اسلامی عہد زریں کا افسانہ

پروفیسر اسد کیو احمد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے منسلک ہیں۔ پیش جدیدی مسلم معاشروں کی سماجی اور فکری تاریخ ان کی تحقیق کے خاص میدان ہیں۔ انکی یہ تحریر انگلش میں پبلش ہوئی تھی جسکا مشہور سائیٹ دانش ڈاٹ پی کے نے ترجمہ کرکے شائع کیا تھا۔ ہم انکے شکریے کے ساتھ اسکو اپنے اس تحریر ی سلسلے میں جگہ دے رہے ہیں ۔ ایڈمن
٭٭٭
کوئی دو ماہ قبل (یہ تحریر اکتوبر 2013ء کی ہے۔مترجم) مجھے امیریکن اسلامک کانگریس نامی ایک این جی او کی طرف اسلام اور سائنس کے موضوع پر ایک مباحثے میں شمولیت کی دعوت ملی۔ مجھے بتایا گیا کہ اس میں میرے ساتھ ایک پاکستانی عوامی اسپیکر بھی شرکت کریں گے (یہ اسپیکر پروفیسر ہودبھائی تھے۔ مترجم) جو اسلامی فکر کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلم دنیا میں سائنس اور دوسرے عقلی علوم کی اشاعت و ترویج کیلئے کوشاں ہیں۔ مجھے اس مباحثے میں فوری طور پر دلچسپی محسوس ہوئی کیونکہ ماقبل جدید (800-1900ء) مسلم دنیا میں عقلی علوم جیسے کہ فلسفہ،منطق اور فلکیات وغیرہ کی تاریخ میرے مطالعے کا خصوصی موضوع ہے۔
کئی سالوں سے میں آہستہ آہستہ مگر بڑی محنت سے مسلم عقلی علوم کے متعلق مباحث کی مختلف تہوں کو پلٹ رہا ہوں تاکہ مسلم دنیا میں سائنس کی تاریخ کے متعلق ایک ذمہ دارانہ بیانیہ تشکیل دے سکوں۔ مجھے اپنے کام اور پوری دنیا میں انفرادی حیثیتوں اور ٹیموں کی شکل میں اسی علمی مشغلے میں مصروف اپنے ساتھیوں کے کام سے ماضی کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے لیکن اب تک اپنی دریافتوں کے نتیجے میں ہم سب متفقہ طور پر ایک عرصے سے درست تسلیم کی جانے والی مسلم عہد زریں اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علوم ِعقلی کے زوال کی کہانی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ اب تک اس موضوع پر کچھ اہم کام ہوچکا ہے اس لیے میں نے عام لوگوں کے ساتھ اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتائج پہنچانے کے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مباحثے میرے ساتھ شریک دوست کو پہلے بولنے کا موقع ملا اور انہوں اپنی گفتگو کا آغاز ایک ایسی بات سے کیا جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ وہ یہ کہ فی زمانہ مسلم دنیا میں سائنس اور باقی عقلی علوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اسے جلد از جلد بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمدہ آغاز تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اس صورتِ حال کے جو اسباب گنوائے وہ محل نظر تھے۔ کچھ دلچسپ ذاتی تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اس صورت حالات کی تاریخی وجوہات مسلم عہدزریں کے اختتام اور تاریک دور کے آغاز جس میں مسلم روایت پرستی کو عروج حاصل ہوا ‘میں تلاش کی جانی چاہیے۔
ان کی بیان کی ہوئی کہانی کے مطابق سنی ماہر الہٰیات غزالی کے حملوں کے نتیجے میں مسلم دنیا میں علوم عقلی زوال آشنا ہوگئے۔ فلسفیوں پر برا وقت آیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، فطری مظاہر کی توجیہہ معجزوں سے کی جانے لگی، اجرام فلکی کی حرکت کے ذمہ دار فرشتے قرار دیے گئے اور اس طرح مسلمان سائنسی ترقی کے قابل ہی نہ رہے کیونکہ انہوں نے سببیت کا ہی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اس تناظر میں یہ بالکل بھی تعجب خیز نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں نے علم کی دنیا میں مزید کوئی ترقی نہیں کی۔ اور آج جو ہم صورتِ حالات دیکھ رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقل دشمنی کی اسی صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے۔۔”
تاہم یہ سب ایسے نہیں ہوا سب سے پہلے تو یہ کہ تہافت الفلاسفہ میں غزالی کا نشانہ عقل یا فلسفہ تھے ہی نہیں۔ غزالی کا اعتراض جیسا کہ انہوں نے ایک سے زائد ابتدائیوں اور پھر پوری کتاب میں باربار واضح کیا ہے اسلامی عقائد کے متعلق بحثوں میں ناقص منطق سے استدلال کرنے والے مابعد الطبیعاتی مفکروں پر ہے۔ غزالی نے بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ عقائد کے علاوہ دوسرے معاملات یعنی ایسی چیزیں جو سائنسی نوعیت کی ہیں ان میں فلاسفہ سے نہیں جھگڑنا چاہیے۔ وہ (غزالی) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ’ اگر ‘کسی چیز کی سائنسی توجیہہ اور حدیث میں تعارض ہو تو زیادہ بہتر رویہ یہ ہے کہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر رد کردیا جائے۔ اسی طرح اگر الہامی متن اور سائنسی طور پر ثابت شدہ کسی چیز کے درمیان تعارض واقع ہوجائے تو متن کے استعاراتی معنی مراد لیے جائیں گے۔ درحقیقت یہ بات بالکل واضح ہے کہ غزالی عقل کو روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ فقہی معاملات میں انہوں نے اندھی تقلید پر شدید تنقید کرتے ہوئے عقل کو ہی نقلی علوم کی بنیاد قراردیا ہے۔
غزالی کے بعد بھی مسلم دنیا میں عقل کے متعلق یہ رویہ جاری رہا۔ اس روایت کو زندہ رکھنے والے بے شمار مفکروں میں سے نصیرالدین طوسی (وفات 1274 ) ، قطب الدین شیرازی (وفات 1311)، عضدالدین ایجی (وفات 1355)، سید شریف جرجانی (وفات 1413)اور محب اللہ بہاری (وفات 1707) کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک فلکیات سے مابعد الطبیعات تک مختلف علوم میں مسلم علماء کا موقف بالعموم یہی رہا کہ عقل ہی وہ سائنسی تمثیلات مہیا کرتی ہے جن سے کائنات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ریاضیاتی اور منطقی طور پر درست ہونے کے بعد باوجود یہ طے کرنا کئی دفعہ ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں کونسی تمثیل دوسروں سے برتر ہے۔ بالفاظ دیگر مسلم علماء نے سائنس کے بارے میں بعینہ وہی رویہ اختیار کیا جو ڈیوڈ ہیوم کے بعد مغربی دنیا میں اختیار کیا گیا۔ اتفاق سے ہیوم ہی وہ شخص ہے جس نے سببیت اور استقرائی منطق کے مابعد الطبیعاتی پہلووں کے متعلق بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ درحقیقت غزالی کے بعد کے دور میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں علماء نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ سائنسی تحقیق عقائد کیلئے بالکل مضر نہیں‌ہے۔
مبادا کہ قارئین کو ان علماء کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک ہو، میں بیان کرتا چلوں کہ جن علماء کا میں ذکر کررہا ہوں وہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ تفسیر، حدیث، فلکیات، طب اور ریاضی جیسے علوم پر دسترس رکھنے والے غیر معمولی لوگ تھے جو پیچیدہ پیش جدیدی معاشرے میں ایک سے زائد کردار نبھا رہے تھے۔ یہ کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ بیسویں صدی کے آغاز تک مدرسے کے نصاب میں نقلی علوم کے مقابلے میں عقلی علوم کے متعلق زیادہ کتابیں شامل ہوتی تھیں۔ درحقیقت اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ الہامی متون کے درست اور ذمہ دارانہ مطالعے کے قابل بننے کیلئے پہلے عالم کو منطق و خطابت۔۔۔ حتیٰ کہ طب جیسے علوم میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ گویا اس طرح سے ہماری تحقیق کے بالکل آغاز میں ہی واضح‌ہوگیا ہے کہ عقل و وحی، عقلیت پسند و روایت پسند، عہدزریں و عہد تار اور فلسفی و ملا جیسی سادہ و سطحی ثنائیات کو سرے سے ترک کردینا چاہیے۔ اور اسلامی تناظر میں “آرتھوڈوکسی”، “کلیرک “اور “سیمینری” جیسی اصطلاحات کا استعمال تو ہے ہی بالکل بے جا اور غلط۔۔
تو پھر ہمارا یہ حال کیسے ہوا؟ اور اس کے متعلق کسی تحقیق کی آخر کیا ضرورت ہے؟
میں دوسرے سوال سے شروع کروں گا کیوں کہ اسکا جواب آسان ہے۔ اگر تو روشن خیال اور لبرل دانشوروں کی طرف سے بار بار دہرایا جانے والا بیانیہ جو میرے ساتھ مباحثے میں شریک میرے دوست نے بھی پیش کیا درست ہے، یعنی یہ کہ اسلامی دنیا میں عقلی علوم کی موجودہ حالت زار عقل کے متعلق مین اسٹریم اسلام کے رویے کا براہ راست نتیجہ ہے تو پھر میں تو مسلمانوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑدیں۔ کیونکہ میرے خیال میں جو مذہب عقل جیسی بنیادی ترین ذہنی استعداد کا انکارکرتا اور اسے دباتا ہو وہ سچا مذہب نہیں ہوسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عہدزریں اور زوال کے بیانیے کا فوری نتیجہ بالکل وہی ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا لوگوں کا موقف بھی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں کو اپنا مذہب ترک کر دینا چاہیے- یہ لوگ ہمیں باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مین اسٹریم روایت پرستانہ اسلام کی وجہ سے 900 سال سے علوم عقلی اسلامی دنیا میں اجنبی ہیں۔ تو یہ مذہب ہے ہی غلط اور اسے اب ناپید ہوجانا چاہیے۔ اب اسے ستم ظریفی کہیے کہ اس بیانیے سے کچھ اسلام پسند گروہوں جیسی ہی شدت پسندی پیدا ہوتی ہے ۔ ان کے نزدیک بھی اسلام کی ابتدائی صدیوں کا دور مثالی تھا جس کی طرف وہ لوٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ رہے ہم جیسے لوگ تو وہ معقولیت کی تلاش میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پس رہے ہیں ۔
یہ مقبول بیانیہ انتہائی خطرناک تو ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ بالکل ہی غیر علمی اور بودا بھی ہے اور علوم عقلی کے متعلق اسلامی دنیا میں تخلیق کردہ قلمی نسخوں کے بحر ذخار میں سے محض چند قطرے دیکھنے کے بعد ہی مغربی علمی حلقوں میں اب کوئی بھی اب اس بیانیے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر آخر اسلامی دنیا میں علوم عقلی کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ابھی ہم پورے یقین کے ساتھ کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوئے لیکن میں اپنی تحقیق کے دوران کئی ایسے عوامل کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوا ہوں جو اسلامی دنیا میں فلسفے، فلکیات اور طب جیسے علوم کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ میں ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کرتا ہوں لیکن مکمل تصویر کیلئے ہمیں ابھی مزید تحقیق کا انتظار کرنا ہوگا:
ایک وجہ تو یہ رہی کہ انیسویں صدی کے وسط میں علو م عقلی میں تربیت یافتہ علماء کو شاہی سرپرستی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے ایسے علماء مختلف درباروں سے قاضیوں، شاعروں، تحصیل داروں، سفارت کاروں ، طبیبوں اور نقشہ نویسوں کی حیثیت سے منسلک ہوتے تھے اور یہیں سے ا ن کی سرپرستی ہوتی تھی۔ تاہم برطانوی راج کے عروج کے نتیجے میں جب ایسے دربار ختم ہونے شروع ہوئے تو ایسے علماء بھی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو بین العلاقائی مصلحین کے گروہوں سے تعلق رکھنے والے عوامی مبلغوں نے پر کرنا شروع کردیا جن کی تربیت بالکل ہی الگ ڈھنگ پر ہوئی تھی۔
جنوبی ایشیا کی حد تک علوم عقلی کے زوال کی ایک اور وجہ اردو کو مسلمانوں کے ہاں ادب کی بنیادی زبان کا درجہ حاصل ہوجانا بھی تھی۔ عقلی علوم کے متعلق قریب قریب کل تصانیف عربی ( اور کچھ فارسی میں ) تھیں۔ ان زبانوں (عربی اور فارسی) میں عقلی علوم کی لمبی تاریخ کے دوران وجود میں آنے والا فنی اصطلاحات کا ایک پورا ذخیرہ موجود تھا لیکن ان زبانوں کے متروک ہوجانے اور ان سے اردو میں ترجمے کی کسی منظم کوشش کی عدم موجودگی میں اس ذخیرے کے ضیاع کے نتیجے میں علوم ِ عقلی کا معیار بڑی حد تک گر گیا۔
اسی طرح ، اگرچہ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے ، لیکن علوم عقلی کے زوال میں کچھ کردار شاید پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں ترقی نے بھی ادا کیا ہو۔ مسلم علماء مخطوطات پر ہاتھ سے حاشیے اور تشریحات لکھنے کے عادی تھے۔ اس طرح ہر شعبۂ علم میں ایک ایسی داخلی جدلی روایت وجو د میں آئی جو اس شعبۂ علم کی ترقی کی براہ ِ راست ذمہ دار تھی۔ تاہم پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث صورت ِ حالات بدل گئی ۔ اب نہ قلمی نسخے رہے اور نہ ان پر لکھے ہوئے حاشیے۔ اس طرح کسی موضوع پر تاریخی مباحث سے براہ اکتساب کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ درحقیقت (مین اسٹریم اسلام کی عقل دشمنی کے بجائے) ان چند ایک عوامل کے ساتھ اور بے شمار سماجی، سیاسی، ثقافتی، ادارہ جاتی اور ٹیکنالوجیکل عوامل دراصل آج مسلم دنیا میں علوم عقلی کی زبوں حالی کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ تشخیص درست ہو یعنی یہ کہ مین اسٹریم ‘روایتی’ اسلام عقل کا دشمن نہیں ہے تو پھر اس زبوں حالی کا حل بھی کہیں اور تلاش کرنا پڑے گا۔ میں یہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس پر غور و فکر کریں کہ وہ حل کیا ہوسکتے ہیں اور ان کو کیسے روبعمل لایا جاسکتا ہے۔
اب میں آخر میں کچھ روشنی اس چیز پر ڈالنا چاہتا ہوں کہ نام نہاد عہدِ تاریک کے دوران ہونے والے کام کے وسیع ذخائر کو نظر انداز کرتے ہوئے عہدِ زریں و عہد ِتاریک کا بیانیہ پیدا ہی کیونکر ہوا، کیوں یہ اب بھی مقبول ہے اور شاید آگے بھی باوجود ہمارے جیسے لوگوں کی کوششوں کے مقبول ہی رہے گا۔ اس کو جس خوبصورتی سے کولمبیا یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مطالعات کے اروند رگوناتھ پروفیسر شیلڈن پولاک نے واضح کیا ہے میں اس سے بہتر طور پر نہیں کرسکتا۔ پروفیسر صاحب ہندوستانی دانش کی تاریخ پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
“سائنس اور اسکالر شپ کے متعلق ، خصوصاً دور جدید کے ابتدائی دنوں میں مختلف علوم کی تاریخ کے متعلق گہری تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں کی لائبریاں یوں ہی پڑی ہیں جن کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب ان مخطوطات کو پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمی جدیدیت اور نوآبادی نطام کے بدترین نتائج میں سے ایک ہے اگرچہ اس بارے میں بات بہت کم کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی اس کے علاوہ اور وجوہات بھی ہیں جن میں سے ایک مسشترقین کا یہ رومانوی نظریہ بھی ہے کہ کسی بھی ہندوستانی مصنوع، کتاب یا خیال کی اہمیت و وقعت اس کی قدامت سے طے ہوتی ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کا یہ بیانیہ جسکو برطانوی سامراجی منصوبے کے تحت شروع کیے جانے والے ‘مہذب بنانے’ اور ‘جدید بنانے’ کے پراجیکٹ میں بنیادی حیثیت حاصل تھی کہ ہندوستانی تہذیب 1800ء سے پہلے ہی زوال آشنا ہوچکی تھی بھی اس صورتِ حالات کا ذمہ دار ہے۔ اس کا ایک مظہر وہ تحقیر اور بے اعتنائی ہے جس کے ساتھ’دیسی ‘ علماء نے اپنے سامراجی آقاؤں کی طرح عظیم ہندی لٹریچر کو ٹھکرایا ہے۔”
یہ بیانیہ نوآبادیاتی استشراقی افسانے کے طور پر شروع ہوا جو اب ایک طرح کے نواستشراقی مظہر کے طور پر اپنے ماضی سے کٹ جانے والے لوگوں میں رائج ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں میرے خیال میں اب مسلمانوں کے پاس صرف دو ہی انتخابات ہیں۔ یا تو وہ یہی استشراقی راگ الاپتے ہوئے اپنی بیماری کی غلط تشخیص کرتے اور اس طاقتور افسانے کے زورپر شدت پسندی کی پرورش کرتے رہیں یا پھر وہ اپنی زبانوں کو ازسر نو زندہ کریں، ایسے تاریخ دان پیدا کریں جو اصل مصادر میں غواصی کرسکیں ، ایسے فلسفی پیدا کریں جو سطحی ثنائیات سے آگے بڑھ کر مہارت اور خلوص کے ساتھ ان مباحث کو آگے بڑھا سکیں۔ اگر ایسا ہو سکے تو تبھی شاید مسلمان تاریخ کے نام پر سنی ہوئی کہانیوں کو ازسر نو لکھنے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے حل دریافت کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔
ترجمہ :عاطف حسین

متعلقہ تحاریر:

اما م غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ

زوالِ امت میں غزالیؒ کا کردار! تاریخی حقائق کیا ہیں؟

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password