جرمن فلسفی ہامان[Hamman] اور اسکی فلسفیانہ بصیرت

ہامان جرمنی میں روشن خیال تحریک Aufklarung کے مقابلے میں اٹھنے والی تحریک Sturm und Drang کا نمائندہ فلسفی تھا۔وہ نامور فلسفی ‘ہرڈر ‘کا استاد تھا اور یہ ہرڈر ہی تھا جس نے گوئٹے کو ہامان کے خیالات سے متعارف کرایا تھا،اور جن سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ جرمنی کی رومانی تحریک پر ہامان کے کیا اثرات تھے؟ اس کا اعتراف گوئٹے نے اپنی کتاب Dichtung und Drang میں کیا ہے۔ ہامان، ہرڈر، گوئٹے اور جیکوبی سب روشن خیال تحریک کے اس تصور کے خلاف تھے کہ عقل خود مکتفی(Self Sufficient) اور مطلق ہے اور مذہب، اخلاق اور تمام معاشرتی مظاہر کو اسی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنا چاہیے۔
یہ وہ دور تھا جب مغربی فکر و فلسفہ پر عقل کی مطلق العنانیت کا راج تھا اور اس کے سیل ِبے پناہ کے سامنے ہر شے ریت کا گھروندا ثابت ہو رہی تھی۔ اور اس کی ایک ہو ہر دیوانے کو فرزانہ بنا دینے پر تلی ہوئی تھی۔ ہامان کا اثر اس دور کے نامور فلسفیوں شیلنگ، شلیگل، اور ہیگل پر بھی نمایاں ہے۔ خاص طور پر شیلنگ کی کتاب Positivephiloshie پر یہ اثرات اور بھی زیادہ محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ کرکیگارڈ کی فکر پر بھی ہامان کی فکر کے اثرات کچھ کم نہیں جس کے ذریعے سے یہ وجودیت کے فلسفہ میں بھی نمایاں ہوئے۔ہامان نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عقل جس کی مطلقیت اور خود مختاری کے اتنے گن گائے جا رہے ہیں، خود ایک سماجی اور ثقافتی تشکیل ہے اور اس کو تشکیل دینے میں زبان کا بہت کردار ہے، لہٰذا اسے خود مکتفی اور مطلق کسوٹی مانتے ہوئے مذہب اور اخلاق کو اس پر پرکھنا غلط ہوگا۔ چنانچہ زبان کے اس اہم کردار کو وٹگنسٹائن سے پہلے ہامان نے تسلیم کرانے کی کوشش کی۔ اس نے عقل کی اتھارٹی کو چیلنج کیا اور اس کے محدود کردار کی بات کی۔
ہامان جو جوانی میں ایک سفارتی مشن پر لندن گیا تھا، اس مشن کی بری طرح ناکامی بلکہ روسی سفارتی عملہ کے ہتک آمیز سلوک کی وجہ سے شدید مایوسی اور ڈیپریشن میں مبتلا ہو کر شباب و کباب اور دیگر بےراہ رویوں کا شکار ہوگیا تھا، یک لخت اس نے ان سب خرافات سے خود کو دور کر لیا اور ایک طرح سے گوشہ نشین ہو کر بعض صوفیانہ تجربات سے گزرا۔ ایک طویل غور و فکر کے بعد اس نے اپنا فلسفہ ترتیب دینا شروع کر دیا۔ اس کے فلسفے میں فطرت اور مافوق الفطرت کے درمیان فرق مٹ جا تا ہے۔ وہ فطرت کو خدا کی زبان کہتا ہے۔ اشیاء و مظاہر کائنات اس کی نظر میں الوہی علامات ہیں۔ اگر اسے ہم سمجھنے میں ناکام ہو جائیں تو یہ سب علامات مافوق الفطرت معلوم ہوتی ہیں بصورت دیگر یہی فطرت ہے۔ وہ کہتا ہے ـ’’ کیا گھاس کا ایک تنکا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ خدا موجود ہے؟ تو پھر انسان کے چھوٹے سے چھوٹے اعمال بھی اسی طرف اشارہ نہیں کرتے؟ــ‘‘ اس کے خیال میں فطرت اور تاریخ الوہی زبان پر دو عظیم تبصرے ہیں، اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا مطالعہ کریں۔ خدا انسان کے تمام خیالات اور اعمال کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے، کیونکہ وہ ان میں اپنی شرکت رکھتا ہے۔
روشن خیال تحریک کا اصرار اس بات پر تھا کہ انسان خود شعور ہے اور یہ خود شعوری محض عقل کی وجہ سے ہے۔ ہامان اس خیال کو ناقص قرار دیتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ علم کہ اصل میں، میں کیا ہوں؟ یہ میں نہیں جانتا بلکہ خدا جانتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عقل پیدا کردہ ہے لہٰذا پروردگار پر حکم نہیں لگا سکتی۔ ہامان کا کانٹ کو ایک خط جو اس نے 27 جولائی 1759ء کو لکھا تھا، تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس خط میں اس نے عقل کے ان حملوں کی شدید مزاحمت کی ہے جو وہ ایمان پر کر رہی تھی۔ اس خط کے آخر میں ہامان ڈیوڈ ہیوم کا حوالہ دیتا ہے جس نے یہ کہا تھا کہ انسانی عقل تو چھوٹی چھوٹی چیزوں کا اثبات نہیں کر سکتی، خدا جیسی بڑی ہستی کا کیا کرے گی۔ ہامان بھی یہی کہتا ہے کہ ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہے اس پر ہم یقین تو کر سکتے ہیں مگر ان کے وجود کا اثبات عقلی دلائل سے نہیں کرسکتے۔ مثلاً اگر ہمارے سامنے میز ہو تو ہم یہ مان تو سکتے ہیں کہ یہ میز ہے لیکن اس کی موجودگی کے لیے دی جانے والی ہر عقلی دلیل کے مقابل یہ دلیل لائی جا سکتی ہے کہ یہ میز نہیں۔ اس قسم کی بات کانٹ نے اپنی کتاب ’’تنقید عقل ِ محض‘‘ میں بھی کی ہے یعنی جب بھی عقل کا استعمال مابعدالطبیعیاتی حقائق پر کیا جائے تو یہ اضداد (Antinomies) میں پھنس جاتی ہے۔ مگر کانٹ اور ہامان میں یہ فرق ہے کہ کانٹ عقل کو خود مکتفی سمجھتا ہے، اگرچہ اس کے حدود کو عالم مظاہر تک محدود کرتا ہے۔ مگر ہامان عقل کے محض ہونے اور اس کی مطلق العنانیت کو چیلنج کرتا ہے۔
ہامان کا یہ کہنا کہ ایمان (ٖFaith) محض مان لینا (To believe) نہیں بلکہ ایک تجربہ ہے، اسے اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ ایمان ایک علم ہی ہے، مگر ایک خاص قسم کا علم۔ وہ کہتا ہے کہ علم محض تعقلی علم (Rational or Discursive knowledge) کے مترادف ہرگز نہیں۔ یعنی ایمان کے متضاد کے طور پر علم کو پیش نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ صرف تعقلی علم کو کیا جانا چاہیے کیونکہ علم کی تعقلی علوم کے علاوہ بھی بہت سی اقسام ہیں۔ عقل جب مابعدالطبیعیاتی حقائق پر تنقید کرتی ہے تو خود اپنے ہی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور غیر عقل (unreason) کا کردارادا کرنے لگتی ہے۔ عقل کو ایک آفاقی مقام سونپنا خود ایک غیر عقلی فعل ہے۔ اس کے خیال میں ایمان بھی ایک خاص قسم کا احساس (Sensation) ہے اور یہ ایمانی احساس ہمیں ایک خاص قسم کا وجدان عطا کرتا ہے جس کی تحویل ہم تعقلی علم کے طور پر نہیں کر سکتے۔ یہ تمام مباحث ہامان نے اپنی کتاب Sokratische Denkwurdigkeiten میں پیش کیے ہیں۔ یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ اس حوالے سے علامہ اقبال کے خیالات جو انھوں نے اپنے خطبے Knowledge and Religious Experience میں ارشاد فرمائے ہیں، بہت کچھ ہامان سے ملتے جلتے ہیں۔
شیلنگ کی طرح ہامان یہ سمجھتا ہے کہ حقیقت کے اثبات کا ایک ذریعہ آرٹ بھی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ شیلنگ کے آرٹ کے حوالے سے تصورات پر ہامان ہی کا اثر ہو۔ ہامان اپنی کتاب aesthetica in nuce میں آرٹ کے مابعدالطبیعیاتی تناظرات پر زور دیتا ہے۔ وہ فطرت کا ایک مافوق الفطرتی تصور رکھتا ہے۔ اس کے خیال میں فطرت کے مافوق الفطرتی پہلو کو جاننے کے لیے یہی پانچوں حواس کافی ہیں۔ اس کے نزدیک فطرت ایک کہانی ہے، ایک خط ہے جس میں ہمارے لیے ایک مافوق الفطرتی پیغام پوشیدہ ہے۔ اس کے نزدیک آرٹ کے عقلی اصول متعین نہیں کیے جا سکتے۔ ہامان نے آرٹ کی تجربی روایت جس کے مطابق آرٹ کا کوئی اخلاقی اور مابعدالطبیعیاتی تناظر نہیں بلکہ حواس کی تسکین ہے، کے خلاف آواز بلند کی۔ اس کے نزدیک آرٹ بلند اخلاقی آدرش کے حصول اور بعض مابعدالطبیعیاتی حقائق کی عقدہ کشائی کا ذریعہ ہے۔ وولف اور بام گارٹن کے ہاں آرٹ کے جو تصورات پائے جاتے ہیں ان کے مطابق جمالیاتی تجربے کا تعلق عالم مظاہر ہی کی نمائندگی تک ہے یا پھر حسی حظ تک اور یہ کسی عالم حقیقت کا پتہ نہیں دیتا۔ ہامان اس حوالے عقلیین اور تجربیین دونوں پر تنقید کرتا ہے کہ انھوں نے آرٹ کو وسیع تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کہتا ہے ’’او اعلیٰ درجے کے نقادو ! تم حقیقت کا پتہ پوچھتے ہو مگر جواب حاصل کیے بغیر ہی دروازے کی راہ لیتے ہو۔‘‘
ہامان کے نزدیک آرٹ ایک بلند درجہ علم ہے اور اس کا مرتبہ منطق اور ریاضی سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ ان علوم سے بڑھ کر حقیقت کا براہِ راست علم دیتا ہے۔
ہامان کا ایک بہت بڑا علمی کارنامہ اس کی کتاب میٹاکریٹک (Metacritic) ہے۔ میٹا کریٹک کا مطلب ہے تنقید پر تنقید۔ کانٹ نے جس انتقادی فکر کو فروغ دیا تھا، یہ اس کا اگلا درجہ ہے۔ ہامان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عقل ہر چیز پر تنقید کرتی ہے مگر اس تنقید پر بھی تنقید ہونی چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے لیے ان سوالات کے جواب تلاش کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ عقل کیا ہے؟ ہم عقل پر کیسے تنقید کر سکتے ہیں؟ عقل کے حدود و قیود کیا ہیں؟ وغیرہ۔ تنقید پر تنقید دراصل تنقید ہی کا منہج ہے جو ناگزیر ہے، اور جس کے بغیر تنقید ادھوری رہ جاتی ہے۔ کانٹ کے انتقاد پر تنقید کرتے ہوئے ہامان یہ کہتا ہے کہ اس نے عالم حقیقت کو عالم مظاہر سے پرے رکھ کر عقل کو hypostatize کیا ہے، یعنی اس کو ’محض‘ کر دیا ہے، جس سے وہ تمام ثقافتی مظاہر سے الگ تھلگ ایک خود مکتفی (Self Sufficient) شے بن گئی ہے، ہر قسم کی تنقید سے مبرا ایک اصل الاصول حالانکہ ایسا نہیں۔ ہامان کا کہنا ہے کہ عقل انسانی سرگرمیوں سے وجود پذیر ہوتی ہے اور یہ حقیقت کو سمجھنے کی اتھارٹی ہرگز نہیں۔ یہ یونی ورسل نہیں بلکہ پارٹیکولر ہے۔ آفاقی نہیں بلکہ مقامیت کی پیدا کردہ ہے۔ پیراڈائم شفٹ کے ساتھ ہی عقل بھی بدل جاتی ہے۔ اس کی روشنی میں دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ چیزیں اپنی حقیقت پوری طرح عیاں کر دیں گی کیونکہ یہ روشنی بھی ان چیزوں ہی کی زائیدہ ہے۔ کانٹ اس روشنی کی مطلقیت مگر اس کے حدود پر اصرار کرتا ہے، جبکہ ہامان اس کی اضافیت پر۔
کانٹ نے تنقید عقل محض میں جس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی، وہ یہ ہے کہ کیسے ترکیبی قبل تجربی تصدیقات (Synthetic a-priori judgements) ممکن ہیں؟ہامان کے مطابق کانٹ اس سوال کا جواب نہیں دے پایا کیونکہ یہ طے نہیں ہو پایا کہ حسی ادارک کے منتشر مواد پر فہم کے قبل تجربی مقولات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
ہامان کے نزدیک کانٹ کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ ملکہ حس اور ملکہ فہم کو الگ الگ کر دیتا ہے اور ان کے ربط کی وضاحت نہیں کرتا۔ حسی ادراک زمانی (Temporal)اور مکانی (Spatial) ہے جبکہ فہم لازمانی (Non-temporal) اور لامکانی (Non-Spatial)، پھر ان میں ربط و ضبط کیسے ہوگا؟ کانٹ کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہیں۔ کانٹ کا فلسفہ عالم حقیقت اور عالم مظاہر کی ثنویت پر مشتمل ہے۔ ہامان کے مطابق علم کو ثنویت سے جو چیز بچا سکتی ہے وہ ہے زبان کیونکہ زبان کا تعلق صوت کے لحاظ سے ایک طرف ملکہ حس سے ہے تو دوسری طرف معنی کے لحاظ سے ملکہ فہم سے۔ ہامان ثنویت کے بجائے وحدت پر زور دیتا ہے۔ وحدت کی یہی خواہش جو ہامان کے ہاں زبان کے فلسفے کی صورت میں سامنے آتی ہے، رین ہولڈ کے اظہاریوں، شلئیر ماخر کے مذہبی وجدان، فختے کے ایغو، شیلنگ کے جمالیاتی وجدان اور ہیگل کے سپرٹ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
تحریر اعجاز الحق اعجاز

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password