آج کل مختلف ذرائع سے اس بات کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مذہب کی بنیاد خوف ہے۔ یعنی مذہب یا مذاہب کےبانی انسان کو اس خوف میں مبتلاء کرتے ہیں کہ اگر مذہب کو نہیں مانو گے یا مذہب جو رویہ اختیار کرنے کو کہتا ہے اس کے مطابق نہیں چلو گے تو ایک برے انجام سے دوچار ہو جاؤ گے۔ انسان اس خوف کی بنیاد پر مذہبی بنتا ہے۔ اس طرح یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مذہب انسان کی اس کمزوری کا استحصال کر کے انسان کو اپنا پابند بناتا ہے۔
چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے یہاں پر صرف اسلامی تناظر میں بات کی جائے گی۔ ہم جب قرآن میں دیکھتے ہیں کہ کفر کرنے والوں اور اللہ کے احکامات کو رد کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب کی وعید دی جا رہی ہے تو ہمیں بھی لگتا ہے کہ بات صحیح ہے۔
اس الزام کے ساتھ ایک اور الزام بھی نتھی کردیا جاتا ہے کہ مذہب نہ صرف خوف بلکہ لالچ اور حرص کی بنیاد پر بھی ہے۔ یعنی انگریزی محاورے کے مطابق مذہب سٹک اور کیرٹ (Stick and carrot)کی چال چل کر انسان کو اپنا پابند بناتا ہے۔ جب ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے بڑے بڑے انعامات رکھے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ واقعی میں الزام صحیح ہے۔
اول تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ خوف اور لالچ کی بنیاد پر کسی کو پابند بنانے میں برائی کیا ہے؟
مثلاً اگر کوئی بندہ اپنے ملک کے قانون کی پابندی نہیں کرے گا تو اسے سزا ملنے کا خوف دلایا جاتا ہے۔
اگر کسی کمپنی میں سیلزمین زیادہ سیلز کرے گا تو اسے کمیشن کا لالچ دیا جاتا ہے۔ اور اگر مطلوبہ ٹارگٹ حاصل نہ کرے تو اسے اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
اگر طالب علم محنت کر کے مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرے تو وہ فیل ہوسکتا ہے اور اگر طالب علم زیادہ محنت کر کے پوری کلاس میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرے تو اسے انعام ملے گا۔
اوپر کی تمام مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام حالتوں میں خوف اور لالچ کا استعمال بالکل صحیح ہے اور کوئی اسے غلط نہیں سمجھتا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام حالات میں خوف اور لالچ کا استعمال ہمیں برا کیوں نہیں لگتا اور مذہب میں اس کے استعمال پر اعتراض کیوں؟
اس کی وجہ یہ کہ ہم قانون کی پابندی کے اخلاقی اور منطقی جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک کمپنی کسی کو تنخواہ دے رہی ہے تو اس ملازم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کمپنی کو فائدہ پہونچائے۔ اسی طرح ہم اس بات کو بھی منطقی مانتے ہیں کہ تعلیم کے لئے امتحانات ضروری ہوتے ہیں اور کامیاب طالب علم کو ہی اگلی کلاس میں بھیجا جانا چاہئے۔
یعنی اگر کسی چیز کا منطقی اور اخلاقی جواز موجود ہو تو اس کے لئے خوف اور لالچ کا استعمال بالکل ہی جائز ہونا چاہئے۔
یہ جب غلط ہے جب کسی کو خوف یا لالچ دلا کر کسی ایسے کام پر مجبور کیا جائے جس پر اس کا ضمیر مطمئن نہیں ہو۔ یا یہ جب غلط ہے جب خوف کی ایسی کیفیت پیدا کیا جائے کہ اس بندے کو اس کے اخلاقی یا منطق جواز پر غور کرنے کا موقعہ ہی نہ ملے۔
اب ذرا قرآنی نکتہ نظر کو دیکھا جائے، قرآن تو اصل میں ہمیں دعوت دیتا ہے اور جس چیز کی دعوت دیتا ہے اس کے لئے انسان کی سمجھ اور شعورسے اپیل کرتا ہے، اس کے ضمیر کو جھنجوڑتا ہے، اپنی دعوت کے لئے انسانی فطرت ، انسانی عقل اور انسانی تاریخ کو گواہ بناتا ہے۔ اور اس کے باجود جب انسان قرآن کی دعوت کو رد کرتا ہے تو پھر خبردار کرتا ہے کہ تمہارا اس دعوت کو رد کرنا اس مقصد کی صریح خلاف ورزی ہے جس کے لئے تمہارے خالق نے تمہیں پیدا کیا ۔ اس لئے اس سرکشی کے انجام میں سخت سزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طمع دلاتا ہے کہ تمہارے خالق نے جس مقصد کے لئے تمہیں پیدا کیا اگر اس مقصد کو پورا کروگے تو اس کے نتیجے میں تم اللہ کے انعامات اور اس کی رضا کے مستحق ٹہروگے۔
حقیقت یہ ہے کہ سزا وجزا اللہ کے عدل کا لازمی تقاضا ہے۔ سزا و جزا پر اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ اللہ اپنے فرماں برداروں اور سر کشوں کے ساتھ ایک قسم کا معاملہ کرے۔ ایسا مطالبہ کرنے والوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا ہو، امتحان میں کم نمبر حاصل کرنے والوں کو فیل کردیا جائے اوراپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والے ملازم کو فارغ کردیا جائے۔
الغرض اسلام میں سچ مچ خوف بھی ہے اور طمع بھی ہے۔ لیکن خوف و طمع سے پہلے اسلام اپنا اخلاقی اور منطقی مقدمہ پیش کرتا ہے اور پھر نہ ماننے والوں کو وعید اور ماننے والوں کو خوشخبری دیتا ہے۔ اعتراض کرنے والے سیکولر اور ملاحدہ خوف اور طمع کا ذکر کچھ ایسے انداز میں کرتے ہیں گویا کہ اسلام ایک اندھا بہرا مذہب ہے اور اس میں فرماں برداری کرنے کی ترغیب کی بنیاد صرف اور صرف خوف و طمع ہے اور اس کی کوئی اخلاقی اور منطقی بنیاد نہیں ہے۔
اگر کوئی ملحد یا کافر اسلام کے پیش کردہ اخلاقی اور منطقی بنیاد پر مطمئن نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ اس جواز پر بحث کرے۔ یہ رویہ اختیار نا کہ گویا کہ اسلام خوف و طمع کے علاوہ اپنا کوئی مقدمہ رکھتاہی ایک فریب ہے جس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دلوں میں تشکیک کے بیج بونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس قسم کے اعتراضات میں ایک تناقض بھی ہوتا ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسلام جو خوشخبریاں اور وعیدیں دیتا ہے اس کا اثر صرف اس پر ہوسکتا ہے جو اسلام پر یقین رکھتا ہے۔ جو اسلام پر یقین نہیں رکھتا ظاہر بات ہے کہ وہ ان خوشخبریوں اور وعیدوں پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ اب اگر کسی پر اس خوف و طمع کا اثر ہورہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور اس کے خالق نے اسے ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ سزا و جزا کو ماننے والا لازمی طور پر سزا و جزا کے اخلاقی اور منطقی جواز پرپہلے سے مطمئن ہوتا ہے۔
جو شخص اسلام پر یقین نہیں رکھتا وہ اسلام کی بیان کردہ خوشخبریوں اور وعیدوں پر بھی یقین نہیں رکھے گا۔ اس لئے اس پر نہ اسلام کی پیش کردہ دھمکیوں کا کوئی اثر ہوگا اور نہ اسلام کی مجوزہ تحریص و ترغیب کا۔ ایسے میں اسلام کی تشریح خوف و طمع کی بنیاد پر کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا سوائے اس کے کہ اعتراض کرنے والا ابھی یہی طئے نہیں کرپایا کہ وہ اسلام کو مانے یا رد کردے۔ الحاد و تشکیک کے دلدادوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ یہی طئے نہیں کرپاتے کہ انہیں ماننا کیا ہے۔ یہ شہوات اور دنیا کی لذتوں کو منتہائے مقصود بنانے کے بعد اپنے انجام کے خوف کو کم کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔
تحریر: ذیشان وڑائچ