اگر زندگی کا مقصد عبادت ہے تو عبادت کے طریقے عقل سے معلوم ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی معرفت پرموقوف ہے۔انسان اس کائنات کے حسین مناظراوراس میں جاری وساری نظم ونسق کے دلائل دیکھتاہے تواس نظام سے اسے چلانے والے تک پہنچتاہے۔اس کائنات کو غورسے دیکھنے والے پریہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ اس میں کوئی بھی چیزبے فائدہ اوربغیرترتیب کے نہیں پیداکی گئی ہے، جس کے نتیجے میں وہ بھی اس نظام کے تحت زندگی گزارنے کو ضروری خیال کرتاہے۔
انسان سے لے کر زمین وآسمان اورستاروں کے محیرالعقول اور دلفریب حسن وجمال کودیکھ کریہ ممکن نہیں کہ انسان اس کے پیچھے کائنات اورحسن وجمال کے خالق کونہ دیکھ سکے۔ جب بھی انسان خوبصورت ترین شاہکاروں اور فن کے شاہپاروں سے بڑھ کرحسین صفاتِ الہیہ کوخوبصورت پتنگوں کی مانندچمکتے ہوئے دیکھتا ہے تواس کادل خوشی ومسرت سے اس بچے کی طرح سرشارہو جاتا ہے، جو خوشی سے اچھلناکودنااور شور مچانا چاہتاہے۔ انسان بھلائی اورحسن وجمال کاسرچشمہ بننے والی ان صفات پر حیرت و استعجاب کااظہارکیے بغیر نہیں رہ سکتا اورکائنات کے مالک کاتصورکرکے اس کی عظمت و جلال سے ہوش وحواس کھونے لگتاہے۔ایک اورپہلوسے دیکھیں تو یوں لگتاہے جیسے کائنات کی ہر چیزپہلے کہیں اورتیارکی گئی ہے اورپھرحضرتِ انسان کے استعمال کے لیے پیش کی گئی ہے۔بہت سی نعمتیں انسان کومحفوظ پیکنگ اور مختلف قسم کے پھلوں کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ساری زمین ہرقسم کے کھانوں سے چنے ہوئے دسترخوان کاسماں پیش کررہی ہو۔جب انسان ان نعمتوں کی طرف اپناہاتھ بڑھاتاہے توان نعمتوں کے حقیقی مالک کے وجود کو محسوس کرتاہے اوراس احساس سے اسے خاص قسم کی لذت محسوس اور خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ اگر بچے کواپنی ماں کی چھاتی سے دودھ پیتے ہوئے شعورہوتاتووہ یہ سمجھتاکہ اس قدرمفیدغذا اس کے فائدے کے لیے کسی دوسرے عالم سے آرہی ہے اورواقعات کے ان تمام مظاہرکے پیچھے کوئی احسان کرنے اوررزق دینے والی کریم ذات موجودہے اوریہ سوچ کرتعظیم سے اس کی گردن جھک جاتی۔
ہرانعام واحسان جہاں اس انعام واحسان کے مالک کاپتادیتاہے، وہیں اس کی عزت کرنے اور احترام بجالانے کابھی تقاضاکرتاہے۔ مثلاًاگرچہ رسول اللہﷺکے بعض معاصرین نے بتوں سے بھرے ہوئے کعبہ کے پاس پرورش پائی اور انہیں کسی نے بھی توحید کے حقائق کی تعلیم نہیں دی، لیکن اس کے باوجودان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوگئی تھی لیکن عبادت کا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ زیدبن عمرو حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے چچاتھے۔ اللہ تعالیٰ کے طرف متوجہ ہو کر کہاکرتے تھے:‘‘اے عظیم خالق! میں آپ کاکماحقہ ادراک نہ کرسکا۔اگرمیں آپ کاادراک کرسکتاتو میں آپ کی کماحقہ عبادت کرتااورآپ کی عظمت کے اعتراف کے طورپرقیامت تک سربسجود رہتا۔’’
صرف آسمانی وحی ہی بندگی کاصحیح طریقہ بتاسکتی ہے اوراس کے نتیجے میں اسے خدائی احکام کے دائرے میں رکھتے ہوئے انحراف سے بچاتی ہے، عبادت کا حاصل اللہ پرایمان لانااوراس کی ذات کی معرفت حاصل کرنااور پھر محبت اورتعظیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کی روشنی میں اس معرفت کے تقاضوں پرعمل کرناہے۔ ہم ناسمجھی کا مظاہرہ نا کریں اور نہ ہی کوئی نامناسب کام کریں،بلکہ واضح آیات کی روشنی میں نبی اکرمﷺکے نورانی ارشادات کی پیروی کرتے ہوئے ہمہ وقت رضائے الٰہی کی جستجومیں رہیں۔
سورہ فاتحہ میں اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم، کے کلمات میں بھی یہی سکھایا گیا (کہ تم اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرو کہ) ہمیں سیدھے راستے پر چلا دے جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تیرا (اس صراط مستقیم والا خاص) انعام ہوا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ یہ چیز عقل نہیں سکھا سکتی دیگر صلاحیتوں اور قوتوں کی طرح عقل کا دائرۂ کار بھی محدود ہے۔ غور کیجئے کہ اگر آنکھیں بصارت کا کام دیتی ہیں تو عقل بصیرت (اپنے نفع ونقصان میں امتیاز) کا کام دیتی ہے۔ صحیح بصارت کے لئے جہاں آنکھوں کا بذاتِ خود صحت مند ہونا ضروری ہے وہیں باہر کی روشنی بھی ہونی چاہئے۔ تاریکی میں آنکھیں بصارت کا کام نہیں دیں گی۔ اسی طرح صحیح بصیرت کے لئے جہاں عقل ودماغ کا صحیح ہونا ضروری ہے تو وہیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیا علیہم السلام پر نازل ہونے والی وحی کے نور کی بھی ضرورت ہے۔ عقل اگرچہ بہت بڑی نعمت ہے لیکن وحی کی راہ نمائی کے بغیر یہ تمام مسائل حل نہیں کرسکتی۔
بے شک مادی سائنسی علوم میں عقل کا بہترین کردار ہے۔ مسلسل تجربہ ومشاہدہ اور متعلقہ علوم وفنون کا تاریخی سرمایہ عقل کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اس کائنات کے اسرار کو سمجھے اور قوانینِ فطرت کو اپنی سہولت اور فائدے کے لئے استعمال میں لائے لیکن جن وانس کی زندگی کے پانچ شعبے عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق ایسے شعبے ہیں جہاں عقلیں متفقہ فیصلہ دینے سے قاصر ہیں۔ کوئی توحید کا داعی ہے تو کوئی شرک پر کاربند ہے۔ کوئی خدا کا قائل ہے تو کوئی دہریت کا دم بھرتاہے، کوئی (مثلاً) خنزیر کو سخت نجس اور اس کے گوشت کو حرام قرار دیتا ہے تو کوئی بڑے شوق اور رغبت سے اسے کھاتا ہے، کوئی گائے کو مقدس خیال کرتا ہے تو کوئی اسے اپنی خوراک بنالیتا ہے اور اس کا گوشت مزے سے کھاتا ہے۔ کوئی مکروفریب اور جھوٹ کو سخت مذموم قراردیتا ہے تو کوئی نام نہاد نظریہ قومیت اور کبھی نام نہاد نظریہ ضرورت کے تحت قومی مقاصد اور مفادات کی آڑ میں اسے بالکل جائز گردانتا ہے۔ پھر سب لوگوں کی عقلیں بھی ایک ہی مرتبے کی نہیں ہوتیں۔ نیز عقل سے بسا اوقات جذباتی فیصلے بھی صادر ہوتے ہیں لہٰذا عقل کوایک وحی کے سہارے کی بھی شدید ضرورت ہے جو سب کے لیے ایک سٹینڈر مہیا کرتی ہے۔ اسی لئے سورہ فاتحہ میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ تم صرف اپنی عقل سے منزل کو نہیں پاسکتے۔ اس کے لئے تمہیں اللہ کے ان بندوں کی راہ اپنانی ہوگی جن کو اللہ تعالیٰ نے سیدھے راستے پر چلنے کے خاص انعام سے نوازا ہے۔
عقل بہت بڑی نعمت ہونے کے باوجود سارے مسائل کا حل نہیں اور اس سے کام لینے میں خطا اور غلطی کا صرف امکان ہی نہیں بل کہ یقین بھی ہے ورنہ دنیا میں مختلف مذاہب اور مسالک نہ ہوتے، اس لئے ہم تو صرف اسی کی اتباع کریں گے جو ہر طرح کی غلطی سے محفوظ ومامون ہو یعنی معصوم عن الخطا ہو۔ اسی لئے عیسائیوں کے رومن کیتھولک چرچ میں پاپاؤں کو نا حق معصوم عن الخطا قرار دیا گیا، حال آں کہ یہ معصوم تو کیاہوتے ان میں سے اکثر اس لائق بھی نہ تھے کہ انہیں ایک عام شریف انسان ہی سمجھا جاسکے۔ ان ہی کے سیاہ کارناموں، مخالفین پر بیجا ظلم وتشدد، ان کو زندہ جلادینے کی ظالمانہ سزاؤں کے رد عمل میں پروٹسٹنٹ چرچ وجود میں آیا۔ اسی لیے سورہ فاتحہ میں یہ بتایا گیا کہ تمہیں مُنعم علیھم (انعام یافتہ) لوگوں کے راستے پر چلنا ہوگا۔ سورہ فاتحہ باقی ماندہ پورے قرآن کا خلاصہ اور مقدمہ ہے اور اسی لئے اسے امّ القرآن کہاجاتا ہے۔ سورہ نساء میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگوں سے مراد انبیا، صدیقین، شہدا، اور صالحین ہیں ۔
ان پسندیدہ بندوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ بندے وہ ہیں جنہیں اسی سورہ فاتحہ میں مغضوب علیھم (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا) اور ضالین (صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے گم راہ) کہا گیا ہے۔ اللہ کے غضب میں مبتلا وہ لوگ ہیں جو صراط مستقیم کو پہچان لینے کے باوجود اس پر گام زن ہونا تو درکنار اسے قبول تک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور گم راہ وہ لوگ ہیں جو جہالت کی بناپر فکری لغزشوں میں مبتلا اور سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں۔ وہ غور وفکر کرکے سیدھا راستہ معلوم کرنے اور فکری لغزشوں سے نجات پانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ وہ عموماً آباؤ اجداد کی اندھی تقلید اور برادری کے طور طریقوں کی سوچے سمجھے بغیر پیروی کرنے پراصرار کرتے ہیں۔
پروفیسر ظفر احمد، گولن