اس غلط فہمی کا اصل سبب یہ ہے کہ لوگ جب کسی انسان کی زندگی میں سفرنگ کے واقعہ کو دیکهتے ہیں تو وه اسی انسان کے حوالے سے اس کی توجیہہ کرنا چاہتے ہیں – چونکہ اکثر مثالوں میں خود اسی مبتلا انسان کے اندر اس کی توجیہہ نہیں ملتی ، اس لیے اس سفرنگ کو لے کر وه یہ کہنے لگتے ہیں کہ یا تو اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ، یا اگر ہے تو ظالم اور غیر منصف خدا ہے ، مگر یہ انتساب بجائے خود غلط ہے –
انسان کی زندگی میں جو سفرنگ پیش آتی ہے ، اس کا سبب کبهی انسان خود هوتا ہے اور کبهی اس کے والدین هوتے ہیں اور کبهی اس کا سبب وه سماج هوتا ہے جس میں وه ره رہا ہے اور کبهی وسیع تر معنوں میں اجتماعی نظام اس کا ذمے دار هوتا ہے – اسی کے ساته کبهی کوئی سفرنگ فوری سبب سے پیش آتی ہے اور کبهی اس کے اسباب پیچهے کئ پشتوں تک پهیلے هوئے هوتے ہیں –
غلط ریفرنس میں مطالعہ:
حقیقت یہ ہے کہ مزکوره شبہے کا سبب ، اصل صورت حال کا غلط ریفرنس میں مطالعہ ہے ، یعنی جس ظاہرے کو انسان کی نسبت سے دیکهنا چاہئے ، اس کو خدا کی نسبت سے دیکهنا – حالانکہ یہ سائنسی حقائق کے سرتاسر خلاف ہے –
مثال کے طور پر موجوده زمانے میں ایڈز کا مسئلہ ایک خطرناک مسئلہ سمجها جاتا ہے – مگر خود طبی تحقیق کے مطابق ، یہ انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے – میڈیکل سائنس میں یہ مستقل نظریہ ہے کہ کئ بیماریاں اجداد سے نسلی طور پر منتقل هوتی ہیں – ایسی بیماریوں کو اجدادی بیماری کہا جاتا ہے – اسی طرح مختلف قسم کی وبائیں پهیلتی ہیں جس میں ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں، یا خرابی صحت کا شکار هو جاتے ہیں – یہ بهی خود طبی تحقیق کے مطابق ، انسان کی اپنی پیدا کرده هوتی ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانی سفرنگ کو نیچر سے منسوب کرنا ، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے – سائنس کی تمام شاخوں کا مطالعی بتاتا ہے کہ نیچر مکمل طور پر خرابیوں سے پاک ہے – نیچر اس حد تک محکم ہے کہ اس کی کارکردگی کے بارے میں پیشگی طور پر اندازه کیا جا سکتا ہے – اگر نیچر کے اندر قابل پیشن گوئی کردار نہ هو تو سائنس کی تمام سرگرمیاں اچانک ختم هو جائیں گی –
تقابلی مطالعہ
پرابلم اف ایول کے اس معاملے کا علمی مطالعہ کرنے کا پہلا اصول وه ہے جس کو تقابلی طور پر سمجهنا کہا جاتا ہے – تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ محدود طور پر صرف انسانی دنیا کا مسئلہ ہے ، جب کہ انسان پوری کائنات کے مقابلے میں ایک بہت ہی چهوٹے جز کی حیثیت رکهتا ہے – بقیہ کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساته مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات ہے – کائنات میں بے شمار سرگرمیاں ہر آن جاری رہتی ہیں ، لیکن اس میں کہیں بهی کوئی خرابی (evil) دکهائی نہیں دیتی –
انسانی دنیا میں بیماریاں ہیں ، انسانی دنیا میں حادثات ہیں ، انسانی دنیا میں ظلم ہے ، انسانی دنیا میں کرپشن ہے ، انسانی دنیا میں بے انصافی ہے ، انسانی دنیا میں استحصال ہے ، انسانی دنیا میں لڑائیاں ہیں ، انسانی دنیا میں نفرت اور دشمنی ہے ، انسانی دنیا میں سرکشی ہے ، انسانی دنیا میں فسادات ہیں ، انسانی دنیا میں جرائم ہیں ، اس قسم کی بہت سی برائیاں انسانی دنیا میں پائی جاتی ہیں ، لیکن انسان کے سوا ، بقیہ کائنات اس قسم کی برائیوں سے مکمل طور پر خالی ہے – یہی فرق یہ ثابت کرتا ہے کہ برائی کا مسئلہ خود انسان کا پیدا کرده ہے نہ کہ فطرت کا پیدا کرده – اگر یہ مسئلہ فطرت کا پیدا کرده مسئلہ هوتا تو وه بلاشبہہ پوری کائنات میں پایا جاتا –
سائنٹفک مطالعہ
اس معاملے کا سائنٹفک مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا اور بقیہ کائنات میں ایک واضح فرق ہے ، وه یہ کہ بقیہ کائنات حتمی قسم کے قوانین فطرت سے کنٹرول هو رہی ہے – اس کے برعکس ، انسان آزاد ہے اور وه خود اپنی آزادی سے اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے – یہی فرق دراصل اس چیز کا اصل سبب ہے ، جس کو برائی کا مسئلہ کہا جاتا ہے –
اس معاملے کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کی تمام برائیاں ، انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں – میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ بیماریوں کا سبب نیچر میں نہیں ہے ، بلکہ وه انسان کی اپنی غلطیوں میں سے ہے – یہ غلطیاں کبهی مبتلا شخص کی اپنی پیدا کرده هوتی ہیں ، کبهی باپ داد کی وراثت اس کا سبب هوتی ہے ، کبهی اجتماعی نظام کا کرپشن بیماریوں کے اسباب پیدا کرتا ہے – یہ بات بے حد قابل غور ہے کہ بیماری کو نیچر سے جوڑنا ملحد مفکرین کا نظریہ ہے ، وه کسی سائنٹفک دریافت پر مبنی نہیں – اسی طرح جنگیں ، گلوبل وارمنگ ، قحط سالی، بیماریاں ، ظلم، مختلف قسم کی کثافت ، فضائی مسائل )ecological problems( وغیره ، سب کے سب انسانی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہیں -انکا ذمہ دار خدا کو قرار دینا جہالت ہے.
tehseen ahmed
January 27, 2016 at 6:35 pmager koi musibat main apnay maa,baap,dada ki wajah say hay….to is main us ka kya kasoor…. kisi k gunnah ki saza kisi ko daina … kahan ka insaaf hay ????
ایڈمن
January 29, 2016 at 8:58 amیہ بات اپنے باپ دادا سے پوچھنی چاہیے جو اس مصیبت کا باعث بنے۔!!
آپ کا اعتراض ایسے ہی ہے جیسے کسی ڈرائیور کی غلط ڈرائیونگ اور پھر ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کسی مسافر کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں اور وہ مسافر شکوہ اللہ سے کرنا شروع کردے کہ نااہل ڈرائیور تھا چوٹ مجھے کیوں لگی ؟!! 🙂
اس سوال سے ایک ضمنی بحث تقدیر کی بھی نکلتی ہے۔ اس پر تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیے
http://ilhaad.com/2015/04/taqdeer-kia-ha/