پی ایچ ڈی معاشیات کی ایک کلاس میں بطور شاگرد بیٹھے تھے کہ لیکچر کے دوران بات مذہب کی طرف جا نکلی اور محترم استاد نے فرمایا کہ ”اسلام لوجک نہیں، مذہب میں ماننا ہوتا ہے، ممکن ہے عقلی لوجک سے کچھ بھی نتیجہ نکال لیا جائے“۔ کچھ شاگرد اختلاف کرنے لگے کہ ”نہیں سر! مذہب لوجک پر مبنی ہے“۔ کچھ دیر تک دونوں اپنی اپنی بات کے جواز پر بحث کرتے رہے، میں خاموش رہا کہ استاد کے سامنے کلاس میں استاد سے بحث کرنا یا اس کی اصلاح کی غرض سے اپنی چونچ اڑانا کوئی اچھی بات نہیں۔
درج بالا دونوں دعوے لوگ نہایت خلوص کے ساتھ کرتے ہیں، دونوں کی نیت میں کسی قسم کا فتور نہیں ہوتا بلکہ اپنے اپنے فہم کے مطابق اسلام کی حقیقت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ یہ دونوں حضرات ایک پہلو سے غلط اور ایک پہلو سے درست دعوی کر رہے ہوتے ہیں، اگرچہ ان دونوں کو اس کا ادراک نہیں ہوتا۔ ان دو میں سے ہر ایک دعوی کرنے والے حضرات لفظ ”لوجک“ کا معنی متعین نہیں کرتے، بس اسے بولتے چلے جاتے ہیں اور یہی ان کے اختلاف کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ اگرچہ لفظ ”لوجک“ فلسفے میں ایک خاص معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر اس قسم کی بحث میں یہ ”عقل“ کے مترادف کے طور پر بولا و سمجھا جا رہا ہوتا ہے۔ اس بحث میں لفظ لوجک کے معنی کا تعین اہمیت کی حامل ہے جس سے معلوم ہوگا کہ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر مذہب و نظریہ ایک معنی میں pre-logical اور ایک اعتبار سے لوجیکل ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی واضح ہوگا کہ کسی بھی مذھب یا نظریے پر illogical ہونے کا حکم لگانے کی کیا بنیاد و حیثیت ہوتی ہے۔
٭عقل کے معنی کی تنقیح
عقل کے کئی معنی ہیں۔
1۔عقل کا ایک مفہوم یہ ہے کہ عقل سوچنے سمجھنے کے چند قواعد و اصول ترتیب دینے کی ایک صلاحیت کا نام ہے۔ اس معنی میں اسےاصطلاحا منطق کہا جاتا ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے عقل صرف قضایا کے مابین ربط کی صحت و عدم صحت نیز ان کی داخلی ہم آہنگی معلوم کرنے کا نام ہے۔ عقل بمعنی منطق محض ساخت کا نام ہے، نہ کہ مضامین علم (content of knowledge) کا۔ دوسرے لفظوں ”عقل بطور منطق“ کا موضوع بذات خود مضامین علم نہیں بلکہ ”کسی بھی قسم کے مضامین“ کو ایک ساخت مہیا کرنا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہ منطق کا موضوع مضامین علم (content) نہیں بلکہ اس کی ساخت (structure or form) ہے۔ اسی لیے اسے structural or formal reasoning بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ”عقل بمعنی منطق“ مسئلہ اقدار سے بحث نہیں کرتی.
2۔ عقل کا ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ عقل ”کسی بھی“ مقصد کو حاصل کرنے کی ایک صلاحیت کا نام ہے، یعنی عقل حصول مقاصد (وہ جو بھی ہوں) کا ایک آلہ ہے۔ عقل بطور آلہ اس سوال سے بحث کرتی ہے کہ ”مختلف ذرائع کو استعمال میں لا کر کسی معلوم مقصد کو حاصل کرنے کا راست طریقہ کیا ہے؟“۔ مثلا آپ عقل کے سامنے اگر یہ سوال رکھیں کہ ”آرام دہ طریقے سے لوگوں کو نماز ادا کروانے کا طریقہ کیا ہے؟“ تو عقل آپ کو اس کے بہت سے طرق میں سے نسبتا آرام دہ کی نشان دہی کرے گی۔ اسی طرح اگر آپ عقل کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ ”جوا کھیلنے کے وہ کونسے اصول و ضوابط ہیں جن کی رو سے زیادہ سے زیادہ لوگ سہولت کے ساتھ جوا کھیل سکیں“، تو عقل ایسے انتظام کی نشاندہی کرے گی۔ عقل کی اس حیثیت کو آلاتی عقل (instrumental reasoning) کہا جاتا ہے، یعنی آپ عقل کو حصول مقاصد کے لیے بطور آلہ استعمال کریں۔ اسے procedural reasoning بھی کہہ سکتے ہیں۔ دنیا کے ہر کام کے لیے کوئی نہ کوئی عقلی دلیل کا پہلو بہرحال ہوتا ہے۔ عقل میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی قدر (ترجیح) کے لیے کوئی پروسیجرل جواز فراہم کردے۔ ان معنی میں دنیا کا ہر کام و نظریہ عقلی ہی ہوتا ہے۔
3۔عقل کا تیسرا مفہوم اس سوال سے بحث کرتا ہے کہ ”مجھے کیا کرنا چاہیے؟“ یعنی میں عقل سے یہ سوال پوچھوں کہ مجھے سچ بولنا چاہیے یا جھوٹ، مجھے انسانی جان بچانی چاہیے یا تلف؟ نماز ادا کرنا اہم ہے یا جوا کھیلنا؟ بدکاری کرنا درست فعل ہے یا پاکباز رہنا؟ عقل کے سامنے یہ سوالات رکھنا عقل سے قدر سے متعلق سوال پوچھنا ہے، یعنی اب عقل سے ”کسی بھی مقصد“ کے حصول کا طریقہ نہیں پوچھا جارہا بلکہ ”عین مقاصد اور ان کی ترتیب“ کے تعین کا سوال پوچھا جارہا ہے۔ جب عقل کو اس سوال کے جواب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اسے substantive reasoning کہا جاتا ہے، یعنی اب عقل سے ساخت و طریقہ کار نہیں بلکہ وہ substance یعنی جوہر، مضمون یا مواد نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جسے عقل ساخت فراہم کرنے اور اس کے حصول کا طریقہ وضع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے دنیا میں عقلمندی کے اتنے ہی پیمانے ممکن ہیں جس قدر اس دنیا میں انسانوں کے پاس مختلف اقدار اختیار کرنے کی صلاحیت ممکن ہے۔
عقل کے ان مختلف اطلاقات کو اگر ذہن نشین کرلیا جائے تو مسئلہ خیر و شر میں خلط مبحث میں جائے بنا عقل کے کردار کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس پر ان شاء اللہ اگلی تحاریر میں کچھ گفتگو کی جائے گی۔جاننا چاہیے کہ عقل کے اندر یہ صلاحیت تو ہے کہ وہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ کار بتائے مگر یہ صلاحیت نہیں کہ مقاصد اور ان کی ترتیب بھی از خود متعین کرلے۔ مذہب کا تعلق مقاصد (خیر و شر) اور ان کی ترتیب کو متعین کرنے سے ہے، اس دائرے میں عقل اپنے سے بیرون کسی ذریعے ہی سے راہنمائی لیتی ہے، چاہے وہ ذریعہ وحی ہو، ماضی سے چلی آنے والی روایات ہوں اور یا خود نفس کی خواہشات۔ ہاں وہ الگ بات ہے کہ عقل کو بعض مقاصد کو جواز فراہم کرنے نیز چند مقاصد کو چند دیگر مقاصد سے مربوط کرنے کے لئے استعمال کیا جائے (اس عمل کو کسی علم کی ”داخلی ہم آہنگی“ کہتے ہیں)۔اس تنقیح سے معلوم ہوا کہ لفظ لوجک کے تیسرے معنی کے اعتبار سے مذہب لوجک پر مبنی نہیں، ہاں اول الذکر دو معنی کے اعتبار سے اس کی اپنی داخلی لوجک موجود ہے۔
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل