مشہور محقق حامد کمال الدین صاحب کا یہ مضمون آج سے دس سال پیشتر سی ماہی ایقاظ(شمارہ اکتوبر 2007) میں شائع ہوا جو بعد ازاں انکی تالیف ’’روبہ زوال امیریکن ایمپائر۔ عالم اسلام پر حالیہ صلیبی یورش کے تناظر میں‘‘ کا حصہ بنا۔اس سلسلے اور کتاب میں انہوں نے جو کچھ لکھا اس دور میں بہت سے لوگوں کو عجیب لگا تھا لیکن آج جب ہم ان تحاریر کو دیکھتے ہیں تو انکے تجزیے بالکل درست نظرآتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ بالکل درست ثابت ہوئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی باتوں کو نا اسوقت اہمیت دی گئی اور نا آج ان غلطیوں سے بچا جارہا ہے جنکی انہوں نے نشاندہی کی تھی ۔ آج بہت کچھ واضح ہوجانے اور اتنا نقصان کروانے کے بعد بھی وہی غلطیاں دوہرائی جارہی ہیں ۔ ویسے تو انکی و ہ پوری کتاب ہی پڑھنے کے لائق ہے، ہم طوالت سے بچتے ہوئے انکے چند مضامین اپنے اس سلسلے میں شامل کررہے ہیں، ان سےیہ اندازہ ہوگا کہ استعمار ی چالیں کیا تھیں ، ہم نے انکے جواب میں کیسی حماقتوں کے مظاہرے کیے۔ اور آج بھی کیسے ان سے بچا جاسکتا ہے۔ ایڈمن
****
امریکیوں کی جانب سے پھینکا جانے والا ایک پتہ
(اکتوبر 2007)
ایک بات طے ہے کہ مغربی طاقتیں، اپنے وجود کے ان حصوں کو چھڑانے کیلئے جو عراق اور افغانستان وغیرہ میں مجاہدین کے قابو میں آچکے ہیں.. جو بھی چال چلیں گی، اور اس وقت جہادی عمل کو ’متبادل راہ‘ دکھانے کی جو بھی صورتیں پیدا کریں گی.. وہ بھی بالآخر ان کے لئے وبالِ جان بنیں گی اور عالمِ اسلام کے اندر ان کے اقتدار کا موت پانا اگر ٹھہر گیا ہے، اور جوکہ نظر آرہا ہے، تو پھر اس موت کو ٹال دینا اب ان کے بس میں نہیں۔زیادہ سے زیادہ جو یہ کرسکیں گی وہ یہ کہ عالم اسلام کو اپنے اہداف کا حصول کچھ زیادہ مہنگا پڑ جائے۔ یعنی یہ ہمیں اپنا ہدف اتنی آسانی سے نہ لینے دیں جتنی آسانی سے ملتا اس وقت نظر آرہا ہے۔ مغرب کے بس میں زیادہ سے زیادہ اب کچھ ہے تو وہ بس اتنا ہے۔
عالم اسلام سے مغرب اب بے دخل ہوا کہ ہوا۔ اور لازمی بات ہے اس بیرونی ’سرپرستی‘ کے ختم ہوتے ہی عالم اسلام کا صالح عنصر اوپر آنے کا ایک آزادانہ موقعہ پانے والا ہے۔۔۔ یہ صورتحال قریب قریب ایک پکے ہوئے پھل کی طرح دکھائی دے رہی ہے۔ عالم اسلام آج اگر یہ ہدف حاصل کرنے پر ہی بضد ہے تو مغرب یہ چاہے گا کہ ہم زیادہ سے زیادہ قیمت دے کر اور اپنا زیادہ سے زیادہ نقصان کراکے اس ہدف کو حاصل کریں بلکہ یہ قیمت اتنی بڑھ جائے کہ ہماری پہنچ سے باہر ہو۔
البتہ اسلامی قوتوں کو جو کمال دکھانا ہے وہ یہ کہ امت کے لئے اس ہدف کا حصول کم سے کم لاگت اور کم سے کم سے کم نقصان کے ساتھ یقینی بنائیں۔ پس مسئلہ اس وقت صرف ’نقصان‘ اور ’لاگت‘ کا ہے۔ طرفین کا اصل زور سمجھئے اسی پر لگنا ہے اور ایک ’چیز‘ کے ملنے یا نہ ملنے کا انحصار بس اسی بات پر رہ گیا ہے۔
چنانچہ امریکہ مجاہدین کو پاکستان، سعودی عرب اور عالم اسلام کے کچھ دیگر ممالک کے داخلی محاذوں پر الجھا دینے میں اگر کامیاب ہوجاتا ہے، تو اس سے وہ دُہرا تہرا فائدہ لینے کی کوشش کرے گا:
1. ایک یہ کہ جہادی عمل کے خاتمہ کی ’ذمہ داری‘ یہاں کی حکومتیں تب زیادہ اخلاص اور تن دہی کے ساتھ ادا کریں۔ کیونکہ اس صورت میں مقامی حکومتیں امریکہ کے بچاؤ یا اپنے کچھ ’مفادات‘ کے لیے نہیں بلکہ ’اپنی‘ زندگی اور بقا کی جنگ لڑیں گی جوکہ کوئی بھی انسان کہیں زیادہ مخلص اور وارفتہ ہو کر لڑتا ہے، جبکہ امریکہ کو اس وقت ’جہادیوں‘ کے خلاف ان سے اسی درجہ کا اخلاص درکار ہے۔
2. دوسرا یہ کہ یہاں کی اقوام جوکہ مجاہدین کے افغانستان و عراق میں جہاد پر پوری طرح یک آواز ہیں اور اسی باعث امریکہ کو نکالنے کا یک نکاتی ایجنڈا یہاں کی اقوام میں شدید حد تک پذیرائی پاچکاہے، اور جوکہ مجاہدین کے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ کا درجہ رکھتاہے.. مجاہدین کے لیے ان اقوام کی یہ غیر معمولی حمایت، جو صدیوں بعد انہیں اس سطح پر حاصل ہونے لگی ہے، اپنا وہ زور کھو دے جوکہ اسے ابھی حاصل ہے۔ بلکہ ہوسکے تو ان ملکوں میں ایک اندرونی جنگ چھیڑ کر اس کو ایک ایسے داخلی بحران کی صورت دھار لینے کی جانب بڑھایا جائے کہ امریکہ کو ’نکالنے‘ کی بجائے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے اس داخلی بحران سے ’نکلنے‘ کیلئے امریکہ سے ’مدد لینے‘ کی ضرورت محسوس کرے۔
3. تیسرا یہ کہ امریکہ کے سر پر پڑنے والی چوٹ اپنا وہ زور کھو دے جو افغانستان و عراق کے اندر اس کا بیٹھنا اس وقت دوبھر کئے ہوئے ہے اور اپنے اس ’درد سر‘ کے باعث وہ خطے میں کوئی کھیل شروع کرنے سے عاجز پڑ رہا ہے۔
4. اور چوتھا یہ کہ یہاں جہاد کے حامی ومددگار طبقوں پر ایک ایسا آہنی ہاتھ ڈلوا دیا جائے جوکہ بوجوہ ابھی تک نہیں ڈالا جاسکا۔ علاوہ ازیں، ’جہادیوں‘ کے سوتے بند کرنے کی آڑ میں امت کے ان تمام بنیادی و طویل میعادی منصوبوں gross route & long term projects کا صفایا کرکے رکھ دیا جائے جوکہ دعوتی، تربیتی اور فکری ضرورتوں کے حوالے سے، خصوصاً آئندہ کے کچھ اہم ترین مرحلوں کے لیے، امت کے انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہمارا کہنا صرف اتنا ہے کہ اسلامی قوتوں کی اپنی جانب سے ایسا کوئی موقعہ بہرحال نہ دیا جائے اور امریکہ کو جو وہ چاہتا ہے سادہ لوحی میں آکر ہرگز پیش نہ کردیا جائے..عراق وافغانستان وغیرہ میں اس وقت تک کامیاب جانے والے جہادی عمل کو عالم اسلام کے داخلی محاذوں پر الجھانے کی امریکہ جو بھی کوشش کرتا ہے اسلامی قوتوں کی جانب سے امریکہ کو اس پہلو پر شدید مایوسی ملے اور ہمارے نوجوان اپنی سمجھدار، دور اندیش قیادتوں سے راہنمائی لینے اور خود اپنے طور پر کوئی اقدام نہ کرنے کا شدید حد تک التزام کریں، جبکہ خود یہ قیادتیں ہر ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھائیں اور کوئی فیصلہ خوب ٹھونک بجا لینے اور آخری حد تک غور و فکر اور صلاح مشورہ کرلینے کے بغیر نہ کریں۔ بلکہ ہو سکے تو عالمی سطح کے بعض تحریکی دماغوں اور امت کی سطح کی اہل حل و عقد شخصیات سے راہنمائی لئے بغیر نہ کریں۔
علاوہ ازیں، میڈیا وار میں ’بعد از وقوعہ سرگرمی‘ re-active role کی اپروچ چھوڑ کر پیشگی سرگرمی pro-active role کی روش اختیار کریں اور پل پل پر معاملے کی اصل تصویر یہاں کی اقوام پر واضح کریں کیونکہ اس کی ضرورت آنے والے دنوں میں بے حد بڑھ جانے والی ہے اور گمراہ کن خبر رسانیdisinformation ایک بہت بڑے ہتھیار کے طور پر برتی جانے والی ہے، بلکہ برتی جارہی ہے، صرف ہم ہیں جو ’تصویر‘ نہیں بناتے بلکہ ان کی بنائی ہوئی تصویر کی ’وضاحتیں‘ اور اُسی کی ’تراش خراش‘ کرلینے کو میڈیا میں اپنے کردار کی آخری حد سمجھتے ہیں۔
اسلامی قوتوں کی جانب سے اگر اس امر کی پابندی ہونے لگتی ہے تو پھر پرو ا نہیں، امریکی اپنے سب شوق یہاں پورے کرلیں۔ قربانیاں ہم بھی دیں گے اور خون ان کا بھی بہے گا۔ پچھلے تین عشروں سے ہم مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ امریکہ کی ہر نئی تدبیر میں اللہ تعالیٰ اس کی بربادی کا سامان پیدا کردیتا ہے اور اس کی ہر نئی چال بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کے اپنے ہی خلاف پڑ جاتی ہے۔ ایک دیکھنے والا شخص محسوس کئے بنا نہیں رہتا کہ ٹینک، طیارے، میزائل اور بحری بیڑے رکھنے والی اس قوت کی جنگ عالم اسلام کے کچھ مٹھی بھر جوانوں کے ساتھ نہیں بلکہ اس قوت کے ساتھ ہے جو زمین و آسمان کی مالک، ہر چیز پر قادر ہے اور جوکہ اس طاغوت کے ہر مکر کو اس کے اپنے ہی اوپر الٹا دیتی ہے۔ اب بھی امریکہ جو کرے گا اس کے مد مقابل ہمارا وکیل و کارساز اللہ ہے، جو ہم پر نہایت مہربان ہے اور ہماری استطاعت و تدبیر سے بڑھ کر ہمیں کسی چیز کامکلف نہیں کرتا، بلکہ وہ بوجھ جس کے اٹھانے سے ہم عاجز ہوتے ہیں اور وہ تدبیر جو ہمارے بس سے باہر ہوتی ہے اس کے معاملے میں وہ خود کوئی راہ نکال دیتا ہے اور بسا اوقات تو ہمارا وہ بوجھ جو ہمیں عاجز کردینے والا ہو ہمارے دشمن کی پیٹھ پر لاد دیتا ہے اور ہمارے لئے تدبیر ان کی غلطیوں کے اندر سے ہی برآمد کرادیتا ہے ۔
یہ سب کچھ جو یہاں کہا جارہا ہے، تدبیر و منصوبہ بندی کے باب سے ہے، جس کو درست کرنے کے اپنی حد تک ہم بہر حال مکلف ہیں۔ رہ گئی یہ حقیقت کہ اس وقت امریکہ کا ہر آپشن ایک برا آپشن ہے اور اس کا ہر راستہ ایک بند گلی پر پہنچنے والا ہے، تو یہ بات اپنی جگہ ایک سچ ہے، گو یہ اس بات سے متعارض نہیں کہ ہم ایک درست تر حکمتِ عملی اپنائیں اور ممکنہ حد تک ایک ’کم خرچ‘ اور ’دورمار‘ اقدام کی راہ اختیار کریں۔
مسلم سرزمینوں میں لگائی جانے والی آگ :
اسلام دشمنی کی آگ جس نے کچھ عرصہ پہلے افغانستان اور عراق کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا، اسی کی کچھ خطرناک چنگاریاں اب پاکستان سمیت، عالم اسلام کے متعدد خطوں کا رخ کر رہی ہیں۔۔۔مکر و دجل کے تہہ در تہہ ایجنڈے لئے، ملتِ کفر کے ایلچی دوڑے پھر رہے ہیں۔ مکروہ عزائم کا پتہ دیتی ڈپلومیسی، بارود اور جنگی منصوبوں کی بو، چارٹر طیاروں اور ’بریف کیسوں‘ سے لے کر ’بند کمروں‘ تک، ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کو دیکھیں تو وہ چیخ چیخ کر ایک بات سے خبر دار کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ: عالم اسلام کی بیداری اس وقت قابو سے باہر ہورہی ہے۔۔۔! اور یہ کہ: خطے میں موجود ان کی افواج اور بحری بیڑوں کے پاس وقت بہت کم ہے!اُن کے ایک دانش ور گروہ نے اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کردینے کے لیے بڑی دیر سے ’اب یا کبھی نہیں‘ کی رٹ لگا رکھی ہے۔جبکہ ان کے متعدد تھنک ٹینکس کا کہنا ہے، وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ جن اہداف کی پریشانی اب اٹھ کھڑی ہوئی ہے، خصوصاً ارضِ پاکستان میں سنبھال رکھے گئے اسلام کے دُوررَس اثاثے، بشمول یہاں کے ایٹمی ہتھیار اور دیگر عسکری اَسباب و صلاحیات، نیز یہاں کی اسلامی قوتیں اور اِن کی کوکھ میں پلنے والے جہادی امکانات.. ان سب اہداف کا صفایا ان کے نزدیک اُسی پہلے ہلے میں ہوجانا چاہئے تھا جب، نائن الیون کے فوری بعد، عالمی رائے عامہ دنیا بھر میں امریکی عسکری کارروائیوں کے لیے ’’بلینک چیک‘‘ دے رہی تھی۔ وہ ’’موقعہ‘‘ ضائع کر دینا ان کی نظر میں ایک تاریخی غلطی تھی؛ یعنی افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی اُسی پہلے ہلے میں گھونٹ بھرا جاتا تو آج تصویر کچھ اور ہوتی! اس ’بے جا‘ تاخیر کے باوجود، ان کا کہنا ہے، ’جو ہو سکے‘ فی الفور کر گزرنا چاہئے!
چنانچہ یہ ہنگامی حالات جو شمالی علاقوں میں ایک چیختی صورت دھار چکے ہیں، خدا نہ کرے کہ کسی بہت بڑے دھماکے کا پیش خیمہ ہوں۔ ایران کے خلاف کارروائی ہونے کا امکان ہمیشہ سے نہ ہونے کے برابر رہا ہے البتہ ان تیاریوں کے پردے میں خدانخواستہ اب ’اور‘ بہت کچھ ہونے والا ہے۔مگر چونکہ دشمن کے آپشن بے انتہا محدود ہیں اور اس کے زخم پہلے سے خوب رِس رہے ہیں.. لہٰذا ایک مناسب حکمت عملی اختیار کرکے، خصوصاً دشمن کو ا س پوزیشن میں نہ آنے دے کر، جہاں وہ کسی دوسرے یا تیسرے فریق کو ہی توجہ کا مرکز بنا دے اور اسی کے پردے میں چھپ کر، بلکہ پس منظر میں جا کر، ہم پر وار کرتا رہے ۔۔۔ دشمن کو اس پر مجبور کرکے کہ کچھ بھی کرنے کے لیے وہ خود ہی سامنے آئے اور برہنہ ہوجانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ رہے، تاکہ اپنی ہر خباثت کا جواب وہ براہ راست پائے اور کسی اور کو اس مشکل وقت میں اپنا بوجھ اٹھوا سکے اورنہ اپنی اوٹ بنا سکے۔۔۔ایسا کرکے نہ صرف دشمن کو بے اثر کیا جاسکتا ہے، اور اس کا وہ بوجھ جس نے پہلے سے اس کی کمر دہری کردی ہے اور بڑھایا جاسکتا ہے، بلکہ اس کی ہر نئی چال کو اسی کے خلاف پلٹا بھی جاسکتا ہے۔
لہٰذا ڈر اِس بات سے نہیں کہ امریکہ اس جنگ کا دائرہ بڑھا دے گا؛ ایسا کرکے تو وہ اپنے دشمن کو پھنسانے کی بجائے خود پھنسے گا اور جس دلدل سے نکلنے کی کوئی صورت وہ پہلے ہی نہیں پاتا اپنا بوجھ بڑھا کر اسی میں اور بری طرح دھنسے گا۔ ڈر جس بات سے ہونا چاہئے وہ یہ کہ اس موقعہ پر امریکہ کو مقامی طور پر کچھ ’باربردار‘ ہاتھ آجائیں، جس کی وہ کئی طریقوں سے کوشش کر رہا ہے۔ ہاں اگر امریکہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس جنگ کا دائرہ بڑھا کر وہ اپنا کام آسان اور ہمارا کام مشکل کردے گا۔ لہٰذا اس پر خواہ ہمیں کتنا ہی صبر کرنا پڑے، مگر نادانستگی میں امریکہ کی یہ مدد کر بیٹھنا کہ وہ کسی اور چہرے کے پیچھے کیموفلاج ہوجائے اور ہمیں اپنی بجائے یہاں کسی اور فریق کے ساتھ الجھا دے، اور اپنا کردار صرف ’مانیٹرنگ‘ تک محدود رکھے، جوکہ اس کا من پسند مشغلہ ہے۔۔۔ ہماری جانب سے ایک ایسی فاش غلطی ہوگی کہ ہمارا کام عشروں کے حساب سے پیچھے جاسکتا ہے اور ’’رُو بہ زوال امریکہ‘‘ کو اسی حساب سے وقت مل سکتا ہے۔
حالیہ مرحلے کی اس نزاکت کو اگر ہم سمجھ لیتے ہیں تو پھر امریکی قبضہ کار اپنا کام بڑھائیں تو پھنستے ہیں اور نہ بڑھائیں تو مار کھاتے ہیں۔ ایک ایسے دشمن کی کوئی مدد بھلا ہم کیوں کریں جس کے پاس بھاگ جانے کے سوا کوئی آپشن باقی ہی نہیں رہ گیا ہے؟! اس کے، خطے سے نکلتے ہی، البتہ ہمارے آپشن اس قدر زیادہ اور اس قدر زبردست ہوں گے کہ معاملے کی ساری تصویر ہی بدلی جاسکتی ہے۔۔۔
بس ذرا صبر۔۔۔!
وقت ہے کہ دشمن کی غلطیوں سے اس وقت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے، جس کے لیے البتہ یہ ضروری ہے کہ خود ان غلطیوں سے اجتناب کیا جائے جو دشمن اس وقت ہم سے کرانا چاہتا ہے!کچھ بھی ہو، ہم اگر اپنی صفیں درست کرلینے کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں اور صبر و دانشمندی کا دامن پکڑ رکھتے ہیں، تو آنے والے دن شدید تشویشناک ہونے کے باوجود خوش آئند ہیں، اور کیا بعید بہت سے بند راستے اس امت کی پیش قدمی کے لیے یہیں سے کھلنے والے ہوں:
وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ (البقرۃ:۲۱۶) ’’اور کیا بعید تم کسی چیز کو ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے خیر ہو، اور کیا بعید تم کسی چیز کو پسند کرو جبکہ وہ تمہارے لئے شر ہو‘‘
حقیقت پسندی کا پورا التزام کرنے کے ساتھ ساتھ، معاملہ کی ایک خوش آئند تصویر دیکھنا، ہمارے نوجوانوں اور عمل کیلئے سرگرم حلقوں کا حق ہے اور اندریں حالات امت کی ایک بہت بڑی ضرورت۔زیر نظر کتابچہ یہی تصویر دکھانے کی ایک کوشش ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں: اس امید افزا تصویر کو اپنے ماضی اور مستقبل کے وسیع تر فریم میں جڑ کر دیکھنے کی ایک کوشش۔
لال مسجد سے شروع کرایا جانے والا سلسلہ :
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ’لال مسجد‘ میں جو کچھ اسٹیج کیا گیا __ اور جس میں بلاشبہہ خونِ مسلم کی ایک بڑی ہولی کھیلی گئی __ اور اس کے متصل بعد شمالی و قبائلی علاقہ جات میں حالات و واقعات کا جو ایک سلسلہ چل نکلا ہے، بیرونی حملہ آوروں کی طرف سے یہ ’لائف سپورٹ‘ لینے کی ایک کوشش ہے۔یہ ایک ایسے مریض کو بچانے کی ہنگامی کوشش ہے جو آخری دموں پہ پہنچ چکا ہو، البتہ اگر اسے چند سانسیں ایک بار دلا دی جائیں تو امکان ہو کہ معاملہ شاید کچھ سنبھل جائے اور پھر کچھ نگہداشت کے نتیجے میں وہ پوری طرح پاؤں پر کھڑا ہو جائے.. جبکہ دنیا امید پر زندہ ہے!
اس سے پہلے عراق میں اس بات کا تجربہ کیا جا چکا ہے کہ مجاہدین کے محاذ بڑھا دیے جائیں تاکہ ان کے عمل کی وہ ترکیز جو وہ اپنی ہر چوٹ ایک ہی محاذ پر لگانے کی صورت میں کر رہے تھے اپنی شدت ضرور کھو دے.. جس سے فائدہ اٹھا کر بیرونی حملہ آور کم از کم ایک بار سنبھل جانے کا موقعہ پا لیں اور اپنے کارڈ کچھ زیادہ بہتر انداز میں کھیلنے کی پوزیشن میں آئیں۔ رافضیوں کی بابت خواہ جو بھی کہہ لیا جائے، لیکن ان کے ساتھ اہلسنت کا محاذ کھل جانا، خواہ اس کے جو بھی اسباب ہوں، اہلسنت کے عمل کو کوتاہ کردینے کا باعث بنا اور بیرونی قبضہ کاروں کو پیر جمانے کے کچھ نہ کچھ مواقع دے گیا۔
عراق میں مسلمانوں کی ترکیزِ عمل ختم کرانے کی یہی صورت تھی جس پر بیرونی قوتوں کی جانب سے بھر پور کام ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں جہاں بیرونی قبضہ کار بیٹھے ہیں اور جن کی تمام تر توجہ حالیہ دنوں میں اس بات پر ہے کہ پاکستان میں کارروائیوں کی کوئی صورت نکالی جائے.. اور جوکہ پچھلے چھ سال سے جاری جہادی عمل سے، جوکہ مغربی ذرائع ابلاغ کے خیال میں پاکستان سے غذا پا رہا ہے، بے انتہا زک اٹھا چکے ہیں.. ان کے پاس اس کی کیا صورت ہے کہ یہاں مجاہدین کو کئی محاذوں پر تقسیم کردیا جائے؟
ہم سمجھتے ہیں لال مسجد کا خونیں واقعہ کرکے دراصل ایسے ہی ایک سلسلے کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے۔جہادی عمل کو یہاں بھی اس جال میں ہرگز نہیں آنا چاہیے کہ وہ اپنے محاذ بڑھ جانے کی اجازت دے۔ مجاہدین جس محاذ پر پچھلے چھ سال سے لگاتار چوٹ لگا رہے ہیں اس سے اگر ان کی توجہ پھر جاتی ہے تو یہ ایک کام کو بہت پیچھے لے جانے کے مترادف ہوگا بلکہ دشمن سنبھل کر اپنی اس پہلی پوزیشن پر واپس بھی جا سکتا ہے جو اسے ابتدا کے اندر حاصل تھی، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ اگر مجاہدین ڈٹے رہتے ہیں تو ان کا دشمن اس محاذ سے بھاگ جانے کے بے حد قریب پہنچ چکا ہے۔
امریکیوں کے لیے اس سے مثالی صورت آخر کیا ہوسکتی ہے کہ مجاہدین کو مارنے کا ’فرض‘ امریکیوں کی بجائے پاکستانی فوج اور پیراملٹری فورسز ادا کریں اور امریکیوں کو اس منظر سے محظوظ ہونے دیں۔ اور اس کے جواب میں مجاہدین کو بھی اگر قتال کرنا ہے تو اس کا رخ امریکی افواج کی بجائے پاکستانی افواج ہو جائیں۔ یوں دونوں جانب سے امریکیوں کی جان چھوٹی، پاکستانی فوج اگر مجاہدین کو مارتی ہے تو یہ تو امریکیوں کی نظر میں کیا ہی اچھا ہے اور اگر مجاہدین بھی پاکستانی فوج کو مارتے ہیں تو بھی یہ امریکیوں کی نظر میں اس سے تو کہیں اچھا ہے کہ مجاہدین کی وہی گولیاں امریکی فوج کو لگتیں! یعنی اگر مارنے اور مرنے والے ہر دو صورت میں امریکیوں کے علاوہ کوئی ہوں، البتہ خطہ میں ان کی موجودگی پوری طرح برقرا ر رہے، تو اس سے بہتر ان کے لیے کیا صورتحال ہوسکتی ہے؟!
بلاشبہ پاکستانی حکمرانوں نے یہ صورتحال پیدا ہوجانے میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اسلامی مفاد کے تحفظ کی توقع ہمیں صرف مجاہدین سے ہی ہوسکتی ہے نہ کہ پاکستانی حکمرانوں سے۔ اس وقت جس درجہ کا صبر و برداشت اور ہوشمندی ضروری ہے بلاشبہ وہ ایک غیر معمولی حوصلہ چاہتا ہے مگر اس کے سوا اس وقت کوئی چارہ نہیں کہ ایسے کسی جال میں نہ آیا جائے جس کو پھینک کر یہ مجاہدین کے محاذ بڑھا دینا چاہتے ہیں۔ وہ خوشخبری جو عالم اسلام کو ان کے جہاد کے نتیجے میں ان شاء اللہ عنقریب ملنے والی ہے اسی بات میں مضمر ہے کہ ان کی یہ محنت ترکیزِ عمل سے محروم نہ ہونے دی جائے۔
اسلام کے فدائیوں کے لیے صورت حال کو کتنا بھی طیش آور کیوں نہ بنادیا جائے، امریکہ کو وہ چیز اس وقت کسی قیمت پر نہ دی جائے ، جو وہ اس صورت حال کو پیدا کرکے حاصل کرنا چاہتا ہے، یعنی یہ کہ مجاہدین بعض مسلمان ملکوں کے اندرونی محاذوں پر الجھ پڑیں، جس سے اس پورے منظر نامے کو ہی امریکہ کے حق میں ایک پلٹا دلوا دیا جائے۔ یہ تجزیہ چاہے لاکھ درست ہو کہ آنے والے دن اسلام کے حق میں بے حد سازگار ہیں،غیر دانشمندانہ اقدامات کی قیمت ہمیں بہرحال ادا کرنا پڑے گی اور ان کے باعث ہمارا عمل موخر بھی بہرحال ہوگا، اور کیا بعید معطل بھی ہورہے اور تب یہ ضروری ہوجائے کہ کئی عشروں کے عمل سے کچھ اور لوگ ہمارے مابین قیادت کا خلا پر کرنے کے لیے آگے آئیں اور اپنی اس ناؤ کو پار لگانے میں تب وہ اس مطلوبہ فہم وفراست کا مظاہرہ کریں جس سے حالیہ قیادتیں قاصر رہیں.. امکان اس بات کا بھی بہر حال ہے۔
بے شک امریکی قبضہ کار افغانستان میں زچ ہوچکے ہیں، عین اسی طرح جس طرح یہ عراق کے اندر روہانسے ہوچکے ہیں۔ اس لحاظ سے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ شاید امریکہ اب خطے میں کوئی اور مہم جوئی کرنے کا متحمل نہیں رہ گیا ہے اور یہ کہ جس پروگرام پر امریکہ خطے میں آیا تھا یعنی یہ کہ افغانستان کو لے لینے کے بعد وہ پاکستان کے اندر ’اسلامی خطرہ‘ کے خاتمہ کے مشن پر روانہ ہوگا اور عراق پر قبضہ کے بعد وہ عرب ممالک کے اندر تیزی سے بڑھنے والے ’اسلامی خطرے‘ کو نابود کرنے کے لیے فوجی کارروائیاں کرے گا اور یہ کہ پاکستان تا عالم عرب اب وہ ہر جگہ اپنی مرضی کا سیاسی اور تہذیبی انتظام کروائے گا، جس میں یہاں کی حکومتوں اور قوم پرستوں سمیت ہر کسی کو اس کے ساتھ ’سیدھا‘ ہوکر چلنا پڑے گا، کیونکہ ’ناں‘ سننے کی اس کے پاس اس بار گنجائش ہی نہیں تھی بلکہ واضح کردیا گیا تھا کہ ’ناں‘ کہنے والا سیدھا ’پتھر‘ کے دور میں پہنچایا جائے گا!.. اپنے اس مشن کے پہلے ہی مرحلے میں، یعنی افغانستان اور عراق کے اندر، ناکام ہوجانے کے بعد، امریکہ اگلے کسی مرحلے پر روانہ نہیں ہوگا۔
مگر ہم سمجھتے ہیں یہ تجزیہ کچھ بہت صحیح نہیں۔بے شک اگلے مرحلوں پر وہ اس طرح روانہ نہیں ہوگا جس طرح ابتدائی طور پر اس کا پروگرام تھا مگر یہ بعید از قیاس ہے کہ اس ’اسلامی خطرے‘ کو کوئی بھی نقصان پہنچائے بغیر وہ واپس چلا جائے گا، خصوصاً جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی نظر میں اس کی اپنی جو صلاحیت مشکوک ہوئی ہے وہ صرف یہ کہ امریکہ کے لیے کسی ملک پر فوجی کنٹرول قائم رکھنا آسان نہیں (یا تو اس کے پاس ’برطانیہ عظمیٰ‘ جیسی صلاحیت نہیں کہ قوموں پر اپنا ایک طویل اقتدار قائم کرلے اور یا پھر، جو کہ صحیح تر ہے، قوموں پر کنٹرول رکھنے کا زمانہ لد گیا ہے!) البتہ یہ کہ امریکہ کسی کا کچھ بگاڑ لینے سے ہی قاصر ہوگیا ہے اور یہ کہ خطے کے اندر پائے جانے والے ’اسلامی خطرے‘ کا یہ کوئی بھی نقصان نہیں کرسکتا یا یہ کہ اپنے مقاصد کے ممکنہ حصول کے لیے یہ اور بہت سی شیطانی چالیں نہیں چل سکتا، یہ بات بہرحال درست نہیں۔ پھر خاص طور پر جبکہ پچھلے کئی سالوں سے یہاں مار کھاتے ہوئے وہ یہ بھی نظر میں کرچکا ہے کہ اس جہادی عمل کو خوراک کہاں کہاں سے مل رہی ہے اور فکری و نظریاتی طور پر اس کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں اور کہاں کہاں سے مستقبل میں بھی ایسے ’خطرات‘ ابل سکتے ہیں (کیونکہ ہم نہیں تو وہ جانتے ہیں کہ اسلام اور ’ملتِ روم‘ کا یہ معاملہ کوئی سالوں اور عشروں کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے لہٰذا اس کے لیے اتنا ہی لمبا چلنا ضروری ہے!)
پس امریکہ خطے سے واپس جاتا ہے یا مار کھانے کے لیے ابھی کچھ دیر اور یہاں رہتا ہے، یہ طے ہے کہ وہ ایک بِس گھولنے والے سانپ کی طرح یہاں ہمارا ایک بھاری بھر کم نقصان کردینے کی ہر ممکن کوشش کرے گا، جس کے اس کو مواقع نہ دینے کی ہر ممکن کوشش ہمیں بہرحال کرنی ہے۔
جو خدشہ اس وقت نظر آرہا ہے وہ یہ کہ عالم اسلام کے دو ملکوں کی باری کسی نہ کسی انداز میں عنقریب آنے والی ہے: ایک پاکستان اور دوسرا شام۔کیونکہ دونوں ’ان‘ کی نظر میں ’’ارضِ رباط‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں افغانستان میں ان کے پیر جمانے کے لیے یہ بات لازمی ہو گئی ہے کہ پاکستان کے اندر جہاد کے خیر خواہوں کو اپنی ہی بپتا پڑ جائے، اس کے بعد افغانستان میں جہاد سے نمٹنا ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ رہے گا، جبکہ شام Syria جہاد کے دو اہم ترین محاذوں کی جانب قافلہ ہائے مجاہدین کی گزرگاہ بن چکا ہے، ایک عراق اور دوسرا فلسطین، جہاد کے یہ دونوں عرب محاذ ان کی رائے میں ارضِ شام سے تقویت پاتے ہیں۔ لہٰذا ان دو سرزمینوں کو اور ان کے جہاد دوست باشندوں کو ناکارہ کرکے رکھ دیا جانا، ان کے مالی سوتوں کو خشک کر کے رکھ دیا جانا، اور عین یہاں پر ہی جہاد کے پشت بانوں کو بری طرح الجھا کر رکھ دیا جانا ان کے خیال میں ناگزیر ہوگیا ہے۔
(جہاد کے ’مالی سوتوں‘ کے حوالے سے، خدشہ ہے کہ ’سعودیہ‘ کی بھی بہت جلد باری آجائے)
اس عمل سے وہ دو فائدے لیں گے:
ایک یہ کہ مجاہدین کے محاذ بڑھ جائیں اور وہ ترکیزِ عمل سے محروم ہو جائیں خصوصاً وہ ترکیزِ عمل جس کا اصل محل ہیں ہی امریکی افواج اور جس کی سب چوٹ پڑتی ہی ان کے سروں پر ہے، اور جہاں پر مجاہدین کی کامیابیوں کی ہر کوئی گواہی دے چکا ہے۔
دوسرا یہ کہ مجاہدین کی کمک کی راہیں تباہ اور کمک کے مصدر تتر بتر کرکے رکھ دیے جائیں۔
ضروری نہیں یہ ایک باقاعدہ فوجی قبضہ ہو کیونکہ، جیسا ہم نے کہا، فوجی قبضہ کا تجربہ مزید شاید اب نہ کیا جائے، البتہ ایک شدید تباہی اور ایک بدترین انارکی لانے کی کئی اور صورتیں زبردست طور پر آزمائی جائیں گی۔ان کارروائیوں کی جو بھی صورتیں ہوں، ان میں دو باتوں کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی:
1. ) یہ کہ ان سب طبقوں کو شدید طور پر الجھا دیا جائے جو جہاد کی خیر خواہی اور نصرت کے ’جرم‘ میں کسی نہ کسی انداز میں یہاں شریک رہے ہیں اور جن سے مستقبل میں اس سے بھی کسی بڑی سطح پر جہاد کی پشت بانی کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ ان جہاد دوست طبقوں کو اس حد تک اپنی پڑ جائے کہ یہ ’پڑوس‘ میں ہونے والے جہاد کے لیے زیادہ سے زیادہ ’اچھے جذبات‘ ہی رکھ سکیں مگر عملاً اس کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ یوں پہلے جہاد کو عملاً تنہا کردیا جائے اور پھر اس سے تسلی کے ساتھ نمٹا جائے۔ یا یوں کہئے مجاہدین اور مجاہدین کے نصرت کنندگان، دونوں کو الگ الگ کرکے اور مختلف محاذوں میں بانٹ کر مارا جائے۔
2. ) یہ کہ ان ’نئے‘ محاذوں پر امریکی خود سامنے نہ آئیں بلکہ مکر و تدبیر سے کام لے کر اس کے لیے اور قوتوں کو آگے کریں۔ یہ مقامی قوتیں ہوں، آس پڑوس کی کچھ حکومتیں ہوں، سب ممکن ہے۔ پاکستانی فوج کو زیادہ سے زیادہ اس اندرون ملک مرنے مارنے کی راہ پر ڈالا جائے۔ عرب حکومتوں اور افواج کو عین یہی راہ دکھائی جائے۔ ساتھ میں، انڈیا کو پاکستان وافغانستان میں اور اسرائیل اور ایران کو عرب خطوں میں الگ سے کچھ اہداف مل سکتے ہیں۔ غرض ایک بار یہ انتظام کرلیا جائے کہ مرنے اور مارنے والے دونوں ’امریکی‘ نہ ہوں (مارنے والے امریکی ہوں بھی تو بہت پیچھے رہ کر!) تو پھر عالم اسلام کے ایسے کئی خطوں میں جنگ کی آگ بھڑکا دی جائے جہاں ’اسلامی خطرہ‘ مزید پختہ matureہو رہا ہے۔ امریکہ کے لیے کوئی آبرومندانہ راستہ اس بند گلی کو پہنچ لینے کے بعد نکل سکتا ہے تو اس کی اب یہی صورت ہے۔ یعنی اس وقت جاری جہاد بھی بے دست و پا ہوا اور ’مستقبل کے چیلنج‘ کو بھی بڑا ہونے سے روک دیا گیا!
اس دوران وہ اپنی قوموں کو ذرا اور جگا لیں، جو ابھی تک ’جنگ مخالف ریلیوں‘ پر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ’حالات کی نزاکت‘ کو سمجھ ہی نہیں پا رہیں! علاوہ ازیں، امریکی انتظامیہ یہ ثابت کرلے کہ وہ کتنے بڑے خطرے کے پیش نظر یہاں آکر بیٹھ گئی تھی۔ اس کے بعد، وقت آنے پر دیکھا جائے گا کہ مغرب مستقل بنیادوں پر یہاں کیا پالیسی اختیار کرے!
اس تناظر میں، آنے والے دنوں کے اندر جو ’بہت کچھ‘ ہونے والا ہے عالم اسلام کے جنوب مشرقی محاذ پر اس کا ’امیدوار‘ خطہ پاکستان ہے اور مغربی محاذ پر شام اور سعودیہ۔البتہ صبر و حوصلہ اور سمجھداری سے کام لیا جائے تو اللہ کے فضل سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وار خالی جائے۔ امید ہے ’امیریکن ایمپائر‘ کے ترکش میں اب بہت تیر نہیں رہ گئے!
یہاں کی اسلامی قوتیں اس کے اس جال میں اگر نہیں آتیں اور اپنے کچھ مخلص جذباتی عناصر کو قابو میں رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو بہت امید ہے دشمن کی یہ تدبیر سرے نہیں چڑھے گی۔ اسلامی قوتوں کے ہاں اس بات کا ادراک اگر قوت پکڑ لیتا ہے کہ ان کو کسی قیمت پر اس وقت اپنے محاذ نہیں بڑھانے، تو بہت ممکن ہے ’را‘، (سابقہ) ’خاد‘ اور ’موساد‘ وغیرہ بھی یہاں برہنہ ہو کر رہ جائیں او ر موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے معاملہ میں ان کی اکثر چالیں ناکام جائیں۔ خدشہ یہ ہے کہ بغضِ اسلام سے بھری بعض عالمی ایجنسیاں مکر و حیلہ سے کام لے کر ہمارے کچھ سطحی وجذباتی طبقوں کے ہاں کچھ ایسی نرم و گداز زمین پانے میں کامیاب ہو جائیں کہ جہاں پیر رکھ کر یہ ہمارے مابین اپنے مفادات کی خاصی جگہ بنا لیں بلکہ ایک بے یقینی کی کیفییت پیدا کرکے اور واقعات کا ایک ایسا ’تسلسل‘ پیدا کرکے جس میں پھر واپسی کی راہیں مشکل ہو جائیں اور اس کے ساتھ چلتے جانا پھر ہر کسی کی ’مجبوری‘ سی بن جائے، یہ ہمیں کوئی بھاری زک پہنچا لیں۔صبر، ہوشمندی اور اہل علم و بصیرت سے رجوع کے سوا ہرگز کوئی چارہ نہیں۔
(اِس مضمون کا مواد سہ ماہی ایقاظ میں آج سے دس سال پہلے شائع ہوا تھا، شمارہ اکتوبر 2007۔)