اس نے کہا کہ جناب سب خیر ہے، بس دعا کریں کہ اللہ اپنے امتحان سے محفوظ رکھے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ اللہ کا امتحان کیا ہوتا ہے؟
وہ بولا جناب سادہ سی بات ہے کہ کوئی بھی پریشانی اللہ کا امتحان ہوتی ہے۔
میں نے اس سے کہا کہ بس مشکلات اور پریشانیاں ہی اللہ کا امتحان ہے؟
اس نے کہا یہی میری سمجھ میں آتا ہے، اگر کچھ اور ہے تو آپ بتائیں۔
میں نے اس پر کہا کہ صبح سوکر اُٹھنے سے لے کر رات سونے تک ہمارا امتحان ہو رہا ہوتا ہے۔
اس نے حیران ہوکر پوچھا، وہ کیسے؟
میں نے کہا کہ حقوق العباد ہر وقت جاری رہنے والا امتحان ہے۔ اللہ کا یہ ایسا امتحان ہے جو دو طرفہ ہوتا ہے۔ دو افراد کا کسی معاملے میں عمل اور ردّ عمل ہی ان دونوں کا امتحان ہوتا ہے۔ ہمارے رشتے، معاملات اور تعلقات ہی تو ہمارا امتحان ہیں۔ ہر جاگتا انسان حالت امتحان میں ہوتا ہے لیکن عام طور پر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ سب سے پہلی امتحان گاہ گھر ہے، مختلف معاملات میں گھر والوں سے ہمارا حسن ِسلوک یا بدسلوکی اس امتحان میں ہم کو پاس یا فیل کرتی ہے۔ مثلاً بیوی اگر بیمار ہے تو اس کا بروقت علاج نہیں کرایا تو اس کی حق تلفی کی، یعنی بیوی، بچّوں، ماں باپ کی کفالت اور دیکھ بھال جو ہم پر لازم ہیں، ان کی ادائیگی میں تساہل یا غفلت ہمیں اس امتحان میں فیل کرتی ہے۔ ناشتے کھانے میں دیر پر بیوی پر غصہ کرنا، ہمّت سے زیادہ کام کرانا، بچوں کو بلاوجہ مارنا، غرض کسی بھی باہمی صورتحال میں مقابل انسان کو ہماری ذات سے پہنچنے والی ہر تکلیف یا آرام، اس امتحان میں ہمارے گریڈ کا تعیّن کرتا ہے۔ اگر احسن طریقے سے ہر حق ادا کیا اور معاملات میں نرمی، عفو و درگزر سے کام لیا تو اعلیٰ گریڈ کہیں نہیں گیا۔
شوہر اور بیوی، والدین اور اولاد، مالک اور ملازم، گاہگ اور دکاندار، پڑوسی اور محلّے دار، استاد اور شاگرد، مسافر اور کنڈکٹر، ڈاکٹر اور مریض، ساس اور بہو، نند اور بھاوج، دیورانی اور جیٹھانی، بھیا اور بھائی جان اور دوسرے بے شمار تعلّق اور معاملات جن سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے دراصل ہر دو فریق کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں یا حق تلفی کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر معاملات میں ایثار، قربانی اور درگزر اور معافی سے کتنا کام لیتے ہیں۔ ملازم کی حرام خوری، رشوت اور تساہلی یا محنت، ایمانداری اس کا امتحانی نتیجہ مرتّب کرتے ہیں۔
اس نے کہا جناب بات تو صحیح لگتی ہے لیکن کبھی ایسا سوچا ہی نہیں۔
میں نے اسے بتایا کہ بھائی مجھے بھی کبھی خیال نہیں آ یاتھا، وہ تو ایک بزرگ نے سمجھایا تو سوچا کہ بات آگے بڑھا دوں۔
اس نے کہا جناب ہے تو مشکل کام لیکن میں بھی اس کا خیال رکھنے کی کوشش کروں گا۔
میں نے کہا بے شک بہت مشکل ہے ناممکن نہیں، بس ایک ذمّہ دار بندہ بننا پڑتا ہے جس کو اپنے فرائض کا ادراک اور احساس ہو۔ انجانے میں ہم نہ جانے کتنے امتحانات میں فیل ہورہے ہوتے ہیں جس کا احساس نہیں ہوتا۔
اگر اس امتحان کا احساس اور مناسب اثر ہوجائے تو ساس بہو، نند بھاوج کے گھریلو جھگڑے بہت کم ہوجائیں۔ آفس میں پالیٹکس کم ہو جائے، معاشرے میں اُخوّت و محبت اور سدھار آجائے۔
مصیبت اور نعمت کی آزمائش
دوست کا سوال ہے کہ اللہ عزوجل بعض لوگوں کو فتنے، مصائب اور تکالیف کے ذریعے آزماتے ہیں جبکہ بعض کو نعمت، آسائش اور آسانی دے کر آزماتے ہیں جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو نعمت اور حضرت ایوب علیہ السلام کو مصیبت کے ساتھ آزمایا۔ تو جب اللہ کا مقصود آزمائش ہی ہے تو اللہ عزوجل نے نعمت اور آسانی کے ساتھ سب کو کیوں نہیں آزمایا؟ جبکہ مصیبت کی آزمائش میں عموما لوگ فتنے کا شکار ہو کر ایمان سے بھی جاتے رہتے ہیں۔
اللہ عزوجل ہر انسان کو مصیبت اور نعمت دونوں سے آزماتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم تمہاری آزمائش خیر اور شر دونوں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ کسی پر نعمت کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے اور کسی پر مصیبت کی لیکن مصیبت کی آزمائش سب پر آ کر رہتی ہے کہ کسی کی جسمانی ہو گی تو کسی کی ذہنی، کسی کی مالی ہو گی تو کسی کی بدنی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم لازما تمہاری آزمائش ڈر، بھوک، مال ودولت، جان اور فصلوں کے نقصان سے کر کے رہیں گے۔ اب بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری نئی نسل موجودہ آسائشی ماحول کے سبب اس آزمائش کے لیے ذہنا تیار نہیں ہے اور کفر کا اندیشہ بہت بڑھ گیا ہے۔
علماء میں اس بات میں اختلاف ہے کہ صبر کی آزمائش بڑی ہے یا شکر کی۔ یعنی اس کی آزمائش بڑی ہے کہ جسے اللہ نے دے کر آزمایا ہے یا اس کی آزمائش بڑی ہے کہ جسے اللہ نے لے کر آزمایا ہے۔ میری رائے میں ان علماء کی رائے راجح ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ شکر کی آزمائش بڑی ہے کہ مصیبت میں اکثر کو صبر تو آ ہی جاتا ہے لیکن نعمت میں شکر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے کہا ہے کہ میرے بندوں میں بہت ہی کم لوگ شکر گزار ہیں۔
پھر نعمت کی آزمائش ایسی ہے کہ اس کے بارے قیامت والے دن بھی حساب کتاب ہو گا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ تم سے قیامت والے دن دنیا کی نعمتوں کے بارے لازما پوچھا جائے گا جبکہ مصیبت کی آزمائش پر حساب نہیں بلکہ اجر ہے جیسا کہ سنن الترمذی کی روایت میں ہے کہ قیامت والے دن سب سے بڑا اجر اس کا ہو گا کہ جس کی آزمائش بڑی تھی۔
بلکہ مصیبت کی آزمائش کا اجر تو دنیا میں ہی ملنا شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اگر مسلمان کو کانٹا بھی چبھے تو اللہ عزوجل اس کا ایک درجہ بلند کر دیتے ہیں یا اس کا ایک گناہ معاف کر دیتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ عزوجل بندہ مومن کو اس کی جان، مال اور اولاد میں مسلسل آزماتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں۔ اور قرآن مجید میں ہے کہ اللہ عزوجل اہل ایمان کو مصیبت سے آزمائے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر وفاقہ کی نسبت آسائش کو بڑی آزمائش کہا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ مجھے تمہارے بارے فقر وفاقہ کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کھول دی جائے اور تم اس میں مقابلے کر کے پچھلی قوموں کی طرح ہلاک ہو جاؤ۔ اور آزمائش کی نعمت میں کامیابی چار طرح سے ممکن ہے؛ صبر کے ذریعے کہ جس میں آزمائش ختم تو نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی سکون میں بدل جاتی ہے۔ اور صبر حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ قرآن مجید کی ان آیات کی بار بار تلاوت یا سماعت ہے کہ جو صبر اور اس کی جزا کے بارے میں ہیں۔
دوسرا نماز اور دعا کے ذریعے کہ جس سے آزمائش ٹل جاتی ہے یا کم ہو جاتی ہے۔ تیسرا اپنے سے زیادہ آزمائش والوں میں نظر کے ذریعے کہ اپنے سے کم تر کو دیکھے۔ اگر نئی گاڑی کو اسکریچ آ گیا تو اس کو دیکھے کہ کتنوں کے ڈنٹ پڑ گئے ہیں۔ اور اگر ڈنٹ پڑ گیا ہے تو یہ دیکھے کہ کتنوں کی گاڑی ہی تباہ ہو گئی ہے۔ اور اگر گاڑی تباہ ہو گئی تو یہ دیکھے کہ کتنوں کی جان بھی ضائع ہو گئی اور اس کی بچ گئی وغیرہ۔ شیخ احمد دیدات رحمہ اللہ کو ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ جسم حرکت نہیں کر سکتا تھا لیکن انہوں نے دس سال اس بیماری میں کاٹے اور صرف آنکھ کے پپوٹوں سے تبلیغ کرتے تھے۔
اور چوتھا رستہ اہل ایمان کے تعاون کا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی تنگی دور کرے گا تو اللہ تعالی قیامت والے دن اس کی تنگی دور کریں گے تو اگر کوئی مسلمان بھائی کسی آزمائش میں ہے مثلا مالی تنگی ہے تو اس کو دور کرنے میں دوسرے بھائی تعاون کریں۔ اگر وہ مظلوم ہے تو ظالم کے خلاف اس کا ساتھ دیں۔ بہرحال انسان آزمائش کو طبعا ناپسند کرتا ہے، اس میں شک نہیں لیکن اس کو درج بالا ذرائع سے دور یا کم کیا جا سکتا ہے۔
تحریر مجیب الحق حقی ، حافظ زبیر