’بتانِ رنگ و خوں‘ میں ایک اور اضافہ… ’مذہب‘!

یہ ہے وہ وجہ جو بار بار ہمیں ’’انسان‘‘ بننے اور اشیاء کو ’’انسان‘‘ کی نظر سے دیکھنے کے سبق دیے جارہے ہیں۔ اِس ’’انسان‘‘ کا مطلب کون نہیں جانتا… بشرطیکہ آپ نے ’’ہیومن ازم‘‘ سے کچھ واقفیت پا رکھی ہو؟ اس اصل کہانی کو تو پیچھے رکھا جارہا ہے البتہ ’’انسانیت‘‘ کے اسباق کی ہم پر بھرمار کردی گئی ہے۔ آخر ہمارے مبلغین کہاں ہیں جو اِس ’’انسانیت‘‘ کا پردہ چاک کریں کہ دراصل اس سے مراد ’’انسان پرستی‘‘ ہے جو ’’خداپرستی‘‘ کا باقاعدہ متبادل ہے۔ ’’خداپرستی‘‘ جس کو ہم اپنے الفاظ میں ’’توحید‘‘ یا ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں، یہ ہیومن ازم اس کا باقاعدہ متبادل ہے۔ یہ ہے وہ مطلب جو ہمارے ذہنوں میں ہی نہیں ہمارے رویوں کے اندر اتارا جا رہا ہے کہ ہم اشیاء کو ’’مسلمان‘‘ کے طور پر نہیں بلکہ ’’انسان‘‘ کے طور دیکھیں! ملتوں کے فرق کو ایک ’’مسلم‘‘ اور ’’موحد‘‘ کی نظر سے نہیں ایک ’’انسان‘‘ کی نظر سے لیں! یہ تو دین بدلنا ہوا؛ یعنی ہم دنیا کے جملہ امور اور مسائل کو، خصوصاً ملتوں کے فرق کو، ’’اسلام‘‘ کی بجائے کسی اور پیمانے پر جانچیں۔ یہ سب ’چھوٹے موٹے‘ مظاہر جو فی الوقت ہمارے سامنے لائے جارہے ہیں، درحقیقت ایک نئے دین کی ترویج ہے۔
چنانچہ اب تابڑتوڑ، آپ کے بچوں، جوانوں اور ’باشعور‘ عوام پر اِنہی ’تعلیمات‘ کی بوچھاڑ ہورہی ہے… بھائی خدارا پیار کرو۔ محبت کرو۔ انسانوں کو ’’انسان‘‘ کے سوا کسی اور نظر سے دیکھنا حرام جانو۔ بلکہ کفر جانو (کفر اَب دنیا میں ہے تو بس یہی ہے کہ لوگوں کو ’’انبیاء کا پیروکار‘‘ یا ’’انبیاء کا منکر‘‘ میں بانٹ کر دیکھو!)۔ انسانوں کو صرف اِس ایک نظر سے دیکھو کہ یہ ’’انسان‘‘ ہیں؛ اِس کے علاوہ یہ کچھ نہیں۔ مسلم ہیں، ہندو ہیں، سکھ ہیں، یہودی ہیں، عیسائی ہیں، مجوسی ہیں، دہریہ ہیں… سب ’بعد کی بات‘ ہے… بہت ہی ’بعد کی بات‘۔ بلکہ ’بعد کی بات‘ بھی تب تک ہے جب تک ’دینی حمیت‘ کے وہ پرانے باقیات تمہارے اپنے دماغوں سے کھرچ نہیں دیے جاتے اور جوکہ ایک لانگ ٹرم پراجیکٹ ہے، ہاں یہ پراجیکٹ سرے لگے تو کسی کا مسلم ہونا، یا ہندو یا سکھ ہونا، یا یہودی، عیسائی، مجوسی یا دہریہ ہونا، انبیاء سے وابستہ یا انبیاء کا انکاری ہونا ’بعد کی بات‘ بھی نہیں رہے گی بلکہ ایک ’’بیہودہ‘‘ بات ہوجائے گی۔ آپ آنکھیں کھول کر دیکھنے پر تیار ہوں تو سب معاملہ بڑی تیزی اور کامیابی کے ساتھ ادھر ہی کو جا رہا ہے؛ جہاں ’’دین‘‘ ایک اضافی چیز ہو جائے گا؛ انسانوں کو پہچاننے اور ممیز کرنے کے حوالے سے ایک ’غیراہم‘ نہیں بلکہ ’’غیرمعقول‘‘ بنیاد قرار پائے گی۔
یعنی ایک نئی ملت، جس میں سب دوسری ملتیں ضم ہوجانے والی ہیں۔ ’بتانِ رنگ و خوں‘[1] کی طرح اس میں گم ہوجانے والی ہیں۔ یہ سب پہچانیں اس نئی ’’ملت‘‘ (ہیومن ازم) کے اندر اپنی ایک کمتر حیثیت میں رہیں گی ضرور، کیونکہ کسی کے رنگ، نسل، خون، مذہب اور جنس کو تبدیل کرنا اس کے مقاصد میں شامل نہیں ۔ البتہ یہ کسی ’’تفریق‘‘ یا ’’تمییز‘‘ کی بنیاد نہیں ہوگی۔ یہ بنیاد جس پر ’’تفریق‘‘ کرنا جائز ہوسکتا ہے، جہاں ضرورت ہو، ’’ہیومن اسٹ‘‘ عقیدہ آپ کو خود تجویز کرکے دے گا!
آپ غور فرمائیں تو ’’ملت‘‘ کا تصور ہی درحقیقت یہاں سے آتا ہے یعنی انسانوں کو جوڑنے اور توڑنے کی بنیاد۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بنیاد ’’اسلام‘‘ (خدا کا بندہ ہونا) نہیں بلکہ ’’انسانیت‘‘ خود ہے یا ’’انسانیت‘‘ کی اپنی پاس کی ہوئی کوئی چیز مانند ’’وطن‘‘ وغیرہ۔ یعنی وہ خدا کا بندہ ہو یا خدا کے کسی شریک اور ہمسر کا بندہ بن گیا ہو، انسانوں کے مابین تمییز کی یہ بنیاد بہرحال نہیں۔ ہمارے نام نہاد دانشور جو ہمارے سادہ لوح نوجوانوں کے حلق سے ’’ہیومن ازم‘‘ کی یہ خوراکیں اتار رہے ہیں مکاری سے کام نہ لیں تو آپ کو بتائیں گے کہ ان کی اِس نئی ملت میں ’’دین‘‘ کو انسانوں کے مابین تمییز کے حوالہ سے وہ حیثیت بھی حاصل نہیں جو ’بتانِ رنگ و خون‘ کو حاصل ہے؛ کیونکہ رنگ، خون، ملک وغیرہ ثابت وغیر متغیر قدریں ہیں یعنی ان کو آپ تبدیل نہیں کرسکتے لہٰذا انسانوں کے مابین تمییز اور پہچان کے حوالے سے یہ پھر کسی درجے میں معتبر ہیں۔ البتہ آدمی کا ’’دین‘‘ چونکہ بڑی آسانی کے ساتھ تبدیل ہوسکتا ہے اور اس کو تبدیل کرنے پر اتنی بھی تکلیف یا لاگت نہیں آتی جتنی ’جنس‘ کی تبدیلی پر، لہٰذا دین کی یہ حیثیت کہ یہ انسانوں کے مابین لکیر کھینچ ڈالنے کی بنیاد ہو آخری درجے کی رد ہونے والی چیز ہے۔ یعنی ملتِ ہیومن ازم کے اندر ’’دین‘‘ جس حیثیت میں قبول ہے وہ ’خون‘ اور ’چمڑی کے رنگ‘ سے بھی کمتر ہوگی۔ پس جہالت کا عذر دینا ہو تو اور بات ہے ورنہ ہیومن ازم پر صاف صاف ایمان رکھنے والے شخص کا مسلمان رہنا ناممکنات میں ہے۔ یہ لوگ جو کچھ کہلانا چاہیں کہلائیں مگر ’’مسلمان‘‘ ایک شرعی حقیقت ہے، یہ کوئی ’سماجی محاورہ‘ بہرحال نہیں۔
تحریر حامد کمال الدین
ــ
[1] ہر ملت کا یہی دستور ہے۔ وہ خود تو انسانوں کے مابین تفریق کی ایسی ’عظیم‘ بنیاد ہوتی ہے جو نہ صرف جائز بلکہ واجب بلکہ اوجب الواجبات ہو۔ البتہ انسانوں کے مابین تمییز کے باقی حوالوں (رنگ، خون، نسل، جنس وغیرہ) کو ظاہر ہے ختم تو کر نہیں سکتی، مگر ان کی یہ حیثیت ضرور ختم کردیتی ہے کہ وہ انسانوں کے مابین فرق کی کوئی اہم بنیاد ہو۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password