جب کسی مسلمان اور ملحد کی بحث ہوتی ہے یا جب کوئی ملحد اسلام پر اعتراض کرتا ہے تواکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ملحد اسلام کی مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیزاور نفرت انگیز رویہ اختیار کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ کیوں گالی، غلط خطابات اور نامناسب ناموں سے ان کا حوالہ دیتا ہے۔ ایک تو یہ بات ہے کہ ایک ملحد کسی کے ردعمل میں آکر کسی بے اختیار جذبے میں آکر ایسی حرکت کرتا ہے۔ اگرچیکہ ایسی حرکت ناقابل قبول ہے پھر بھی قابل فہم ہے۔ جب بحث میں اس کے اعصاب پر بوجھ پڑتا ہے تو دوسرے کو بھی ذہنی اذیت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بعض ملحدین کے بارے میں دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ توہین آمیز انداز اختیار کئے بغیر بات کرتے ہی نہیں۔ یا تو وہ دلیل کے بجائے مقدسات کی توہین سے ہی بات کرتے ہیں یا اگر دلیل دیں گے بھی تو اس میں اسلامی مقدسات کی توہین شامل کر لیتے ہیں۔
ملحدوں کی طرف سے اس کی مختلف توجیہات آتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہر ایک کو آزادی ہے کہ جو چاہیں کہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر کوئی غلط بات کرتا ہے تو آپ اسے غلط ثابت کریں۔ کوئی کہتا ہے کہ جو آزادی اسے حاصل ہے وہ آپ کو بھی حاصل ہے وغیرہ وغیرہ ہے۔
اس قسم کےجوابات میں دو قسم کی الجھنیں ہیں۔ اول یہ کہ یہ لوگ دلیل اور گالی میں پائے جانے والے جوہری فرق کو نہیں سمجھتے۔ انسانی شعور کی رفعت کا ایک مظہر یہ ہے کہ انسان منطق اور توجیہات (Reasoning) ذریعے ہر چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے۔ جب آپ گالی دیتے ہیں تو اس میں منطق و توجیہہ کی شرط غائب ہوجاتی ہے۔
اورانسانی شعور کی رفعت کا ایک اور مظہر عقل کے ساتھ ساتھ تعلقات، رشتوں کا احترام اورمحبت کے مراکز ہیں ۔ انسان اپنی معاشرت میں چاہے وہ قومیت ہو، مذہب ہو، خاندان ہو، اپنے کچھ تعلقات اور محبت کے مراکز رکھتا ہے اور اس کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ ایک فرد اپنے محبت کے مراکز کے بارے میں کوئی غلط بات یا گالی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ کسی کے مرکز محبت کی توہین کرنا یا اس کو گالی دینا اس فرد کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
مثلا آپ کسی کی ماں کو طوائف کہتے ہیں تو اسے برا لگتا ہے اگرچہ اس کا امکان ہوتا ہے کہ اس کی ماں باقاعدہ دھندے پر جاتی ہو اور ہر رات کسی کو اپنے جسم سے لطف اندوز کروا کر پیسے کماتی ہو۔ لیکن اس بات کا بھی امکان ہوتا ہے کہ ایک شخص کی ماں کسی قسم کی ایسی حرکت نہ کرتی ہو اور نہ ہی کبھی وہ ایسی خواہش رکھتی ہے۔ پاکیزہ زندگی گذارتی ہو اور اس کے باجود کوئی اسے گالی دیتا ہو۔یہاں پر اگلی دینے والا اپنی گالی کو سچ کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور جھوٹ کے لئے بھی۔ اس اعتبار سے گالی دینا دراصل منطق کے دائرے میں نہیں آتا اگرچیکہ کبھی کبھی گالی اپنے معنوں میں صحیح بھی ہو۔ گالی کے استعمال میں عقل اور بے عقلی بالکل ہی ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہاں پر عقل کا مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ مقابلہ اس بات کا ہوتا ہے کہ کون کس کو زیادہ ذہنی اذیت دیتا ہے۔
اگر واقعی میں کوئی کسی کو عقلی طور پر طوائف ثابت کرنا چاہتا ہو تو اس کو گالی دینے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے۔ اسے چاہئے کہ یہ کہے کہ تمہاری ماں نے گھر کے باہر یوں اور یوں بورڈ لگا کر رکھا اور اس میں صاف لکھا ہے کہ ایک رات کے لئے لطف اندوز ہونے کا اتنا اور اتنا پیسا ہے۔ یا تمہاری ماں روز فلاں جگہ گاہک ڈھونڈنے کے لئے جاتی ہیں اور میں نے خود یہ دیکھا ہے اور اس کے لئے فلاں اور فلاں بھی گواہ ہے۔ بلکہ میں نے موبائل میں ایک ادھ تصویر بھی لی ہوئی ہے۔اس کے لئے طوائف کا لفظ استعمال کرنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ صرف دلیل دیں اور جس چیز کی آپ دلیل دے رہے ہیں وہ خود سے ثابت ہوجائے گی۔ اب بعد میں جاکر اس کو طوائف کہا جائے، whore کہا جائے، Prostitute کہا جائے یا کال گرل، بات تو ثابت ہوجاتی ہے اس کے لئے نام دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہاں پر عقل کو دلیل دینے لئے استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ اس بات کے لئے کہ کون عقل کو استعمال کر کے دوسرے کو زیادہ سے یادہ ذہنی اذیت دیتا ہے۔
یہاں پر عقلی دلیل دینے کی وجہ سے دوسرے فریق کو بھی خالص عقلی بنیادوں پر یہ موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے دئے گئے دلائل کا رد کردے۔یا تو وہ ثابت کرے کہ اس کے گھر کے باہر ایسا بورڈ کبھی نہ لگا ہو، یا یہ ثابت کرے کہ جس کو وہ گواہ کے طور پر پیش کر رہا ہو وہ اس کی ماں کو پہچانتا ہی نہ ہو، یا جس وقت انہوں نے اس کی ماں کو کسی خاص جگہ دیکھا تھا اس وقت اس کی ماں اپنی بھانجی کی شادی میں گئی ہوئی تھی یا ثابت کرے کہ موبائل میں لی گئی تصویر doctored ہے۔
اس کے بالمقابل گالی دینے والاایک توہین آمیز دعوی کرچکا ہوتا ہے، اب دلیل تو بعد میں آتی ہے۔ جب بندہ اس گالی کو غلط بھی ثابت کرےتو بھی گالی دینے والے نے توہین کر ہی دی۔ اب جس کی ماں کو گالی دی گئی وہ صرف دلیل سے اس کا ازالہ نہیں کرسکتا۔ وہ غصے میں اپنے آپ کو مجبور پائے گا کہ وہ دوسرے فریق کی ماں کو بھی ایسی ہی گالی دے۔ اور اگر اس فریق کی ماں اور بہن سچ مچ رنڈیاں ہوں اور وہ اس معاملے میں بےحس اور بے شرم ہوچکا ہو تو یہ فریق یا تو اس کے لئے مزید نئی اور انوکھی گالیاں ڈھونڈنے پر مجبور ہوجائے گا بلکہ اگر گالیوں کے بارے میں اس کا دماغ کام نہ کرے تو وہ تشدد پر مجبور ہوجائے گا۔ نتیجے میں دوسرا فریق بھی مزید مغلظات بکے گا یا جوابی تشدد کا مرتکب ہوجائے گا۔اس پوری تصویر میں آپ یہ دیکھتے ہیں کہ عقل کا مقابلہ حقیقت کو پہچاننے میں نہیں بلکہ اس میدان میں ہورہا ہے کہ کون کس فریق کو کتنی اذیت دیتا ہے۔
بہت ممکن ہے کہ کسی ایک فرد ، قوم یا مذہب نے اپنے لئے محبت کے غلط مراکز قائم کر لئے ہوں اور ان کا یہ رویہ غیر عقلی ہو۔ ایسے میں ایک عقل مند فرد کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ کسی دوسرے کے غلط مرکز محبت کے بارے میں عقلی دلائل فراہم کرے اور واضح کرے کہ اس نے اپنے لئے ایک غلط محبت کا مرکز چن لیا ہے۔ اور اگر وہ اپنے کسی جذبے کی وجہ سے اپنی غلطی نہ مانے تو بھی اس کو عقلی طور پر مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔بدزبانی اور مغلظات کسی بھی صورت میں اس کا حل نہیں ہے۔
اب اوپر والی مثال کو ہی لے لیں، ایک شخص کی ماں واقعی میں طوائف بن گئی ہو، تو اسے پورے دلائل کے ساتھ ثابت کردے اور یہ سب کچھ ثابت کرنے کے لئے اسے طوائف یا کوئی اور توہین آمیز لفظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ شخص ان دلائل کو مان کر اپنی ماں ہی سے نفرت کرنے لگے۔
اب اگر ایک شخص دلائل دینے سے پہلے ہی کہہ دے کہ تیری ماں تو طوائف ہے۔ دوسرا فریق لازمی طور پر اس کی ماں بلکہ پورے خاندان کے لئے اس سے زیادہ گندہ لفظ ڈھونڈے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کی گالی کھانے بعد اس کو جو ذہنی اذیت پہونچی اس کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ اسی قسم کی ذہنی اذیت سے دیا جاسکتا ہے۔ اور اگر اس کی سمجھ میں اس سے بری کوئی گالی نہیں آئے گی تو وہ لامحالہ وہ تشدد پر اتر آئے گا۔
اس گالی دینے کے پورے عمل کو دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ گالی دینے والا انسان دو چیزوں سے لاتعلق اور بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ ایک انسان کی توجیہاتی صلاحیت(Reasoning) اور انسانی جذبات۔اور یہ دو نوں چیزیں درحقیقت انسانی شعور کی رفعت کی نشانی ہے۔
جب ایک ملحد بحث میں کسی مذہبی علامت یا شخصیت کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرتا ہے تو دراصل وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے وہ اس خاص معاملے میں عقل اور Reasoning نام کی چیز سے کوسوں دور ہے۔ اس کے دماغ نے عقل کوreasoning کے لئے نہیں بلکہ بدزبانی اور مغلظات کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جذبات نام کی کسی چیز کو بھی کوئی قدر نہیں دیتا۔
یہ عقل اور جذبات سے ماورا مخلوق دراصل انسان کے درجے سے نیچے اتر کر ایک حیوان بن جاتا ہے جس کے نزدیک نہ عقلی توجیہات کوئی معنی رکھتی ہیں اور نہ انسانی جذبات۔ یہ ایک ایسی ذلیل اور گھٹیا ذہنیت کا اظہار ہے جس میں ایک ملحد کے لئے تضحیک، تمسخر، طعنے بازی، نفرت گوئی، رزالت، کمینگی اور ذہنی پستی ہی انسانیت کی اصل معیار ہے۔ یہ ایک شکست خوردہ اور اذیت پسند ہستی ہے جس کے نزدیک اپنی جذبات اور عقلی شکست کا یہی انتقام ہے کہ جس خدا کو اس نے اپنی نفس پرستی میں چھوڑ دیا اس کے ماننے والوں کے اعصاب کو اذیت سے دوچار کرے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بحث کے دوران گالی اور توہین آمیز انداز اختیار کرنا اپنی حقیقت کے اعتبار سے بحث کو عقل کے دائرے سے نکال سفلی جذبات، طعنے مارنا، شناعت بازی، کمینگی اور ذہنی پستی کے مقابلے میں میدان میں لے آتا ہے۔ جب کوئی ملحد یہ رویہ اختیار کرتا ہےتو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانی رفعت کو چھوڑ چکا ہے اور وہ شعوری پستی میں مبتلا ہے۔ یہاں پراگر کوئی مسلمان کسی ملحد سے مقابلہ کرتا ہے تو پھر ایسے مسلمان کو اسی میدان کا کھلاڑی ہونا چاہئے۔ مسلمان بھائیوں بہنوں سے گذارش ہے کہ یہ ملحدوں کا خاص میدان ہے اور آپ ان کے میدان میں ان سے کبھی بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ایک گھٹیا ذہنیت کا ملحد آپ کوعقلی میدان سے گھسیٹ کے اپنے میدان میں لانے کی ضرور کوشش کرے گا۔ اگر وہ کامیاب ہوگیا تو آپ کی شکست یقینی ہے۔ آپ گالیوں اور توہین آمیز رویے میں ملحد کا مقابلے نہیں کر سکتے کیونکہ ملحدانسانی شعور کی ایک عظیم ترین نعمت یعنی منطقیت اور جذباتی وابستگی کو ترک کر کے حیوانی بلکہ شیطانی سطح پر آچکا ہوتا ہے۔ آپ کوشش کریں کہ ملحد کو اپنے میدان یعنی عقل اور اخلاقیات کی سطح پر لے کر آئیں اور اس سے بحث کریں۔ اور اگر وہ نہیں آتا تو اسے اس کی شیطانی اذیت پرستی کے راستے پر چلنے دیں۔ یہ بات بھول جائیں کہ اس کے میدان میں آپ اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔یہ سوشیل میڈیا ہے، وہ اپنے سفلی جذبات کی وجہ سے کہیں دور سے آپ کو ذہنی اذیت دے کرمزے لے رہا ہوگا۔
وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ ؕ وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (6:68)
اور الله نے تم پر قرآن میں حکم اتارا ہے کہ جب تم الله کی آیتوں پر انکار اور مذاق ہوتا سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ کسی دوسری بات میں مشغول ہوں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو جاؤ گے اور الله منافقوں اور کافروں کو دوزخ میں ایک ہی جگہ اکھٹا کرنے والا ہے۔
جب انسان اپنے رب کو بھلا دیتا ہے تو پھر وہ انسان اپنے آپ سے بھی بھلادیا جاتا ہے اور اس کے اندر انسانی شعور کی وہ رفعت نہیں رہتی ہے جو کہ انسانیت کا خاصہ ہے۔
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (59:19)
اور ان کی طرح نہ ہوں جنہوں نے الله کو بھلا دیاپھر الله نے بھی ان کو (ایسا کر دیا) کہ وہ اپنے آپ ہی کو بھول گئے یہی لوگ نافرمان ہیں
اس سے پہلے کہ اپنی بات ختم کروں، اس مضمون کا مطمح نظر اور ملحدوں سے اپنے تجربے کے بارے میں ایک بات عرض کرنی ہے۔
اب تک جس قسم کے ملحدوں سے سامنا ہوا ہے ان کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلی قسم میں وہ ملحد ہیں جو کہ صرف منطق سطح پر بات کرتے ہیں اور کبھی بھی توہین آمیز رویہ اختیار نہیں کرتے۔ ایسے ملحدین کی اکثریت الحاد کی مبلغ نہیں ہوتی، بلکہ یہ پوری طرح سے ملحد بھی نہیں ہوتے۔ شکوک و شبہات میں ہوتے ہیں۔ یہ مضمون اس قسم کے ملحدوں پر نہیں ہے۔اور اگر الحاد کے مبلغ بھی ہیں تو ہمیشہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہیں۔ لیکن عقلی میدان میں شکست ہونے کے باوجود یہ اپنی شکست کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ پھر بھی ایسے ملحد غنیمت ہیں۔ ایسے ملحد بہت کم ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے ملحد وہ ہوتے ہیں جو بحث تو منطقی سطح پر کرتے ہیں لیکن جب انہیں عقلی میدان میں شکست کا سامنا ہوتا ہے تو پھر اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے کوئی نہ کوئی توہین آمیز بات کر کے مسلم فریق کو ذہنی اذیت میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مضمون جزوی طور پر ان کے لئے ہے۔
تیسری قسم وہ ہوتی ہے جو عقلی طور پر اسلام کے خلاف کوئی مضبوط مقدمہ قائم کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کے نزدیک اسلام کی مخالفت کا صرف ایک ہی طریقہ ہوتا ہے اور وہ اپنی ذہنی گندگی اور سفلی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے مسلمانوں کے مراکز محبت کے خلاف اپنی گندی زبان اگلنا۔ یہ مضمون اصلاً انہیں کی توصیف میں لکھا گیا۔
نوٹ: بات کو سمجھانے کے لئے ماں کو گالی دینے کی مثال دی گئی ہے۔ اس بات کے لئے تمام خواتین اور ماؤں سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ مثال دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر ایک منکر خدا مذہبی مقدسات کو نہ بھی سمجھے تو شاید ماں سے اپنے تعلق کو سمجھے۔ ماں کا مقام ہی ایسا ہے اور یہاں پر پائےجانے والوں کی اکثریت پاکستانی ہے۔
ذیشان وڑائچ