کسی بھی تہذیب کا تصور علم اس کے اہداف و مقاصد کے اظہار کا بلند ترین زریعہ ہوتا ہے. مغرب میں تحریک تنویر کا آغاز پاپائیت کے ردعمل میں ہوا اور اس کی عمارت وحی اور اس کی اساس پر ترتیب و تشکیل پانے والی عملیات اور تاریخ کے رد سے تعبیر ہوئی. یعنی مغرب کے تصور علم میں کسی بھی مابعدالطبیعیات ذریعہ علم کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے “انسانی ذہن” کو علم کا منبع و مرکز قرار دیا.
جدیدیت کے بطن سے سائنسی طریقہ کار نے جنم لیا جسے اولاََ صرف مادے کی اقسام اور فطری قوانین کی تفہیم کے لیے استعمال کیا جاتا رہا. لیکن رفتہ رفتہ اس سائنسی طریقہ کار کا دائرہ انسانی علوم کی تمام اقسام تک پھیلتا چلا گیا اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے نظریات نے انسانی زندگی سے جڑے ہر پہلو کا فکری و عملی طور پر احاطہ کر لیا. عصری علوم کے ہر شعبہ میں جب سائنسی طریقہ کار کو اپنایا گیا تو اس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے نتائج سامنے آئے. سائنس کا بنیادی مقدمہ ہے کہ کائنات کا نظام قوانین کے تابع ہے اور یہ قوانین قابل تفہیم ہیں. اس کے ساتھ یہ بات بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ کائنات اور خود انسان، ارتقاء کی بدولت اس مقام پر پہنچے ہیں اور یہ ارتقاء جن اتفاقات و قوانین کے تابع وقوع پذیر ہوا ہے وہ سب اتفاقات و قوانین “اندھے” ہیں اور کائنات کی اس قدر با معنی ترتیب کے پیچھے کوئی “ذہین ہستی” موجود نہیں.
سائنسی طریقہ کار دو بنیادی اصولوں پر مشتمل ہے. مشاہدہ اور تجربہ. مشاہدہ بلاواسطہ بھی ہو سکتا ہے جیسے کہ ہم چاند اور سورج کی گردش کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بالواسطہ بھی جیسے ہم الیکٹران کو دیکھ نہیں سکتے لیکن اس کے اثرات سے اس کی موجودگی کا یقین کرتے ہیں. سائنسی طریقہ کار کو اپنانے کی بدولت مغرب میں مادی ترقی کا ایک ایسا عظیم انقلاب برپا ہوا جس نے ہر فکر و شعبہ سے تعلق رکھنے والے فرد کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا. اسی ترقی کو دیکھتے ہوئے دیگر شعبہ جات کے ماہرین نے بھی اپنی تحقیقات کو سائنسی طریقہ کار کی نہج پر کرنے کی ضرورت محسوس کی. ان دو اصولوں، یعنی مشاہدہ کی بنیاد پر مفروضہ قائم کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے اس مفروضہ کو درست ثابت کرنے کی کوشش، کہ جب ہم ہر شعبہ علم پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مختلف پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں. خاص طور پر تاریخ کے معاملہ میں ایسا اکثر ہوتا ہے.
تاریخ ماضی میں پیش آئے واقعات کا نام ہے. ان واقعات تک ہماری رسائی کے دو ذرائع ہیں، ایک ذریعہ وہ آثار ہیں جو کھدائی کے دوران برآمد ہوتے ہیں اور دوسرا خبر. خبر کی اقسام بھی دو ہیں اول تحریری شکل میں جو ہمیں میسر ہو اور دوم زبانی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات. کسی بھی واقعہ کی حقیقت عینی شاہدین سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی نہیں جانتا لیکن اگر صرف ایک شخص کسی واقع کا عینی شاہد ہو تو اس پر اعتبار کرنا مشکل ہوتا ہے جب تک کہ اس کے کردار، سیرت اور اس کے ذاتی رجحانات سے ہمیں واقفیت نہ ہو. عینی شاہدین کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی اس قدر واقعات کی صحت قابل اعتماد ہو گی. تاریخ کے معاملہ میں ہمارا المیہ ہے کہ ہم جتنے پیچھے چلتے جائیں اس قدر ہمارے پاس ماخذین اور عینی شاہدین کے بیانات کی کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے. اگر ہمیں کہیں کسی دور کے متعلق کسی شخص کے ذاتی خیالات و پیش آمدہ واقعات کا ریکارڈ مل بھی جائے تو ہمیں نہ صرف اس شخص کی سیرت و کردار اور اس کے ذاتی رجحانات و تعصبات کے متعلق علم نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے مخالف تصویر کا دوسرا رخ بھی دستیاب نہیں ہوتا. اسلامی تاریخ خصوصاً دور نبوی اس ضمن میں شاید واحد مثال ہے جس کی تاریخ میں نہ صرف عینی شاہدین کی ایک بڑی تعداد میسر بلکہ اُن کی سیرت و کردار کے متعلق بھی مکمل معلومات دستیاب ہیں. اس کے ساتھ ساتھ آج کے دور تک اُن تمام عینی شاہدین سے منتقل ہونے والے علم کا مکمل ریکارڈ موجود ہے.
ڈارون کی طرف سے پیش کیا جانے والا نظریہ ارتقاء اس قدر خوشنما ہے کہ مغرب میں ہر شعبہ کے مفکرین نے اسے اپنانے کی کوشش کی ہے. مذاہب کی تاریخ کو بیان کرنے کے لیے جب اسی نظریہ کی بنیاد پر سوچا گیا تو ماضی کے مقابلہ میں ایک نیا نقطہ نظر سامنے آیا. اس نظریہ کی ایک شکل تو یہ ہے کہ مذہب انسانی ذہن کی پیداوار ہے اور یعنی خدا کا تصور محض انسانی تخیل کا نتیجہ ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں. دوسری شکل میں یہ تصور کر لیا گیا کہ ابتدائی طور پر انسان نے بہت سے خداؤں کا تصور پیدا کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک خدا کے تصور میں بدل گیا. انسانوں میں خدا کے تصور کی بنیاد خوف کی نفسیات تھی، جن فطری قوتوں اور مظاہر کو وہ سمجھ نہیں پاتا تھا انھیں اس نے خدا تصور کر لیا اور جوں جوں انسانی شعور ترقی کرتا گیا ان خداؤں کی تعداد کم ہوتی گئی اور یوں ایک خدا کے تصور نے جنم لیا. بالآخر جدید سائنس کی ترقی کی بدولت انسانوں نے اس ایک خدا کے تصور کو بھی رد کر دیا.
ان نتائج پر یقین کرنے سے پہلے ہمیں محققین کی ذہن سازی کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ مذاہب کی تاریخ بیان کرتے وقت عینی شاہدین کی عدم دستیابی، بنیادی ماخذین کے فقدان کی بنیاد پر محض تصویروں، چند مبہم سطور اور کھنڈرات کو سامنے رکھ کر قیاس سے کام لیا گیا ہے. بہت سے باتوں کو فرض کیا گیا ہے. قیاس و فرض کرنے کے لیے پہلے سے موجود کسی نظریے یا فکری سانچہ کی ضرورت ہوتی ہے. ارتقاء پر یقین رکھنے والے محققین کا فکری و نظریاتی سانچہ، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا، کسی بھی مابعدالطبیعاتی ذریعہ علم کی نفی پر مشتمل ہے . ایسے میں مذاہب کی تحقیق کے معاملہ میں کھدائی سے برآمد ہونی والی تصاویر، مخطوطات اور کھنڈرات سے کوئی جامع تصور سامنے لانے کے عمل میں ان کے سامنے سوائے انسانی شعور سے پیدا ہونے والے خیالات و نظریات کے علاوہ کسی چیز کا” سائنسی ثبوت ” موجود نہیں ہوتا.
جب تحقیق سے پہلے یہ مان لیا گیا کہ عالم شہود ہی حقیقت ہے اور عالم غیب کے وجود کو رد کر دیا تو انسانی تاریخ میں جو بھی علم انسان کے پاس آیا اسے انسانی شعور کی پیداوار قرار دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا.
(ان) محققین کی طرف سے اس موقف کا اپنایا جانا کہ مذہب انسانی ذہن کی پیداوار ہے کسی سائنسی تحقیق کا نتیجہ نہیں، حقیقت میں یہ ان کے اس اعتقاد کا منطقی نتیجہ ہے کہ عالم شہود ہی حقیقی ہے اس کے ماوراء کچھ نہیں. سائنسی شعور انسانی سوچ سے ماوراء کسی ہستی یا منبہ علم کو تسلیم نہیں کر سکتا. اب اس کے سامنے واحد راستہ یہ رہ جاتا ہے کہ وہ ان تمام آثار کو جو کھدائی اور تحقیق کے نتیجے میں ان کے سامنے آئے ہیں انھیں انسانی ذہن کی پیداوار قرار دیں .سائنس کے پاس ایسا کوئی طریقہ یا آلہ موجود نہیں جس کی بدولت وہ یہ معلوم کر سکے کہ آج سے سو سال پہلے کسی انسان نے جو عمل کیا تھا وہ اس کی اپنی سوچ کا مظہر تھا یا اسے کسی نے ایسا کرنے کو کہا یا اس کی کسی دوسرے کی نقل کرتے ہوئے ایسا کیا. جب ہم کسی عمل کو دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتے کہ اس عمل کی بنیاد کیا ہے تو انسانی تاریخ کے ہر موڑ پر موجود خدا کے تصور کے متعلق یہ کہنا کہ وہ انسانی ذہن کی پیداوار تھا محض ایک قیاس سے زیادہ کچھ نہیں. اس مخصوص فکری سانچے کو دنیا کی ہر تہذیب میں ایک مرکزی خدا کا تصور پائے جانے والے اتفاق سے حیرت نہیں ہوتی، نہ ہر مذہب میں جنت، جہنم، فرشتوں اور سزا و جزا کے تصور جیسے اتفاقات کو دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی کہ اس دور میں جبکہ ذرائع ابلاغ نہ ہونے کے برابر تھے، سفر کرنا مشکل تھا تب مختلف براعظموں میں بسنے والے انسان کیسے ایک ہی نہج پر سوچتے رہے، ایک جیسے خیالات رکھتے تھے اور ان کے تخیل کی پرواز بھی ایک جیسی رہی. اور سب نے خدا کا ملتا جلتا تصور پیدا کیا. ان تمام “اتفاقات” سے دو مختلف فکری سانچے رکھنے والے اذہان مختلف نتائج نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. وہ شخص جو وحی کو حقیقت سمجھتا ہو اس کے لیے یہ تمام اتفاقات اس بات کا ثبوت ہوں گے کہ دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے انسانوں کو وقتاً فوقتاً کسی مشترکہ “مرکز علم” سے رہنمائی ملتی رہی. جبکہ انھی تمام اتفاقات کو وحی کا انکار کرنے والا ذہن کائنات میں پائے جانے والے بے پناہ اتفاقات کی ایک طرح ایک اتفاق کے طور پر تسلیم کر لے گا.
مذہب کے متعلق جدیدیت کے بطن سے جنم لینے والے دوسرے تصور پر خود مغربی محققین بھی متفق نہیں ہیں. آج کے دور کی مشہور محقق کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب A History of God کا آغاز ان الفاظ میں کرتی ہیں.
In the beginning, human beings created a God who was the First Cause of all things and Ruler of heaven and earth. He was not represented by images and had no temple or priests in his service.
ابتداء میں انسانوں نے ایک ایسے خدا کو ( اپنے اذہان میں) تخلیق کیا جو اس نظام کا خالق تھا اور زمین و آسمان کا مالک. اس کی کوئی شبیہ نہیں تھی، کوئی عبادت گاہ یا خدمت گار متعین نہ تھے. انسان کی معلوم تاریخ میں کوئی ایسا موڑ نہیں جہاں اس نے اجتماعی طور خدا کے تصور کو چھوڑ دیا ہو. انسان اور خدا کا تصور لازم و ملزوم رہے ہیں. انسان کے اندر نے اس کائنات سے باہر کسی ہستی کی پیاس کو ہمیشہ محسوس کیا ہے.
آج کا سائنسی دور جہاں مادی حقیقتوں کو ہی اصل مان لیا گیا ہے، حضرت انسان کو اس کائنات سے ماوراء حقیقت سے بے پرواہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا. اس کے برعکس یہ کائنات خود کسی خدا کی موجودگی کے معاملہ میں ایک شہادت کے طور پر سامنے آ رہی ہے جہاں قدم قدم پر پھیلے اتفاقات کسی ذہین ہستی کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں. تصور خدا انسان کے خمیر میں شامل ہے یہ انسان کے خاتمہ تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا.
تحریر سہراب نصیر