یہ دنیا زمان و مکان کی ایسی دیواروں میں محصور ہے جن کے سامنے سنگ و آہن، دخان و بھاپ بھی نہیں۔ ان بے اماں دیواروں میں کوئی دروازہ ہے نہ کواڑ، کوئی دریچہ ہے نہ کھڑکی، کوئی روزن ہے نہ درز، کوئی چھید ہے نہ روشندان، گویا کچھ بھی نہیں۔ کوئی فترت معلوم، نہ فتق ظاہر، نہ آغاز کا پتہ ، نہ انجام کی خبر، گویا کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی کڑی ٹوٹی ہوئی، نہ کوئی اینٹ گری ہوئی، نہ چھت ہلی ہوئی، نہ فرش دھنسا ہوا، گویا کچھ بھی نہیں۔ ان دیواروں میں گرا ہوا، یا گھرا ہو، یا محبوس، یا متوطن، یا مسافر، یہ آدمی حیران ہے کہ یہ گھر ہے، یا اندھا کنواں ہے، یا منزل ہے، یا راستہ ہے، یا کال کوٹھڑی؟
جانوں تو حیرتناک اور مہیب، جیوں تو بھیانک اور ہولناک۔ ہستی سوال در سوال، حیات الم در الم، شعور پیچ در پیچ، اور وجود تہہ در تہہ۔ کیا یہ کائنات کسی انجانے کھونٹے سے جھولتا، میرے لیے باہر سے مقفل کوئی پنجرہ ہے، یا صرف کوئی مقفل پنجرہ، یا صرف پنجرہ؟ آدمی خود اندر باہر کا مجموعہ ہے، اور سوچتا ہے کہ کیا یہ کائنات صرف ”اندر“ ہی ہے یا اس کا کوئی ”باہر“ بھی ہے؟ انسان کے باہر کے، یعنی آفاق کے راستے دن کو بھی روشن اور رات کو بھی معلوم، لیکن کائنات کے سارے سورجوں کے ہوتے ہوئے بھی اس کے اندر، اس کے انفس میں اندھیرا، ایسا کہ کائنات کے سارے سورج مل کر بھی اسے اجیار نہ پائیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا انسانی ”باہر“ اس کائناتی ”اندر“ سے جڑا ہوا اور مانوس، اور میرا انسانی ”اندر“ کسی غیبی ”باہر“ کا پیاسا اور طلبگار؟ اسی اندھیرے اور پیاس میں آدمی نے یہ ضرور پا لیا کہ وہ سورج جو اندر کو روشن کر دے وہ علم ہے۔ بجا کہ علم روشنی ہے، اندر کی، لیکن کیسا علم، اور کہاں کا علم؟
اس میں تین بڑے گروہ ہیں۔ اہل سفسطہ، اہل عقل اور اہل مذہب۔ اہل سفسطہ علم کو مطلوب لیکن ناممکن مانتے ہیں۔ اہل عقل علم کو مطلوب اور صرف شہود میں ممکن مانتے ہیں۔ اور اہل وحی غیب و شہود میں علم کو ممکن مانتے ہیں۔ سوفسطائی یہ کہتے ہیں کہ ”علم ممکن نہیں“، اور اہل عقل کہتے ہیں کہ ”علم ممکن ہے، وحی ممکن نہیں“ اور اہل مذہب کہتے ہیں کہ ”علم ممکن ہے کیونکہ وحی ممکن ہے“۔ سوفسطائیت اپنی اصل میں انکار شہود ہے، اور عقلیت اپنی اصل میں انکار غیب ہے۔ اہل مذہب کے ہاں شہود حس میں معلوم اور وحی سے بامعنی ہے، غیب شعور و وجود کا لنگر/ اینکر ہے۔ شعور ایک برزخ ہے جہاں غیب و شہود کے ”دریا“ مل جاتے ہیں۔
یونانی اہل عقل کی نبردآزامائی اول اول سوفسطائیوں سے ہوئی، اور بعد ازاں جدید اہل عقل کی اہل مذہب سے، اور اہل عقل دونوں پر فاتح رہے۔ اس فتح نے انسان کو بدل دیا، اور جدید انسان نے دنیا کو بدل دیا۔ اہل عقل کا دعویٰ بڑا، کام لمبا، کارنامہ حیرت انگیز اور نتیجہ المناک نکلا۔ تحریک تنویر سے پس جدیدیت تک کے سفر میں اہل عقل معنی، امید اور جمال سے تہی ہو کر ایسی صورت حال سے دوچار ہو گئے ہیں جو سوفسطائیت سے بھی بدتر ہے۔ اب ”آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا“ والی آپشن بھی باقی نہیں رہی، اور اہل عقل کو ”آدمی کو بھی میسر نہیں حیواں ہونا“ کی صورت حال درپیش ہے۔ جدید علم کی منتہائے کمال پر، یعنی پہلے کامیاب ایٹمی دھماکے کے دہلا دینے والے منظر کو دیکھ کر، مین ہیٹن پروجیکٹ کے انچارج سائنسدان اوپن ہائیمر نے کہا تھا کہ ”اب ہم سب کُتی کے بچے ہیں!“۔ میرا خیال ہے کہ اس نے فرط جذبات میں مبالغے سے کام لیا اور بڑی امید باندھی، کیونکہ جدید انسان کو اب ”کُتی کا بچہ“ بننا بھی نصیب نہیں، اور وہ ایک نامعلوم پوسٹ ہیومن مخلوق بننے میں کوشاں لیکن ناکام ہے، جو نہ انسان ہے، نہ حیوان ہے اور نہ مشین۔
انسانی شعور کے دو ایسے مسئلے ہیں جن کو اول علمی قدم اٹھنے سے پہلے حل کیے بغیر کوئی علم ممکن نہیں۔ شعور کے اندر منشاء (origin) کا سوال طے کرنا عقل کو اینکر دینے کے لیے لازم ہے، اور شعور سے باہر کسی unknown (غیب) کو فرض کرنا عقل کے فعال ہونے کے لیے لازم ہے تاکہ ”دریافت“ اور علم کی مسلسل تنظیم نو کو باقی رکھا جا سکے ورنہ عقلی علم کے مذہبی علم کی طرح ”ساکت ہونے کا خدشہ“ باقی رہتا ہے۔ جدید سائنسی ذہن کائنات کے منشا و مبدا کا سوال پہلے فرض کر کے، مان کے، اور زمان و مکاں کے دائرے میں known (شہود) اور unknown (غیب) فرض کر کے علم کے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ اگر سائنس کائنات کے اندر unknown فرض نہ کرے تو علم کا آغاز ممکن نہیں، اور اگر اس فرضی unknown کو قائم نہ رکھ سکے تو بھی علم ممکن نہیں۔ یعنی جدید عقل اس کائنات کے اندر ہی اپنے غیب و شہود کو فرض کر کے دریافت اور علمی یافت کے کام کا آغاز کرتی ہے۔ سائنسی ذہن کا منشائی موقف اور اس کا فرض کردہ unknown مذہبی آدمی کے ایمان بالغیب سے مشابہ ہے۔ شہود سے انسان کا تعلق حسی اور استدلالی یعنی عقلی ہے، اور غیب سے ایمانی۔ مذہبی آدمی غیب اور خبر غیب کو مانتا ہے اور جدید آدمی اپنا غیب فرض کرتا اور اسے مانتا ہے۔ غیب علم کی شرط اول ہے، اور غیب کو ”مانے“ بغیر علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر غیب سے بھی انسان کا تعلق عقلی ہو جائے تو علم لایعنی (absurd) ہو جاتا ہے، اور جدید علم کی لایعنیت ”سائنسی غیب“ کے عقلی مفروضہ ہونے سے پیدا ہوئی ہے۔ سائنس unknown فرض ہی اس لیے کرتی ہے کہ اپنے known کو بامعنی رکھ سکے۔ لیکن کائناتِ معلوم کی غیب و شہود میں ارادی اور عقلی تقسیم امکانِ علم کو ختم کر دیتی ہے، کیونکہ مفروضہ unknown عقل ہی کا زائیدہ ہے، اور وہ علم کو ایسا کوئی تصور نہیں دے پاتا جو حقیقت نفس الامر بھی ہو۔ اس وقت امکانِ علم کے حوالے سے جدید انسان کو ناامیدی اور لایعنیت کا سامنا ہے اسی وجہ سے ہے۔
”غیب بالشہود“ وحی کا دائرہ ہے، اور ”شہود بالغیب” نظری اور عرفانی علوم کا دائرہ ہے جو اپنی تشکیل اور معنویت کے لیے وحی پر منحصر اور اس کا محتاج ہے۔
مقولہ احمد جاوید صاحب، تشریح محمد دین جوہر