خدا اور کوئی کیوں نہیں ہوسکتا؟

کچھ ملحد ین یہ آرگومنٹ کرتے ہیں کہ ہم کسی اور کو خدا کیوں نہیں کہہ سکتے ؟ معروف عظیم کدو(GREAT PUMPKIN) اور سپیگٹی شیطان (SPAGHETTI MONSTER) کو خدا کیوں نہیں قرار دیا جاسکتا؟

تبصرہ :
خدا کا موجود ہونا ایک واضح سچائی ہے جسے اجماع کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے۔ واضح سچائیاں، مسلمہ حقیقتیں اور بنیادی عقیدے ثقافت کے پابند نہیں ہوتے’ فطری ہوتے ہیں اور کسی معلومات سے حاصل نہیں کیے گئے۔ جبکہ کوئی شیطان یا خودساختہ خدا ان سے محروم ہوتا ہے ۔

1۔خدا ایک بین ثقافتی عقیدہ [A Cross Cultural Belief] 
عظیم کدو اور سپیگٹی شیطان پر یقین کا وسیع فطری رجحان نہیں پایا جاتا، مزید یہ ثقافتی طور پر پابند ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر میں ایک سپیگٹی شیطان پر ایمان رکھتا ہوں تو مجھے ایک ایسی ثقافت کو لانا ہوگا جہاں سپیگٹی اور شیطانوں کو تعلیم دی جاتی ہو۔تاہم خدا کا تصور پوری دنیا میں ایک فوق الفطرت اور ملکوتی خالق کا بین ثقافتی تصور ہے

2۔ ایک فطری عقیدہ  [An Innate Belief]
مسلمہ عقائد اور خود سے واضح سچائیوں کو معلومات کی منتقلی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مجھے یہ سمجھنے کے لیے کہ سپیگٹی شیطان کیا ہے، معلومات کی ضرورت ہے جو مجھ تک منتقل کی جائیں ۔ ہمارے بہت سے قارئین نے سپیگٹی کا لفظ ہی پہلی دفعہ سنا ہوگا بجائے اسکے کہ اسکو خدا مان لیں ۔ لیکن جہاں بات خدا کے وجود کی ہو جو کہ کائنات کا خالق ہے، آپ کو کسی معلومات کی منتقلی کی ضرورت نہیں خواہ وہ ثقافت ہو یا تعلیم۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین سماجیات اور بشریات کا یہ ماننا ہے کہ اگر ملحد بچے کسی ویران ریتلے جزیرے میں پھنس جائیں تو ان کو یہ یقین ہو جائے گا کسی نے اس ریتلے جزیرے کو تخلیق کیا ہے۔
یہ بہت نازک نقطہ ہے کیونکہ ہم بارہا سنتے ہیں “کہ خدا اور سپیگٹی شیطان میں کوئی فرق نہیں ہے ” ۔ یہ سچ نہیں ہے۔ اگر آپ خود واضح سچائیوں، مسلمہ اور بنیادی عقائد کو سمجھتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ کسی بھی معلومات کی منتقلی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ خدا کے وجود کا بنیادی تصور معلومات کی منتقلی کا محتاج نہیں ہے۔جبکہ کسی خودساختہ خدا اور سپیگٹی کے وجود کا خیال معلومات کی منتقلی کا محتاج ہے۔ اس لیے سپیگٹی شیطان ایک خود واضح سچائی نہیں ہے۔

3۔ ایک بنیادی عقیدہ  [A Foundational Belief]
تیسرا نقطہ یہ کہ بنیادی اور مسلمہ عقائد ایک مربوط دنیا کے نقطہ نظر کے لیے ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں اور لاینحل سوالات کا جواب دیتے ہیں ۔مثال کے طور پر خدا کا وجود، اس آگاہی کے ظہور کی تفصیل ہے کہ ہمیں اس مادی دنیا کے اندر شعور حاصل ہے۔ یہ ان سوالات کے جواب دیتا ہے جن کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ اخلاقی سچائیوں کے مقصد کے وجود کی وضاحت کرتا ہے اور ایک بنیاد فراہم کرتا ہے کہ انسان اور کائنات کا مقصد کیا ہے؟ خدا کے وجود، ایک مربوط دنیا کی توجیہہ کے لئے ایک بنیاد فراہم کرتا ہے ، اہم بنیادی سوالات کا جواب ہے۔ سپیگٹی شیطان یا عظیم کدو پر اعتقاد کسی علم اور اخلاق کی تعلیم کا سبب بننے سے محروم ہیں .

اعتراض:زمین ہموار ہے یہ بھی ایک خود سے واضح سچائی تھی، یہ ایک بنیادی عقیدہ تھا۔ جیسے جیسے سائینس نے ترقی کر چکی ہے، ہمیں پتہ چلا کہ صورت حال یہ نہیں ہے۔ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ دنیا گول ہے۔!
تبصرہ : یہ استدلال خدا کے وجود پر لاگو نہیں ہوتا۔ خدا کی تعریف ایک غیر مشاہداتی ہستی ہے جو اس کائنات سے باہر ہے۔ مثال کے طور پر، اگر میں ایک کرسی بناتا ہوں تو یقینی طور پر میں کرسی سے منفرد اور جدا رہوں گا۔ میں کرسی سے الگ ہوں ۔ اسی طرح خالق بھی اس کائنات سے منفرد اور بیرونی ہے۔ اسی لیے خالق کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا اس نقطہ نظر سے یہ اعتراض لاگو نہیں ہوتا: یہ صرف ان چیزوں پر لاگو ہوتا ہے جن کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہو۔
سائنس علم کے ایک اصول پر مبنی ہے جس کو تجربیت کہتے ہیں۔ آپ کو تجربیت کا علم بلواسطہ یا بلا واسطہ مشاہدے پر مبنی تجربات سے حاصل ہو سکتا ہے۔ تجرباتی طور پر خدا کو مسترد کرنا ناممکن ہے کیونکہ مشاہدات سے نتائج تک اسے ثبوت کی ضرورت ہے۔ کسی ایسی چیز کا انکار کرنا جس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا یا علم کے ایک اصول کو استعمال کرتے ہوئے جو صرف مشاہدات پر مبنی ہو ‘ نتیجہ نکال لینا مضحکہ خیز ہے۔ سائنسی دنیا خدا کے وجود سے کبھی انکار نہیں کر سکتی کیونکہ سائنس صرف ایسی چیزوں سے معاملہ کرتی ہےجن کا آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کے فلسفی ایلیٹ سوبر نے اپنے مضمون تجربیت میں اس بات پر زور دیا کہ سائنس ان سوالات کی پابند ہے جن کا جواب مشاہدات ہی دے سکتے ہیں۔ ” ہر صورت میں سائنسدان ان مشاہدات پر محدود ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہیں۔ حدود یہ ہیں کہ سائنس اپنی توجہ صرف ان مسائل پر رکھنے پر مجبور ہے جو مشاہدات سے حل ہوتے ہیں۔” جب خدا کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ایک مشاہداتی دنیا کا استعمال کرتے ہوئے اسکا انکار کیسے کرسکتے ہیں ؟اس کے جواب میں جو عمومی رد عمل یہ ہے کہ ‘اگر اس کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا، تو پھر اس پر اعتقاد بھی نہیں کیا جا سکتا’۔ یہ ایک غلط دعوی ہے کیونکہ مشاہدے تمام مظاہر کا احاطہ نہیں کرتے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کا کہ ہم مشاہدہ نہیں کرسکتےلیکن پھر بھی اُن پر یقین رکھتے ہیں۔ فلسفی جان کوٹنگھم نے اپنی کتاب عقلیت میں اس مسئلہ کو اجاگر کیا ہے:” ایک اضافی اور شاید اس سے بھی زیادہ پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم سائنس کی اعلی سطح تک پہنچتے ہیں تو ہم ڈھانچے اور اداروں کے کسی بھی براہ راست معنوں میں مشاہدہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ایٹمز، مالیکیولز، الیکٹرانز، فوٹانز اور ان جیسے بہت سے اور انتہائی پیچیدہ نظریاتی تشکیل ہیں۔ یہاں ہمیں لگ رہا ہے کہ ہم بہت دور براہ راست ‘تجربیت و مشاہدے’ کی دنیا سے ہٹا دیے گئے ہوں”۔
چنانچہ وقت کیساتھ کسی مشاہداتی سچائی کے بدل جانے سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی ابدی اور غیر مشاہداتی سچائی بھی بدل جائے گی ۔

اعتراض :خداکا عقیدہ کیسے واضح سچائی ہے جبکہ دنیا میں لاکھوں ملحدین موجود ہیں ؟

1۔ خود سے واضح سچائیوں کا ہر صورت عالمگیری ہونا ضروری نہیں ہوتا :

ان کو انفرادی طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر اپنی والدہ کو لیجیے؛ آپ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ عورت جس نے آپ کو جنم دیا وہ آپ کی ماں ہے ۔ اس کے لیے آپ کو گھر میں ڈی ۔این۔اے ۔ ٹیسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ وہ آپ کی ماں ہے کیونکہ یہ ایک خود واضح سچائی ہے۔ جبکہ کسی اور کے لیے یہی عورت جس کو آپ ماں بلاتے ہیں وہ چچی ، سوتیلی ماں یا گود لینے والی عورت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ بنیادی عقائد اور خود واضح سچائی کا عالمگیری ہونا ضروری نہیں۔ یہ انفرادی طور پر بھی ہو سکتے ہیں۔

2۔ خدا پر ایمان عالمگیری ہے
دنیا میں ملحدوں کی ایک کثیر تعداد کے باوجود، خدا پر ایمان عالمگیری ہے۔ ایک عالمگیری عقیدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سیارے پر موجود ہر شخص اس عقیدے پر ایمان لائے۔ خدا کے وجود پر بین ثقافتی اجماع یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ خدا عالمگیری ہے۔ دنیا میں ملحدوں کے مقابلے میں توحید پرست ذیادہ ہیں۔ اور تاریخ کی ابتدا سے یہی معاملہ رہا ہے۔ ملحدین کو جواب میں یہ وضاحت کرنا ہوگی کہ خدا خود واضح سچائی نہیں ہے۔ ان کو یہ وضاحت دینا ہوگی کہ خدا ابتدائی اعتقاد نہیں ہے بلکہ ثقافتی طور پر پابند ہے اور صرف معلومات کی منتقلی سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
استفادہ و ترجمہ تحریر حمزہ اینڈرئیس:

  • محمد شاہ میر احمد وانی
    April 11, 2020 at 2:26 am

    جزاک اللہ ہو خیرا ماشاء اللہ نہایت اچھی اور بہترین مدل تحریر۔۔۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password