شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا نام دنیاے علوم و افکار میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔ علم کے متعدد پہلوئوں پر ان کا فکری سرمایہ یادگار ہے۔ فتوحاتِ مکیہ میں انھوں نے ہزاروں مسائل پر کلام کیا ہے جن میں سے ایک تخلیق کائنات ہے۔ تخلیق کائنات کی غرض اور سبب جس انداز سے ابن عربی کے ہاں مذکور ہے اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ شیخ اکبر نے اس نکتے کی توضیح کے لیے حقیقتِ الٰہیہ کے بارے میں زیادہ گہرائی اور انفرادیت کے ساتھ کلام کیا ہے۔ فتوحات کے باب ۶۶میں جہاں یہ مبحث موجود ہے شیخ نے ایک ایسے اسلوب میں بات کی ہے جو اسلامی مآخذ میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس باب میں تخلیق کائنات کے عمل میں اسماے الٰہیہ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے۔ اور یوں اسماے الٰہیہ کی اس کہانی کے آہنگ میں قدرتِ مطلقہ کا رنگ نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ شیخ کی اس طرزِفکر کو مابعد کی تاریخ افکار میں تلاش کریں تو اور مفکرین کے علاوہ مولانا جامی ،غالب اور علامہ محمد اقبال کے نام سامنے آتے ہیں۔ ان کا منظوم استدلال بھی اپنے اندر فکرونظر کی متعدد تَہ در تَہ سطحیں رکھتا ہے۔
ابن عربی تاریخ فکر اسلامی ہی نہیں بلکہ تاریخ فکر انسانی کے بڑے لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کو بڑا مفکر کہنا محض لفظوں کا کھیل یا مجرد تصور نہیں ہے۔ ہر تہذیب شرفِ آدمیت اور انسانی بڑائی کا معیار فراہم کرتی ہے۔ اس عظمت کو ناپنے کا پیمانہ اسلام نے بھی دیا ہے۔ اسے ہم علم، علم پر عمل اور اخلاص فی العمل سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص بڑا ہے، عظیم ہے تو انھی کے حوالے سے اور انھی کی کسوٹی پر۔ بالفاظ دیگر کسی کی عظمت کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کتنا علم رکھتا تھا، اپنے علم کے مطابق کس حد تک باعمل تھا اور اگر باعمل بھی تھا تو کیا اس کا یہ عمل مخلصانہ تھا؟ہر تین معیاروں پر، ہر کسوٹی پر، ہر پیمانے کے مطابق ابن عربی بہت بڑے آدمی ثابت ہوتے ہیں۔
شیخ اکبر کے علوم و افکار کے بہت سے گوشے ہیں۔ ان میں سے کس پر نظر ڈالی جائے، کس جہت پر کچھ کہنے کی کوشش کی جائے؟ تصور الٰہ، تصور وجود، وحدت الوجود، تصورِ علم، تصورِ نبوت و ولایت، انسانِ کامل، تصورِ مذہب، فلسفے کے بارے میں موقف، تفسیر قرآن، تصورِ محبت و عشق الٰہی، تصورِ شیطان، قضا و قدر، تصورِ زمان، فقہ اور اجتہاد، حیات اخروی اور معادیات، شعری تجربہ اور عالم خیال، یہ صرف ایک مختصر سی موضوعاتی فہرست ہے جن میں سے ہر ایک موضوع ایک سے زائد نشستوں اور تحریروں کا تقاضا کرتا ہے۔ اس مشکل پر غور کرتے ہوئے مجھے کسی مفکر کا ایک قول یاد آیا:If you want to understand the poet go to the land of the poet.
land صرف جغرافیائی زمین اور جنم بھومی ہی نہیں ہوتی۔ مفکرین کے ضمن میں سرزمین فکر زیادہ اہم ہوتی ہے۔ سو فیصلہ یہ کیا کہ شیخ اکبر کے افکار پر تبصرہ کرنے اور لوگوں کی آرا سننے سنانے کے بجائے خود شیخ اکبر کی سرزمین فکر کا ایک مختصر سفر کیا جائے اور آپ کے ساتھ مل کر فکر کے اس ذائقے اور تعبیر حقائق کے اس اسلوب کو محسوس کرنے کی کوشش کی جائے جو شیخ اکبر سے خاص ہے۔ شاید یہ براہِ راست تجربہ بہت سے بالواسطہ بیانات سے زیادہ دلچسپ اور زیادہ مؤثر تعارف ثابت ہو! اس غرض سے میں نے فتوحاتِ مکیہ کا باب۶۶ منتخب کیا ہے۔ یہ باب مختصر ہے۔ ایک نشست میں اسے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک انفرادیت بھی ہے۔ منفرد اس اعتبار سے کہ اس باب میں شیخ اکبر نے کائنات کی تخلیق اور عملِ آفرینش کی لم اور سبب پر جس طرح گفتگو کی ہے اور انبیا و رسل بھیجنے کی ضرورت جس انداز سے بیان کی ہے وہ کم ہی کسی مصنف نے کی ہوگی۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وحی کی بنیاد اور اساس کیا ہے یعنی یہ کہ شیخ اکبر یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وجود کائنات میں وہ کیا چیز ہے جس کے سبب دنیا میں رسولوں کی بعثت اور پیغامِ خداوندی کا ظاہر ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ عام طور پر اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت یا ہدایت خداوندی کا تقاضا ہے۔ شیخ اکبر نے اس نکتے کی توضیح کے لیے خود حقیقت الٰہیہ کے بارے میں زیادہ گہرائی سے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی تحریروں میں جابجا شیخ اکبر نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ کائنات اور مظاہر کائنات بہ۔اعتبار حقیقت کس طرح ایک الوہی اساس رکھتے ہیں اور اپنی اصل میں ہر چیز اپنے خالق و کردگار سے کس طرح جڑی ہوئی ہے۔ اسمائے الٰہیہ کا اس کائنات سے کیا تعلق ہے! اس نکتہ کی شرح کرتے ہوئے ان کا اندازِ بیان بہت سے مقامات پر علمِ کلام کے ماہرین کی طرح عقلی یا استدلالی ہوگیا ہے، ’’منطق سے سلجھا ہوا۔‘‘ باب ۶۶ کا طرزِ کلام یہ نہیں ہے۔ یہاں ان کا اسلوب ایک اور رنگ لیے ہوئے ہے، تمثیل و تخیل کا رنگ، بلکہ کسی حد تک قصہ کہانی کا رنگ، جس میں انھوں نے اس نکتے کے ابلاغ کی کوشش کی ہے کہ اسمائے الٰہیہ کے آثار effects دنیا میں کس طرح ہویدا ہوتے ہیں اور ان کی تاثیر کائنات میں کیونکر کارفرما ہوتی ہے۔ اس غرض سے انھوں نے اسمائے الٰہیہ کو گو یا مجسم کردیا ہے یا یوں کہیے کہ ان کو شخصیات بنا دیا ہے۔ اس طریق کار کی مثال اسلامی مآخذ میں بہت کم ملے گی۔ یہ کام بے دھیانی میں نہیں ہوا۔ انھیں خوب پتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ابتدا ہی میں اپنے قاری کو متنبہ کردیا ہے کہ اس سلسلے میں ’’کثرت یا اجتماعِ وجودی‘‘ کا وہم نہ کرنا۔ یہی نہیں فتوحات میں دوسرے مقامات پر بھی اپنا موقف وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ مثلاً جلد چہارم میں لکھتے ہیں۔( ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، جلد چہارم، دار صادر، بیروت، ص۲۹۴)
و ھل لھا أعیان وجودیۃ أم لا ففیہ خلاف بین أھل النظر و أما عندنا فما فیہا خلاف انھا نسب و اسما علی حقایق معقولہ غیر وجودیۃ فالذات غیر متکثرۃ بہا لان الشیٔ لا یتکثر الا بالاعیان الوجودیۃ لا بالاحکام و الاضافات والنسب۔
اسمائے الٰہیہ اعیانِ وجودی بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس مسئلے پر فکر استدلالی والے متکلمین کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس مسئلے پر کوئی نزاع نہیں۔ ہمارے لیے یہ نسبتیں اور نام ہیں جو حقائق معقولہ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کی وجودی حیثیت نہیں ہے۔ ذاتِ الٰہی ان کی وجہ سے کثرت کا شکار نہیں ہوجاتی کیونکہ کسی شے میں کثرت صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اعیانِ وجودیہ (یعنی وجود خارجی رکھنے والی اشیا/ ہستیاں) پائی جائیں۔ احکام، نِسب۔َ۔ اور اضافات Properties, Altributions, relationships کے پائے جانے سے کوئی چیز کثیر نہیں ہوجاتی۔
باب ۶۶کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اعیانِ ثابتہ اللہ کے علم میں ہیں یعنی معلوماتِ الٰہیہ ہیں۔ اعیانِ موجودہ بننے کے لیے یعنی وجودِ خارجی حاصل کرنے کے لیے وہ اس چیز کے محتاج ہیں کہ ارادۂ الٰہیہ ان سے متعلق ہوجائے اور قدرتِ خداوندی حرکت میں آئے۔ عملِ آفرینش اور تخلیقِ کائنات اللہ کی قدرت Power پرمنحصر ہے۔ اس کی قدرت اس کے ارادے سے کارفرما ہوتی ہے اور ارادہ علم پر مبنی ہوتا ہے؛ وہ علم جو ممکناتِ عالم Possible things کا علم ہے۔ علمِ خداوندی وجودِ الٰہیہ پر استوار ہوتا ہے۔ وجودِ خداوندی کو شیخ اکبر کئی جگہ حیاتِ الٰہیہ divine life کا عین قرار دیتے ہیں یعنی وجود و حیات کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔( علامہ اقبال نے بھی انگریزی میں یہی اصطلاح استعمال کی ہے جسے اس کے صحیح تناظر میں نہ سمجھنے کی وجہ سے اقبالیات پر لکھنے والوں اور اقبال کے مترجمین سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ دیکھیے تشکیل جدید (انگریزی)، صفحات ۴۷-۴۸، ۵۷-۵۸۔)اس طرح چار بنیادی اسما ہیں جنھیں اسم ذات، ’’اللہ‘‘، اپنی آغوشِ وجود میں لیے ہوئے ہے یعنی الحی، العلیم، المرید، القادر/ القدیر۔ سادہ اردو میں یوں کہیے کہ جیتا، جانتا، صاحبِ ارادہ و قدرت۔ یہ ترتیب یا درجہ بندی کوئی حادثاتی یا اٹکل سے کی ہوئی چیز نہیں ہے۔ اس کی بنیاد خود وجود کے خصائل ذاتی پر رکھی ہوئی ہے۔
اس باب کے تمثیلی اندازِ بیان سے ایک اور بات کی جانب ضمناً ذہن منتقل ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے اس خلیج کو کم کرنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ بن سکتا ہے جو سامی ادیان کی توحید اور بظاہر تعددِ الٰہ پر مبنی دینی ہئیتوں کے مابین پائی جاتی ہے۔ ہم یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ جو بعض ادیان میں بہت سے خدا پائے جاتے ہیں یہ واقعی الگ جداگانہ ہستیاں ہیں یا ان امور کی تجسیم یا تخیلاتی تمثیل جن کو مسلم اصطلاح میں اسمائے الٰہیہ کہا جاتا ہے؟ شیخ اکبر غالباً مؤخر الذکر موقف کے حق میں رائے دیں گے۔ کیونکہ کثرت یا اجتماعِ وجودی ان کے نزدیک خارج از امکان ہے۔ ان کا موقف یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص ان خدائوں کو جداگانہ خارجی وجود قرار دیتا ہے تو یہ صرف ایک انفرادی رائے یا کم فہمی کا اظہار ہے یا پھر کسی پرانے نبی کے لائے ہوئے پیغام کی تحریف شدہ شکل۔
اس باب میں پہلے تو یہ بیان ہوا کہ کس طرح سب اسمائے الٰہیہ اکٹھے ہوئے اور یہ طے کیا کہ کائنات وجود میں لائی جائے۔ یہاں شیخ یہ تصور کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان اسما کو مکمل آزادی سے اپنے اپنے اثرات مرتب کرنے اور اپنی تاثیر کے آثار ظاہر کرنے کی اجازت دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ انتشار کے قریب ہونے لگا کیونکہ وہ اشیا جو اسم الرافع کے آثار و اثرات کی مظہر ہیں ان امور سے مختلف ہیں جو اسم المذل The Abaser کے مظہر ہیں۔ الغفور Forgiver کے آثار ظاہر کرنے والوں کا اختلاف ان سے ہوا جو المنتقم The Avenger کے مظہر ہیں۔ وہ جو المانع Withholder کے نمایندے ہیں ان کا نزاع الوہاب Bestower کے کارندوں سے شروع ہوا۔ مخلوقات نے اسما سے رجوع کیا اور التجا کی کہ تنظیم اور قوانین کی بنا رکھی جائے۔ اسماے الٰہیہ اپنا مسئلہ ذاتِ الٰہیہ کی طرف لوٹاتے ہیں۔ ذاتِ الٰہی نے اسم الرب کو مامور کیا کہ وہ ان اسماے کی باہم جدا صفات و خصائص میں ترتیب و تنظیم قائم کرے۔
ایک دوسری جگہ شیخ نے وضاحت کی ہے کہ اسم الرب جس بنیادی اور اوّلین صفت الٰہیہ پر دلالت کرتا ہے وہ ہے ’’اصلاح‘‘ یعنی to make whole / wholesome / sound, to put in order, to remedy, establish peace, conciliate۔بنابریں کائنات اسم الرب کی محتاج ٹھہری کہ اس کے وسیلے سے اپنی مصلحت تک پہنچے۔ ’اصلاح‘ کے فعل سے مشتق اس لفظ مصلحت کا مطلب ہوگا means to wholesomeness۔ ان کے الفاظ میں ’’دنیا کو اسم الرب کی احتیاج اور ہر نام سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ تمام مصالح کا جامع ہے‘‘name for every means to wholesomeness ۔( الفتوحات المکیۃ، محولہ ماقبل، جلد، II، ۲:۴۴۲)
کائنات کی ترتیب و تنظیم کے لیے اسم الرب کے انتخاب پر گفتگو کے بعد شیخ انسانی صورتحال کی طرف توجہ کرتے ہیں اور وحی کی وجودی ضرورت کی توضیح پیش کرتے ہیں جو انسانوں کی اصلاح wholesomeness کی موجب ہوتی ہے اور انھیں موقع دیتی ہے کہ اپنے لیے سب سے بہتر راستے کا چنائو کرسکیں۔ اصلاح کا تصور اس ساری تحریر میں باربار سطح پر ابھرتا ہے اور ہمیں یاددلاتا ہے کہ اس تحریر کا بنیادی نکتہ یہ بتانا ہے کہ اسم الرب سے اللہ تعالیٰ عالمِ مخلوقات میں توازن کس طرح برقرار رکھتا ہے خواہ یہ توازن عالمِ خلق میں مجموعی طور پر ہو یا اس کائنات میں موجود عالمِ انسانی کے اندر واقع ہو۔
شیخ کا کہنا ہے کہ اہلِ دانش، فلسفی اور اہلِ خرد، اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اس نکتہ تک تو پہنچ جاتے ہیں کہ اس کائنات کا آغاز اپنی اصل میں اللہ تعالیٰ سے متعلق ہے۔ اس جگہ ان کا بیان کسی حد تک ابن طفیل کے حیی ابن یقظان (جیتا جاگتا) سے قریب محسوس ہوتا ہے۔( دیکھیے حیی ابن یقظان کا اُردو ترجمہ، جیتا جاگتا، مترجم ڈاکٹر سید محمد یوسف، مطبوعہ ایجوکیشنل پریس، کراچی)؎ ابن طفیل ان کے معاصر تھے۔ بعض دیگر فلاسفہ کی طرح ابن طفیل بھی اسی بات کے قائل تھے کہ عقلی استدلال کے ذریعے فلسفی بھی اس درجۂ علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو انبیا کو وحی کے وسیلے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس نکتے پر شیخ اکبر ان سے سرے سے متفق نہیں ہیں اور اپنی تصانیف میں باربار واشگاف الفاظ میں ان کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے زیرنظر باب میں ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر فلسفی سچا مفکر ہے تو وہ انبیا کی فوقیت اور فضیلت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا اور ان کی رہنمائی قبول کرے گا کیونکہ اس کا اپنا فکری عمل اسے بتاتا ہے کہ علم استدلالی جو فلسفے کی انتہا ہے اس کے ذریعے آپ صرف تنزیہ خداوندی تک پہنچتے ہیں۔ اس کی تشبیہ کا علم اور یہ علم کہ نجاتِ اخروی اور قربِ خداوندی کے لیے تشبیہ کا کیا وظیفہ و مقام ہے انسانی عقلِ جزوی کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ تاہم اگر انسان عقلِ سلیم رکھتا ہو تو وہ فطری طور پر انبیا کے پیغام کی حقانیت اور صداقت کو شناخت کرکے قبول کرلیتی ہے۔ اس باب کے آخر میں شیخ اکبر نے اپنے زمانے کے فلاسفہ اور علم کلام کے ماہرین پر تنقید بھی کی ہے دلچسپ چیز یہ ہے کہ آخر میں شیخ نے ابن رشد کو اپنی تنقید سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ شیخ اکبر اور ابن رشد کی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس وقت ابن رشد کی عمر ۵۵ کے لگ بھگ تھی اور ابن عربی ۱۵ برس کے تھے۔ ہمارے زیرنظر باب کی عبارت شاہد ہے کہ شیخ اکبر کی رائے ابن رشد کے بارے میں مثبت تھی۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن سینا کو چھوڑ کر مغربی دنیا میں جو مسلم مفکر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا ہے وہ ابن رشد ہے۔ شیخ اکبر کے بیان سے ابن رشد کی جو تصویر ذہن میں اُبھرتی ہے وہ ابن رشد کے اس تصور سے مختلف ہے جو مغربی مآخذ میں پایا جاتا ہے۔ مغرب میں ابن رشد کا خاکہ ایک متشکک کا ہے جو مبنی بر وحی ادیان پر خردہ گیری اور تنقید کرتا ہو اور ان کی صحت و صداقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہو۔ شیخ اکبر کی تحریر میں ابن رشد معقولات اور علم استدلالی کے ایک ایسے عظیم ماہر کے طور پر سامنے آتے ہیں جس کی تحریر اور فلسفہ وحی کے دفاع اور حمایت میں پیش پیش ہو۔ تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابن رشد کی فلسفیانہ تحریریں خود ان کی جنم بھومی یعنی مسلم تہذیب میں بڑی حد تک بے اعتنائی کا شکار رہی ہیں اور ابن عربی کے زمانے میں بھی اور بعد میں بھی ابن رشد کی شہرت فلسفہ کی بہ نسبت فقیہِ وقت اور ماہر علمِ اصول کی زیادہ رہی ہے۔دوسری طرف شیخ اکبر کی تعلیمات مختلف شکلوں میں اسلامی دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ گئیں۔
اس تمہید کے بعد آئیے فتوحات مکیہ کے باب ۶۶ کی سیر کریں۔
(الباب السادس و الستون فی معرفۃ سر الشریعۃ ظاہرا و باطنا وأی اسم الھی أوجدھا)
قال اللہ عز وجل قل لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولا و قال تعالیٰ و ما کنا معذبین حتی نبعث رسولا فاعلم ان الاسماء الالھیۃ لسان حال تعطیہا الحقائق فاجعل بالک لما تسمع ولا تتوھم الکثرۃ ولا الاجتماع الوجودیّ و انما أورد فی ھذا الباب ترتیب حقائق معقولۃ کثیرۃ من جھۃ النسب لا من جھۃ وجود عینیّ فانّ ذات الحق واحدۃ من حیث ما ھی ذات ثم انہ لما علمنا من وجودنا و افتقارنا و امکاننا انہ لا بد لنا من مرجح نستند الیہ و ان ذلک المستند لا بد أن یطلب وجودنا منہ نسبا مختلفۃ کنی الشارع عنہا بالاسماء الحسنٰی فسمی بھا من کونہ متکلما فی مرتبۃ وجوبیۃ وجودہ الالھی الذی لا یصح أن یشارک فیہ فانہ الہ واحد لا الہ غیرہ فأقول بعد ھذا التقریر فی ابتداء ھذا الامر التأثیر والترجیح فی العالم الممکن ان الاسماء اجتمعت بحضرۃ المسمی و نظرت فی حقائقھا و معانیھا فطلبت ظھور أحکامھا حتی تتمیز أعیانھا بآثارھا فان الخالق الذی ھو المقتدر و العالم و المدبر و المفصل و الباری والمصوّر والرزاق و المحیی والممیت والوارث والشکور وجمیع الاسماء الالھیۃ نظروا فی ذواتھم ولم یروا مخلوقا و لا مدبرا ولا مفصلا ولامصوّرا ولا مرزوقا فقالوا کیف العمل حتی تظھر ھذہ الاعیان التی تظھر أحکامنا فیہا فیظھر سلطاننا فلجأت الاسماء الالھیۃ التی تطلبہا بعض حقائق العالم بعد ظہور عینہ الی الاسم الباری فقالوا لہ عسی نوجد ھذہ الاعیان لتظھر أحکامنا و یثبت سلطاننا اذ الحضرۃ التی نحن فیھا لا تقبل تأثیرنا فقال الباری ذلک راجع الی الاسم القادر فانی تحت حیطتہ و کان أصل ھذا ان الممکنات فی حال عدمھا سألت الاسماء الالھیۃ سؤال حال ذلۃ و افتقار وقالت لھا ان العدم قد أعمانا عن ادراک بعضنا بعضا و عن معرفۃ ما یجب لکم من الحق علینا فلو أنکم أظھرتم أعیاننا و کسوتمونا حلۃ الوجود أنعمتم علینا بذلک و قمنا بما ینبغی لکم من الاجلال و التعظم و أنتم أیضا کانت السلطنۃ تصح لکم فی ظہورنا بالفعل والیوم أنتم علینا سلاطین بالقوّۃ والصلاحیۃ فھذا الذی نطلبہ منکم ھو فی حقکم أکثر منہ فی حقنا فقالت الاسماء انّ ھذا الذی ذکرتہ الممکنات صحیح فتحرّکوا فی طلب ذلک فلما لجؤا الی الاسم القادر قال القادر أنا تحت حیطۃ المرید فلا أوجد عینا منکم الا باختصاصہ و لا یمکننی الممکن من نفسہ الا أن یأتیہ أمر الآمر من ربہ فاذا أمرہ بالتکوین و قال لہ کن مکننی من نفسہ و تعلقت بایجادہ فکونتہ من حینہ فالجؤا الی الاسم المرید عسی انہ یرجح و یخصص جانب الوجود علی جانب العدم فحینئذ نجتمع أنا و الآمر و المتکلم و نوجدکم فلجؤا الی الاسم المرید فقالوا لہ ان الاسم القادر سألناہ فی ایجاد أعیاننا فأوقف أمر ذلک علیک فما ترسم فقال المرید صدق القادر ولکن ما عندی خبر ما حکم الاسم العالم فیکم ھل سبق علمہ بایجادکم فنخصص أو لم یسبق فانا تحت حیطۃ الاسم العالم فسیروا الیہ و اذکروا لہ قضیتکم فساروا الی الاسم العالم و ذکروا ما قالہ الاسم المرید فقال العالم صدق المرید و قد سبق علمی بایجادکم و لکن الادب أولی فان لنا حضرۃ مھیمنۃ علینا و ھی الاسم اللّٰہ فلا بدّ من حضورنا عندہ فانھا حضرۃ الجمع فاجتمعت الاسماء کلھا فی حضرۃ اللّٰہ فقال ما بالکم فذکروا لہ الخبر فقال أنا اسم جامع لحقائقکم و انی دلیل علی مسمی و ھو ذات مقدّسۃ لہ نعوت الکمال و التنزیہ فقفوا حتی أدخل علی مدلولی فدخل علی مدلولہ فقال لہ ما قالتہ الممکنات و ما تحاورت فیہ الاسماء فقال اخرج و قل لکل واحد من الاسماء یتعلق بما تقتضیہ حقیقتہ فی الممکنات فانی الواحد لنفسی من حیث نفسی و الممکنات انما تطلب مرتبتی و تطلبہا مرتبتی والاسماء الھیۃ کلھا للمرتبۃ لالی الا الواحد خاصۃ فھو اسم خصیص بی لایشارکنی فی حقیقتہ من کل وجہ أحد لا من الاسماء ولا من المراتب ولا من الممکنات فخرج الاسم اللّٰہ و معہ الاسم المتکلم یترجم عنہ الممکنات الاسماء فذکر لھم ما ذکرہ المسمی فتعلق العالم و المرید و القائل و القادر فظہر الممکن الاول من الممکنات بتخصیص المرید و حکم العالم۔( ابن عربی، الفتوحات المکیۃ، جلد اول، دار صادر، بیروت، ص۳۲۲ -۳۲۳)
باب ۶۶
سرِ۔ّ۔ شریعت کی ظاہری و باطنی معرفت کے بیان میں اور اس چیز کے بیان میں کہ اسمائے الٰہیہ میں سے کون سا اسم شریعت کو وجود میں لاتا ہے
فرمانِ خداوندی ہے: ’’قل لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکًا رسولا‘‘ (۹۵:۱۷)’’کَہ اگر ہوتے بیچ زمین کے فرشتے چلا کرتے آرام سے البتہ اتارتے ہم اوپر ان کے آسمان سے فرشتے کو پیغام پہنچانے والا۔‘‘(۹۵:۱۷) ’’وما کنا معذّبین حتی نبعث رسولا‘‘ (۱۵:۱۷)’’اور نہیں ہم عذاب کرنے والے یہاں تک کہ بھیجیں پیغمبر۔‘‘ (۱۵:۱۷)
اسمائے الٰہیہ کو زبانِ حال جانیے جو انھیں حقائق کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔ پس غور سے سنیے جو کہا جارہا ہے اور زنہار کثرت اور اجتماعِ وجودی کا وہم نہ کیجیے۔ اس باب میں ہم جس مبحث پر گفتگو کررہے ہیں وہ حقائق معقولہ کی درجہ بندی یا مراتب سے متعلق ہے۔ یہ حقائق اپنی نسبتوں کے لحاظ سے تو بے شک متعدد اور کثیر ہیں مگر وجودِ عینی کے اعتبار سے متعدد نہیں ہیں۔ کیونکہ ذاتِ حق بحیثیت ذاتِ حق واحد ہے۔
ہمیں اپنے وجود کا علم ہے، اپنے محتاج اور مستعار وجود ہونے کا علم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا وجود، وجودِ ممکن ہے۔ لازم ٹھہرتا ہے کہ ہمارے لیے کوئی (مرجِّح)ترجیح دہندہ (preponderator) بھی ہو جس پر ہمارا وجود تکیہ کرسکے (مستند support)۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ہمارے وجود کا تقاضا ہے کہ اپنی اس مسندِوجود (ٹیک؍ سہارا) سے اس کی مختلف نسبتیں قائم ہوں۔ شارع نے انھی کی طرف ’’اسماء الحسنیٰ‘‘ کے الفاظ سے اشارہ کیا ہے۔ وجودِ الٰہی نے مرتبہ وجوبیت سے کلام کرتے ہوئے بطور المتکلم اپنے آپ کو ان اسما سے موسوم کیا ہے۔ اس مرتبۂ وجود میں اس کا کوئی شریک نہیں کیونکہ وہ الٰہ واحد ہے اور لا الٰہ غیرہ۔
اس معاملے کی ابتدا، آثار و اثرات کے پیدا ہونے اور عالمِ امکان میں ترجیح دینے کے بارے میں تمہیداً یہ کہنے کے بعد اب میں یہ کہتا ہوں کہ:
تمام اسما مل کربہ حضور موسوم (یعنی مسمّٰی کے سامنے) جمع ہوئے، اپنے حقائق و معانی پر نظر کی اور اپنے احکام (خواص properties) کے ظہور کا تقاضا کیا تاکہ ان کے اعیان (اشیاے خارجی) ان کے آثار یا اثرات کے ذریعے ایک دوسرے سے متمیّز ہوسکیں۔ سو الخالق، جو مقدر (تقدیر ساز ordainer) بھی ہے، نیز اسم العالِم (knower)، المدبِّر (Governor)، المفصل(Diffentiator)، الباری(Originator)، المصوِّر (Formgiver)، الرازق(Provider)، المحي(Life Giver)، الممیت(Slayer)، الوارث (Inheriter)، الشکور(Grateful)، اور دیگر تمام اسما نے اپنے آپ پر نظر کی، اپنی ذات تو دیکھی مگر انھیں نہ کوئی مخلوق نظر آئی نہ کوئی مدبَّر (Governed) نہ مفصَّل (differentiated)، نہ کوئی مصوَّر (صورت پذیر) نہ مرزوق (رزق پانے والا)۔ یہ دیکھا تو اسما گویا ہوئے ’’کیا کیا جائے کہ وہ اشیا جن میں ہمارے خواص (احکام) کا ظہور ہونا ہے وہ ظاہر ہوسکیں۔ وہ ظاہر ہوں گی تو ہماری سلطانی (authority) ظہو رپذیر ہوگی۔‘‘ اسمائے الٰہیہ نے اپنی التجا اسم الباری The Originator کے سامنے پیش کی۔ انھوں نے کہا ’’شاید آپ ہی ان اعیان (خارجی وجود کی حامل اشیا) کو وجود دے سکیں۔ اس طرح ہمارے احکام و خواص کا ظہور ہو اور ہماری سلطانی کا اثبات ہوسکے کیونکہ جس حضرۃ presence (یعنی جس عالم) میں ہم اب ہیں وہ تو ہماری تاثیر قبول کرنے سے عاری ہے۔ اسم الباری نے کہا ’’یہ معاملہ تو اسم القادر سے متعلق ہے کہ میں خود بھی اسی کے زیرِ اختیار ہوں۔‘‘
اس سارے معاملے کی جڑ یہ ہے کہ ممکنات نے اپنی حالتِ عدم میں اسماے الٰہیہ سے سوال کیا۔ اپنی حالتِ ذلت و فقدان کے ہاتھوں زبانِ حال سے یہ سوال کیا ’’ہمیں عدم نے اندھا کر رکھا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھنے سے قاصر ہیں اور ہمیں پتا نہیں کہ الحق کی منشا کیا ہے کہ اسما کا ہم سے کیا معاملہ ہوگا؟‘‘ اگر آپ ہمارے اعیان کو ظاہر کردیں اور ان کو زیورِ وجود سے آراستہ کردیں تو ہمیں ایک نعمت نصیب ہوگی اور ہم اجلال و تعظیم پر پورے اُتریں گے۔ مزید برآں آپ کی سلطنت صحیح معنوں میں ہم پر تبھی قائم ہوگی جب ہم بالفعل ظہور میں آئیں گے۔ آپ کو آج جو سلطانی حاصل ہے وہ صرف بالقوہ اور بالصلاحیت ہے۔ ہم جو شے آپ سے طلب کررہے ہیں وہ کہیں زیادہ درجے میں آپ کو ہم سے بھی مطلوب ہے۔
اسما نے کہا ممکنات ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ یہ کَہ کر وہ اس امر کی طلب میں سرگرم ہوئے۔
سو جب اسماے الٰہیہ نے اس سلسلے میں اسم القادر سے درخواست کی تو اسم القادر نے کہا ’’میں تو خود اسم المرید (ارادہ کرنے والا) کے زیر اختیار ہوں جب تک وہ یہ اختصاص پیدا نہ کرے میں کسی ایک شے کو بھی وجودِ خارجی نہیں دے سکتا۔ کوئی ممکن شے از خود مجھے یہ استعداد نہیں دے دیتی کہ میں اسے وجود میں لے آئوں اِلّا یہ کہ حکم دینے والے کا حکم اس کے رب کی طرف سے آن پہنچے۔ ہاں جب وہ اس کی تکوین کا حکم دے دیتا ہے اور اسے کہتا ہے ’’کُن‘‘ تو مجھے بھی اس کی طرف سے یہ قوت اور استعداد مل جاتی ہے کہ میں اسے وجود میں لے آئوں سو میں اسے وجود پذیر کرنے میں لگ جاتا ہوں اور اسی لمحے اسے منصہ تکوین میں لے آتا ہوں۔ سو تم سب اسم المرید کے پاس اپنی درخواست لے جائو۔ شاید وہ ان ممکنا ت کے لیے وجود کو عدم پر ترجیح دے سکے۔ اُس آن میں اور الآمر Commander ، المتکلم مل کر تم کو وجود عطا کردیں گے۔‘‘
سو انھوں نے اپنی التجا اسم المرید کے سامنے پیش کی اور اس سے کہا، ’’ہم نے اسم القادر سے اپنے اعیان کو وجود بخشنے کا سوال کیا مگر اس نے معاملہ آپ کی مرضی پر موقوف رکھا۔ آپ کا کیا فیصلہ ہے؟‘‘ المرید نے جواب دیا ’’القادر نے صحیح کہا ہے مگر مجھے یہ خبر نہیں کہ اسم العالِم نے تمھارے بارے میں کیا حکم کیا ہے۔ نہ جانے اسے تمھارے وجود میں آنے کا پیشگی علم ہے یا نہیں۔ اگر علم ہے تو پھر ہم وجود کو تم سے خاص کردیں گے۔ میں خود بھی اسم العالِم کے زیرنگیں ہوں۔ سو اس کے پاس جائو اور اپنا قضیہ اس کے سامنے رکھو۔‘‘ سب اسما اسم العالِم کے پاس پہنچے اور اسے اسم المرید کی بات سے آگاہ کیا۔ اسم العالِم نے کہا ’’المرید نے سچ کہا۔ مجھے اس بات کا پہلے سے علم ہے کہ تمھیں وجود پذیر ہونا ہے تاہم ادب اولیٰ ہے۔ اس لیے ہم سب پر ایک حضرۃ مھیمنۃ Presence Watching over ہے اور وہ ہے اسم اللّہ۔ ہمیں اس کے حضور حاضر ہونا ہے کہ وہی حضرۃ الجمع ہے Presence of All Comprehensiveness۔
سب اسما حضورِ الٰہی میں جمع ہوئے۔ ارشاد ہوا ’’کیا معاملہ ہے‘‘؟ اسما نے ساری کتھا بیان کی۔ کہا گیا ’’میں تم سب کے حقائق کا اسمِ جامع ہوں اور میں خود موسوم (مسمّٰی) پر دلالت کرتا ہوں یعنی وہی ذاتِ مقدس ہے جو شانِ کمال اور تنزیہ کی حامل ہے۔ سو یہیں ٹھہرو کہ میں اپنے مدلول object of denotation کے پاس جائوں۔ یہ کہا اور اپنے مدلول کے حضور میں پیش ہوا اور وہ سب بیان کیا جو ممکنات نے کہا تھا اور جو اسماے الٰہیہ کے درمیان گفتگو رہی تھی۔ ارشاد ہوا ’’جائو اور ہر اسم سے کَہ دو کہ وہ اپنی اپنی حقیقت کے تقاضے کے مطابق اشیاے ممکنہ سے متعلق ہوجائے۔‘‘
سو اسم اللّہ اور اس کے ساتھ اسم المتکلم نے باہر آکر ممکنات اور اسمائے الٰہیہ سے وہ سب کچھ بیان کیا جو موسوم نے کہا تھا۔ اسم العالِم، المرید، المتکلم اور القادر کا علاقہ اپنے آثار سے استوار ہوا اور اس طرح ممکنات میں سے پہلی چیز خارج میں ظاہر ہوئی کہ اسے المرید نے وجود سے خاص کیا اور العالِم نے وجود میں لانے کا حکم کیا۔
شیخ اکبر کے تصورِ تخلیق و آفرینش کا عکس مابعد کی مسلم روایت فکر اور حکیمانہ شاعری میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ درج ذیل میں صرف تین مفکرین کو حوالہ بناتے ہیں ورنہ مثالوں کے لیے تو کئی دفتر لکھنا ہوں گے۔
فتوحاتِ مکیہ کے اس باب کی روشنی میں مولانا عبدالرحمن جامی، میرزا اسداللہ خاں غالب اور علامہ محمد اقبال کی شاعری سے مندرجہ ذیل اقتباسات پر غور فرمائیے اور دیکھیے کہ ان کی معنویت کی ایک اور سطح اور مفہوم کا صحیح تناظر کیونکر میسر آسکتا ہے!
٭جامی فرماتے ہیں:
حبّذا روزے کہ پیش از روز و شب
فارغ از اندوہ و آزاد از طلب
متحد بودیم باشاہِ وجود
حکمِ غیریتِ بکلّی محو بُود
ناگہاں در جنبش آمد بحرِ جود
جملہ را از خود، بخود، بیروں نمود
واجب و ممکن ز ہم ممتاز شد
رسم و آئین دوئی آغاز شد
(تصورات و معانی کے فکری سفر کی ایک اور جہت کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہوگا یہ کہ اشعار اکثر شارحینِ مثنوی مولانا روم نے ابتدائی اشعارِ مثنوی کی شرح و وضاحت کے لیے استعمال کیے ہیں۔ نمونے کے طور پر دیکھیے: عبدالعلی بحرالعلوم، مثنوی معنوی مولوی مع شرح، منشی نولکشور، لکھنؤ، ۱۸۷۷ئ)
٭غالب کے چند اشعار دیکھیے:
ہے رنگِ لالہ و گلِ نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
دیکھ کر تجھ کو چمن بس کہ نمو کرتا ہے!
خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس
چاک مت کر جیب بے ایامِ گل
کچھ اُدھر کا بھی اشارہ چاہیے
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
٭کلام اقبال سے چند نمایندہ اشعار:
مجو مطلق دریں دیرِ مکافات
کہ مطلق نیست جز نورالسمٰوات
حقیقت لا زوال و لا مکان است
مگو دیگر کہ عالم بیکران است
کرانِ او درون است و بروں نیست
درونش پست بالا کم فزوں نیست
درونش خالی از بالا و زیر است
ولے بیرونِ او وسعت پذیر است
ابد را عقلِ ما ناسازگار است
’یکی‘ از گیرو دارِ او ہزار است
( علامہ محمد اقبال، ’’زبور عجم‘‘، کلیات اقبال، فارسی، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۴ئ، ص۴۳۷،۴۳۸)
خودی تعویذ حفظِ کائنات است
نخستیں پرتوِ ذاتش حیات است
حیات از خوابِ خوش بیدار گردد
درونش چوں یکی بسیار گردد
نہ او را بے نمودِ ما کشودے
نہ ما را بے کشودِ او نمودے
ضمیرش بحرِ ناپیدا کنارے
دلِ ہر قطرہ موج بیقرارے
(ایضاً، ص۴۴۳)
بضمیرت آرمیدم تو بجوش خود نمائی
بکنارہ برفگندی در آبدار خود را
(ایضاً، ص۳۷۸۔)
چیست بودن دانی ای مرد نجیب
از جمال ذات حق بُردن نصیب
آفریدن جستجوی دلبری
وا نمودن خویش را بر دیگری
این ہمہ ہنگامہ ہای ہست و بود
بی جمال ما نیاید در وجود
(ایضاً، ’’جاوید نامہ‘‘، کلیات اقبال، فارسی، ص۶۶۰۔)
زندگی ای زندہ دل دانی کہ چیست
عشق یک بین در تماشای دوئی است
(ایضاً، ص۵۴۱)
من کہ این شب را چو مہ آراستم
گرد پای ملت بیضا ستم
ملتی در باغ و راغ آوازہ اش
آتش دلہا سرود تازہ اش
درہ کشت و آفتاب انبار کرد
خرمن از صد رومی و عطار کرد
آہ گرمم رخت بر گردون کشم
گرچہ دو دم از تبار آتشم
خامہ ام از ہمت فکر بلند
راز این نہ پردہ در صحرا افکند
(ایضاً، ’’اسرار ورموز‘‘، کلیات اقبال، فارسی، ص۳۲)
وا نمودن خویش را خوی خودی است
خفتہ در ہر ذرّہ نیروی خودی است
(ایضاً، ص۳۴)
چون حیات عالم از زور خودی است
پس بقدر استواری زندگی است
(ایضاً)
جہان از خود برون آوردہ کیست
جمالش جلوہ بی پردہ کیست
(ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیات اقبال، فارسی، ص۷۷۲)
نِگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
(ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال، اردو، ص۳۵۹)
تُو اے اسیرِ مکان! لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ ترے خاک داں سے دور نہیں
(ایضاً، ص۳۸۰)
یہ ہے خلاصۂ علمِ قلندری کہ حیات
خدنگِ جَستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں
(ایضاً، ص۳۸۰)
سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دِکھاتی ہے ذات زِیروبم ممکنات
(ایضاًص۴۱۹)
تُو شاخ سے کیوں پھوٹا‘ میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبۂ پیدائی، اک لذتِ یکتائی!
(ایضاً، ص۴۴۹)
حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی
نہ تیرہ خاکِ لحد ہے، نہ جلوہ گاہِ صفات
(ایضاً، ’’ارمغان حجاز‘‘، کلیات اقبال، اردو، ص۷۲۵)
خودی کیا ہے، رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے، بیداریِ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے ایک بُوند پانی میں بند
اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک
من و تُو میں پیدا، من و تُو سے پاک
(ایضاً، ’’بال جبریل‘‘، کلیات اقبال، اردو، ص۴۵۵)
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود
کہ شعلے میں ہے پوشیدہ موجِ دُود
گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گل
خوش آئی اسے محنتِ آب و گل
یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی
عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی
یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر
مگر ہر کہیں بے چگوں، بے۔نظیر
یہ عالَم، یہ بت خانۂ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
پسند اس کو تکرار کی خُو نہیں
کہ تُو مَیں نہیں، اور مَیں تُو نہیں
(ایضاً، ص۴۵۳)
من و تُو سے ہے انجمن آفریں
مگر عینِ محفل میں خلوت نشیں
چمک اس کی بجلی میں، تارے میں ہے
یہ چاندی میں، سونے میں، پارے میں ہے
اسی کے بیاباں، اسی کے بَبوُل
اسی کے ہیں کانٹے، اسی کے ہیں پھول
کہیں اس کی طاقت سے کہسار چُور
کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حُور
کہیں جُرّہ شاہینِ سیماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہیں آشیانے سے دور
پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
(ایضاً، ص۴۵۴)