عین جس طرح __ چند عشرے پیشتر __ ہم نے ’سرخوں‘ کے ساتھ اپنی تاریخ کا ایک کامیاب معرکہ لڑا تھا… آج ’لبرلز اورسیکولرز‘ کے ساتھ ہمیں اپنی تاریخ کا ایک سنگین معرکہ درپیش ہے۔ وہ روس کا اعتمادیافتہ، یہ امریکہ کا۔ دونوں فتنوں سے ہمارا عسکری مقابلہ افغانستان میں رہا اور نظریاتی مقابلہ پاکستان میں۔ نتیجہ بھی ان شاءاللہ ایک سا رہے گا۔ ’سرخ‘ اپنی تصادم پسندی کےلیے مشہور، تو ’لبرل‘ اپنی مکاری اور کیموفلاج کےلیے۔
اُس ’سویرے‘ کو بھی شرعی دلائل کے معاملہ میں ہمارے یہاں کچھ مددگار میسر رہے۔ اِس ’سویرے‘ کا دامن بھی ایسے رضاکاروں سے خالی نہیں۔ ’لبرل‘ اپنے پیش رَو کی نسبت البتہ اس بات کا زیادہ ادراک رکھتا ہے کہ مسلم امت کا ایک حصہ صرف ’شرعی‘ دلیل سے گھائل ہو سکتا ہے؛ لہٰذا ’شرعی‘ دلیل سے ہی وہ نظریاتی مزاحمت روکی جا سکتی ہے جو مسلم وجود میں ایک حملہ آور کے خلاف طبعی طور پر اٹھ بیٹھتی ہے۔ اتفاقاً اِس چیز کا کچھ اچھا انتظام بھی ہوگیا ہے اور اسے کانوں میں انڈیل دینے کا بندوبست بھی۔ اس کے نتائج بھی تاحال غیرمعمولی آ رہے ہیں۔ اس ’لبرل سویرے‘ پر رات لانے کےلیے ہمارے اہلِ علم و دانش کا اٹھنا اپنی جگہ ضروری؛ اور اس عمل کے تقاضے اپنی جگہ… تاہم یہ بھی کم ضروری نہیں کہ اس ’اسلامی‘ ڈسکورس کو قوم سے مسترد کروایا جائے جو اُس لادین کےلیے فی الوقت ایک رضاکار ’دینی محاذ‘ کا کام دے رہا ہے۔
مسلم اجتماعیت پر جدت پسندوں کا دھاوا
آج جب دنیا کی قومیں ’’مسلمان‘‘ کو __ ایک اجتماعی واقعے کے طور پر __ صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں… ہمیں کچھ ایسے بےطرح unprecedented ’اسلامی‘ افکار کا سامنا ہے جو ہماری ’’مسلم اجتماعیت‘‘ پر اندرون سے حملہ آور ہیں۔ اس نئے ڈسکورس کی رُو سے: شریعت نہ کسی ’’مسلم ملک‘‘ کی متقاضی ہے اور نہ کسی ’’مسلم امت‘‘ کی۔ نہ مسلمانوں کی ’’مقامی وحدت‘‘ ہرگز ہرگز دین کا کوئی تقاضا؛ اور نہ ’’عالمی وحدت‘‘!
صرف اتنا نہیں کہ یہ ٹولہ ’’خلافت‘‘ ایسی کسی غیرموجود چیز کے قیام پر ہی معترض ہے۔ نہیں۔ اسلام کے نام پر اگر آپ کوئی ’’ملک‘‘ ہی بنا بیٹھے ہیں اور اپنی اس حرکت کو آپ نے اسلامی زندگی گزارنے کا کوئی تقاضا سمجھ لیا تھا تو بھی اسلام کے اِن نئے مبلغین کے نزدیک آپ ایک صریح جہالت کے مرتکب ہوئے۔ یہ خیال کہ اسلامی زندگی گزارنے کےلیے آپ کو کافروں سے آزاد ایک جداگانہ ملک کی ضرورت ہے جہاں ریاستی عمل خدا کی عبادت کرنے اور کروانے کا پابند ہو، یہ تصور ہی اِن حضرات کے نزدیک شریعت کے خلاف ہے۔ بلکہ فساد کا پیش خیمہ۔ مسلمان نام کی دنیا میں کوئی قوم بھی ہوتی ہے، انسانوں کی کسی اجتماعی وحدت کی بنیاد ’’دین‘‘ بھی ہو سکتا ہے، یہ بات ہی اِن کے نزدیک فرسودہ ہے۔ چینلوں پر حاوی یہ طبقہ، جس کی بات عام آدمی کو ذرا مشکل سے سمجھ آتی ہے، تکلف سے کام نہ لے، تو ’’نظریۂ پاکستان‘‘ پورے کا پورا اِس کے ڈسکورس کی رُو سے باطل اور لغو ہے؛ کیونکہ نظریۂ پاکستان کے تحت اسلامیانِ ہند نے:
1. اپنی اجتماعی پہچان دنیا میں ’’مسلمان‘‘ کے طور پر کروائی تھی؛ اور اس کے علاوہ ہر پہچان مسترد کر دی تھی۔
2. ’’قوم‘‘ (یعنی اپنی اجتماعیت) کی بنیاد ’’دین‘‘ کو مانا تھا۔
3. پھر اس بنیاد پر؛ یہ ’’مسلمان قوم‘‘ ہندو سے علیحدگی اختیار کرنے چل دی تھی۔ (دورِتہذیب میں ایسی پسماندہ حرکت!)
4. نیز اپنی اجتماعی زندگی اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزارنے کےلیے؛ اس نے ایک علیحدہ خودمختار ’’ملک‘‘ کا تقاضا کر ڈالا تھا۔
یہ سب باتیں اِس نئی ’اسلامی تحقیق‘ کی رُو سے بےبنیاد ہیں۔ ’’مسلمان‘‘ نہ کوئی امت ہوتی ہے۔ نہ کوئی ملک ہوتا ہے۔ اور نہ کوئی قوم ہوتی ہے۔ ’’مسلمان‘‘ کی یہ سب حیثیتیں اس کے نزدیک شریعت کی غلط تفسیرات کا نتیجہ ہے! اسلام کا کل تعلق ’’فرد‘‘ سے ہے… اور بس!
اُن تمام اسلامی تحریکوں اور کوششوں کو فساد کی جڑ ٹھہراتے ہوئے جو اسلام کےلیے کسی ملک یا ریاست کی بات کرتی رہی ہیں، اور جن میں بلاشبہ تحریک پاکستان بھی آتی ہے… اِن کے ایک ٹولے نے روزنامہ جنگ کے اسٹیج سے اپنا ایک نیریٹو narrative بھی جاری کر ڈالا۔ جس پر پوری قوم چیخ کر رہ گئی۔ قریب قریب ہر دینی طبقے کی جانب سے اس پر شدید ترین ردعمل آ چکا۔ یہ نیریٹو narrative ان گنت موضوعات پر جماعۃ المسلمین کی راہ سے انحراف کےلیے سنگ بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسکا جائزہ ہم پہلے کئی تحاریر میں لے چکے ہیں ، یہ (سی ماہی ایقاظ میں شائع ہونے والا)تحریری سلسلہ اِس فتنے کی صرف ایک جہت سے بحث کرتا ہے اور وہ ہے اس کا ’’مسلم اجتماعیت‘‘ کے خلاف اٹھایا ہوا کہرام۔
ہماری یہ گفتگو ’’اسلام میں فردپرست نظریات کے پھیلاؤ‘‘ پر عمومی جہت سے ہے۔ وحیدالدین اورالمورد چونکہ اس تحریک کے روح رواں ہیں لہٰذا کہیں کہیں اس کا خصوصی ذکر آگیا ہے۔ ورنہ یہ گفتگو ’’فردپرست نظریات کے فروغ‘‘ پر ایک عمومی سیاق ہی میں کی گئی ہے۔
یہ درست ہے کہ شریعت کی دعوت دینے والا سیکٹر اس وقت اپنی تاریخ کی مشکل ترین صورتحال سے گزر رہا ہے: ایک طرف شدت پسندوں کا افراط اور غلو؛ تو دوسری طرف جدت پسندوں کی تفریط اور جفا۔شدت پسندوں کی جانب سے فراہم کرائے گئے اس ’نادر موقع‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے؛ جدت پسند بلاشبہ شیر ہوگئے اور اپنا مدعا کھل کر کہنے لگے ہیں۔ نیز لبرلزم دندنانے لگا۔ لیکن ہر واقعہ کوئی نہ کوئی خیر بھی لاتا ہے۔ ہماری نظر میں لبرلوں اور جدت پسندوں کی چھیڑی ہوئی ان بحثوں سے شریعت کے داعیوں کے ہاں یہ موضوعات ان شاءاللہ کچھ مزید نکھر آئیں گے }خصوصاً احکامِ اضطرار اور احکامِ اصلیہ کے مابین فرق کرنے کی بابت )۔پس کیا بعید اہل غلو کی اٹھائی ہوئی اس گرد کے بیٹھ جانے کے ساتھ ہی جب یہ لبرل بھی منظرنامے سے غائب ہو جائیں گے (ان شاءاللہ)، تب شریعت کے داعی طبقے کسی روشن شاہراہ پر کھڑے ہوں؛ اور کیا بعید نہایت تھوڑے وقت میں ہم یہاں ایک نیا زوردار قافلہ اسلامیانِ ہند کو پار لگانے کے عزم کے ساتھ رواں دواں دیکھنے لگیں۔ وما ذلك على الله بعزيز
وحیدالدین کا فرد پرست ڈسکورس- مسلم فرد کو مٹانے ہی کا ایک نسخہ:
ایک مخصوص (فرائڈ اور ڈورکیم کے بہیمی عقیدے پر قائم) تہذیب کو پوری دنیا پر پھیلادینے کے لیے لازم تھا کہ ’قوموں‘، ’قبیلوں‘، ’امتوں‘ اور ’جماعتوں‘ کو اس کی راہ سے ہٹا دیا جائے؛ اور اس بھیڑیے کی چیرپھاڑ کےلیے صرف اور صرف ’’فرد‘‘ کو اس کے سامنے پیش کیا جائے؛ تاکہ اسے ہڑپ کرنے میں دشواری نہ ہو!
تاریخ کے اس موقع پر عالمی استبداد کی بہت بڑی ضرورت تھی کہ کوئی ’علمی‘ تحریک یہاں ایسی ہو جو ’’بھیڑوں‘‘ کو یہ ثابت کر کے دے کہ ’’ریوڑ‘‘ بنے رہنے کا مسئلہ نرا ایک ڈھکونسلہ ہے؛ ’’الجماعۃ‘‘ کا حکم بھلا شریعت میں کہاں آیا ہے!!!علىٰ وجہ الیقین کہا جا سکتا ہے، قیام پاکستان کے وقت کی مسلم لیگی قیادت، قوم کی تعریف کرتے ہوئے.. اِن ’محققین‘ سے بڑھ کر مقاصدِ شریعت کا علم رکھتی تھی۔
.’’فرد‘‘ گویا ایک پلاسٹک کا پودا ہے!
’’فرد‘‘ کو نظرانداز کرکے ’ملک و ملت‘ کے رونےیا ’’جماعت‘‘ کو پس پشت ڈال کر ’فرد‘ کی اصلاح،دونوں… غیرحقیقی روش ہیں۔’’فرد‘‘ اور ’’ملت‘‘ لازم و ملزوم ہیں۔
ایک اسلامی ریاست آپ کی کوئی معمولی ضرورت نہیں… نام کی نہیں بلکہ حقیقی اسلامی ریاست؛ جس کا سب سے بڑا دردِسر دنیا میں اسلام کا مطلوبہ فرد پیدا کرنا اور اسلام سے متصادم عوامل کو معاشرے کی سرزمین سے پوری قوت کے ساتھ تلف کردینا ہو؟ شرعِ اسلام کی محافظ، ملتِ شرک سے بیزار، ایک مقتدر ریاست کی ضرورت سے انکار؛ چہ معنیٰ؟
’’گردوں‘‘ اسلامی نہیں تو ’’فرد فرد‘‘ کی پکار؛ چہ مطلب؟’’فرد‘‘ گویا کوئی پلاسٹک کا پودا ہے جو ہر جگہ اور ہر موسم میں ہرابھرا رہ سکتا ہے اور جس کےلیے ’موسم‘، ’مٹی‘ اور ’آب وہو‘ کچھ لایعنی و غیرمتعلقہ اشیاء کا نام ہے!
کون نہیں جانتا، باہر جو آندھیاں چل رہی ہیں وہ ’’اخلاق‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کی دیرینہ تعمیرات تہِ خاک کرنے کے لیے ہی اٹھائی گئی ہیں۔ اور کون نہیں جانتا، یہ جھکڑ مسلسل تیز ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ کو ان آندھیوں کی باقاعدہ خبر لینا تھا؛ کسی فرد کی سطح پر نہیں بلکہ ایک قوم، ایک ملک اور ایک ریاست کی سطح پر۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست کسی لگژریluxury کا نام نہیں؛ اس کے بغیر آپ کے فرد کو ایسے ہی کسی حشر کا منتظر ہونا چاہئے تھا۔ پھر بھی تعجب فرمایا جارہا ہے کہ فرد اخلاقی پستی کی اِس خوفناک حد کو کیوں جاپہنچا! حضرات! تعجب یہ کیوں نہیں کرتےکہ آپ کا یہ فرد اس سے بھی گہرے پاتال میں جاگرنے سے اب تک بچا کیسے رہ گیا؟! وہ زہرآلود فضائیں جو دو صدی سے اِس ’’فرد‘‘ کو سانس لینے کے لیے یہاں مہیا ہیں، زہر کا یہ خوش اثر فارمولہ کسی لیبارٹری نے ’’قدروں‘‘ کو تلف کرنے کے لیے ہی ایجاد کیا ہے! دو سو سال آپ کے ہاں یہی ’قرض کی مے‘ چلی اور اس ’آبِ حیات‘ کو ایک سے ایک بڑھ کر نام دیا گیا۔ تاآنکہ جب یہ نشہ عروج کو پہنچا، اور آپ کی وہ ’فاقہ مستی‘ رنگ لے آئی، تو وہی دانش ور آج ’’فرد‘‘ کو درپیش ’اخلاقی بحران‘ اور ’سماجی پستی‘ کے رونے رونے لگے!
اِن نکتہ وروں کے خیال میں ’’فرد‘‘ گویا وہ چیز ہے جس کو اس زہرناک فضا کا کوئی اثر لیے بغیر اُسی تسلسل کے ساتھ ماحول میں خیر اور بھلائی کے ڈھیر لگاتے چلے جانا چاہئے تھا! مگر چونکہ ایسے معجزے اور کرامات ایک معاشرے میں اس بہتات کے ساتھ نہیں ہورہے تو اِس کو یہ اربابِ دانش ’فرد‘ کا بحران کہیں گے جس کا ذمہ دار بھی یہ ’فرد‘ بیچارہ خود ہے؛خارجی صورتحال اور اس کے زہریلے اثرات کو اس کی ذمہ داری اٹھوانا اِن دیدہ وروں کی نظر میں ایک سخت غیرعلمی رویہ ہے!
تو گویا ’’فرد‘‘ ہی اب وہ دستیاب زمین ہے جس سے بدی اور معصیت کا پورا ایک جنگل تلف کر ڈالنا اور وہیں سے نیکی اور بھلائی کی پوری پوری فصل لے آنا دین کا مطلوب ومقصود ہے! بغیر یہ دیکھے کہ ’’فرد‘‘ کی افزائش کے لیے یہاں جو زمین اور جو فضا مہیا کررکھی گئی ہے اُس کا اپنا اقتضا کیا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں صالحین کا پہلا کام ہی یہ تھا کہ وہ یہاں کے موسموں کی خبر لیں؛ زمین اور فضا کو سونپ رکھے گئے اُس فاسد فنکشن کے آڑے آئیں جو یہاں معصیت کی پیدائش اور افزائش کرتا ہے۔ ان عوامل کو ہاتھ میں کریں جو یہاں موسموں اور فضاؤں کی تشکیل کرتے ہیں۔ یوں ایک نظریاتی وسماجی گھمسان سے گزر کر زمین اور فضا کا ہی وہ طبعی کردار بحال کرائیں جو خدا کا مطلوبہ انسان پیدا کرنے کے لیے زمین میں درکار ہے۔ (اللہ پر توکل کرتے ہوئے) یہاں یہ گھاٹی گزرے بغیر چارہ تھا اور نہ ہے۔ انبیاء کی اصل اتباع تھی تو وہ یہ : یعنی ایک صالح عمل کی پرورش کے لیے ’’انسان‘‘ کو زمین اور فضا صاف کرکے دینا (جس کے بعد ہی لوگوں کا معاملہ ان کے ذاتی چناؤ پر چھوڑا جاتا ہے)۔ البتہ ’’زمین‘‘ اور ’’فضا‘‘ سے دستبردار ہوکر ’’فرد‘‘ کی افزائش کے لیے کسی مصنوعی incubators پر آجانا کوئی ’’منہج‘‘ ہی نہیں ہے (اس کا صحیح یا غلط ہونا تو بہت بعد کی بحث)، اگرچہ ایسے کسی غیرطبعی عمل کے نتیجے میں بیس کروڑ کے ایک ملک میں __ بڑی محنت کے بعد __ چند لاکھ افراد پیدا کیوں نہ کرلیے گئے ہوں۔
معاشرتی عوامل کو ہاتھ میں کرنا اور ان کو مقاصدِ حق کے تابع لانا ضروریاتِ عقل و ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اِس انتظام کی ایک واضح ترین صورت اور سطح بلاشبہ ’’ریاست‘‘ ہی ہے؛ خصوصاً آج کے دور میں۔ یہ حقیقت نظر سے اوجھل ہو تو ’’فرد فرد‘‘ کی گردان ایک برفانی علاقے کا پودا گرم استوائی خطے میں کاشت کرنے سے مختلف نہ ہوگی! ایک غیر معمولی لاگت اور کچھ غیرطبعی انتظامات کے نتیجے میں؛ آپ ایسے کسی ’تجربہ‘ میں کامیاب ضرور ہوجاتے ہیں مگر اس کو آپ ’’کھیپ‘‘ نہیں کہتے۔ ماحول کے مقابلے پر؛ وہ کوئی اِکا دُکا نحیف ولاغر پودا ہی ہواکرتا ہے جو بالعموم ’دیکھنے‘ کے کام آتا ہے نہ کہ ’’پھل‘‘ دینے کے! البتہ کسی بڑے پیمانے پر اُس کی فصل لینا جو قوموں کا پیٹ بھرسکے ناممکنات میں رہتا ہے، جبکہ ’’معاشرے‘‘ جس فصل پر انحصار کرتے ہیں وہ ایک ’’کھیپ‘‘ کا نام ہے! اور بلاشبہ وہ کھیپ mass-production بڑی کامیابی کے ساتھ یہاں ہو رہی ہے جس کو ہم نظر اٹھا کر دیکھنے کے روادار نہیں، اور جس کے مابین کچھ خال خال پودے ’اسلامی‘ صورت کے کاشت کرلینے کو ہی ’’دین کا کام‘‘ سمجھتے ہیں!
تبلیغی جماعت، ایک قابل فخر اور بسا غنیمت جماعت، معاملہ کو کھول دینے کےلیے آپ کے سامنے ایک واضح مثال ہے۔ یہ خدا کا خاص فضل تھا جو ایسے جذبے کا ایک بھاری بھرکم گروہ ان دگرگوں حالات کے اندر مسلمانوں کو میسر آیا؛ ورنہ ’’ریاست‘‘ کی غیرموجودگی میں مسلمانوں کا جو حشر ہوتا وہ ناقابل اندازہ ہے۔ نصف صدی پر محیط ایک شبانہ روز تبلیغی محنت کے نتیجے میں، جوکہ تقریباً انسانوں کے بس میں نہیں ہوتی، کروڑوں کے ایک ملک میں چند لاکھ افراد بلاشبہ پیدا کر بھی لیے گئے۔ جو اپنی جگہ ایک حیران کردینے والا واقعہ ہے۔ پھر بھی صالحین کی اس تمام تر ترقی کے متوازی، معاشرے میں بدی اور الحاد کا گراف جس کامیابی کے ساتھ اوپر گیا ہے اور مسلسل جا رہا ہےوہ کس ’نتیجے‘ کی طرف اشارہ کررہا ہے؟ عام فرد بیچارہ جوں کا توں الحاد کے پنجوں میں گرفتار، اور سے اور بے بس، فکر آخرت سے مسلسل دور ہوتا چلا جارہا ہے؛ اور گناہوں کے مقابلے میں اس کی مزاحمت اور سے اور جواب دیتی جارہی ہے۔ شر کا یہ کامیاب اور موثر پھیلاؤ آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ باوجود اس کے کہ ’’انفرادی‘‘ سطح پر ہمارے پاس تبلیغی جماعت ایسے عظیم الشان بندوبست بھی موجود ہیں؟ حضرات! برائی کی یہ خوفناک ترین سطح تو معاشرے میں اس وقت نہ دیکھی گئی تھی جب استعمار یہاں بنفس نفیس موجود تھا۔
’معاشروں‘ کی ساخت بے شک جاہلیت کے ہاتھ میں رہے لیکن ’فرد‘ کی ساخت یہاں آپ صالحین کے ہاتھوں انجام پاتی رہے گی، اس سے بڑھ کر ’خواب آور‘ فکر آج تک دنیا میں دریافت نہ ہوئی ہوگی!
(تفصیل کےلیے: ’’اصلاحِ فرد کیلئے پریشان طبقوں کی خدمت میں‘‘، اداریہ ایقاظ جولائی 2012)
اس مسئلے کی ایک اور جہت بھی تھی..
یہودی جوکہ حالیہ ’گلوبلائزیشن‘ کا روحِ رواں ہے، دنیا کی سب سے چھوٹی اور سب سے ذلیل قوم ہے؛ یعنی کل دو کروڑ کی ایک امت جو ہمارے کراچی یا قاہرہ جیسے ایک شہر میں آجائے۔ اب سوال یہ تھا کہ دو کروڑ کی ایک قوم اربوں افراد پر مشتمل قوموں اور امتوں کو ہڑپ کرنا چاہے تو اس کی کیا صورت ہو؟ (وہی لکڑہارے کی کہانی!) اس کی ’’گٹھے‘‘ والی حیثیت ختم کردی جائے؛ پھر جب اس کی ’تیلیاں‘ ہوجائیں تو جیسے مرضی ان پر اپنا شوق پورا کرو!
چنانچہ یہود کو موجودہ عالمی سیناریو میں اس بات کی بطورِ خاص ضرورت تھی کہ عالمی ذہن سازی عمل میں وہ دنیا کے اندر individualism کو فروغ دیں البتہ خود ایک وحدت کے طور پر قائم رہیں۔ صرف اسی طریقے سے دو کروڑ کی ایک ’وحدت‘ اربوں ’پتنگوں‘ پر مشتمل اقوام کو بڑے آرام سے ہضم کر سکتی تھی۔
یہاں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں، برصغیر پاک و ہند کا یہ ’دبستان‘ یہاں کیسی بروقت پیش رفت تھی!
فردکا ملجاوماوی ‘جماعت’:۔
زمین میں خدا کی واحد پسندیدہ روش ؛ جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے؛ اور جوکہ اہلِ زمین کو انبیاء کی وساطت الہام ہوتی رہی ہے:وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا…
خدا کی یہ پسندیدہ روش’’انسان‘‘ سے بطورِ فرد individual بھی ظہور کرتی ہے اور بطورِجماعت (community / society) بھی؛ کیونکہ زمین پر ’’انسان‘‘اِن دونوں حیثیتوں میںرہتا ہے؛ اور ’’خدا کے آگے تسلیم ہونا‘‘ انسان سے اِن دونوں ہی حیثیتوں میں مطلوب ہے۔ خود شرعکے احکام ’’انسان‘‘ کو بیک وقت ایک ’’فرد‘‘ کے طور پر بھی لیتے ہیں اور ایک ’’سوسائٹی‘‘ کے طور پر بھی۔ احکامِ شرع کا مطالعہ کریں؛ تو یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہے۔
ادھر ہیومن اسٹ وائرس سے متاثرہ ہمارے ’جدید ذہن‘ کے پیش کردہ مقدمات کا عملی نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ: یہ ’’اسلام‘‘ مخلوقِ انسانی سے بطورِ فرد individual تو مطلوب ہے مگر بطورِ جماعت مطلوب نہیں۔اسلام میں نیا متعارف کرایا جانے والا یہ ڈسکورس… شرعی حقائق سے پہلے عمرانی حقائق کے ساتھ ہی متصادم ہے؛ چاہے یہ اپنی اس بات کو ’’چونکہ اگرچہ‘‘ کے کتنا ہی تاؤ دے لیں ۔
حق یہ ہے کہ جس طرح ’’فرد‘‘ کے بیج سے ’’سوسائٹی‘‘ پھوٹتی ہے عین اُسی طرح ’’سوسائٹی‘‘ کی شاخوں پر ’’فرد‘‘ کا بُور آتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک تولیدی تسلسل reproduction cycle ہے؛ اور خدا کی اِس پسندیدہ روش ’’اسلام‘‘ کو بھی زمین میں پنپنے کےلیے ایسے ہی ایک ’’تولیدی تسلسل‘‘ کی ضرورت ہے۔
چنانچہ… خود وہ ’’فرد‘‘ ہی اگر آپ کے پیشِ نظر ہو جس کو پیدا کرانا اسلام کا مقصود ہے (اور جس پر سردست ہمارے ’اسلامی‘ ہیومن اسٹوں کو بھی اعتراض نہیں؛ بلکہ بادئ النظر ان کا کل زور ہی ’’فرد‘‘ پر ہے)… تو ایسے فرد کا اچھے پیمانے (mass level) پر پیدا کرایا جانا بھی کسی ناسازگار ماحول اور کسی فاسد فضا کے اندر ممکن نہیں۔ ’’صالح فرد‘‘ وہ ثمر ہے جو کسی ’’صالح شجر‘‘ کی ڈالیوں پر ہی نمودار ہوگا۔ نیم کے درخت پر آم آنے کی توقع، کسی بحث یا تبصرے کی محتاج نہیں!
حالیہ ’’سوسائٹی‘‘ آپ کو جس قسم کا ’’فرد‘‘ دے رہی ہے mass-production of individuals وہ اس عمرانی سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
پس ’’مسلم فرد‘‘ اور ’’مسلم جماعت‘‘ بیک وقت شرائع کا مقصود ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کی تولیدreproduction کریں گے؛ شرع و عمران کے سب حقائق اِسی پر شاہد ہیں۔ پھر کیا تعجب کہ کتبِ عقیدہ میں جگہ جگہ ’’علیکم بالجماعۃ‘‘کی تاکید پائی جائے اور فرقۂ ناجیہ کا لازمی وصف جو اہل اسلام کے بچے بچے کو یاد کرایا جاتا رہا ’’اھل السنۃ والجماعۃ‘‘ ہو!
چنانچہ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ میں بیان ہونے والی یہ حقیقت درجہ بدرجہ یوں بڑھتی ہے:
1. سب سے پہلے ’’اسلام‘‘ ہے۔ جس کا مطلب ہے: خدا کی خشیت، تعظیم اور چاہت میں انسان کا اپنا آپ خدا کو سونپ دینا اور اپنے جملہ معاملات اس کی تحویل میں دے دینا بذریعہ اتباعِ قانونِ رسالت۔ جس کے دو بڑے محور ہیں:أ) خدا کے آگے تعبد اختیار کرنا بصورتِ سجود و تسبیح و حمد وغیرہ۔ اورب) اپنے جملہ انفرادی و اجتماعی معاملات خدا کو سونپنا بصورتِ اطاعت۔یہ ہے ’’خدا کے آگے ذلت اختیار کرنا‘‘ یعنی عبدیت؛ جس کی تفصیل وقت کے رسول سے دریافت کی جائے گی۔ یہ ہے ’’عبادت‘‘ جو خدا کے ہاں قبول ہوتی ہے اور جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔
2. اس ’’اسلام‘‘ اور ’’عبادت‘‘ کے رُو پزیرmaterialize ہونے کی صورت البتہ یہ ہے کہ بیک وقت یہ فرد individual کی سطح پر بھی ظہور کرے اور جماعتsociety کی سطح پر بھی؛ ایک کا دوسرے کے بغیر پایا جانا غیرمتصور ہے۔ اِس:
(1)شجرِ اسلام کو ایک ’’جماعت‘‘ کی صورت زمین میں جڑیں گاڑنا ہوں گی۔ اس کے بغیر، خدا کا مطلوبہ فرد کسی بڑی سطح پر پیدائش پاتا رہے، یہ آس رکھنا عبث ہوگا۔(2)۔مسلم فرد کو ’’شجر‘‘ سے پیوستہ رہنا ہوگا؛ ورنہ وہ ایک پتنگا ہے جسے زمانے کی ہوائیں اپنے دوش پر اڑاتی پھریں گی اور زمین پر اس کا کوئی مرکزی کردار نہ ہو گا۔ نتیجۂ کار؛ خود ’’اسلام‘‘ ہی زمینی عمل کے اندر اپنا کردار رکھنے کے معاملہ میں معطل ہوتا چلا جائے گا۔یہ ہوا: لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ۔
3. جبکہ ’’جماعت‘‘ community ایک نظم کے بغیر غیرمتصور ہے۔ ایک خاص تصورِزندگی پر قائم’’سوسائٹی‘‘ کےلیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی ہی طرز کا ایک نظم بھی اختیار کرےورنہ ’’سوسائٹی‘‘ کی اپنی ہیئتِ ترکیبی بدل کر رہ جائے گی۔ یہ ہوا: وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ۔
(آپ دیکھیں گے، آپ کے اچھے اچھے ’دین دار‘ دماغ ایک غیرمحسوس تاثیر کے تحت بیرونی ہواؤں سے متاثر inspired ہوئے جاتے ہیں؛ اور روز کوئی نیا وائرس لے کر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس دور ِیتیمی میں؛ آپ ملاحظہ فرمائیں گے، ’’قرآن کی تفسیر‘‘ ایسےایسے رنگ اختیار کرنے لگی جو امت کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی سوچنے میں نہ آئے ہوں۔ یعنی آپ کا فرد تو فرد؛ آپ کے ’’اسلام‘‘ کی ایک نئی ساخت ہونے لگے گی؛ اور چند عشروں میں آپ (نعوذ باللہ) ایک ’’نئے اسلام‘‘ سے متعارف ہونے لگیں گے۔ غرض یہ تشکیلی جبر جو ایک (کالطود العظیم) تعلیمی، ابلاغی، اداریاتی و تقنینی legislative ذریعے سے انجام پاتا اور دماغوں کو اپنے مخصوص سانچوں میں کَستا اور سوچ کے دھارے تشکیل دیتا ہے؛ اور جوکہ ’’نظم‘‘ کی ایک اعلیٰ تر و مؤثرتر صورت ہے… ’’فرد‘‘ کی پیداوار دینے والی اِس خودکار دیوہیکل مشین کو نظرانداز کرتے ہوئے، اور اس کو کسی صالح مشین سے تبدیل کردینے کی ضرورت سے انجان بنتے ہوئے، یہاں ’’فرد فرد‘‘ کی گردان کرتے چلے جانا کسی واردات کا پیش خیمہ ہے۔)
4. البتہ یہ ’’نظم‘‘ بےمعنیٰ ہے جب تک اُس کی ’’پابندی‘‘ نہ ہو۔ جیسی منفرد دنیا میں یہ’’جماعت‘‘ community ہے (جوکہ آسمانی وحی کی بنیاد پر قائم ایک ’’سماج‘‘ ہوتا ہے) ویسی ہی منفرد اس کے ہاں پائی جانے والی یہ ’’اطاعت‘‘ ہوگی۔ یہ ہوا: وَلَا إِمَارَةَ إِلَّابِطَاعَةٍ۔
یعنی… خدا کی عبادت اور اطاعت بصورت اتباعِ رسالت:
1. ’’فرد‘‘ کی سطح پر بھی ہونی ہے،
2. ’’جماعت‘‘ (سوسائٹی) کی سطح پر بھی، اور
3. ’’نظم‘‘ کی سطح پر بھی۔
ہمارے اسلامی ہیومنسٹ humanist زیادہ تر ہمارے ساتھ اِس تیسرے پوائنٹ پر الجھتے ہیں یعنی ’’نظم‘‘ (جوکہ ہمارے یہاں زیادہ تر ’’امارت‘‘ یا ’’خلافت‘‘ یا ’’امامت‘‘ ایسے الفاظ سے موسوم رہا ہے)۔ خود ہماری اکثر بحثیں ان حضرات کے ساتھ اسی آخری نقطے پر ہوتی ہیں یعنی ’’اسلامی حکومت‘‘ یا ’’خلافت‘‘ وغیرہ آیا فرض ہے یا نہیں؟جبکہ اس دوران جس اصل چیز کا گھونٹ بھرا جارہا ہے وہ ہے ’’جماعت‘‘(community)۔ حالانکہ ’’جماعت‘‘ سے متعلقہ بنیادیں واضح ہوجائیں تو ’’امامت‘‘ کا مسئلہ لمبی چوڑی بحث کا ضرورتمند ہی نہیں رہتا۔ البتہ اگر ’’جماعت‘‘ سے متعلقہ بنیادیں ہی اذہان سے محو ہوں تو ’’امامت‘‘ کا تصور بالفاظِ اقبالؒ ’دو رکعت‘ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا!۔(زیرِ تالیف: ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘ فصل ’’لا إسلامَ إلا بجماعۃ‘‘، شائع ایقاظ جنوری 2014)
جماعت فرد ہی کی افزائش و تحفظ:۔
زندگی کے عظیم الشان مقاصد – پائیدار بنیادوں پر – انسانوں کے ایک بڑی سطح کے اکٹھ پر منحصر رہتے ہیں۔ اِسی اکٹھ کو آپ ’’سوسائٹی‘‘ کہتے ہیں۔ بامقصد سوسائٹی آپکی بہت بڑی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو تو آپ کے تار و پود بکھر جاتے ہیں خواہ آپ کیسے ہی کمال کے نظریات کیوں نہ رکھتے ہوں۔ خارج میں جاری ’’تشکیلی عمل‘‘ آپ کے ان مقاصد کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ اِس نسل میں نہیں تو اگلی نسل میں، یا پھر اس سے اگلی نسل میں، آپ کو خارج کے چلائے ہوئے اس دھارے میں آنا ہی ہوتا ہے۔ بڑی نسلوں تک آپ اس کے آگے دیوار کھڑی نہیں رکھ سکتے۔ اِس جرمِ ضعیفی کی سزا آخر مرگِ مفاجات ہے۔ آپ کی ’انفرادی حیثیت‘ حالات اور ماحول کے تھپیڑے کچھ وقت تک ہی سہتی ہے۔ یہ ایک نہایت غیرطبعی صورتحال ہوتی ہے اور بڑےبڑے غیرطبعی رویوں abnormal behaviors کو جنم دیتی ہے۔ ایک معمولی صلاحیت کا آدمی تقریباً اس کے آگے بےبس ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال ذرا طویل ہو جائے تو آخری فتح ’’ماحول‘‘ کی ہوتی ہے۔
اس مسئلہ کا پائیدار حل صرف یہ ہے کہ ’’ماحول‘‘ یا ’’حالات‘‘ یا ’’سٹیٹس۔کو‘‘ ہی خود آپ کے دھارے پر بنیں۔ ’’خارج میں جاری تشکیلی عمل‘‘ ہی خود اس کے رخ پر ہو۔ ’’فرد‘‘ اور ’’ماحول‘‘ ایک ہی دین پر ہوں۔کسی بھی طرزِزندگی کے ایک سماجی تسلسل میں ڈھلنے کےلیے یہ ضروری ہے۔ پھر ’’اسلام‘‘ ایسی عظیم الشان چیز محض انسان کی ’’انفرادی حیثیت‘‘ کو اٹھوا دینا کیونکر درست ہوگا!
’’خدا کی عبادت‘‘ پر قائم ایک معاشرتی وریاستی عمل؛ جس میں خدا کی بندگی آسان سے آسان تر ہونے لگے اور شیطان کی بندگی مشکل سے مشکل تر.. شرائع کا ایک باقاعدہ مقصود ہے۔ ’’اسلام‘‘ کو خواہ آپ نماز روزے تک ہی محدود کر لیں اور محض ایک انفرادی سطح پر بدکاری و حرام خوری سے بچ رہنے میں ہی محصور ٹھہرا دیں.. اس کےلیے بھی ’’فضا‘‘ و ’’گردوپیش‘‘ ایک غیرمعمولی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ سلباً و ایجاباً؛ یہ آپ کے نماز روزہ تک پر اثرانداز ہوتا ہے۔ آپ کی نسلوں میں نماز اور حیاء کا باقی رہ جانا اس چیز سے براہ راست تعلق رکھتا ہے کہ باہر سسٹم اس سلسلہ میں کس قسم کی ہوائیں چلاتا ہے۔ ریاستی مشینری کا ’’نماز‘‘ اور ’’زکاۃ‘‘ کی پشت پر ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں: نماز روزہ کا فرض نبھانا اوربدکاری و حرام خوری سے دامن بچانا دنیا میں آپ کےلیے ’’آزمائش‘‘ تو رہے گی؛ اِس آزمائش کو ختم کرنا کیسے ممکن ہے؟ اور جب یہ ممکن نہیں تو یہ شرائع کا مقصود کیسے؟ لہٰذا نفس اور خارج میں پائے جانے والے صوارف (diverting factors & temptations) کے خلاف مزاحمت تو آپ کو کرنا ہی ہے۔
لیکن ہم یہ کہتے ہیں:
ایک ماحول ایسا فاسد اور خدا کو اس قدر بھُلوا دینے والا ہوتا ہے جہاں ’’اوسط ہمت کا آدمی‘‘ سوسائٹی کے غیرمعمولی اثرات کے ہاتھوں زندگی کا مقصد بڑی آسانی کے ساتھ ہار بیٹھتا اور باطل نظریات و فاسد اخلاق کی نذر ہو جاتا ہے؛ یہاں تک کہ دینِ محمدؐ سے پھر جانے ہی کے امکانات کا سامنا کرنے لگتا ہے۔ ایسے ماحول میں خالی نماز روزہ بچا رکھنا اور بدکاری و حرام خوری سے بچا رہنا ہی غیرمعمولی ہمت والے نفوس کا کام رہ جاتا ہے۔
دوسری طرف؛ ایک ماحول ایسا صالح اور خدا کی یاد دلانے اور محمدﷺ کی اتباع پر آمادہ کرنے والا ہو سکتا ہے جہاں ’’اوسط ہمت کا آدمی‘‘ خاصی آسانی سے خدا کی عبادت پر کاربند اور صالح افکار و صالح اخلاق کا پابند ہو جاتا ہو۔ یہاں تک کہ ایک معاشرتی و ریاستی انتظام کو کام میں لا کر ایک ایسا ’’گردوپیش‘‘ بھی تخلیق ہو سکتا ہے کہ آدمی کو برا ہونے کےلیے ماحول کے خلاف مزاحمت کرنی پڑے اور بدکاری کو اپنی خصلت بنانے کےلیے اچھا خاصا برا ہونا پڑے۔
پس اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جماعت (society) ’’خدا کی عبادت‘‘ کی اِس آزمائش کو آخری حد تک آسان بھی کر سکتی ہے اور آخری حد تک دشوار بھی بنا سکتی ہے۔ یہاں سے؛ ’’جماعت‘‘ بذاتِ خود شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہو جاتی ہے۔’’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا‘‘ کی نبوی تفسیر بھی یہی ہے کہ: ’’جماعۃ المسلمین کا التزام‘‘ ہو۔ اعلیٰ مقاصد زمین پر ایک بڑے درجے کی جتھہ بندی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
بنابریں… خدا کی عبادت اور محمدﷺ کی رسالت پر قائم ایک ’’جماعت‘‘ اور ’’نظم‘‘ ہمارے ہاں عبادت کی صورتوں میں سےایک صورت ہے۔ اپنے ’’اسلامی نظم اور امارت‘‘ کی صورت، اور اس کے ذریعے، ہم دنیا میں خدا کی عبادت کرتے اور جہانِ آخرت کی تعمیر کرتے ہیں نہ کہ ’سماجیرہن سہن‘ کی کوئی عام سی کارروائی جو محض ایک عدد ’سیاسی نظام‘ کی ضرورتمند ہوا کرتی ہے! نیز اپنے ’’اسلامی نظم و امارت‘‘ کی صورت، اور اس کے ذریعے، ہم خود کو اور اپنی نسلوں کو شیطان کے حربوں سے محفوظ رکھتے (’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ‘‘ پر عمل کی اجتماعی صورت)۔ نیز خود کو اور اپنی نسلوں کو دوزخ کے موجبات سے تحفظ دلاتے ہیں۔
ایک غیراسلامی نظم کبھی معاشرے میں ’’شیطان کے راستے‘‘ مسدود کرکے نہیں دے سکتا۔ جس معاشرے میں شیطان کے راستے چوپٹ اور سرکاری سرپرستی میں رواں دواں رکھے جائیں وہاں اندیشہ ہے یا تو ہم اپنے ’عام فرد‘ اور اپنی الہڑ نسلوں کو کھو بیٹھیں یا ’وعظ‘ کر کر کے انہیں نفسیاتی مریض بن جانے کے قریب کردیں؛ یعنی ہر دو صورت میں ضائع! اس کا اصل حل یہ ہے کہ معاشرے کے عام فرد کے حق میں ہم خالی ’’وعظ‘‘ پر سہارا کرنے کی بجائے شیطان کی وہ بڑی بڑی شاہراہیں ہی بند کر ڈالیں جو ہمارے لوگوں کےلیے ’’پاکیزہ زندگی‘‘ گزارنے کے اِس امتحان کو شدید دشوار بنارکھنے کا موجب چلی آتی ہیں۔ زندگی کی آزمائش کو اپنی نسلوں کےلیے اس درجہ تک آسان رکھنا __ حسبِ استطاعت __ فرض ہے۔ ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب.
معاشرے میں شیطان کی بڑی بڑی شاہراہیں بند کرکے رکھنااور خیر کی بڑی بڑی شاہراہیں رواں دواں رکھنا، کہ جہاں ’’صلوٰۃ‘‘ و ’’زکوٰۃ‘‘ کے ادارے تو خوب پھلیں پھولیں اور معاشرے کو اپنے بہترین ثمر دیں جبکہ ’’فحشاء و منکر‘‘ اور ’’ربا‘‘ کے ادارے مسلسل تلف کیے جاتے رہیں… ’’سوسائٹی‘‘ کی سطح پر خدا کی عبادت ہونا اور شیطان کے راستے مسدود ہوئے رہنا ایک باقاعدہ ’’اسلامی نظم‘‘ (ریاستی عمل) کے بغیر ناممکن ہے۔ پس کیا عجب جو اسلامی امارت و نظم کو خدا کی عبادت اور اطاعت کی ایک صورت ٹھہرایا گیا ہو۔
غرض… خدا کی عبادت یہاں ’’فرد‘‘ کی سطح پر تو ہونی ہی ہے۔ مگر اِسی عبادت کی ایک سطح ’’خاندان‘‘ ہے؛ جوکہ آپ غور کریں تو یہ بیک وقت اس ’’عبادت گزار فرد‘‘ کا ہی تحفظ و افزائش ہے۔ پھر اسی طرح؛ عبادت کی ایک سطح ’’سوسائٹی‘‘ اور ’’ریاست‘‘ ہے؛ اور یہ بیک وقت اس ’’عبادت گزار فرد‘‘ اور ’’عبادت گزار خاندان‘‘ کا ہی تحفظ و افزائش ہے۔
پس یہاں ہر ہر سطح پر خدا کی عبادت اور اطاعت ہے۔ ’’قولی وبدنی افعال‘‘ وہ کل عبادت نہیں جو انسان سے اُس کی اِس زمینی سرگرمی کے دوران مطلوب ہے۔ مختصراً… جتنی وسیع یہ ’’زندگی‘‘ ہے اتنی ہی وسیع یہاں مسلمان کی ’’عبادت‘‘ ہے۔
پس ہماری خلافت اور امارت کو دنیا کے سیاسی نظاموں میں سے محض ’ایک نظام‘ کے طور پر لینا ہرگز درست نہ ہوگا؛ ہمارا نظمِ اجتماعی ہمارے مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کی ایک صورت ہے۔ یہ ’’فرد‘‘ ہی سے خدا کی عبادت کروانے کی ایک سطح اور ایک صورت اور ایک ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ’’اسلامی زندگی‘‘ کا تصور ایک بےحقیقت مفروضہ ہے۔
تحریر حامد کمال الدین ، سہ ماہی ایقاظ