ھیومن (جیسے کہ ایک پوسٹ میں واضح کیا گیا) خدا کی باغی تصور ذات ھے۔ یہ تصور ذات آزادی بطور قدر کو خیروشر، عدل و ظلم اور حق و باطل کا پیمانہ گردانتی ھے اور اسی کی بنیاد پر انہیں ڈیفائن کرتی ھے (آزادی بطور قدر کی وضاحت بھی ایک پوسٹ میں کی گئی تھی)۔ چنانچہ ھیومن رائٹس بھی اسی تصور ذات سے نکلنے والے حقوق ھیں۔ مذھبی حلقے اکثروبیشتر ھیومن رائٹس کا ترجمہ ‘انسانی حقوق’ اور حقوق العباد کی بعض شقوں سے انکی مماثلت کی بنا پر نہ صرف یہ کہ ھیومن رائٹس کو حقوق العباد کا پرتو بلکہ اسلام کو انکا ماخذ تک قرار دیتے ھیں۔ یاد رکھنا چاھئے کہ یہ انتہائ خوفناک علمی غلطی ھے۔
حقوق العباد کا جواز اور اسکی ترتیب ارادہ خداوندی سے طے پاتی ھے یعنی یہاں ایک انسان (عبد) کو کسی فعل کا حق ھونے یا نہ ھونے کا فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں ھوتا ھے جبکہ ھیومن رائٹس کی تخریج انسان (ھیومن) کی خود ارادیت (آزادی بطور قدر) کے پیمانے سے ھوتی ھے۔ ھیومن رائٹس کی بعض شقوں میں حقوق العباد سے مشابہت کی بنا پر دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ حقوق کے معاملے میں اصل شے تعین حقوق کی بنیاد اور وجہ جواز ہوتی ھے، دو مختلف بنیادوں سے چند یکساں دکھنے والے حقوق برآمد ھونا ان بنیادوں کے باہمی طور پر آھنگ یا ان میں سے کسی ایک کے دوسرے کا ماخذ ھونے کی دلیل نہیں ھوتی۔ چونکہ ھیومن رائٹس فریم ورک میں حقوق کا ماخذ ارادہ خداوندی (کتاب و سنت) نہیں بلکہ فرد کی مساوی خود ارادیت (equal autonomy) ھوتی ھے لہذا اس فریم ورک میں فرد کے پاس ہمیشہ یہ حق محفوظ ھوتا ھے کہ وہ ارادہ خداوندی کو پس پشت ڈال کر کوئ ایسا حق حاصل کرلے جو ارادہ خداوندی سے متصادم ھو۔ یہی وجہ ھے کہ ھیومن رائٹس فریم ورک سے جس طرح بہت سے ایسے حقوق برآمد ھوتے ہیں جو حقوق العباد سے مشابہت رکھتے ہیں (مثلا زندگی کا حق) بالکل اسی طرح اس فریم ورک سے بے شمار ایسے حقوق بھی اخذ ھوتے ھیں جو حقوق العباد فریم ورک کے خلاف ہیں (مثلا بدکاری یا عمل لواطت کا حق، مذہبی شعار و انبیاء کا مضحکہ اڑانے کا حق وغیرہ)۔
ھیومن رائٹس فریم ورک کے مطابق انسان قائم بالذات ہستی ھے لہذا اسے فطری طورپر چند ایسے ناقابل تنسیخ حقوق حاصل ہیں جو کسی دوسری بنیاد (مثلا مذھب) پر رد نہیں کئے جاسکتے (دھیان رھے فطری حقوق کا یہ مقدمہ محض ماقبل عقل ایک مفروضہ ھے جسکی کوئی آفاقی عقلی بنیاد ان ملحدین کے پاس موجود نہیں)۔ اسکے مقابلے میں اسلامی نقطہ نگاہ سے انسان کا ایسا کوئ حق ھے ہی نہیں جس کا جواز ماورائے اسلام کسی دوسری بنیاد (مثلا فطرت، عقل وغیرہ) سے نکلتا ھو۔ اانسان کے حقوق بس وہی ھیں جو اسکے خالق نے اپنی عبدیت کا فرض بجا لانے کیلئے اسے بذریعہ انبیاء عطا کئے، اسکے خلاف وہ جو بھی حقوق ڈیفائن کرتا ھے درحقیقت ظلم اور استحصال کے زمرے میں شمار ھوتا ھے اور ایسے ظالمانہ و استحصالی ھیومن رائٹس کو ختم کرکے حقوق العباد کو قائم کر دینا ہی عدل کا تقاضا ھے۔
اسے لئے ھم کہتے ھیں کہ ھیومن رائٹس درحقیقت حقوق العباد کا اقرار نہیں بلکہ انکار اور نفی ھے، کیونکہ ہیومن رائٹس عبد کے نہیں بلکہ ھیومن (خداکے باغی) کے حقوق ھوتے ہیں جبکہ حقوق العباد عبد کے۔ جب ھیومن عبد ھونے کی نفی ھے تو ھیومن رائٹس کیسے حقوق العباد کا اقرار ھوسکتا ھے؟
مسلم مفکرین کے درج بالا قسم کے خلط مباحث کا شکار ھونے کی بنیادی وجہ اسلام کو مغرب یا مغرب کو اسلام میں تلاش کرنے کی کوشش کرنا یا انہیں کسی معنی میں ایک دوسرے کا پرتو فرض کرنا ھے۔ یاد رکھنا چاہئے، ھیومن اور عبد کے درمیان مساوی ھم وجودیت (co-existence) ممکن نہیں، ان میں سے کسی ایک کو لازما مغلوب ھونا پڑتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ جن معاشروں میں ھیومن اور ھیومن رائٹس عام ھوتے ہیں وہاں عبدیت اور حقوق العباد معدوم ھوجاتے ھیں۔!
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل
Nisar Ahmad
October 12, 2019 at 12:47 pmماشاء اللہ اچھی تحریر ہے، جزاک اللہ خیرا