وہ لوگ جو ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ارتقا کسی خدائی منصوبہ کے بغیر خود سے ہوا ہوگا۔ یعنی ارتقاء کے انٹیلی جنٹ ڈائزائن کو بھی نہیں مانتے ان سے ایک سوال ہے۔
آیا انسانی ذہن اور شعور حیاتیاتی دماغ ہی ہے یا حیاتیاتی دماغ سے خارج میں کوئی چیز ہے؟ اگر حیاتیاتی دماغ سے باہر کسی چیز کو تسلیم کرلیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان میں کوئی غیر مادی چیز ضرور ہے جس کی بنیاد پر آپ کو کہیں نہ کہیں جاکر انسانوں کے خالق کو ماننا ہی پڑے گا۔
اگر کوئی یہ مانے کہ انسانی شعور اور ذہن حیاتیاتی دماغ ہی ہے تو پھر یہاں پر ایک الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح تو یہ ماننا پڑے گا کہ عقل، منطق، حسن، قبح، گنتی، حساب، استخراج، احساس، معانی، جذبے، صحیح، غلط، اخلاقیات سب کچھ غیر معروضی اور ضمنی ظاہرے(فنامنا) ہیں۔ اور یہ سب کچھ ارتقاء کے نتیجے میں ہی وجود میں آئے۔ ہم کو
اس کائنات میں جو نظم اور پیٹرن نظر آتا ہے دراصل وہ ہے نہیں بلکہ ہمارا دماغ کچھ اس طرح سے ارتقاء پذیر ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں وہ پیٹرن لگ رہا ہے۔ تمام سائنسی نظریات اور نتائج ہمارے حیاتیاتی دماغ کی اختراع ہے جو کہ کسی مجبوری کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔
ہمیں جو چیز صحیح لگ رہی ہے وہ اس لئے لگ رہی ہے کیوں کہ ہمارے دماغ نے نشؤنما ہی ایسی پائی کہ وہ ہمیں صحیح لگے۔ ہمیں دو اور دو چار اس لئے لگ رہے ہیں کیوں کہ ہمارے دماغ کا ارتقاء اس طرح سے ہوا ہے کہ ہمیں ایسا لگے۔ ہمیں جو چیزیں منطقی اور معقول لگ رہی ہیں اس کا عقل اور منطق سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عقل اور منطق
سرے سے کوئی چیز نہیں ہے۔ نیچرل سیلیکشن اور تنازع للبقا کی نتیجے میں ہمارے دماغ نے ایسا محسوس کرنا شروع کیا۔
اگر ہمارا دماغ کسی اور طریقے سے ارتقاء پذیر ہوا ہوتا تو ہم یہ سب کچھ محسوس نہ کرتے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس کا بالکل الٹا محسوس کر رہے ہوتے اور منطقی طور پر سوچنا ہی ناقابل قبول قرار دیا جاتا۔
ہوسکتا ہے کہ کائنات میں کہیں دور کوئی مخلوق کسی اور پیٹرن پر ارتقاء پذیر ہوئی ہو جس کی ذہانت، عقل، حسن، صحت سب کچھ یہاں سے مختلف ہو۔
اس صور ت میں اگر کوئی یہ کہے کہ سچ کہنا اچھا ہے، حیات وجودیت کے اعتبار سے موت سے اعلی ہے، بقا کی کوشش فطری ہے، باتوں میں تناقض نہیں ہونا چاہئے تو یہ سب باتیں اتفاقیات کے نتیجے میں آنے والی کوئی چیز ہے۔ ورنہ ان باتوں کی کوئی معروضی حقیقت نہیں ہونی چاہئے۔
اگر ایسا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس عقل سے جو کہ قطعی طور پر غیر معروضی ہے خدا کا اثبات یا انکار کرنے پر کیوں مصر ہیں؟ جو انسانی حیاتیاتی دماغ سے باہر کسی انٹیلی جنس کو نہیں مانتا وہ یہ کیوں اس حیاتیاتی عقل سے ایک غیر بایولوجیکل وجود کی تصدیق کرنے یا تردید کرنے کا کی استعداد کا دعوی کرسکتا ہے؟
اب اس سے بھی ایک اوربڑی الجھن ہے۔ ہم نے ارتقاء کو بھی اسی غیر معروضی عقل سے سمجھا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کو یہ ارتقاء اتنا منطقی لگتا ہے وہ سچ مچ ہے بھی یا ایسے ہی ہمارا دماغ محسوس کر رہا ہے۔ انسانی حیاتیات سے باہر کسی انٹیلی جنس سے انکار کرنے کی صورت میں سب کچھ بے معنی ہوجاتاہے۔ ہمارے مشاہدات، ہماری
سوچ ، ہمارے احساسات ، ہماری منطق ہر چیز کی عمارت ڈہ جاتی ہے۔
ارتقاء کو ماننے کی صورت میں ارتقاء کا غلط ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔
میں اپنے ذہن کو استعمال کر کے کہہ سکتا ہوں کہ عقیدہ ارتقاء میں ایک عقلی تناقض موجود ہے۔ اس لئے کسی بیرونی انٹیلی جنس کے بغیر ارتقاء کا عقیدہ سو فیصد غلط ہے۔
عبدالسلام خلیفہ