عقل،ذہن اور دماغ کیا تمام انسانوں کے برابر ہیں؟
ایک عقلمند ی کا سوال سو مختلف لوگوں سے پوچھ لیں،صحیح جواب دینے والے شاید پانچ بھی نہ ہوں۔
محض پانچ فیصد۔۔۔۔۔۔
اب دوصورتیں ہیں:
اکثریت کا فارمولا لگاتے ہوئے پچانوے فیصد کی ہر بات کو حق مان لیا جائے؟
لیکن اس طرح تو معاملہ بگڑ جائے گا،آزما کر دیکھ لیں۔
پھر دوسری صورت ہے کہ پانچ فیصد کی بات مان لی جائے۔
پانچ فیصد کی رائے اگر منقسم ہوجائے پھر کیا کیا جائے؟
یہ پیمانہ بھی کچھ مشکوک سا ہوگیا۔۔۔۔
کیا دنیا کا ہر معاملہ دماغ کے اندر آسکتا ہے،ذہنی عقل میں سما سکتا ہے؟
عمرانیات(Sociology)میں انسانی رویوں کو پرکھنے کے لئے تجربات کرنا ایک اہم حصہ ہے۔
ایک تجربہ ذہن میں آرہا ہے؛اگر ایک بچہ لیا جائے اور ابھی اس کی پیدائش ہوئی ہو۔اب اسے پندرہ سال دنیا سے الگ تھلگ رکھا جائے،کسی اور انسان سے نہ ملنے دیا جائے،نہ دنیا کا کوئی معاملہ اس کے سامنے لایا جائے۔اب پندرہ سال بعد اس کو صرف اس کی پیدائش کے عمل کے بارے میں بتایا جائے تو کیا وہ اس بات کو تسلیم کرلے گا؟
اس کی عقل کے پیمانے میں یہ طرز جگہ پالے گا؟
وہ جتنا بھی ذہین اور عقلمند ہو،اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوجائے گا۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ مان جائے گا،ان سے عرض ہے کہ تجربہ کرکے دیکھ لیں،واضح ہوجائے گا کہ کس کی بات غلط ہے اور کس کی صحیح؟
اس کا مطلب ہوا کہ محض عقلمند ہونا کافی نہیں،بلکہ جس بات کا علم یا ادراک عقل میں نہ آئے اور وہ مسلمہ حقیقت ہو تو یہ ضروری ہے کہ اس کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہوں جو اس بات سے جانکاری رکھتے ہوں یا خود انسان اس ماحول میں سے گزرا ہو۔
ایک خلاباز اپنے تجربات بیان کرے یا سمندری حیاتیات پر تحقیق کرنے والا غوطہ خور اپنے تجربات بیان کرے تو آپ کی عقل کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ان کی بات پر یقین کرلے۔
یعنی اس مثال میں تو ماحول میں جائے بغیر،محض بیان کرنے والے کی عقل،تجربہ اور ماضی کی دیانت پر اس کے بیان کردہ حقائق کو عقل نے تسلیم کرلیا۔
یعنی عقل کب معتبر ہوگی؟
ایک:جب انسان خود اس ماحول یا تجربہ سے گزرا ہو۔
دو:کسی ایسے مستند آدمی کی بات ہو جو ماحول یا تجربہ سے گزرا ہو۔
تین:خو د بھی اس تجربہ سے نہ گزرا ہو،کسی اور انسان نے بھی نہ بتایا لیکن ایک حقیقی طرز ایسے ہی دنیا میں چل رہا ہو تو اسے بھی عقل تسلیم کرلیتی ہے جیسے پیدائش کا عمل شروع سے انسانی عقل کے لئے تسلیم شدہ ہے،الٹرا ساؤنڈ کی آنکھ تو کچھ عرصہ پہلے ہی کُھلی ہے۔
ان تین پیمانوں کو ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں۔اب ایک مثال لیتے ہیں:”زمین اپنے محور پہ گھوم رہی ہے”۔
٭پیمانہ ایک:اپنی ذاتی عقل پر سوچا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے؟ہم زمین پر موجود ہیں لیکن زمین تو ساکت ہے؛یعنی یہ بات عقل میں نہیں سما سکتی۔
٭پیمانہ دو:سائنسدانوں نے مختلف تجربات،حسابات اور ایجادات سے ثا بت کیا کہ زمین واقعی اپنے محور پہ گھو م رہی ہے،اب ان پر اعتبار کرکے ہم کہتے ہیں کہ واقعی ایسا ہے۔
٭پیمانہ تین:جب پیمانہ دو بھی یہ ثابت نہیں کرسکا تھالیکن قرآن کریم میں یہ بتا دیا گیا کہ یہ سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں (سورۂ یٰس، آیت 33)اور وہ بھی پندرہ سو سال پہلے،اب یہ بات عقل سے باہر تھی،ٹیکنالوجی کا ادراک بھی اس وقت میسر نہیں تھا تو پھر یہ بات کیسے بالکل واضح طور پر اس کتاب میں موجود ہے؟
پس ثابت ہوا کہ عقل کا فیصلہ آخری نہیں ، علم کے ماخذ اور بھی ہیں ۔
آج کل پوری دنیا میں الحادیا Atheismکا زور ہے،کوئی معاشرہ یا کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں۔ان کا بنیادی فلسفہ ہر مذہب کی تردید ہے کیونکہ ان کی عقل میں وہ باتیں سما نہیں پاتیں۔اب ان سے سوال ہے کہ عقل کے بیان کردہ کس پیمانے کے مطابق یہ باتیں عقل میں نہیں سماتیں؟اگر آپ واقعی عقلمند ہیں تو ان تین پیمانوں کو سچ ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔یہ پیمانے کسی مذہب یا تحریک نے نہیں دیے،میرے اور آپ کے اردگرد ہمیشہ سے موجود ہیں۔
اگر آپ صرف پہلا پیمانہ استعمال کریں گے تو یہ ناقص العقلی ہو گی۔
جتنے بھی الحاد کا پرچار کرنے والے ذرائع ہیں،آپ غور کریں تو وہ محض پہلے پیمانے پر فیصلے سُنا رہے ہیں جو ان کی ناقص العقلی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔جولوگ خود عقل کا مکمل استعمال کرنے پر قادر نہ ہوں وہ کسی کو کیا روشنی دے سکیں گے؟روشنی کا سفر تب ہی طے ہوگا جب وہ عقل کے تینوں پیمانوں سے انصاف کے ساتھ گزرے گی۔عملی تجربہ شرط ہے اورنتائج کی سو فیصد گارنٹی ہے۔
تحریر:آفاق احمد بتغیر قلیل