سوال: نبوت کا سلسلہ ختم کیوں ہو گیا ؟ کیا آج کے انسان کو ہدایت کی ضرورت نہیں ؟
جواب: اس سوال کے پہلے حصے کی میرے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں ۔ زیادہ اہم سوال دراصل دوسرے حصے میں ہے ۔ کیوں کہ اس دوسرے حصے میں ہی اس ضرورت کو بیان کیا جا رہا ہے جس کو پورا کرنے کے لیئے انبیاء بھیجے گئے ۔ ورنہ پہلے حصے پر تو سوال ہی نہیں بنتا ۔
مجھ سے کوئی اگر محض اتنا پوچھے کہ سلسلہ نبوت ختم کیوں ہو گیا تو میں اس سے پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ شروع کس نے کیا تھا ؟ نیوٹن نے یا آئن انسٹائن نے تو نہیں شروع کیا تھا جسے اللہ نے ختم کر دیا ؟اللہ نے شروع کیا ۔ اللہ نے ہی ختم کر دیا ۔ اللہ نے ہر شے کا جیسے ایک آغاز رکھا ہے ویسے ایک انجام بھی رکھا ہے ۔ جب کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اس کے کچھ اہداف ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی وہ اہداف پورے ہو جاتے ہیں اس کے بعد اس سلسلے کو ختم کر دیا جاتا ہے ۔
اس کی مثال یوں لیجیئے کہ ایک فیکٹری کا مالک اپنے ورکرز کو ایک پرزہ بنانے کا حکم دیتا ہے ۔ ورکرز کہتے ہیں ہم اناڑی ہے ۔ ہمیں پرزہ بنانے میں مشکلات درپیش ہیں ۔ فیکٹری کا مالک ایک ماہر کو بھیجتا ہے ۔ وہ ماہر ان ورکرز کو مشین چلانا سکھاتا ہے جس سے پرزہ بننا ہے ۔ یہ مشین کیسے چلتی ہے ۔ کیسے اس کو آن کرنا ہے کیسے آف کرنا ہے کیا احتیاطیں کرنی ہیں ۔ ہو سکتا ہے وہ ماہر یہ بھی کہے کہ کچھ احتیاطیں میں تمہارے اناڑی پن کی وجہ سے اضافی بتا رہا ہوں جو بعد میں موقوف کر دی جائیں گی ۔ وہ ماہر صرف مشین کو چلانے کا علم دے کر چلا جاتا ہے ۔ پھر ایک دوسرا ماہر آتا ہے اور انہیں پرزے کے خام مال کو بنانے کا طریقہ سکھا جاتا ہے ۔ پھر فیکٹری کا مالک ایک آخری ماہر کو بھیجتا ہے جو انہیں مشین چلانے سے لے کر پرزہ بنانے تک کا سارا علم سکھاتا ہے ۔ پھر وہ اپنی نگرانی میں ان ورکرز سے پرزہ بنوا کر دیکھتا ہے ۔ جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اب یہ ورکرز اس قابل ہو گئے ہیں کہ خود سے پرزہ بنا سکیں تو وہ انہیں مطلع کر دیتا ہے کہ میں جا رہا ہوں اور اب مزید کوئی ماہر نہیں آئے گا ۔ اب جو بھی کرنا ہے تم نے کرنا ہے ۔ صحیح طرح اچھا کام کرو گے تو مالک خوش ہو گا ۔ تمہیں انعام ملے گا ۔ نہیں کرو گے تو خود ذمے دار ہو گے ۔
بس یہ سادہ سا فلسفہ ہے نبوت کے سارے نظام کا ۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ سادہ اور آسان الفاظ میں کم از کم میں تو نہیں سمجھا سکتا اس مسئلے کو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں لوگوں سے فرمایا کہ اے لوگو ! کیا میں نے اللہ کا دین تم تک پہنچا دیا ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جی ہاں پہنچا دیا ۔ یہ سوال تین بار پوچھا اور چوتھی بار آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا اے اللہ ! تو گواہ رہنا ۔ میں نے تیرا دین لوگوں تک پہنچا دیا ۔اسی خطبے میں اللہ کے رسول نے یہ بھی فرمایا کہ ایک شخص کو اللہ نے اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا کو چن لے چاہے تو اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے ۔ تو اس نے اسے چن لیا ہے جو اللہ کے پاس ہے ۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے ۔ لوگ حیران ہوئے کہ آپ کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کی بات کرتے ہیں ۔ مگر جب اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں اس لیئے رویا تھا کہ وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے ۔
لہٰذا اصل سوال یہ نہیں ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم کیوں ہو گیا بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا آج انسان کو ہدایت کی ضرورت نہیں رہی ؟
اس کا مختصر سا جواب تو یہی ہے کہ کیا آج آپ کو آپ کے سوالوں کے جواب اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کی طرف سے نہیں مل رہے ؟
اللہ ہدایت صرف اسے دیتا ہے جو سچے دل سے ہدایت پانا چاہے ۔ جس کی نیت میں کھوٹ ہو وہ نبی کے دور میں پیدا ہو کر بھی ابوجہل کی موت مر جاتا ہے ۔ لیکن جس کی نیت سچے دل سے ہدایت پانے کی ہو وہ کسی امتی کے ہاتھ پر بھی اسلام قبول کر سکتا ہے ۔
جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی اور آج کتنی ہے ؟اگر تو یہ تعداد کم ہو گئی ہے تو آپ کا سوال منطقی ہے ۔ لیکن اگر یہ تعداد بڑھی ہے تو پھر جس ضرورت کی آپ بات کر رہے ہیں وہ پوری ہو چکی ۔ زمانہ گواہ ہے کہ آج بھی اسلام دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے پھیلنے والا دین ہے الحمدللہ ۔
مسلمان اگر آج دنیا میں کسی قدر مصائب و مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسلام اس وقت پوری دنیا کے تمام اسلام سے مختلف عقائد رکھنے لوگوں کا مشترکہ ہدف بن چکا ہے ۔ آپ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہودیت ہو عیسائیت ہو ہندوازم ہو یا الحاد ۔ جہاں اسلام سے مقابلہ ہو وہاں سب اکٹھے نظر آتے ہیں ۔
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ اللہ کا دین پہلے نبی سے آخری نبی تک ایک ہی رہا ہے ۔ لیکن اس کی تمام شریعت ایک نہیں رہی ۔ وقت کی ضرورت اور انسان کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو بتدریج مکمل کیا گیا ہے ۔ بہت سے ایسے قوانین تھے جن پر پابندی لگانا مقصود تھی مگر انسان کی مجبوری اور حالات کے پیش نظر ان پر انسانوں کو وقتی رعایت دی گئی ۔ یہ تمام قوانین بنتے بنتے آخری رسول کے دور میں آکر اپنی کاملیت کے اعلیٰ معیار تک پہنچے ۔ پھر اس وقت اللہ نے سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی ۔ “آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ۔”(
سورہ المائدہ آیت 3)
اس قسم کا ایک سوال پہلے بھی میرے سامنے آیا تھا کہ اللہ نے صرف قران کی حفاظت کا ذمہ کیوں لیا ۔ پچھلی کتابوں کا کیوں نہیں لیا ؟اس کا جواب بھی یہی ہے کہ جن کتابوں کے متعلق علم ہے کہ ابھی یہ مکمل نہیں ہیں بلکہ ان کا آخری اور مکمل نسخہ ابھی آنا ہے ۔ ان کی حفاظت قیامت تک کیوں کی جائے گی ؟انسان کا ذمہ تھا کہ ان کی حفاظت کرے ۔ انسانوں نے نہیں کی ان کی مرضی ۔ قران کی حفاظت کا ذمہ اللہ کا اپنا ہے ۔
ختم نبوت اور رحمت
ختم نبوت کا معنی یہ ہے کہ اب حق کی کوئی نئی تفصیلات نہیں آئے گی، لہذا قیامت تک کا انسان اب اطمینان کے ساتھ اس حق کو قبول کرسکتا ہے جو خدا نے اپنے آخری نبی پر نازل کردیا اور جسے امت نسل در نسل منتقل کرتی چلی آئی ہے۔یہ انسان پر خدا کی بڑی رحمت ہے۔ اگر حق اپنی تمام تر تفصیلات میں مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے یا اس میں تبدیلی کا امکان رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور کا انسان ایک اضافی امتحان سے دوچار ہے کہ وہ حق کی بدلتی ہوئی تفصیلات کو پہچاننے کی سعی جاری رکھے۔ کسی نبی کا مبعوث ہونا بھی انسانوں کے لئے ایک آزمائش ہوتی ہے ان معنی میں کہ اپنے نظریات و مفادات سے اوپر اٹھ کر وقت کے نبی کو پہچان لینا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ جو لوگ یہ اعتراض کرتے پھرتے ہیں کہ “نیا نبی کیوں نہیں آتا؟” یا “خدا نے اپنا پچھلا کلام کیوں نہ محفوظ کرلیا اور اب کیوں کیا؟” انہیں اپنے نفس کی سرکشی پر نظر کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ خدا نے انہیں اس آزمائش میں نہیں ڈالا، قریب تھا کہ جس میں وہ ناکام ہوتے۔ یہ بھی خاتم النبیینﷺ کی رحمت کا ایک پہلو ہے۔(زاہد مغل)
تحریر محمد سلیم