اعتراضات: کیا آدم کو سجدہ کرنا شرک نہیں تھا؟شیطان خدا کو چیلنج کرتا ہے اور االلہ اسے چپ کروانے کے بجائے اس کا چیلنج قبول کرتا ہے ؟ تو کیا مخلوق بھی خدا کو چیلنج کر سکتی ہے ؟ شیطان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا حالانکہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا ۔ شیطان کی ضرورت کیوں پیش آئ؟اہل مذہب کو پتا ہے کہ دنیا میں اچھائ بھی ہے اور برائ بھی، تو اچھائ کو تو خدا کے ساتھ جوڑتے ہیں اور برائ کے لیے کسی ایسے کریکٹر کی ضرورت ہے جو کہ اس کو اپنی طرف منسوب کرے۔ جب ہر اچھی یا بری چیز کا خالق اللہ ہے تو برائی ہونے کے بعد شیطان اور نفس کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے ؟
٭کیا آدم کو سجدہ کرنا شرک نہیں تھا؟
سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لیں کہ مسلمانوں میں گناہ و ثواب کا تصور کیا ہے ۔ عمومی طور پر مسلمان بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جو بات انسان کی اپنی خود ساختہ اخلاقیات پہ پوری اترے وہ ثواب ہوتی ہے اور جو نہ پوری اترے وہ گناہ ۔ حالانکہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر ملحدوں کو اس بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ آدم ع کے بیٹے اور بیٹیوں نے آپس میں شادی کی جو غیر اخلاقی حرکت ہے ۔ سبحان اللہ ۔ دین سے اخلاقیات کا درس سیکھ کر دین پہ ہی اعتراض ؟ دنیا سے سارے مذاہب نکال دیجئے پھر اس بات کا کوئی اخلاقی جواز بچے گا کہ بہن اور بھائی باہمی رضامندی سے آپس میں شادی نہیں کر سکتے ؟ یہ اخلافیات تو سکھائی ہی دین نے ہے ۔
دینِ اسلام میں گناہ و ثواب کا پیمانہ صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ جس بات سے االلہ روک دے وہ گناہ اور جس کام کے کرنے کا حکم دے وہ ثواب ۔ یعنی جب آدم ؑ کو اپنے بچوں کی آپس میں شادی کروانے کا حکم دیا گیا اس وقت یہ کارِ ثواب تھا اور جب اسی کام سے روک دیا تو یہی کام حرام ہو گیا ۔یہ ہے وہ نکتہ جسے نہ شیطان ہی سمجھ پایا نہ ملحد ۔ جس وقت االلہ کا حکم آیا کہ آدم کو سجدہ کرو اس وقت اس کا شرک ہونا تو درکنار اس سے زیادہ ثواب کا کام کوئی نہ تھا ۔ اگر االلہ مومن کو حکم دے کہ بتوں کو سجدہ کرو تو آج جو مومن بت کو سجدہ نہ کرتا وہ کافر ہوتا ۔ یہ اخلاقیات ہم طے نہیں کرتے ۔ یہ خالق طے کرے گا ۔ جس نے دنیا بنائی وہی قانون بنانے کا بھی حق رکھتا ہے ۔ جب آپ کسی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں تو کمپنی کے مالک کے صادر کردہ قوانین کی پاسداری کے وعدے پر ہی آپ کو ملازمت ملتی ہے جس کو قوانین پر اعتراض ہے وہ نہ کرے نوکری ۔ دینِ اسلام میں داخلہ کوئی سافٹ ویئر ایگریمنٹ نہیں جو بغیر سوچے سمجھے ایگری پہ کلک کر دیا ۔ اسلام میں داخل ہو جانے کے بعد معمولی نوعیت کے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا یہ ایگریمنٹ سوچ سمجھ کر ہی کیا جائے تو بہتر ہے ۔
٭شیطان خدا کو چیلنج کرتا ہے اور االلہ اسے چپ کروانے کے بجائے اس کا چیلنج قبول کرتا ہے ؟ تو کیا مخلوق بھی خدا کو چیلنج کر سکتی ہے ؟
بالکل کر سکتی ہے ۔ آپ نے نہیں کیا کیا ؟ ملحدین نے نہیں کیا کیا ؟ نمرود اور فرعون نے نہیں کیا تھا کیا ؟ اگر بزورِ قوت کسی کو گناہ سے روکنا دنیا بنانے کا مقصد ہوتا تو دنیا بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ مزید فرشتے ہی نہ پیدا کر دیتا االلہ ؟ جو بغیر چوں چرا کئے اللہ کے ہر حکم کو بجالاتے ہیں ۔ االلہ نے کہا آدم کو سجدہ کرو سارے فرشتے سجدے میں چلے گئے یہ تھا حق ۔ اور جو اپنی خود ساختہ اخلاقیات پر ڈٹ گیا نافرمان کہلایا یہ تھا باطل ۔
٭ شیطان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا حالانکہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا ۔
اس بات کو اپنے گمان سے نکال دیجئے کہ اللہ منصف مزاج نہیں ۔ اللہ ہر شخص کو راہِ راست پر آنے کا پورا پورا موقع دیتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اللہ نتائج کو جانتا ہے جسکی وجہ سے یہ غلط فہمی جنم لیتی ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا ۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے مگر بات اس سے الٹ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیر میں لکھا وہ جاتا ہے جو ہونا ہوتا ہے ۔ اللہ کے پاس علمِ غیب ہے اور اللہ جانتا ہے جو اعمال ہم کرنے والے ہیں لہٰذا وہ انہیں لکھ لیتا ہے ۔ اس کو خدا کیوں کر کہئے گا جسے انسان کے عمل کرنے کے بعد پتہ چلے کہ انسان نے یہ عمل کیا ہے ؟ آپ کو کیا لگتا ہے آپ کی تقدیر میں ملحد ہونا لکھا تھا اس لئے آپ ملحد ہو گئیں ۔ جی نہیں ۔ چونکہ آپ نے ملحد ہونا تھا اس لئے آپ کی تقدیر میں ایسا لکھا گیا ۔ شیطان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔
انسان کی پیدائش پر فرشتوں نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ آپ اسے پیدا فرمائیں گے جو زمین میں فساد و خون برپا کرے گا ۔ اللہ کا جواب تھا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ۔ کیا فرشتوں کے تحفظات غلط ثابت ہو گئے ؟ جی نہیں ۔ تو پھر وہ کیا علم تھا جو اللہ کو تھا فرشتوں کو نہیں ؟ اس کا ایک جواب تو سیدھا ہے کہ انسان اللہ کی ایک ایسی مخلوق ہے جو اللہ کی عبادت بھی کر سکتی ہے سرکش بھی ہو سکتی ہے اور سب سے بڑی بات علم میں افضل ہے ۔ یعنی بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے اللہ کی عبادت کرنے والی مخلوق ۔ یہاں یہ بات قابلِ قبول نہیں ہو سکتی کہ جنت کا لالچ یا جہنم سے بچنے کا دباؤ ہے۔ آپ پر کیوں نہیں ہے دباؤ جہنم کا ؟ آپ کو کیوں نہیں لالچ جنت کا ؟ ہر انسان یہاں اپنی مرضی سے جیتا ہے ۔ علم و ہدایت موجود ہیں ۔ جو چاہے استفادہ کرے جو چاہے جاہل رہے ۔ اپنی اپنی مرضی ہے ۔
اللہ کا اعلان صاف ہے کہ اگر تمام انسان ہدایت یافتہ ہو جائیں تو اللہ کی بادشاہت میں رتی بھر اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر تمام انسان کفر پر مائل ہو جائیں تو اللہ کی بادشاہت میں رتی بھر کمی نہیں کر سکتے ۔ اللہ بے نیاز ہے ۔ یہ ہم انسانوں کی ضرورت ہے کہ ہم حق پر رہیں اور حق کو پھیلائیں ۔ اللہ کو جس دن یہ کام بزور کرنا ہو گا ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سب سجدے میں ہوں گے ۔ مگر یہ مقصد نہیں دنیا بنانے کا ۔
٭شیطان کی ضرورت کیوں پیش آئ؟اہل مذہب کو پتا ہے کہ دنیا میں اچھائ بھی ہے اور برائ بھی، تو اچھائ کو تو خدا کے ساتھ جوڑتے ہیں اور برائ کے لیے کسی ایسے کریکٹر کی ضرورت ہے جو کہ اس کو اپنی طرف منسوب کرے۔
جی نہیں ۔ اللہ کو اس بات کی قطعی حاجت نہیں کہ اچھائی اپنے کھاتے میں ڈال لی جائے اور برائی کسی اور کے سر منڈھ دی جائے ۔ اللہ کا بڑا واضح موقف ہے کہ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے جہاں اچھائی اور برائی میں توازن برقرار رکھا گیا ہے ، شیطان کو مہلت دینے کی وجہ بھی یہی ہے ۔ قرآن میں اللہ یہ بتاتے ہیں کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے تھے جنہیں “اللہ” نے بابل میں اتارا اور وہ “اللہ کے حکم سے” لوگوں کو وہ بات سکھاتے تھے جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دے۔ مگر وہ نہیں سکھاتے تھے جب تک بتا نہ دیں کہ “ہم محض آزمائش ہیں تو اس کفر میں نہ پڑ۔” اس میں کہاں اللہ شیطان کو یا کسی شر کی قوت کو موردِ الزام ٹہرا رہا ہے؟ اللہ تو خود کہہ رہا ہے کہ یہ آزمائشی طریقہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہے ۔
صرف قابلِ اعتراض یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی ارادی قوت سے برائی کرے اور موردِ الزام اللہ کو ٹہرائے کہ اللہ نے مجھے اس برائی میں مبتلا کیا ۔ معاذ اللہ ۔ کیا ہدایت کے لئے انبیاء نہ بھیجے گئے ؟ کیا کتابیں نازل نہ کی گئیں ؟ کیا یہ واضح نہ کر دیا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ؟ اور جب حق و باطل واضح ہو گیا تو اب الزام اللہ پر مت دو ۔ اپنے آپ کو کوسو کہ تم نے اتنی عقل ہی استعمال نہ کی کہ کیا سچ ہے کیا جھوٹ ۔اللہ نے انسان کو آزمانا ہے اس کے لئے اس کے اطراف میں صرف اچھائیاں پھیلا دی جاتیں تو امتحان کاہے کا ؟ وہی بات کہ پھر فرشتوں سے آگے مزید کسی مخلوق کی ضرورت ہی نہ تھی ۔ باشعور انسان کو تخلیق کرنے کے بعد خالقِ انسان اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس کو آزمائے ۔
٭جب ہر اچھی یا بری چیز کا خالق اللہ ہے تو برائی ہونے کے بعد شیطان اور نفس کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے ؟
اب اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ بری چیز کا پیدا کرنا اور بری چیز میں مبتلا کرنا یہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ جس چیز کا اقرار ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جتنی بھی چیزیں اپنا وجود رکھتی ہیں چاہے آپ ان کو اچھا سمجھیں چاہے برا ۔ خالق ان کا اللہ ہی ہے ۔ شیطان اچھا ہے یا برا ؟ اس کو کس نے پیدا کیا ؟ اللہ نے ۔ مگر اس کو سرکش کس نے بنایا ؟ کیا اللہ نے ؟ جی نہیں ۔
چیزیں اپنی پیدائش کے اعتبار سے بری نہیں ہوتیں ۔ میں ایک بار کرنٹ لگنے سے مرتے مرتے بچا تھا ۔ کیا میں موردِ الزام بجلی کے موجد کو ٹہراتا حالانکہ میں بجلی کے فوائد جانتا ہوں ۔ احمقانہ بات ہے ۔ انسانی دماغ سے زیادہ برائی کس چیز میں ہے ؟ انسانی دماغ کو جسم میں سے نکال دیجئے یہ دنیا ہی جنت بن جائے گی ۔ مگر بدقسمتی سے اس جنت سے مستفید ہونے کے لئے بھی تو دماغ چاہئے ۔ جادو پر آجائیے ۔ اب یہ بات بھی بحث طلب ہے کہ جادو اچھا ہے یا برا ۔ مگر پھر وہی بات کروں گا جو آپ کا مدعا ہی نہیں کہ چونکہ االلہ نے جادو کو کفر قرار دے دیا لہٰذا اس کا کرنا گناہ ہے ۔ االلہ نے جادو اتارا مگر ساتھ یہ علم بھی اتارا کہ اس کا کرنا کفر ہے ۔ اب باقی انسان کی مرضی چاہے جادو کرے چاہے ایمان پہ قائم رہے ۔ یہ امتحان آپ کے حلق سے نیچے اترے یا نہ اترے امتحان ایسا ہی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم اپنی زبان اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ اب اس حدیث پہ عمل کرنے کے لئے کوئی اپنے یہ دونوں اعضا کیا کاٹ ڈالے ؟ جی نہیں ۔ ان کی برائی سے بچا جائے اور اچھائی سے مستفید ہوا جائے ۔ یہ زندگی گزارنا ایسا ہے۔جیسے خار دار راستے پر اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا ۔ انعام بھی تو دیکھئے کیا مل رہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو محض جنت کا دورہ کروا کر دنیا کے کسی خوبصورت سے خوبصورت ترین مقام پہ اتار دیا جائے تو اسے وہ مقام کچرا کونڈی کی مانند لگے گا ۔
تحریر محمد سلیم