منکرینِ خدا سے چند سوالات

ہم خواہ مخواہ خدا کی حمایت میں اپنی بہترین صلاحیتیں لگانا نہیں چاہتے، ہمارا اندر نہیں چاہتا کہ کوئی نفس کی شترِّ بے مہار آزادی کو لگامیں ڈالے، ہم مادر پدر آزادی کے ساتھ ہر ’باغ‘ میں چرنا چاہتے ہیں، اگر کوئی ذہن کو جواب کا پانی مہیاکر سکے، کوئی سجھا سکے کہ خدا سے ہٹ کر بھی ایک راہ سیدھی فلاح و سکون کی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم نظریاتی ملحدین سے بھی مخاطب ہیں اور خصوصی طور پہ پاکستانی معاشرے میں واقعاتی طور پہ بڑھتے ہوئے جدید تعلیم یافتہ طبقے کے الحاد سے بھی۔ ہم وطن ِ عزیز کے متشککین سے بھی عرض گزار ہیں اور مخلصین سے بھی۔ کیا نفس پرستی، مفاد پرستی، تعصب و عناد اس قابل ہیں کہ وہ انسان کو اس کی سب سے بڑی ضرورت سے دور رکھ سکیں؟نظریاتی ملحدین مندرجہ ذیل سوالات کی تحقیق کی سچائی سے جواب تلاش کریں، واقعاتی بنیادوں پہ ملحد ہونے والے سچائی اور جھوٹ کی معیاری کسوٹی حاصل کریں،متشککین شک سے نکلیں اور مخلصین کچھ کر گزرنے کا عزم باندھیں ۔ وگرنہ طوفان تو طوفان ہے اجاڑ کے رکھ دیتا ہے، سیلاب تو سیلاب ہے تباہی مقدر کردیتا ہے، زلزلہ تو زلزلہ ہے مضبوطی اس کے سامنے بودی ثابت ہوتی ہے، لاوا تو لاوا ہے کون رکاوٹ بن سکتاہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ خدا کا وصل انسان کو لذت، ترقی ، سکون اور ابدی کامیابی نصیب کرتا ہے اور خدا کا انکار بد ذوقی، اضطراب،گھْن اور ہمیشہ کی ناکامی۔ انکار گھٹن اور اقرار آزاد فضا کے صحت مند سانس کی ضمانت دیتا ہے۔ ذہن کے ’غبار‘ سے کچھ سوالیہ نشان برآمد ہوئے ہیں، پیش کرتا ہوں:
٭خدا کا ہونا زیادہ سائنسی ہے یا نہ ہونا؟
٭خدا کاہونا زیادہ تاریخی ہے یا نہ ہونا؟
٭خدا کاہونا انسان اور سماج کے لیے زیادہ ضروری ہے یا نہ ہونا؟
٭خدا کے ساتھ کائنات کا تصور کامل ہے یا خدا کے بغیر؟
٭نفسیاتی طور پہ خدا کا انکار فائدہ مند ہے یا اقرار؟
٭خدائی سہارے کا ہونا دگرگوں حالات میں مایوسی سے حوصلے کی جانب سفر ہے یا نہ ہونا؟
٭حقیقتِ مطلقہ کے انکاریوں کی سوچ کو آخر پھر کس بنیاد پہ حقیقت تسلیم کیا جاسکتا ہے؟نیز اگر اس موقف کو تسلیم کربھی لیا جائے تو خدا کے بارے میں پائی جانے والی دو آرابڑھ کر اربوں سر پھٹول میں تبدیل نہ ہوجائیں گی؟ خدا کے بغیر ان پہ روک کیسے لگائی جا سکتی ہے؟
٭محض کسی چیز کا نظر نہ آنا اس کی نفی کی دلیل بن سکتا ہے؟
٭فزکس کے اس اصول کا کیا جائے کہ ہم 10لاکھ میں سے صرف 5چیزوں کے جانتے ہیں۔ گویا باقی سب کچھ غیب میں ہے یعنی عظیم ترین حقائق غیب میں ہیں؟
٭عقلی طور پہ منکرینِ خدا کا موقف زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے یا خدا پرستوں کا؟
٭پسند ناپسند، تعصبا ت،محدود سوچ اور رجحانات رکھنے والے انسان کا اصولی ضابطہ بنانا زیادہ ممکن نظر آیا ہے یا انسانی تناقضات سے پاک اصول کسی برتر طاقت کا تقاضا کرتے ہیں؟
٭ان منکرین کا کیا جائے جو کہتے ہیں کہ اگر چہ خدا نہیں ہے تب بھی یہ انسانی معاشرے کے سدھار کی ضرورت ہے؟
٭جو کہتے ہیں کہ زندگی یک خلوی جاندار سے شروع ہوئی تو یہ جان دار کیسے تخلیق ہوا؟
٭جانداروں کا’ ایک ‘آغاز متجسس ذہن کے لیے آسودگی کا زیادہ سامان رکھتا ہے یا کوئی ’شروعات‘ نہ ہونا؟
٭ خدا کا تصور زیادہ قدیم ہے یا انکار؟
٭خدا پرستوں کے دعوئوں اور پیغامات میں زیادہ یکسانیت رہی ہے یا خدا بیزاروں کے؟
٭خدا کن ’ٹھوس‘ حقائق کی بنیاد پہ خوف کی حالت میں تراشا من گھڑت خدا ٹھہرتا ہے؟
٭پیغمبرانِ قدس کے مثالی سیرت و کردار کے مقابلے میں ملحدین کے کس قدر نمونے لائے جاسکتے ہیں؟اور سچائی کے مجسموں کے دعوے مانے جانے کے زیادہ لائق ہیں یا نہیں؟
٭کائنات کی ابتدا و انتہا پہ فیصلہ کن کلام الحاد پیش کرتا ہے یا خدا؟
٭تاریخ میں ہر حوالے سے خدائی دعوئوں کوپیچھے ہٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے یا الحادی دعاوی کو؟
٭تجرباتی طور پہ ہمہ نوع اضطراب دور کرنے کی طاقت خدا کے پاس ثابت ہوئی ہے یا منکرین کے پاس؟
٭بارہا مطمئن الہامی معاشروں کے مقابلے میں کتنے مطمئن الحادی معاشرے پیش کیے جاسکتے ہیں؟
٭آپ کہتے ہیں کہ خدا کے اثبات کا کیا ثبوت پیش کریں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی نفی کا کیا ثبوت پیش ہو سکا ہے ؟
٭اگر خدا کے ہونے نہ ہونے کے چانسز ففٹی ففٹی ہیں تو بتائیے اس کا ماننا زیادہ سود مند ٹھہرے گا کہ نہ ماننا؟یعنی وہ نہ ہوا تو قصہ ہی ختم لیکن اگر ہوا تو ہٹ دھرمی کیوں کر نفع دے سکے گی؟
٭کائنات کے بے مثال اور عظیم الشان نظم و ربط کو بنانے والا زیادہ سوٹ کرتا ہے یا خود بخود جاری و ساری رہنے کا نظریہ؟
٭ جدید ترین تحقیقات الوہیت کی قبولیت کی طرف جھکائو رکھتی ہیں یا رَد کی طرف؟
٭سب سہاروں کے گِر جانے کے باوجود’ ایک سہارا‘ قائم رہنے کا تصور ’پلٹ کر جھپٹنے ‘ کے لیے معاون ہے یا بے سہارا رہ جانے کا تصور؟
٭دنیا کے عظیم ترین دماغوں کی غالب ترین اکثریت خدا کے حق میں اکٹھی ہے یا مخالفت میں؟
٭کیا خدا کے انکار میں 342ق م کی طرح خدا کے اقرار کی تاریخ پیش کی جاسکتی ہے؟ تو کون سی بات زیادہ مصنوعی معلوم ہوتی ہے؟
٭سوسائٹی کی ترقی کے لیے متشککین زیادہ کارآمد ہیں یا یقین والے ؟
٭انسانی دماغ یقین کو پانا چاہتا ہے یا مستقل شکّی پن کے نفسیاتی مرض کو؟
٭ لب پہ آتی ہے بات دل سے. ندیم بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟
٭انسانی تجسس جواب چاہتا ہے یا سوال در سوال در سوال؟ اور اس با شعور مخلوق کے مشکل ترین سوالات کو حتمی جوابات’لا ریب فیہ‘ کے انمٹ دعوے کے ساتھ الحاد پیش کرتا آیا ہے یا خدا؟ تو ہے کوئی بندہ خدا جو انکارِ خدا کی راہ ہموار کرے ۔ اگر کوئی ذہن کی آوارہ گردی کو لگا م ڈال سکے تو مجھ جیسوں کو خدا بیزاری میں آگے آگے پائے گا۔ او ر اگر ایسا نہ کرسکے تو کم از کم دوسرے رخ پہ سوچنا ہی شروع کردے شاید یہی اس کی بھٹکتی آتما کو پر سکون آغوش فراہم کرنے کا باعث بن جائے.
تحریر : سید ثمر احمد

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password