ایک خلش ہے جو بہت عرصے سے ہے۔ سوچا ذکر کروں۔ بلکہ خلش نہیں سخت غصہ ہے، سوچ رہا ہوں کہ آج کہہ ڈالوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں چپ ہی رہتا ہوں۔ لیکن پھر بھی دل کی بات لبوں پر نہ لاؤں تو کب تک یہ زیادتی سہتا رہوں۔ ؟ کب تک تمہاری غوں غاں کو احترام سے ہاتھ باندھ کر سنتا رہوں؟
تم جدیدیت کے قائل ہو۔ میں مانتا ہوں۔
تمہارے جذبات سمجھتا ہوں۔
تم منطق کی تسبیح پڑھتے پڑھتے تھکتے نہیں۔۔۔خوب ہے۔
ہر چیز کا ثبوت مانگتے ہوئے تمہارا منہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔۔۔۔اچھی بات ہے۔
تمہٰیں سائنس سائنس سائنس کی مالا جپنے کی عادت ہے۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔
تمہیں مذہب کی۔۔۔ مولویوں کی ہر بات بھونڈی لگتی ہے۔۔۔۔۔یہ بھی تسلیم۔
تم اپنے علاوہ سب کو جمود پرست، جاہل اور غیر معقول کہتے ہو۔۔۔۔یہ بھی مان لیا۔
لیکن تم نے اس کا حل کیا پیش کیا؟
تم نے عملی طور پر کونسا کام کیا؟
میں تمہاری مثال اس بچے سے زیادہ سمجھتا ہی نہیں کہ تمہارے نزدیک ہر بات کا ایک ہی جواب ہے۔ کیا جواب؟ یہی کہ اونٹ ایک خشکی کا جانور ہے!!!
سمجھ رہے ہو نا؟
ایک بات بتاؤں؟ تم نے سائنس کی وکالت کا جو ذمہ اٹھایا ہے یہ تمہارا کام ہے ہی نہیں۔ بلکہ تم نے تو “جمود پرستوں” (جو تمہارے نزدیک جمود پرست ہیں) کو سائنس اور “معقولات” سے متنفر کیا ہے۔
کیسے؟
اپنے رویوں سے۔
لہجے سے۔
تضحیک سے۔
تم پر سائنس کی وکالت جچتی نہیں ہے۔
بھاگو مت۔ ایک اور بات سن لو۔
جب تم سائنس کی باتیں کرتے ہو ناں تو لگتا ہے کہ کسی نے گھی کے کسی کینسٹر میں پتھر بھر کر ہلا دیے ہوں۔
تمہاری “سائنسی گفتگو” اس دودھ سے زیادہ نہیں جس میں گوبر ملا کر ملک شیک تیار کردیا گیا ہو۔
ارے کہاں جاتے ہو۔ ؟
تم نے اکیڈیمک لیول پر سائنس کی کبھی کوئی کتاب پڑھی بھی ہے؟
کبھی کسی معتبر سائنس دان کو بھی تم نے ایسی کوئی بات کرتے سنا ہے جو تمہارا شیوہ اور تمہاری پہچان ہے؟
میکا نیکس کی باتیں اور مباحث تم سے ہزار کروا لو، لیکن لوپیٹلز رول کی خبر تک تمہیں نہیں ہوتی۔
نظریۂ ارتقا پر چھتیس ہزار بحثیں تم کرتے ہو اور معلوم تمہیں یہ بھی نہیں ہوتا کہ نیچرل سیلیکشن کا میکانزم کیا ہے۔
سنو!
مجھے تمہاری نیت پر شک نہیں ہے۔
تم ٹھیک ہو۔ لیکن اپنے نظریات کا پرچار تمہیں کرنا آتا ہی نہیں ہے۔
تم نے سائنسی حلقے کی غلط تصویر سیدھے سادھے لوگوں میں جو پیش کی ہے اس سے زیادہ نقصان سائنس کو کسی صورت نہیں پہنچ سکتا۔
تم عام آدمی کی عزتِ نفس پر وار کرکے اسے معقولات سے متنفر ہی کر سکتے ہو۔
تم بڑ بولے ہو۔۔۔!!!
میری مانو تو یہ سائنس کی وکالت چھوڑ دو۔
سائنس کی خدمت اور تبلیغ تمہارے بس کی بات ہی نہیں۔
جانے دو میاں!!!
تم سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔!
تم سمجھے نہیں۔ مجھے صرف تم سے اختلاف نہیں ہے۔
اختلاف تو مجھے ان سب سے ہے جو کسی بھی قسم کی شدت پسندی، عدم اور برداشت و رواداری کا شکار ہیں۔
میرا مطالبہ یہی ہے کہ افہام و تفہیم والا معاملہ فرماؤ۔ جہاں تم غلط ہو وہاں میں تمہارے مقابلے پر کھڑا ہوں گا۔ اور جہاں صحیح ہو وہاں تمہارے ساتھ۔
بات دلیل سے ہوگی۔ بے دلیل بات نہیں۔
جس طرح سائنس سائنس سائنس کی رٹ لگانے سے تم سائنس دان نہیں بن پائے اسی طرح اسلام اسلام اسلام کی رٹ لگانے سے کوئی اسلام کے درست معانی کی ترسیل نہیں کر سکتا۔
جب تم سائنس کا نام لے کر غیر سائنسی رویے اور استدلال پیش کرو گے تو میں تم سے اختلاف کروں گا۔ میرا حق ہے۔ سائنس کے بارے میں لوگوں کی رائے کو درست کرنے کی “کوشش” کرنا۔
تمہاری رائے کو بھی۔ اور ان کی بھی جو اس سے متنفر ہیں۔ میں ان لوگوں سے بھی اختلاف کروں گا جو سائنس کے مخالفین ہیں۔ اور اسے کفر و شرک کے موجب سمجھتے ہیں۔ خامی دونوں میں ہے۔ اور حقیقت دونوں کے درمیان۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تم لوگ یا تو آسمانوں پر اُڑنے کی بات کرتے ہیں یا زمین بوس ہونے کی۔
عرض ہے کہ اگر تمہیں “فکری بد ہضمی” ہو گئی ہے تو عامی کی سطح پر آجاؤ۔ نہ تم ٹھیک سے مولوی بن پاتے ہو۔ نہ سائنس دان اور نہ فلسفی۔ تمہاری ساری شدت پسندی تمہارے یہاں سے وہاں غلطاں ہونے کے لیے محفوظ رہتی ہے۔ مجھے یہ بتا دو کہ بیچ میں کھجور کی کسی ٹہنی پر لٹکے ہوئے تم لوگ راہ گیروں کے چلنے کے انداز کا مذاق اڑا کر کونسے تیر مار رہے ہو؟ پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ تمہارے اپنے پاجامے میں کتنے چھید ہو چکے ہیں۔ جب تم بغیر مناسب علم کے کسی بھی شعبے کے حوالے سے کسی بھی رائے پر اصرار کرتے ہو تو اتنا ضرور یاد رکھا کرو کہ تمہاری بات کسی کم سن بچے کی غو غا کناں گفتار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
-مزمل شیخ بسملؔ