مسلم ممالک میں شدت پسندی کی لہرکیسےآئی؟

اگر آپ کسی مسئلہ کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اُس کا سرا پکڑنا ہوتا ہے اور اس کا نقطۂ ابتداءتلاش کرنا ہوتا ہے…. ہم اس کی تحقیق میں کہ مسلم ممالک میں کہیں جو شدت پسندی نظر آتی ہے اسکی وجہ کیا ہے ؟، ابتداء سے مسئلے کو دیکھتے ہیں۔
اسلامی تاریخ کا ایک بد ترین دور گزارا ہے، اور جس سے ہر شخص واقف ہےیعنی استعمار کا دور۔ جب یہ استعمار باقاعدہ فوجوں اور ہتھیاروں کے زور پر عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا۔ اُس وقت عالم اسلام کو اس کافر استعمار کے خلاف ایک مزاحمت کرنا تھی۔ غیر مسلم قوموں نے اپنے گھروں پر چڑھ آنے والے استعمار کے خلاف مزاحمت کیلئے ہتھیار اٹھائے تو مسلمانوں کے لئے بھی یہ کوئی شجر ممنوعہ نہ تھاکہ غیر قوموں کیلئے تو مزاحمت جائز ہو مگر ان حق میں یہ حرام ہو! ہر قوم اپنے تحفظ کیلئے ہتھیار اٹھانے کی مجاز ہو البتہ ہماری شریعت ایسی ہو جو ہمارے ہاتھ پیر باندھ کر ہمیں بیرونی بھیڑیے کے آگے ڈال دینے والی ہو ۔
ایسے نابغے ہمارے یہاں اب بھی ہیں جو استعمار کے خلاف ہونے والی ہماری اُس مسلح جدوجہد کو ‘غدر’ اور ‘کفرانِ نعمت’ سے تعبیر کریں ۔ ہماری قوم کا ایک بہت بڑا حصہ البتہ اس کو کم از کم ایک “آزادی کی جنگ” تعبیر کرتا ہے۔ اِس مزاحمتی جنگ کیلئے عالم اسلام کو لازمی بات ہے، “طاقت” کا راستہ استعمال کرنا تھا۔ اب ذرا ذہن میں رہے ہم نے لفظ استعمال کیا ہے: “طاقت” کا راستہ، نہ کہ “تشدد” کا راستہ۔
کافر استعمار کے خلاف عالم اسلام کی جو مزاحمت سامنے آئی، سبھی کو معلوم ہے اس کا روح رواں یہاں کے دین سے متمسک طبقے تھے اور جرأت وبسالت کی یہ سب داستانیں رقم ہوئیں ۔ بیرونی استعمار کے خلاف مزاحم قوتوں اور توانائیوں کا اصل محرک “دین” ہی تھا اور “دین” کے سوا کچھ نہ تھا۔ استعمار کے خلاف جہاد کسی ایک خطے کا واقعہ نہ تھا؛ یہ فنامنا پورے عالم اسلام کے اندر دیکھا گیا؛ اور بعض خطوں کے اندر تو اِس نے واقعتا استعمار کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا۔ ہر ہر جگہ “اسلامی” جماعتیں اور جتھے تھے جو عالم اسلام کو آزادی دلانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔
آپ اُس دور کی تاریخ پڑھ لیجئے۔مراکش میں چلے جائیے، آپ کو اسلامی مزاحمتی گروپ ملیں گے۔ الجزائر میں چلے جائیے، آپ کو اسلامی تحریک نظر آئے گی جس کی قیادت عبد الحمید بن بادیس نے کی۔ لیبیا چلے جائیے، آپ کو عمر مختار کے ‘جہادی’ ملتے ہیں۔ افریقہ کے اندر سنوسی، مہدی سوڈانی، داغستان میں امام شامل، ہند میں تحریک مجاہدین۔ شام سے فلسطین پر صیہونی یلغار کے خلاف عزالدین قسام کے مجاہد دستے۔ اِس کے بعد اسرائیل میں جہاد کے اندر اخوان کے فدائی دستے۔ صومالیہ میں مزاحمت ہوئی تو وہاں پر قربانیاں دینے کیلئے اسلام پسند۔ غرض عالم اسلام کی عزت و آبرو کیلئے “اسلامیوں” کے سوا خون ہی کس نے دیا ہے؟ ہر جگہ آپ کو مجاہد علماءنظر آئیں گے اور مجاہد نوجوان۔ شمالی افریقہ تا ہند تا ترکستان…. ان کے مناہج میں چاہے کتنا بھی فرق پایا گیا ہو مگر تھے یہ دین کے پرودہ۔کم ہی کوئی ہوں گے جو آج اُس مزاحمت کو “جائز مزاحمت” اور “استعمار کے خلاف جہاد” کا نام نہ دیتے ہوں۔بہت سارے اسباب ہوئے…. کہ بالآخر استعمار سے عالم اسلام کی جان چھوٹ گئی۔
کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد کے سالوں میں کہیں پر بھی دینی قوتوں نے بغاوت کا علم بلند کیا ہو اور ‘مسلح جہاد’ کا اعلان کر دیا ہو؟ ہاں وہ دین جس کیلئے یہ ایک صدی تک لڑے تھے، اُس کو غالب کرانے کی آواز اٹھانا، اور جوکہ انہوں نے ایک نہایت پرامن انداز میں اٹھائی تھی، اور جس کا حق ان کو ‘ازروئے جمہوریت کی نیلم پری’ بھی حاصل تھا، آخر کونسا جرم ہے؟
ہر ملک میں غلبۂ اسلام کی آواز ضرور اٹھائی گئی تھی، لیکن کوئی ایک ایسے ملک کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جہاں غلبۂ اسلام کی دعوت دینے والے بندوقیں اٹھا کر آئے ہوں؟ ایک پر امن جدوجہد کا حق سب کو ہے تو آخر اِن کو اپنے نظریات پھیلانے کیلئے کیوں حاصل نہیں ہے؟ مگر ان کے ساتھ ہر ہر ملک میں کیا ہوا؟ ان کو کس کس طرح دیوار سے لگایا گیا؟ میرا خیال ہے کسی سے یہ بات اوجھل نہیں۔موجودہ دور میں مصر کی مثال سب کے سامنے ہے۔
ہر ہر ملک کے اندر ایک سیکولر طبقہ، جو عین اُسی دین ِ استعمار پر ہوتا ہےاور عالم اسلام کو اُسی بیرونی استبداد کے پس ِ استعمار ایجنڈا میں جکڑ رکھنے کیلئے سرگرمِ عمل ہوتا ہے…. یہ آزادی کے فوراً بعدہر ہر ملک کے اندر اسلام پسندوں پر ظلم کا کوڑا برسانا شروع کر دیتا ہے۔ چند سال نہیں گزرنے پاتے کہ وہ بیشتر دیندار طبقے جو استعمار کے خلاف مزاحمت کا روحِ رواں رہے تھے (پس آزادی) بیشتر ملکوں کے اندر آپ کو وہ جیلوں کے اندر ٹھونسے ہوئے ملتے ہیں! ہم مانتے ہیں اسلامی طبقوں میں بھی ضرور کہیں پر غلو یا تشدد دَر آیا ہو گا، لیکن یہ اُس تشدد کے بعد، بلکہ اُس تشدد کے نتیجے میں، جو پس آزادی یہاں کے حکمران طبقوں کی جانب سے اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے سب کے سب طبقوں پر روا رکھا گیا۔
عجیب بات ہے، یورپی ملکوں میں کوئی طبقہ اگر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑا ہے تو آزادی حاصل کرنے کے بعد وہی اِس قابل مانا گیا کہ قوم اس کے گردا گرد اکٹھی ہو اور اسی کے زیر قیادت ملک کی تعمیر نو کرے۔ مگر ہمارے عالم اسلام میں الٹی گنگا بہی۔ جو طبقہ استعمار کے خلاف مزاحمت کرتا رہا تھا، اُس کی جزا ہمارے ہاں یہ ٹھہری کہ وہ جیلوں اور کال کوٹھڑیوں کا باشندہ بنایا جائے۔ پورا سرکاری میڈیا اور پوری کی پوری سرکاری مشینری اُس کی کردار کشی پر جت جائے اور اس کو ایک گھناؤنی مخلوق ثابت کر کے دکھائے۔
اسلام پسندوں سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ اسلامی شریعت کی عملداری کا تمہارا یہ مطالبہ ہم کیسے مان لیں؛ تمہاری یہ فرمائشیں عوام کے من کو تو بھاتی ہی نہیں ہیں اور جبکہ یہاں تو تمہیں پتہ ہے ‘عوام کی رائے’ چلتی ہے! لیکن جب “اسلام کا مطالبہ کرنے والا یہ معتوب و ناپسندیدہ طبقہ” الجزائر ، مصرکے اندر یہ جوئے شیر بھی بہا کر دکھا دیتا ہے اور “اکثریت ِ عوام کے ووٹ” لا کر ‘درِ شیریں’ پر دھر دیتا ہےکہ چلئے اب تو ہمیں ملک کے اندر اسلام لے آنے دو۔ یہاں ‘قوم کے ارادے’ اور ‘عوام کے فیصلے’ کو بھی عین اُسی رعونت کے ساتھ پیر سے مسل دیا جاتا ہے محض اِس لئے کہ ‘عوام کا فیصلہ’ اِس بار “اسلام” کے حق میں نکل آیا ہے!
آپ کے سامنے کتنے مسلم ممالک ہیں جن کے اندر “اسلام” کا نام لے کرکام کرنا ہی سرے سے منع ہے، خواہ وہ کتنا ہی پر امن کیوں نہ ہو۔ ملک کے اندر “دینی جماعت” بنانے کی قانوناً اجازت نہیں، اس جماعت کی سرگرمی میں “تشدد” پائے جانے یا نہ پائے جانے کی نوبت تو اُس وقت آئے گی جب اُس جماعت کو وجود میں آنے دیا جائے گا!اور چلئے، “دینی جماعت” بنانے کی اجازت نہ ہونا بھی کچھ دیر کیلئے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کتنے ملک ایسے رہے ہیں جہاں ایک نوجوان نماز پڑھنے لگتا ہے تو وہ ‘نظروں’ میں آجاتا ہے اور گھر والوں کو محض اِس وجہ سے اُس کی فکر پڑ جاتی ہے کہ اب یہ ‘دین دار’ سمجھ لیا جائے گا۔ نوجوان کے حق میں ڈاڑھی رکھ لینا اُس کے سب خیرخواہوں کو پریشانی میں مبتلا کر دینے والی چیز رہی ہے۔ اور پھر یہ مردوں تک محدود نہیں، کوئی نوجوان لڑکی اپنا سر ڈھانپ کر چلتی ہے تو اِس کو ایک طرح کی ‘بغاوت’ باور کیا جاتا ہے۔ کتنے ملک ہیں جہاں مسلم دوشیزاؤں کے سر سے سکارف نوچ لئے جاتے رہے ہیں۔ یہ سب قصے کہانیاں نہیں، حقائق ہیں اور اِن حقائق پر مبنی خبریں __کسی کسی وقت با تصویر بھی __ میرے اور آپ کے ملاحظے کیلئے اخبارات میں چھپتی رہی ہیں۔
پس جب قہر اور جبر اِس حد کو پہنچ گیا ہو، اور دوسری جانب سے سامنے آنے والے صبر و برداشت کا یہ صلہ دیا جاتا رہا ہو، تو پھر آپ کو یہ توقع کر لینی چاہیے کہ دوسری جانب سے بھی ضرور کوئی رد عمل سامنے آئے گا۔ اور یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ اس رد عمل کو سامنے لانے میں کچھ طبقے اُن حدوں تک چلے جائیں جن کی اہل سنت و الجماعت کے منہج کے اندر گنجائش نہیں پائی جاتی۔چنانچہ مخالف سمت سے اگر کوئی رد عمل آیا ہے تو اِس کا جواز بہرحال حکومتوں کی جانب سے ہی فراہم کیا گیا ہے اور یہ حقیقت بے حد واضح ہے۔ ٹھیک ہے یہاں جو انتہاپسندی اور غلو پایا جاتا ہے ہم اُس کو درست نہیں جانتے، یہ اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ جو غلو ہے، یہ آیا تو آیا کیسے؟

کیا شدت پسندی مسلم ممالک میں دینی طبقوں کیساتھ خاص ہے؟
كیا واقعی”تشدد” خاص دینی طبقوں کے یہاں ہی پایا جاتا ہے؟ اِس کے برعکس، ہم تو یہ جانتے ہیں __ اور حالیہ تاریخ کے اندر خود دیکھ چکے ہیں __ کہ عالم اسلام کے جن طبقوں نے یہاں سب سے بڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں، جو مظلوم سب سے بڑھ کر اِس تشدد کا نشانہ بنے ہیں وہ دین کے داعی تھے۔
ملکوں کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف سے شروع ہو کر دوسری طرف تک نظر دوڑا لیں؛ یہاں پر جو ظلم، جو تشدد، جو استبداد، جو آمرانہ ہتھکنڈے اور جو قوت کا ناجائز استعمال ہوا ہے اُس کا سب سے بڑا نشانہ “اسلام پسند” ہی تو رہے ہیں۔ اِس ظلم اور قہر کے ذریعے سب سے بڑھ کر کسی کی تواضع کی گئی ہے تو وہ احیائے اسلام کے داعی طبقے ہی ہیں۔ جیلیں ہمیشہ انہی لوگوں سے بھری گئیں۔ آپ مجھے بتا دیں مسلم داعیوں کے علاوہ کوئی اور طبقہ ہو جن کو عالم اسلام کی آمریتوں نے سب سے بڑھ کر مشق ِ ستم کا نشانہ بنایا ہو۔ جو مصائب اِن پر توڑے گئے وہ عالم اسلام کے کسی اور طبقے پر نہ توڑے گئے ہوں گے۔
یہ بھی واضح ہے کہ مسلم ممالک میں یہ سب تشدد کون کرتا رہا ۔ یہی سیکولر پارٹیاں ، استبدادی حکومتیں ، خاص مراعات یافتہ افراد طاغوت بن کر اِن پر مسلط رہے ہیں اور اپنی یہ حیثیت منوانے کیلئے بضد رہے ہیں کہ یہ یہاں پر من مانیاں کریں اور امت ان کے آگے چپ سادھ کر رکھے۔
اگر تشدد اسلام کے چاہنے والوں میں ہے تو سوال یہ ہے کہ جب ہماری اسلامی تہذیب یہاں پر قائم تھی اور امت پر شریعت کی حکمرانی تھی (چاہے وہ بہت اعلیٰ سطح کا نقاذِ شریعت نہیں بھی تھا)، یہ سارے تشدد کے مظاہر جن کی آپ نشاندہی فرما رہے ہیں، اُس وقت ہمارے یہاں کیوں نہیں پائے جاتے تھے؟ یہ سب مظاہر آج ہی ہمارے یہاں کیوں پائے جانے لگے جب حکومتیں ہم پر باہر سے ٹھونسی گئیں اور ہماری شریعت کو اٹھا کر باہر پھینکا گیا؟
جب ہم پر اسلامی تہذیب کی حکومت تھی، کوئی بیرونی قوت اور اس کے مقاصد اور اس مفادات اور اس کے نظریات ہم پر مسلط نہیں ہوتے تھے۔ خلیفہ کتنا بھی سخت گیر کیوں نہ ہو لیتا ہو، ایک منظم بیرونی استبداد سے ہمیں بہرحال سابقہ نہ تھا۔ خلیفہ زیادہ سے زیادہ اپنے کسی ایک آدھ مخالف یا اس کے خاندان اور کنبے قبیلے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا لیتا ہو گا۔ زیادہ ہوا تو دار الحکومت میں کچھ خاص سختیاں روا رکھ لی جاتی ہوں گی۔ مگر پوری کی پوری امت کو دبا دینا اور ایسے ایسے منظم قسم کے حربے آزمائے جانا، پورے کے پورے ملک کو جیل بنا دینا…. تو یہ بہرحال اِس ‘تکنیکی و صنعتی’ انقلاب کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔
دنیا کے منظم ترین حربے جو قوموں کی قوموں کو دبانے اور ان کی عزت نفس کو کچلنے کیلئے ‘ڈویلپ’ ہوئے ہیں جنہوں نے یہاں فاشزم، شدت پسند نیشنلزم، اور کمیونزم اور سوشلزم اور نہ جانے اس کے علاوہ کیسے کیسے عفریتوں کو جنم دیا، یہ تو ایسی چیز ہے جس سے اپنی تاریخ میں اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا۔ یہ تشدد پسند نظریات پورے کے پورے مغرب سے ہمارے یہاں لا دھرے گئے۔ آپ عالم اسلام کے مختلف مظلوم خطوں میں جا کر دیکھیں تو سہی، وہی نازی ہتھکنڈے جو جرمنی میں کچھ محدود عرصے کیلئے آزمائے گئے ہوں گے، ہمارے مسلم عرب ملکوں کے اندر عرصہ دراز سے روا رکھے جارہے ہیں۔

موجودہ دور میں ‘شدت پسندی’ مسلمانوں سے ہی کیوں جڑی نظر آتی ہے؟

اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسلمان شدت پسند کیوں ہیں ؟ “کیوں، ‘شدت پسندی’ اسلامی عمل سے ہی جڑی ہوئی نظر آتی ہے؟ اسلامی جماعتیں ہی اِس شدت پسندی کی زد میں آخر کیوں آتی ہیں؟ شیخ سفر الحوالی اسکا جواب دیتے ہیں:
” جس چیز نے یہ تعلق جوڑا ہے وہ بے حد واضح ہے۔ کوئی دو سو سال سے ہم تو دشمن کے گھروں میں نہیں گئے، البتہ وہ ہمارے گھروں میں اودھم مچاتا پھرتا ہے۔ صاف سی بات ہے دو سو سال سے وہ ہمیں ‘قابو’ کرتے پھرتے ہیں۔ یہ ساری جنگ اِس پورا عرصہ ہم نے اُن پر نہیں بلکہ اُنہوں نے ہم پر مسلط کئے رکھی ہے۔ یہ نفسیاتی وار فیئر ہمارے خلاف وہی لوگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا تو حال یہ ہے کہ انکی ایک بڑی تعداد اُس بے بس و لاچار طبقہ پر مشتمل ہے جو اِس نفسیاتی گولہ باری کے اندر بیچارہ نہ تو جواب دینا جانتا ہے اور نہ دلیل کے ساتھ اُن کا منہ توڑ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جواب اور دلیل پاس ہو تو وہ اس کو ڈیلیور deliver تک نہیں کر سکتا(اس کے پاس کمیونیکیشن میڈیم ہی نہیں)۔ اور جبکہ ایک اچھی خاصی تعداد ہمارے یہاں اُس منافق طبقہ پر مشتمل ہے جو اِس گھر آئے دشمن کے ساتھ مداہنت کرنے اور اُس کے ساتھ یاریاں دوستیاں نبھانے میں لگا ہے۔
مسلمانوں کی پوزیشن دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے تشدد پسندی کو پیدا کرنے میں انکا کوئی کردار نہیں ، مغرب نے مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی فوجیں مسلم ممالک میں داخل کی ہیں جنکی مسلمان مزاحمت کررہے ہیں۔ یہ ساری شدت پسندی مغرب نے ہی انکے یہاں لا کر دھری ہے۔ مغرب کی اپنی ساری تہذیب “تشدد” پر قائم ہوئی تھی۔ وہی اب اِس “تشدد” کو مختلف طریقوں سے ہمارے یہاں برآمد کر رہے ہیں اوربڑی خوبصورتی کے ساتھ اِن اصطلاحات کو وہ ہم پر تھوپ بھی رہے ہیں۔ ‘تشدد’ اور ‘دہشت گردی’ کو اب وہ من مانے مفہومات پہنا رہے ہیں جن سے وہ ہمارے مبنی بر انصاف کیس کو تو ظلم کا پلندہ ثابت کر دیں، جبکہ اپنے اِس ظلم اور یورش کو جو وہ ہم پر کر رہے ہیں ‘نہایت ضروری’، ‘مبنی بر انصاف’ اور ‘حق کی آواز’ ثابت کر دیں!
یعنی وہ ہمیں ماریں بھی، ہمیں لوٹیں بھی، ہمارا استحصال بھی کریں.. اور پھر اخلاقی و منطقی بنیادوں پر بھی اُن کا ہی پلہ بھاری نکلے، اور ‘اصولی’ طور پر بھی وہی حق پر ہوں!!! ادھر ہم مار بھی کھائیں، اپنے ملک اور زمینیں بھی گنوائیں، اور اپنے وسائل سے بھی ہاتھ دھو لیں..؛ جبکہ اخلاقی و اصولی طور پر بھی ہم ہی غلط نکلیں! مسئلے کی جڑ اصل میں یہاں پر ہے۔
دوسری طرف ہمارے سیکولر دانشواران ہمیشہ کی طرح امت کو بے وقوف بنانے ، لفظوں کے کھلواڑ کرنے اور امت کو ایسی راہ پر ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ یہ “تشدد” چھوڑنے کے پردے میں اپنی قوت اور طاقت کے سب مصادر سے ہی دستبردار ہو جائیں! ‘ترکِ تشدد’ کے عنوان کے تحت آپ ایک ایسی صورت کو امت کے حق میں ‘شرعی’ بنا کر پیش کریں کہ بیرون سے آیا ہوا وہ کافر استبداد امت پر حاوی ہوجانے میں خوب خوب آسانی پائے اور امت کی کوئی چیز اور کوئی معاملہ اِس کے اپنے ہاتھ میں نہ رہے۔ وہ اِس کے گھروں پر چڑھائی کر کے اِس کو جیسے مرضی لوٹے اور غلام بنائے البتہ یہ اگر اُس کے مقابلے میں ہاتھ اٹھائے تو وہ “تشدد” ہے! یہ مزاحمت کرے تو وہ بہت بڑا گناہ ہے! ہمارا سب کچھ انہی باغی و سرکش عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں رہے یا ان سے موالات اور وفاداری نبھانے والے مقامی طبقوں کے ہاتھ میں۔ ہمارا اُن پر ہاتھ اٹھانا البتہ منع ہے اور شریعت کی خلاف ورزی!…. (مجاہدین کے خلاف پراپیگنڈے اور انکو بدنام کرنے کے لیے کچھ دو نمبر تنظیموں کو بھی سامنے لایا گیا ہے لیکن ) یہاں یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ عالم اسلام کے وہ رکھوالے جو اِس سے پہلے ایک صدی بھر اپنے خون کے نذرانے پیش کرتے رہے ،عالم کفر کی اِس نئی یلغار کے سامنے یہاں کے باقی طبقوں کی طرح، ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں گے!
بشکریہ ایقاظ

 

  • وقار علی
    July 8, 2018 at 9:40 pm

    مکمل اتفاق ! تاہم اگر صاحب مضمون کچھ حوالے بھی دیتا تو وزن اور بڑھ جاتا اور جو بہت مشکل بھی نہیں ۔ مثال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ مغرب ہمیشہ سے معصومانہ سی شکل بناکر یہ سوال اکثر کیوں پوچھتا کہ یہ مسلمان ہمیشہ شدت پسند کیوں ہوتے ہیں؟ یا یہ مشہور و معروف مقولہ کہ “یہ مسلمان ہم (مغرب) سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟” اس کے حوالے تو وار آن ٹیرر کے نظریاتی باواآدم اور مشہور مفکر برنارڈ لیوئس کی کتاب دی کرائسس آف اسلام بھی کثرت سے مل جاتے ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں:
    “Most Muslims are not fundamentalists, and most fundamentalists are not terrorists, but most present-day terrorists are Muslims”(p.170)
    “Islam as such is not an enemy of the West…but a significant number of Muslims – notably but not exclusively those whom we call fundamentalists – are hostile and dangerous, not because we need an enemy but because they do” (p.46)
    “It is our misfortune that we have to confront part of the Muslim world while it is going through such a period, and when most – though by no means all – of that hatred is directed against us” (p.44)

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password