• بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عہد الست کو گویا بطور “انسان سے بیرونی کسی خبر” کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مثلا جیسے کسی تاریخ کی کتاب سے پڑھ کر مجھے پتہ چلا کہ 1947ء میں پاکستان بننے کا واقعہ ہوا۔ تو اب اگر مجھ تک تاریخ کی وہ کتاب نہ پہنچی یا میں اس کتاب کو معتبر نہ مانوں جس میں یہ لکھا ہے تو اب یہ واقعہ “میرے لیے” کوئی واقعہ نہیں یا میں اسے ماننے کا مکلف نہیں۔ چنانچہ جو شخص قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتا تو آخر وہ عہد الست کو کیونکر مانے گا؟ اور اگر ایسا کوئی عہد ہوا بھی تو وہ اب کسی کو یاد تھوڑی ہے، وہ تو یادداشت کی گرفت میں ہی نہیں رہا۔
•عہد الست” کے بارے میں مذہب کا مقدمہ سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ “عہد الست” ہر نفس کا یہ اقرار تھا کہ “اللہ میرا رب ہے” اور یہ اقرار ہر نفس میں “بائے ڈیفالٹ” فکس کرکے اسے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ چنانچہ اس کی یادداشت کے لیے “قابل گرفت نہ ہونے” کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ ایک وجود اپنے سے خارج کسی بات کو یاد کرکے معلوم کرلے، بلکہ یہ تو عین انسانی وجود (being) “جس حال میں وہ تخلیق کیا گیا اور موجود ہے” کا بیان ہے۔ یعنی یہ بات کہ “میں کسی کی مخلوق ہوں”، یہ انسان کا “دائمی حال” ہے، نہ کہ اس سے باہر کوئی واقعہ۔ چنانچہ “یاد کرنے کا سوال” تو اس چیز پر ہوتا ہے جو محو یا عدم وجود کا شکار ہو سکے، یہ تو ہمہ وقت طاری حال ہے۔ قرآن میں “عہد الست” کا ذکر انسانی نفس کے اس حال کا بیان ہے، یعنی انسان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ جو تمھارے قلب میں اپنے کسی خالق کے تصور و اقرار کا ازلی دیا جل رہا ہے تو یہ یونہی کہیں سے نہیں آگیا بلکہ یہ تمہاری ارواح کا کیا ہوا اقرار ہے۔
مذہب کہتا ہے کہ یہ “عہد الست” کی بازگشت ہے جسے کھرچ سکنا کسی صورت ممکن نہیں، کیونکہ یہ تو “تمھارا حال” ہے، اس بارے میں انسان زیادہ سے زیادہ بس یہ کرسکتا ہے کہ وہ کسی جہالت کی وجہ سے اپنے اس حال کا انکار کردے اور یا پھر سرکشی کی راہ اختیار کرکے جھوٹ بولے۔ اس کا متبادل جواب وہ ہے جو سوشل سائنسز کے بعض ماہرین دیتے ہیں جن کے مطابق بعض مظاہر قدرت کے سامنے اپنی بے بسی کی وجہ سے انسان نے اپنے سے زیادہ طاقتور قوتوں کو ڈر کے مارے خدا مان لیا تھا کہ ان کی منت سماجت کرنے سے شاید وہ ان کے برے اثرات سے بچ سکے وغیرہ۔ مذہب بتاتا ہے کہ ایسی چیزوں کو خدا وغیرہ بنا لیا جانا، یہ بعض انسانوں کی جہالت و سرکشی کا نتیجہ تھا جس کے سبب انھوں نے خالق کے تصور کو بگاڑ دیا تھا، اسی بدیہی تصور کی درست تفصیلات بتانے کے لیے انبیاء بھیجے گئے۔
ہر انسان کے قلب میں جو خدا کی ذات کا شعور پیوست ہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ قدیم انسان جب کائنات کو سمجھنے سے عاجز آگیا تو اس نے خدا کا تصور گڑھ لیا، بلکہ اسکی وجہ ہر انسان کی روح کا خدا کے حضور کیا گیا وہ اقرار ہے کہ “الست بربکم قالوا بلی”۔”کیا خدا ہے؟” یہ سوال دھریہ بھی اٹھاتا ہے اور یہ سوال اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کا وجود شعور میں پیوست ہے.ملحد بس یہ کرتا ہے کہ اس تصور کی الٹی سیدھی توجیہہ کرلیتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل سائنسز کے ان ماہرین کا یہ تجزیہ دور از کار تاویلات پر مبنی ہے اور یہ جہالت و سرکشی ہی کی ایک صورت ہے۔
تاریخ میں گزری ہوئی ہر تہذیب کے بسنے والے انسانوں نے یہ گواہی دی ہے کہ “خدا ہے”، ایسی کسی انسانی تہذیب کا سراغ نہیں ملتا جس میں خالق (یعنی انسانی ذات کے مخلوق ہونے) کا تصور نہ رہا ہو۔ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان، چاہے وہ منکر خدا ہی کیوں نہ ہو، اس سوال کا شعور رکھتا ہے کہ آیا “میرا کوئی خالق ہے؟” تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر طویل تاریخ اور اس قدر وسیع و عریض کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہر دور کے انسانوں کے یہاں اس قدر تسلسل کے ساتھ خالق کا یہ تصور کہاں سے آگیا؟
یہ اقرار کہ “میرا ایک رب ہے”، یہ قلب انسانی میں جلتی ہوئی عہد الست کی بازگشت ہے۔ رہی یہ بات کہ “وہ خالق کون اور کیسا ہے (یعنی اس کا تعارف کیا ہے)، وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے (یعنی میرا اس کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاھئے) وغیرہ” تو اس کے لئے انبیاء کو مبعوث کیا گیا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ “خدا وہ جو رسول کی خبر کے مطابق ہو، جسے میں نے اپنے ذھن سے تراش لیا ضروری نہیں وہ خدا ہو”
عہدِ الست کے بعد رسولوں کی ضرورت؟
مختصراً چند نکات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ عہدِ الست کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے باب میں کوئی عذر بروزِ قیامت قبول نہیں ہوگا۔
2۔ اس عہد کی یاددہانی کےلیے مزید اہتمام کے طور پر اور نیز دنیوی زندگی میں اس عہد کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لیے تفصیلی رہنمائی کے لیے رسولوں کی بعثت ہوتی ہے۔ (جن اہلِ علم نے اس سیاق تذکیر کو رسول کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے ان کا مطلب مقصدِ بعثت کو تذکیر تک محدود رکھنا نہیں تھا۔)
3۔ جن لوگوں تک رسول کی دعوت پہنچی ان کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی اور ان کے محاسبے میں مزید سوالات کا اضافہ بھی ہوا۔ البتہ جن تک رسول کی دعوت نہیں پہنچی ان کا محاسبہ بنیادی سوال تک ہی محدود رہے گا۔ اس بحث کو ایک خاص پہلو سے فقہاے کرام یوں ذکر کرتے ہیں کہ کیا کفار شرائع کے مخاطب ہیں یا نہیں؟
4۔ جو لوگ اللہ کی توحید کے قائل ہیں لیکن اس عقیدے کی تفصیلات یا مقتضیات میں ان سے غلطی ہوئی ہو تو ان کی غلطی کے اسباب اور اس غلطی سے نکلنے کے مواقع کے جائزے اور ان کو صفائی کا موقع دے چکنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے عدل اور رحمت کے تقاضوں کے مطابق ایسا فیصلہ کرے گا جس کے بارے میں ہر کوئی کہہ اٹھے گا کہ یہی قضاء بالقسط اور قضاء بالحق ہے۔ تاہم جنھوں نے عہدِ الست کے باوجود شرک کو بطور دین قبول کیا، یا سرے سے اللہ کے وجود کے منکر ہوگئے، تو ان کے متعلق اللہ پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ عہدِ الست سے غفلت کے متعلق ان کا عذر قبول نہیں کیا جائےگا۔
5۔ بہ الفاظِ دیگر، توحید کے اقرار کے بعد شرک بالتاویل کے باب میں تو عذر پیش کیے جانے کا امکان ہے لیکن شرک بطور عقیدہ قبول کرنے، یا اللہ کے وجود سے یکسر انکار کرنے، کے بعد اسی حالت میں مرنے پر کوئی عذر نہیں سنا جائے گا۔ مشرکانہ معاشرے میں، یہاں تک کہ عرب جاہلیت میں بھی، ایسے کئی لوگ تھے جنھوں نے شرک چھوڑ کر توحید کا عقیدہ اپنالیا تھا لیکن تفصیلات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے سرگرداں رہتے تھے۔
•جن صاحب نے اس بحث کو شروع کیا ہے، ان سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہیے کہ اعمال کے حسن و قبح کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے؟ غامدی صاحب تو متعدد آیات سے یہی استدلال کرتے رہے ہیں کہ انسان بوجہ اللہ تعالی کے انسانی نفس پر الہام ان سے پوری طرح واقف ہے اور اس معاملے میں، ما سواء چند امور، کوئی ابہام موجود نہیں ہے، (اور انھی چند کی وضاحت کے لیے وحی آتی ہے)، یعنی اس معاملے میں انسان کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ مثلا عمار خان ناصر صاحب کی حالیہ پوسٹ میں “قتل” والی مثال ہی کو لے کر اگر ابویحی صاحب سے یہ سوال کیا جائے کہ “میں نے قتل کے فی نفسہ برا ہونے پر کافی کتابیں پڑھی ہیں مگر میں اس کی اخلاقی قباحت پر مطمئن نہیں ہوسکا، تو میرے لیے کسی کو قتل کرنے کا کیا حکم ہے وغیرہ؟” تو پھر دیکھتے ہیں یہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں ان کا جواب غالبا غامدی صاحب کے نظریے کے مطابق ہی ہوگا، تو کیا کسی کو قتل کرنے کی برائی اللہ تعالی کے وجود سے زیادہ واضح حقیقت ہے؟ اگر تقوی و فجور والا الہام انسان پر حجت ہے تو “عہدالست” والا کیوں نہیں؟ بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ عہد الست سے تو بس ایک احساس ہی پیدا ہوتا ہے، یہ کوئی قطعی حجت تھوڑی ہے۔ تو یہی بات اگر “اخلاقی معاملات والے الہام” کے بارے میں کہہ دی جائے تو کیسا رہے گا کہ “وہ تو بس ایک مبہم سا احساس ہے، وہ انسان کے لیے کوئی قابل اتباع حجت تھوڑی ہے”، اس کے بعد پھر آپ کا “نظریہ اخلاق و فطرت” کہاں کھڑا ہوگا؟
ڈاکٹر زاہد مغل، ڈاکٹر مشتاق