شکست کا تاثر ختم کرنے کے لئے موصوف نے یہی سٹریٹجی اپنائی۔
11۔ موصوف کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں فلسفے کی ہوا بھی نہیں لگی۔ اپنے شیدائیوں کے درمیان بیٹھ کر فلسفہ بگھارنے کی اور اس پر واہ واہ سننے کی عادت تھی اور اسی بنیاد پر اپنے آپ کو فلسفے کا ماہر سمجھ بیٹھے تھے۔ ان کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مابعد الطبعیات کا مادی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف مابعد الطبیعات کو بھوت پریتوں کی کہانیاں سمجھتے تھے۔ اردو وکی پیڈیا سے ایک دلیل دی جو کہ خود ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔ جب ہم نے واضح کیا کہ انگریزی وکی پیڈیا میں غیر مادی کی تخصیص نہیں ہے تو اپنے بات پر اڑنے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ تھا نہیں۔ حالانکہ مابعد الطبیعات وجود، شعور، علم، شناخت، وقت، خلا وغیرہ کی بنیادی حقیقت کے تعارف سے متعلق ہے۔ نیچے آکسفوڈ دکشنری سے میٹافزکس کے معنی دے رہا ہوں۔
The branch of philosophy that deals with the first principles of things, including abstract concepts such as being, knowing, identity, time, and space.
12۔ اول تو ایاز نظامی نے دعوی کیا کہ انسانی آزادی کے تصور کا مابعد الطبیعات سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اسی کی بنیاد پر ہار اور جیت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ میں نے مشہور فلسفے ژاں سارترے اور پھر نیویارک یونیورسٹی کے ویب سائٹ کے حوالے سے ثابت کیا کہ انسان کا فی نفسہ آزاد ہونے کا تصور دراصل میٹافزکس کی شاخ Ontology سے متعلق ہی ہے۔ لیکن پھر صراحات خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موضوع کو چھوڑ کر مابعد الطبیعات کا ایک دوسرے موضوع لے بیٹھے۔
13۔ جب میں نے آزادی کی بحث کو ایک ہی ہلے میں نمٹادیا تو موصوف اڑ گئے کہ نہیں یہ ثابت کرو کہ مادے کا تعلق آنٹالوجی ہے۔ اور پھر اسے ثابت کرنے کو یک طرفہ طور پر مکالمے کی اہلیت سے جوڑ دیا حالانکہ مادے کی حقیقت کا میٹافزکس سے تعلق ہونے کا دور دور تک اصل موضوع سے تعلق نہیں تھا۔ چونکہ اس وقت تک واضح ہوچکا تھا کہ موصوف اصل موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے اور اگر میں اس کا ثبوت دے بھی دیتا تو پھر کوئی سوال داغ دیتے، اس لئے مں نے یہ سوال پوچھا کہ اگر اپنی کوئی بات ثابت نہ کر سکنا مقدمے کی اہلیت سا خارج کردیتا ہے تو موصوف تو کئی بار مقدمے کی اہلیت سے خارج ہوچکے ہوتے۔ لیکن اس پر موصوف جواب دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ میں نے آزادی کی آںٹالوجی کی وضاحت کے بارے میں بتایا کہ آپ نے خود اس کو کسوٹی قرار دیا تھا تو اس بنیاد پر آپ ہار چکے ہیں۔ جواب ندارد
14۔ اگر قارئین میں سے کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ میں مادے کو آنٹولوجی سے متعلق ثابت نہیں کرسکتا تھا اس لئے میں نے کوشش نہیں کی تو اس غلط فہمی میں نہ رہیں۔ میرے پاس جواب تیار تھا لیکن یہ سوچا کہ جس مقصد کی وجہ سے یہ سوال پوچھا جارہا ہے جواب دے کر کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں پرقارئین کے اطمینان کے لئے ثبوت فراہم کرتا ہوں۔
نیویارک یونی ورسٹی کا ایک لنک ہے۔
https://cs.nyu.edu/davise/papers/ontology-aaai.pdf
اس کے اندر مادے کی آنٹولوجی پر بحث ہوئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے۔
We carry out a comparative study of the expressive power of different ontologies of matter in terms of the ease with which simple physical knowledge can be represented. In particular, we consider five ontologies of models of matter: particle models, fields, two ontologies for continuous material, and a hybrid model. We evaluate these in terms of how easily eleven benchmark physical laws and scenarios can be represented.
15۔ ایک اور نکتہ بحث کی ابتداء میں ان موصوف کی دماغ میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ یہ کہ جناب مصر تھے کہ میں نے آزادی کا مطلب ہی نہیں سمجھا۔ اس لئے وہیں پر مقدمہ ختم ہونا چاہئے۔ جب میں نے واضاحت کی میں وہی چیز سمجھ سکتا ہوں جو لکھی ہوئی ہو اور جو چیز آپ کے دماغ میں ہے اس کے لئے میں ذمہ دار نہیں ہوں، تو جواب دینے کے بجائے اپنی بات ہی دہراتے رہے۔
16۔ جب میں نے وضاحت کی اگر آپ مضمون میں موجود تمام چیزوں کو جوں کا توں قبول نہیں کرتے تو آپ مکالمہ ہار چکے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں آزادی کا ایسا کوئی مفہوم تھا ہی نہیں۔ لیکن پھر کوئی جواب نہیں آیا۔ اپنی بات پر ہی اصرار کرتے رہے۔
17۔ انہوں نے کہا کہ حقوق انسانی کی بحث میں آزادی کی بحث میں غلامی کی ضد آزادی ہی ہوتی ہے تو میں نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے۔ حقوق انسانی دوسری آزادیاں بھی دیتا ہے جیسے زنا اور ہم جنسی کی۔ جواب دینے کے بجائے اپنی ہی بات پر اصرار کرتے رہے۔
18۔ موصوف نے ایک تبصرے میں سات نکات اُٹھائے تھے۔ میں نے ان سب نکات کے جواب دئے اور پھر ان سے مطالبہ کیا کہ انہیں نکات پر آگے بات ہونی چاہئے۔ لیکن وہ ان نکات پر بات کرنے پر بالکل ہی آمادہ نہ ہوئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ کہنے کے لئے کوئی دلیل تھی ہی نہیں۔ میں نے انہی کے اُٹھا ئے ہوئےکچھ اور نکات ملا کر اس کو دس نکاتی بحث بنایا۔ لیکن موصوف کا طریقہ یہ تھا کہ ایک جگہ مار کھاتے اور جواب دینے کے بجائے وہاں سے غائب ہو کر کہیں اور نمودار ہوجاتے۔
19۔ اس بحث کے دوران جن نکات پر یہ بے بس ہوگئے اس کے لئے اپنے پیج پر جاکر دلائل دیتے رہے۔ انہیں پتہ تھا کہ اگر مجھ سے کچھ بھی کہیں گے تو پھنستے چلے جائیں گے۔ اگر ایسے ہی دلائل ہوتے تو ہمارے سامنے پیش کرنے میں کیا تکلیف ہوتی؟
20۔ اسی بحث کے دوران ان کا ایک مغلظاتی گماشتہ اپنی تمام بدتمیزی کے ساتھ بار بار آرہا تھا۔ اگرچیکہ جہالت کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔(مغلظاتی گماشتہ کہنے پر معذرت خواہ ہوں، اگر آپ اٹیچمنٹ میں اس کی باتیں پڑھیں گے تو آپ کو بھی لگے کا کہ یہ واقعی اس خطاب کا مستحق ہے) لیکن اس بندے نے اپنی دانست میں ایک عقل کی بات کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ اگر برابری والا عقیدہ ان فالسی فیبل ہے تو پھر اس کو غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو بات صحیح ہے۔ لیکن پھر ان فالسی فیبل دعوے کو بطور دلیل کے پیش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ ایاز نظامی نے برابری والے عقیدے کو آزادی کی دلیل کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس لئے ہمیں وضاحت کرنے پڑی کہ یہ دعوی ان فالسی فیبل ہی ہے۔ اسی مغلظاتی بندے نے بار بار یہ دعوی کیا کہ میں نے یہ ان فالسی فیبل والا نکتہ سید فواد بخاری سے نقل کیا ہے۔ اول تو اس سے میری دلیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا، آج کے دور میں علم منطق اور فلسفہ کسی نہ کسی آدمی کے علمی کام سے ہی لیا گیا ہے۔ دوم یہ کہ فالسی فیبلٹی والا مسئلہ علم منطق میں معررف و معلوم ہے۔ اگر اس جاہل بندے نے صرف سید فواد بخاری سے ہی پڑھا ہے تو یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا۔ سوم یہ کہ میں واضح کردوں کہ اس موضوع پر میں نے سید فواد بخاری کی کوئی تحریر نہیں پڑھی ہے۔
الغرض اس پوری بحث میں کوئی ایک بھی نکتہ ایسا نہیں تھا کہ اس علامہ ایاز نظامی نے کہیں پر عقل، دلیل یا علم کا مظاہرہ کیا ہو۔ ہر جگہ یہ ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف فرار ہوتے ہیں۔ میری ہر دلیل کو نظر انداز کر کے نئے نئے سوالات پوچھتے رہے۔ کسی ایک جواب کا نہ مقابلے کر سکے اور نہ ہی تسلیم (acknowledge) کرسکے۔
21۔ آخر میں آجا کر جہاں بحث ختم ہوئی وہ یہ تھی میں اپنی اہلیت ثابت کروں اور اس کے لئے مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ آنٹولوجی میں مادے کی وجود کی بحث آتی ہے۔ اگرچیکہ اس کا واضح جواب پورے دلائل کے ساتھ میرے پاس تھا اور میں نے اوپر دیا بھی۔ لیکن میں نے موصوف کی فطرت کے پیش نظر بحث کے دوران اس کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اور پھر اہلیت کی شرط بحث سے پہلے ہونی چاہئے تھی موصوف نے یہ شرط بحث ہارنے کے بعد رکھی۔ اور پھر اگر اہلیت کی ہی شرط ہونی چاہئے تو موصوف کم از کم یہ شرط گیارہ بار ہار چکے تھے۔
مکمل مناظرہ ڈاؤنلوڈ لنک
ارمان علی
م ز اسلم
August 29, 2016 at 8:46 amجزاک اللہ خیرا۔بہت شکریہ بھائی ۔اللہ تعالی آپکو مزید توفیق دے۔
علت ومعلول(خداکی علت)کےموضوع پرملحدین کیساتھ مکالمہ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
September 25, 2018 at 12:29 pm[…] کسی طرح سے بھنور سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کی روداد یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال ایک اور بندے بھی تھے جو کہ […]