سلامتی کا راستہ

آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہو گیا؟ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں؟ کیوں ہماری زندگی کی کَل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں۔ ملک ملک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ آدمی ،آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے۔ لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہو رہے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں ۔ بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں۔ طاقت ور کمزوروں کو کھائے جاتے ہیں۔ مال دار غریبوں کو لوٹے لیتے ہیں۔ حکومت میں ظلم ہے۔ عدالت میں بے انصافی ہے۔ دولت میں بدمستی ہے۔ اقتدار میں غرور ہے۔ دوستی میں بے وفائی ہے۔ امانت میں خیانت ہے۔ اخلاق میں راستی نہیں رہی۔ انسان پر سے انسان کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ مذہب کے جامے میں لا مذہبی ہو رہی ہے۔ آدم کے بچے لاتعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو دغا ،ظلم ،بے ایمانی ہر ممکن طریقہ سے نقصان پہنچانا کار ثواب سمجھ رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔پانی میں امن ہے۔ درختوں اور جانوروں میں امن ہے۔ تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے۔ کہیں فساد یا بدنظمی کا نشان نہیں پایا جاتا۔ مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہو گئی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کو سخت پریشانی پیش آ رہی ہے۔ مگر میں پورے اطمینان سے اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ: ۔
آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنا رکھا ہے اس لیے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے۔ اور جب تک وہ پھر سے اسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پا سکے گا۔
آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ بیٹھیں ،اور اسے کھول کر بے تکلف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہوں تو آپ کی اس غلط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وہ میدان جہاں آپ گریں گے گھر کا صحن ثابت ہو گا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے،وہ ظاہر ہو کر ہی رہے گا۔ خواہ ٹانگ ٹوٹنے اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلط سمجھا تھا۔
بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں ،تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہر گز نہ بدلے گی۔ خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں ،پورے اختیارات کے ساتھ اُسی کے قبضہ میں رہے گی۔ البتہ آپ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے جو طرز زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت برا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ خواہ آپ تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔
ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اناڑی شخص جو ا س کی مشینری سے واقف نہ ہو،اسے چلائے گا تو بگاڑ دے گا۔ ذرا کسی ناواقف آدمی سے ایک موٹر ہی چلوا کر دیکھ لیجیے۔ ابھی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس حماقت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب ذرا خود سوچیے کہ لوہے کی ایک مشین کا حال جب یہ ہے کہ صحیح علم کے بغیر اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تو انسان ، جس کی نفسیات انتہا درجہ کی پیچیدہ ہیں، جس کی زندگی کے معاملات بے شمار پہلو رکھتے ہیں اور ہر پہلو میں لاکھوں گتھیاں ہیں، اس کی پیچ در پیچ مشینری کو وہ لوگ چلا سکتے ہیں جو دوسروں کو جاننا اور سمجھنا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے؟ ایسے اناڑی جب قانون ساز بن بیٹھیں گے اور ایسے نادان جب انسانی زندگی کی ڈرائیوری پر آمادہ ہوں گے تو کیا اس کا انجام کسی اناڑی شخص کے موٹر چلانے کے انجام سے کچھ بھی مختلف ہو سکتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا بنایا ہوا قانون مانا جا رہا ہے اور جہاں خدا کی اطاعت سے بے نیاز ہو کر انسان حکم چلا رہے اور انسان ان کا حکم مان رہے ہیں،کسی جگہ بھی امن نہیں ہے ۔کسی جگہ بھی آدمی کو چین نصیب نہیں ۔ کسی جگہ بھی انسانی زندگی کی کل سیدھی نہیں چلتی۔ کشت و خون ہو رہے ہیں ۔ ظلم اور بے انصافی ہو رہی ہے۔ لوٹ کھسوٹ برپا ہے۔ آدمی کا خون آدمی چوس رہا ہے۔ اخلاق تباہ ہو رہے ہیں۔ صحبتیں برباد ہو رہی ہیں۔ تمام طاقتیں جو خدا نے انسان کو دی تھیں،انسان کے فائدے کے بجائے اس کی تباہی اور بربادی میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ مستقل دوزخ جو اسی دنیا میں انسان نے اپنے لیے آپ اپنے ہاتھوں بنالی ہے،اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس نے بچوں کی طرح شوق میں آ کر اس مشین کو چلانے کی کوشش کی جس کے کل پرزوں سے وہ واقف ہی نہیں ۔اس مشین کو جس نے بنایا ہے وہی اس کے رازوں کو جانتا ہے۔ وہی اس کی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے۔ اسی کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ یہ کس طرح صحیح چل سکتی ہے۔ اگر آدمی اپنی حماقت سے باز آ جائے اور اپنی جہالت تسلیم کر کے اس قانون کی پابندی کرنے لگے جو خود اس مشین کے بنانے والے نے مقرر کیا ہے ،تب تو جو کچھ بگڑا ہے وہ پھر بن سکتا ہے ،ورنہ ان مصیبتوں کا کوئی حل ممکن نہیں ۔
بے انصافی کیوں ہے؟
آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوا اپنی زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔
ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں سب امن کے ،انصاف کے ،عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے ۔ ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے ۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقہ کی یا ایک قوم کی ۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں ۔ سب کے حقوق ،انصاف کے سا تھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقہ کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دلچسپی ہو ۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں ۔جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے ،نہ اپنی خواہش کی بناء پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست ،ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف ،ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو ۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں ،تمام قوموںِ ،تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو ان کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں ۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ ،ایسا غیر جانبدار ،ایسا بے غرض ،اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرات نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے ۔ کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے ۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو ،بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے۔ کچھ دلچسپیاں رکھتا ہے۔ کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے۔ وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے وہ عزت ،وہ ٹھاٹھ ،وہ آمدنی ، وہ حقوق ،اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ ان کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔ کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں مگر کہا جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ ’’بادشاہ غلطی سے پاک ہے‘‘،دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں ،جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں ۔ مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے ،سرجھکائے ،ڈرے سہمے کھڑے ہوتے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی ، ان کی موت سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور برے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر ،اپنی سواریوں پر اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی ایسے عادل کا مقرر کیا ہوا ہو سکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں ؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے ۔ ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے ۔ ان جاگیرداروں اور زمینداروں کو دیکھیے۔ ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے۔ یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انہیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیئے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک ۔ یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین ۔ یہ اونچے ہیں اور دوسرے نیچے ۔ یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے ۔ ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان ،مال ،عزت ،آبرو ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خود غرضی اور جانبداری نظر نہیں آتی؟کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کونسا قانون اور کونسا ضابطہ ایسا ہے جس میں خود غرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسان اعلیٰ کہتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنیٰ درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زورو اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں، ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے ،وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے ۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انہیں انسانیت کے درجہ سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات ،یا اپنے خاندان ،یا اپنی نسل ،یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔
مجھے بتایئے ،کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا برد کر دیا جائے ،اور اس خدائی قانون کو ہم سب تسلیم کر لیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق ،اس کے اعمال ،اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے ،نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔
امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
صاحبو! اس معاملہ میں ایک اور پہلو بھی ہے جسے میں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ آدمی کو قابو میں رکھنے والی چیز صرف ذمہ داری کا احساس ہی ہے۔ اگر کسی شخص کو یقین ہو جائے کہ وہ جو چاہے کرے ،کوئی اس سے جواب طلب کرنے والا نہیں ہے اور نہ اس کے اوپر ایسی کوئی طاقت ہے جو اسے سزا دے سکے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شتر بے مہار بن جائے گا۔ یہ بات جس طرح ایک شخص کے معاملہ میں صحیح ہے۔ اسی طرح ایک خاندان ،ایک قوم اور تمام دنیا کے انسانوں کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ایک خاندان جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے کوئی جواب طلب نہیں کر سکتا تو وہ قابو سے باہر ہو جاتا ہے ۔ ایک طبقہ بھی ذمہ داری اور جواب دہی سے بے خوف ہو جاتا ہے تو دوسروں پر ظلم ڈھانے میں اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ایک قوم یا ایک سلطنت بھی جب اپنے آپ کو اتنا طاقتور پاتی ہے کہ زیادتی کے کسی برے نتیجہ کا خوف اسے نہیں ہوتا تو وہ جنگل کے بھیڑیئے کی طرح کمزور بکریوں کو پھاڑنا شروع کر دیتی ہے۔ دنیا میں جتنی بدامنی پائی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے ۔ جب تک انسان اپنے سے بالاتر کسی اقتدار کو تسلیم نہ کرے ،اور جب تک اسے یقین نہ ہو کہ مجھ سے اوپر کوئی ایسا ہے جس کو مجھے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور جس کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ مجھے سزا دے سکتا ہے، اس وقت تک یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ظلم کا دروازہ بند ہو اور صحیح امن قائم ہو سکے۔
اب مجھے بتایئے کہ ایسی طاقت سوائے خداوند عالم کے اور کون سی ہو سکتی ہے؟خود انسانوں میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جس انسان ،یا جس انسانی گروہ کو بھی آپ یہ حیثیت دیں گے ،اس کے شتر بے مہار ہو جانے کا امکان ہے۔ خوداس سے یہ اندیشہ ہے کہ تمام فرعونوں کا ایک فرعون وہ ہو جائے گا اور خود اس سے یہ خطرہ ہے کہ خود غرضی اور جانبداری سے کام لے کر وہ بعض انسانوں کو گرائے گا اور بعض کو اٹھائے گا۔ یورپ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مجلس اقوام بنائی تھی مگر بہت جلدی وہ سفید رنگ والی قوموں کی مجلس بن کر رہ گئی اور اس نے چند طاقت ور سلطنتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر کمزور قوموں کے ساتھ بے انصافی شروع کر دی۔ اس تجربے کے بعد کوئی ایسی طاقت برآمد ہونی ناممکن ہے جس کی باز پرس کا خوف فرداً فرداً ایک شخص سے لے کر دنیا کی قوموں اور سلطنتوں تک کو قابو میں رکھ سکتا ہو۔ ایسی طاقت لامحالہ انسانی دائرہ سے باہر اور اس سے اوپر ہی ہونی چاہیے اور وہ صرف خداوند عالم ہی کی طاقت ہو سکتی ہے۔ ہم اگر اپنی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ خدا پر ایمان لائیں ،اس کی حکومت کے آگے اپنے آپ کو فرماں بردار رعیت کی طرح سپرد کر دیں ،اور اس یقین کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کریں کہ وہ ہمارے چھپے اور کھلے سب کاموں کو جانتا ہے اور ایک دن ہمیں اس کی عدالت میں اپنی پوری زندگی کے ہے۔حساب دینا ہے ۔ ہمارے شریف اور پرامن انسان بننے کی بس یہی ایک صورت ہے۔
تحریر سید مودودی رحمہ اللہ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password