جہاد ایک اجتماعی عمل ہے نہ کہ انفرادی فریضہ۔ یہ ’فرد‘ پر واجب ضرور ہے مگر ایک ’اجتماعی صورت‘ میں ہی۔ الامام جنة یقاتل من ورائه ( امام ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر ہی قتال کیا جاتا ہے “ حدیث بروایت ابو ہریرہ ، صحیح بخاری: کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراءالامام ویتقیٰ به) اصل یہی ہے کہ امت ایک ’امام‘ (مستحکم قیادت consolidated power ) رکھے جو ’شوریٰ ‘کے سب شرعی تقاضے پورا کرتے ہوئے امت کے حق میں کسی بھی موقعہ پر ایک بہترین اقدام کرے۔ کسی محاذ کا کھولنا یا نہ کھولنا اسی کے فیصلے سے طے ہو اور کوئی بھی اقدام جو پوری امت کو یا امت کے ایک پورے خطے کو متاثر کردینے کے مضمرات کا حامل ہو، کسی ایک فرد یا ٹولے کی صوابدید نہ ہو۔البتہ ’امام‘ (خلیفہ) کسی وقت موجود نہ ہو، مگر ’خِطوں کے امراء‘ پائے جاتے ہوں تو امت کے معتمد اہل علم کا یہ تعامل رہا ہے کہ ایسے اجتماعی فیصلوں کا اختیار وہ ’خطوں کے امراء‘ کو دیتے رہے ہیں اور عوام المسلمین کو انہی کا پابند رکھتے رہے ہیں۔کیونکہ امت پر ایسے دور بہر حال آتے رہے ہیں جب امام (خلیفہ) موجودنہ ہو یا پھر خلیفہ اپنے اثر و نفوذ اور تاثیرِ فیصلہ کے معاملہ میں برائے نام حیثیت رکھتا ہو، جبکہ تحفظِ اراضی کے معاملہ میں امت کے مصالح، خلیفہ کے وجود میں آنے یا قوت پانے تک، معطل نہ رکھے جاسکتے تھے (وہ لوگ البتہ قابل ترس ہیں جو مسلمانوں کے گھروں کے تحفظ کیلئے ”خلیفہ“ کے پائے جانے کی ’شرط‘ لگاتے ہیں!)
آج جب نہ تو یہاں خلافت ہے اور نہ ’خطوں کے امراء‘ جو کوئی شرعی اعتبار رکھتے ہوں، جبکہ مصالحِ امت کی تعطیل آج بھی ممکن نہیں، ایسے اجتماعی نوعیت کے فیصلے کرنے کا اختیار کسی کے پاس رہ گیا ہے تو وہ امت کی ”علمی قیادت“ ہے۔ اور ان فیصلوں اور فتووں کی بنیاد پر، کہیں پر قتال کی عملی صورت درست ہے تو وہ وقت کی منظم اہلسنت قوتیں ہیں جن کو عمومی طور پر علمائے اہلسنت کا اعتبار حاصل ہو۔پس امت کے اعلیٰ سطح کے علماءاور اہل الرائے ہی، ایک بڑی تعداد میں، جب کسی خطے کے اندر مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے کی ہدایت کریں اور اس پر باقاعدہ ”فتاویٰ“ جاری کریں، جس پر کہ کبھی ممکن نہیں کہ امت کے دیندار طبقے یک آواز نہ ہو جائیں، تب اور صرف تب یہ جائز ہوگا کہ وہاں قتل و قتال اور ’خون‘ بہنے کا عمل شروع ہو۔ بصورتِ دیگر ایک ’خون‘ کا نا حق بہہ جانا بھی گناہِ عظیم ہے، چاہے ’آدمی‘ کتنا ہی یہ سمجھے کہ کسی جگہ جہاد ’واجب‘ ہوچکا ہے۔
ہر شخص پر واضح ہو کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر ایک ’خون‘ کی بابت جواب دینا بھی کسی کیلئے آسان نہ ہوگا، کجا یہ کہ کسی کے غیر ذمہ دارانہ اقدام سے امت کے ہزاروں مخلص نفوس جنگ میں جھونک دیئے جائیں، ہزاروں کے حساب سے خون بہیں، لاکھوں بے گھر، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ و بے آسرا ہوں اور نسلوں کی نسلیں ہجرت کی سختیاں جھیلیں اورصلیبی ’این جی اوز‘ کی دست نگر، ’خیمہ بستیوں‘ میں پل کر جوان ہوں۔
”اسلام کی عظمت“ بلا شبہہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے آگے یہ سب ہیچ ہے، ’خون‘ بھی اسی کے لئے ہیں، ہمارے بچے بھی اسلام کے ہیں، عورتیں بھی اسی کی امانت، گھر بھی اس پر قربان، قومیں اور ملک بھی، اور خود ہمارے اپنے نفوس بھی، اور جس وقت یہ سب کچھ دے ڈالنا ناگزیر ہو تو ’لبیک‘ کے سوا کوئی بھی وتیرہ کسی مسلمان فرد یا قوم کو سزاوار نہیں۔ مگر ’اسلام کی جانب سے‘ on behalf of Islam کون لوگوں سے اس متاعِ گراں مایہ کا تقاضا اور اس کے مصرف کا تعین کرے اور خدا کے سامنے جاکر اس کے لئے جوابدہ ہو؟ سوال اصل میں یہ ہے۔ اسلام کے اندر یہ ایک باقاعدہ منصب ہے اور درجہ بدرجہ اوپر سے نیچے تک آتا اور ایک منصبدار کے بعد یا اس کی غیر موجودگی میں دوسرے کی جانب منتقل ہوتا ہے۔کسی ’غیر عالم‘ کا حدیث یا فقہ کی کوئی کتاب کھول کر یا کوئی ایک آدھ ’کتابچہ‘ پڑھ کر اور اس کی دلیلوں سے متاثر ہوکر کہیں پر ’مشروعیتِ جہاد‘ کا فتویٰ دے ڈالنا ہرگز ہمارے دین میں کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ ’غیر عالم‘ کا کام محض اتباع ہے نہ کہ افتاءاور ارشاد۔
حتیٰ کہ آدمی اگر عالم بھی ہو، ایسا فیصلہ جو نسلوں کو متاثر کرنے والا ہو اور ہزاروں ارواح اور نفوس اس کی زد میں آسکتے ہوں، اور بلا شبہہ کہیں پر جہاد شروع کرا دینا ایک ایسا ہی دور رس اور اجتماعی فیصلہ ہے، تو اِس امر کیلئے کسی ایک آدھ عالم کا فتویٰ پھر بھی کافی نہیں۔ اس کیلئے علماءکا ایک جمعِ غفیر چاہیے،جن کے فتویٰ پر امت کے اہل دین طبقے یک آواز ہو سکتے ہوں اور وہ اپنی تاثیر میں اس بات کی ضمانت ہو کہ کسی محاذ کی بابت امت اپنی رائے میں منقسم و متنازع نہ ہو۔ کیونکہ ایک ایسا محاذ جو امت کے اہلِ دین طبقوں میں نزاعی بن گیا ہو، وہ دشمن کو ایک کاری وار کر دینے کا ایک زبر دست موقعہ فراہم کرتا ہے، بلکہ بعید نہیں دشمن اس خطرناک رخنہ کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کی صف پھاڑ کر رکھ دے اور ان کو ایک شدید حالتِ انتشار کے اندر جھونک دے، جس کے نتیجے میں امت کا ایک بھاری نقصان ہونا اسٹریٹیجی کے حساب سے یقینی ہے، علاوہ ان نقصانات کے جن کا اوپر ذکر ہوا، یعنی جانوں کاضیاع، وسائل کا اجاڑا، گھروں کی تباہی اور نسلوں کی ویرانگی۔
٭ کسی نظام کا کفر یا طاغوت ہونا اس بات کو لازم نہیں کہ اگلے لمحے اس کے خلاف مسلح جہاد کا اعلان کردیا جائے:
کوئی شک شبہہ نہیں کہ یہاں حاکمیتِ غیر اللہ کا نظام قائم ہے، جس کا برقرار رہنا یہاں کی اقوام کے حق میں ایک گناہ اور ایک ظلم ہے، اور جس پر راضی ہوجانا ایمان ہی کے منافی ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ اندریں حالات یہ ”دعوت“ کا موضوع ہے اور ابھی بڑی دیر تک اس کو معاشرے پر واضح ہی کیا جانا ہے….
صدیوں سے یہاں بر صغیر میں فکر ارجاء ایک مقبول مسلک رہا ہے۔ پھر ”حاکمیت“ تو یہاں کے فکری حلقوں کیلئے بالکل ہی ایک نیا مسئلہ ہے، جس کو بنیاد بنا کر یہاں ایک جاندار تحریکی عمل کو اٹھانے کیلئے وقت صرف ہونا ابھی پوری طرح باقی ہے۔ توحیدِ حاکمیت کے شرح وبیان پر یہاں بہت کم لوگوں کی محنت ہوئی ہے اور اس موضوع پر لوگوں کی الجھنیں بے حد زیادہ ہیں۔ پھر، اس کی بابت منفی ذہن پیدا کرنے والے یہاں بے شمار طبقے ہیں، جو کہ اپنی اپنی وجوہات رکھتے ہیں۔ ان الجھنوں کے بڑھا دینے میں البتہ جو ایک اضافی عامل اس وقت کارفرما ہے وہ ہے کچھ نوجوانوں کا فکرِ اہلسنت اور مسئلۂ حاکمیت کو، ناکافی فہم کے ساتھ بیان کرنا، بلکہ اہل علم کی راہنمائی کے بغیر اس کی باقاعدہ ’تطبیقات‘ کرنے لگنا، بلکہ اس کی بنیاد پر فی الفور ’قتال‘ کی صدائے عام بلند کر دینا۔ (4)
اس رجحان کے پھیلنے سے ”مسئلۂ حاکمیت“ کا اس کے اپنے ہی خیر خواہوں کے ہاتھوں جو نقصان ہوگا وہ یہ کہ لوگ اس مسئلہ کو ’جذباتی نوجوانوں کا عام کردہ ایک مسئلہ‘ کے طور پر دیکھیں اور اس کا علمی وزن کرنے کی یہاں نوبت ہی نہ آنے دی جائے۔ خصوصاً جبکہ ”مسئلۂ حقیقتِ ایمان“ اور ”مسئلۂ حاکمیت“ یہاں کی ارجائی دنیا میں تاحال شدت سے ضرورتمند ہے کہ اس کا ایک کافی شافی بیان ہو اور اس پر پائے جانے والے شبہات کا ایک بھر پور ازالہ ہو۔ ہم جانتے ہیں یہاں کے علمی وفکری حلقوں کے اندر اس مسئلہ کو پزیرائی دلائی جانا ابھی باقی ہے۔ اس ساری محنت کے بغیر ہی اب اگر موضوعِ بحث، ’مسئلۂ حاکمیت‘ سے سرک کر ’حاکمیت کی بنیاد پر قتال‘ پہ آرہتا ہے تو اس سے فکر ارجاءکے داعی خود بخود موقعہ پائیں گے کہ ”توحیدِ حاکمیت“ کے گرد پیچیدگیوں اور ’اندیشوں‘ کا پورا ایک جال بن دیں۔یوں یہ مسئلہ عین اپنی ابتدا میں ہی یہاں کے علمی وفکری حلقوں میں اپنے اوپر دروازے پوری طرح بند پائے۔
حق یہ ہے کہ برصغیر کی فکری دنیا میں ’ارجاء‘ کے پاؤں تلے سے بساط کھینچ لی جانے کا اس وقت ایک زبردست موقعہ ہے، بشرطیکہ اس مسئلہ کو یہاں کچھ وقت دیا جائے اور ایک طبعی رفتار کے ساتھ پھیلنے کا موقعہ فراہم کیا جائے، اور اسکے بیان پر پورا زور صرف کردیا جائے، جسکے دوران ذہنوں کی ترکیز ’مسئلۂ حاکمیت‘ پر رہے نہ کہ ’حاکمیت کی بنیاد پہ قتال‘ پر۔
پھر، ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی مصالحتcompromise بھی نہیں کر رہے۔ وہ سب اہل علم، جو مسئلۂ حاکمیت پر ایک مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں، شہادت دیں گے کہ کسی نظام کا کفر یا طاغوت ہونا اس بات کو لازم نہیں کہ اگلے لمحے اس کے خلاف مسلح جہاد کا اعلان کردیا جائے۔ اہل علم کے نزدیک یہ بالکل ممکن اور جائز ہے کہ ’مسئلۂ قتال‘ کو ’تکفیرِ نظام‘ کے مسئلہ سے الگ کرکے دیکھا اور پڑھا پڑھایا جائے، خصوصا جبکہ اس بات کی اشد ضرورت ہو کہ معاشرے کو ذہن سازی کے ایک زوردار عمل سے گزارا جائے، جس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے یہاں کے بہت سے صاحب اثر و رسوخ طبقے اس دعوت کے ہم نوا بنیں اور یوں جاہلیت کے پیروں تلے سے قتال کے بغیر ہی زمین بڑی حد تک کھینچ لی جائے، کم از کم اس عمل کو کامیاب ہونے کا ایک بھر پور موقعہ ضرور دیا جائے۔
علاوہ ازیں، فقہائے اہلسنت کے ہاں اگر کہیں ’الطائفة الممتنعة‘ ( ایسا گروہ جو شریعتِ اسلام کے واجبات و محرمات میں سے کسی معروف امرکی پابندی اختیار کرنے سے سرتابی کرے) سے قتال کے جواز کی بات ہوئی ہے تو وہ بھی اسی باب سے ہے، یعنی یہ قتال کے اصولی جواز سے متعلق ہے نہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جہاں کہیں کوئی ایسا طبقہ یا گروہ یا ریاست پائی جائے جو احکامِ شریعت سے سرتابی کرے، وہاں ہر شخص ’اعلانِ جہاد‘ کر دینے کا آپ سے آپ مجاز ہوجاتا ہے!
اصولی طور پر کہیں پر قتال کے جواز کا شرعی سبب پایا جائے تو بھی یہ فیصلہ کرنا کہ وہاں مسلمانوں کو بالفعل ہتھیار اٹھانے کی ہدایت کردی جائے، مسلمانوں کے اہل علم اور اہل حل و عقد ہی کا حق ہے، اور عامۃ المسلمین پر ہر حال میں انہی کی اطاعت لازم۔
یہ ایک اصولی مسئلہ ہے کہ کہیں پر اگر ”قتال کے شرعی اسباب اور بواعث“ پائے جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے وہاں پر ہی ”قتال کے کچھ شرعی موانع اور اندیشے“ بھی پائے جاتے ہوں۔ اب یہ بات کہ آیا کہیں پر ”قتال کے بواعث“، ”قتال کے موانع“ پر مقدم ہیں یا پھر ”موانع“، ”بواعث“ پر…. اس بات کا فیصلہ وہاں پائے جانے والے ”مصالح“ اور ”مفاسد“ کے موازنہ پر منحصر ہوگا، جوکہ امت کی علمی و شرعی قیادتیں ہی کرسکتی ہیں۔
حتیٰ کہ ”مصالح“ میں، جوکہ بیشمار ہوسکتے ہیں کونسی ”مصلحت“ امت کے دور رس مفاد کی روشنی میں ”چھوٹی مصلحت“ ہے اور کونسی بڑی…. پھر ”مفاسد“ میں کونسی ”مفسدت“، امت کو لاحق ہوسکنے والے قریبی و دور رس نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے، ”بڑی مفسدت“ ہے اور کونسی چھوٹی…. یہ فیصلہ کرنا باقاعدہ ایک اجتہاد ہے، جبکہ ہم جانتے ہیں اسلام میں ہر کوئی اجتہاد کا مجاز نہیں، بلکہ مسلم معاشرے کے اندر یہ صرف اور صرف خاص صلاحیت رکھنے والوں کا ہی مسلمہ حق ہے۔
استفادہ کتاب رو بہ زوال امیریکن ایمپائر از حامد کمال الدین