دنیا میں میڈیا کی لائن سے کی گئی ایک بھرپور محنت کے ذریعے یہ ذہن بنایا گیا ہے کہ انتہاء پسندی اور اسلام لازم ملزوم ہیں، اسلام کی شاید تعلیمات ہی ایسی ہیں کہ مذہبی مسلمان انتہاء پسند ہوتے ہیں ۔ اس کے لیے وہی پرانا طریقہ اختیار کیا گیا کہ اسلام کی باقی تمام تعلیمات اور مسلمانوں کی تمام خوبیاں چھوڑ کر صرف انکی ظلم کے خلاف اور اپنے حق کے لیے اٹھنے والی تلوار دکھائی جاتی ہے، عالم اسلام پر پر مغربی یلغار اور مظالم سے توجہ ہٹا کر جہاں کہیں مسلمان مزاحمت کررہے ہوں اسکو بھرپور فوکس کیا جاتا ہے اور ہر ہر اینگلز سے دکھا کے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ گویا ان علاقوں میں یورپی و امریکی فوجی تو امن قائم کرنے گئے ہوئے ہیں اور مسلمان وہ وحشی ہیں جو بلا کسی وجہ کے بستیوں میں قتل و غارت کرتے پھررہے ہیں ، انہوں نے دنیا کا امن تباہ کیا ہوا ہے۔۔!!اس بھرپور پراپیگنڈے کے نتیجے میں ہونے والی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم معاشروں میں بھی داڑھی، پردہ، جہاد ، مدارس کو دہشت گردی کا حصہ سمجھا جارہا ہے اور ان کے بارے میں سخت الفاظ اور طعنے سننے کو ملتے رہتے ہیں ۔
کیا تشدت پسندی واقعی مسلمانوں کی میراث ہے ؟ کیا تشدد” خاص دینی طبقوں کے یہاں ہی پایا جاتا ہے؟ مسلمانوں پر تشدد پسندی کا جو الزام لگایا جاتا ہے اس میں کتنی حقیقت ہے؟ اگر کہیں مسلم علاقوں میں انتہاء پسندی کی لہر نظر آتی ہے اسکے پیچھے محرکات کیا ہے؟ دنیا میں وہ کونسی قوم ہے جسے تشدد اور ظلم ورثے میں ملا ہے اور وہ اسکی اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں ؟ تشدد ، لوٹ مار جس کی نفسیات میں شامل ہے اور اسی کی وجہ سے آج بھی دنیا کا امن خطرے میں ہے لیکن وہ آج جدید تہذیب کے بانی اور دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا بھرم رکھے قائم ہوئے ہیں ایسے بہت سے اہم سوالات کے جواب عرب کے ایک مشہور عالم اور دانشور شیخ سفر الحوالی نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں دے ،اِس ٹی وی مذاکرے میں بہت سے نہایت اہم نکات سامنے آئے جوکہ اِس موضوع اور اِس صورتحال کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید اور تشفی بخش ہیں۔ ان کی افادیت کے پیش نظر پیج پر اس کا اردو استفادہ قسط وار پیش کیا جائے گا ۔ ایڈمن
٭٭٭
٭مغربی اقوام – تشدد کی تاریخ
مغربی طاقتوں کے ظلم اور جبر کے پیچھے انکی ایک تاریخ اور نفسیات ہے اسکو سمجھنا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ زمانہ قدیم سے ہی دنیا مغربی اقوام کے ہاں دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ایک رومنز Romans اور دوسرا Barbarians یعنی غیر مہذب اقوام! سب فتوحات اِسی برتے پر ہوئیں اور سب جنگیں اِسی پندار کے ساتھ لڑی گئیں۔
بعد ازاں جب کلیسا میدان میں آتا ہے تو یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک “رومن” اور اوپر سے “چرچ”! اِس دور میں جس بری طرح خلق خدا کی زندگی اجیرن کی جاتی ہے اُس کی شاید ہی کہیں مثال ملتی ہو۔ ایسا ایسا “تشدد” ہوتا ہے جس کا انسان سوچ تک نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ پورا جہان اس سے تنگ آجاتا ہے اور انسانی صبر کی بس ہو جاتی ہے۔ آخر “یورپی انسان” اِس کلیسا سے اور اس کی لٹھ بردار کلرجی سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اتنا بھاگتا ہے کہ “دین” کو اور “خدا” کو ہی چھوڑ جاتا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مغربی معاشروں کا ‘مذہب’ سے بھاگ کر ‘سیکولرزم’ میں پناہ لینا اسی کلیسائی ظلم و طغیان اور تشدد و جبر کا نتیجہ تھا، کیونکہ ایسے ظلم اور جبر کی مثال ادیان کے اندر ملنا مشکل ہے۔
چنانچہ مغرب کی یہ اندرونی ہسٹری کچھ ایسے دکھتے زخموں اور غیر معمولی ناہمواریوں کا مجموعہ ہے اور ایک ایسی سختی اور کرختی کی کہانی ہے کہ باہر کا شخص بڑی دیر تک اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ اب مثال کے طور پر ہماری اسلامی تہذیب کے بھی کچھ ادوار ایسے رہے ہیں کہ ہمیں بعض داخلی جنگوں اور باہمی دشمنیوں سے سابقہ پڑتا رہا ہے۔ ہماری اسلامی تاریخ میں بھی بعض فرقے اور دھڑے ایسے پائے گئے ہیں جو آپس میں جنگ و خون ریزی تک چلے جاتے رہے ہیں لیکن وہ کسی علاقے اور زمانے تک محدود تھے ۔ انکے ہاں ایسا نہیں تھا ، یورپی اور کلیسائی تہذیب کی تاریخ اگر آپ کے سامنے ہو تو ہمارے بعض فرقوں کی جنگیں اُن کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس بڑی سطح پر عبادت خانوں کو نذرِ آتش کرنے اور اس بڑی تعداد میں راہبوں اور راہباؤں کو زندہ جلا ڈالنے کے واقعات کا ہمارے ہاں تصور تک نہیں کیا جا سکتا جو یورپ کے ‘مذہبی’ ادوار کے اندر بکثرت ہوتا رہا ہے۔ وہاں ایسا ایسا انسانی تصادم ہوا ہے کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
“تشدد” کا یہ صدیوں پر محیط سلسلہ ہے جس سے یورپ گزرا ہے۔ کیتھولک اور پراٹسٹنٹ کے مابین عداوت کی آگ کو بھڑکانے کے پیچھے ایسے کئی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ ظلم سے گزرتے ہوئے، عام طور پر آدمی کے اپنے یہاں ایک نفسیات جنم لیتی ہے اور موقعہ ملنے پر اُس کو پہلے ظالم سے بڑا ظالم بنا دیتی ہے؛ سوائے یہ کہ اس نے خدا کے خوف پر تربیت پا رکھی ہو۔ پراٹسٹنٹ کو کیتھولک کے بے پناہ ظلم و تشدد کا سامنا رہا ہے اور وہ کیتھولک کلیسا کی تفتیشی عدالتوں Aquisition Courts کی چکی میں بری طرح پستے رہے ہیں۔ لیکن بعد ازاں پراٹسٹنٹ کو جب بھی موقعہ ملا، انہوں نے کیتھولک کو سیر کا سوا سیر ہی دیا!باوجو اس کے کہ…. پراٹسٹنٹ “دین” کی تجدید کرنے کیلئے میدان میں آئے تھے!”اختلاف” کو ہرگز نہ سہنے اور “مخالف” کو پیس کر رکھ دینے اور وجود سے ختم کر ڈالنے کی نفسیات نے بڑی دیر تک ان اقوام کے ہاں گھر کئے رکھا ہے۔
اس کے بعد انقلابِ فرانس : “تشدد” violence اور “دہشت” terror کی تاریخ بیان کرنے والا شاید ہی کوئی مؤرخ ہو جو اِس خونیں عمل بلکہ ایک طویل خونیں سلسلہ کی اِس ہولناک شروعات کا ذکر کئے بغیر گزر جاتا ہو۔ دہشت گردی کے اپنے اِس ماڈرن مفہوم کے روح رواں انقلابِ فرانس کے جیکوبین کلب Jacobian Club تھے ۔ انسائیکلوپیڈیا میں اس ماڈریٹ’ کلب کیلئے لفظ ہی Reign of Terror چلتا ہے۔جدید دور میں “ٹیرر” کی باقاعدہ تاریخ شروع کی جاتی ہے تو یہیں سے۔ یہاں تک کہ سیاست کے میدان میں “دہشت” اور “جرم” کا تعلق بیان کرنے والے سماجی تحقیق نگار بھی (انقلابِ فرانس والے) اِس چیپٹر کو اپنے مطالعہ کی بنیاد بنائے بغیر آگے نہیں گزرتے۔
پھر ‘تھرڈ ورلڈ’ کو فتح کرنے کا زمانہ آ جاتا ہے؛ جس میں دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ مغرب کا مفتوح اور غلام ہو جاتا ہے اور مغرب ان اقوام کو دبا کر رکھنا، ان سے بیگار لینا، اور ان کے وسائل کو ہضم کر جانا اپنا پیدائشی حق جانتا ہے اور اپنا باقاعدہ تہذیبی امتیاز! وہی نسلی برتری، وہی دوسرے کی چیز پر ‘اپنا’ حق جاننا، اور اس کو بزور اور قوت لے لینا اور اس مقصد کیلئے دوسرے کے خلاف ہر قسم کی کارروائی نہ صرف جائز بلکہ فرض کر لینا…. اِس عالمی استعماری پیش قدمی کے پیچھے برہنہ ہو کر بول رہی تھی۔
“سامراج” جیسی بلا کے ساتھ انسانیت کو اس سے پہلے بھلا کب واسطہ پڑا تھا؟
(جاری ہے)