زمین پر خدا نے اپنی رسالت اتاری اور اس کے ذریعے سے انسانوں کو معلوم کروایا کہ اِن کے زمیں پر زندگی گزارنے کےلیے خود اُس نے کیا طریقہ مشروع ٹھہرا رکھا ہے۔ تاہم خدا کی اِس رسالت کو سب قوموں نے ناں کردی اور اس سے اِعراض کیا۔ البتہ ایک قوم ایسی رہی کہ اس نے خدا کی وہ رسالت اور زمین پر زندگی گزارنے کا خدا کا نازل کردہ وہ طریقہ قبول کرلیا؛ اور اپنی اِس اطاعت وبندگی کے اظہار کے طور پر محمدﷺ کا کلمہ پڑھ لیا، خدا کی اِس رسالت کو ناں کرنے والی قوموں اور ملتوں سے اپنا راستہ اور طریقہ جدا کر لیا اور ان سے الگ تھلگ ہو کر ایک انسانی اکٹھ قائم کیا؛ “الجماعۃ”، “دارالاسلام”۔ کافر تہذیبوں کے مقابلے پر “اسلام کا کیمپ”۔
یہ ان لوگوں کا اجتماع ہے جو آسمانی شریعت کا محکوم ہونے کےلیے زمین کے چپے چپے سے اٹھ کر یہاں آئے۔
چنانچہ یہ ’’اکٹھ‘‘ ہے ہی محمدﷺ کے نام پر…؛ اِس کا وجہِ تسمیہ ہے ہی: ’’جماعۃ المسلمین‘‘ (خدا کی اتاری ہوئی رسالت اور اُس کے بتائے ہوئے طریقۂ زندگی کے آگے ’’فرماں برداری‘‘ کا اعلان کرنے والے انسانوں کا اکٹھ)۔
محمدﷺ کی تابعداری کا دم بھرنے والا یہ اکٹھ… ان لوگوں سے اپنا راستہ الگ کر آیا ہے جو اِس رسالت اور شریعت کا کلمہ پڑھنے پر آمادہ نہیں۔ یہ وہاں سے ہجرت کر آیا ہے اور اُن سے الگ تھلگ ہوکر خاص اس رسالت کے تحت زندگی گزارنے کےلیے اِس نے اپنا ایک جہان آباد کیا ہے جس کو ہم نے مسلم معاشرہ یا جماعتِ اسلام یا مُجتَمَع اسلامی (society of Islam) یا مملکتِ اسلام یا سرزمینِ اسلام (دارالاسلام land of the faithful ) کہا ہے۔
اِس کا کل اختلاف اُن منکر قوموں کے ساتھ تھا ہی اس بات پر کہ زندگی تنہا اُس خدا کی مرضی و شریعت پر گزاری جائے.. جس نے محمدﷺ کو خاص یہ بتانے کےلیے بھیجا کہ یہ زمین اور اِس کی سب آسائشیں اُس نے کس مقصد سے پیدا کیں اور یہاں پر رہنے کےلیے انسانوں پر اُس کی جانب سےکیا شروط عائد ہیں؛ اور زمین کے یہ سب امکانات اور وسائل کس رخ پر صرف ہونا ضروری ہیں… اور یہ کہ جو شخص یا جو قوم خدا کی زمین پر رہنے کےلیے خدا کی شروط قبول کرنے پر آمادہ نہیں، ایک بہت تھوڑی مہلت گزر جانے کے بعد ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کے ساتھ (آخرت میں) کیا پیش آنے والا ہے۔
اب ایک ایسے نظریاتی اکٹھ “الجماعۃ” کی بابت یہ سوال اٹھانا کہ ’بھائی یہاں ہمارا مذہب ہے تو دوسروں کا بھی تو مذہب ہے‘.. آخری درجے کی سادگی ہے یا آخری درجے کی مکاری!
ہاں یہ سوال آپ ضرور کریں کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے ہاتھوں قائم ہونے والے اِس الگ تھلگ انسانی جہان (جماعۃ المسلمین/ دارالاسلام) کے دائرۂ حدود میں جو دوسری ملتوں کے لوگ پائے جاتے تھے کیا (معاذاللہ) ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا! یا ہر ایسے شخص کو جو آپﷺ کا کلمہ پڑھنے پر آمادہ نہ ہوتا ملک بدر کردیا جاتا تھا! اور اس قطعۂ ارضی میں صرف آپﷺ کا کلمہ پڑھنے والے کو زندہ چھوڑا جاتا تھا!… یا محمدﷺ کے ساتھ کفر کرنے والی ملتوں کے لوگ بھی رسول اللہﷺ اور صحابہ کی قائم کردہ اِس مملکت میں خوش و خرم پائے جاتے تھے؟
ظاہر ہے کافر ملتوں کے لوگ بھی رسول اللہﷺ کی قلمرو میں پائے جاتے تھے اور رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کو جان و مال کی مکمل حفاظت کی ضمانت دی جاتی تھی؛ اور آپﷺ کی دی ہوئی اِس ضمانت (ذمہ) کا احترام اور التزام آپؐ پر ایمان کا دم بھرنے والے
ہر شخص پر لازم تھا؛ اور وہ اپنے کفر پر رہتے ہوئے مکمل چین و اطمینان سے رسول اللہﷺ اور بعدازاں خلفاء کے زیرسایہ زندگی بسر کرتے رہے تھے۔
لہٰذا ’’دارالاسلام‘‘ یا ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس کی سرزمین میں کافر لوگ رہائش پذیر نہیں ہو سکتے!
وہ ہمارے یہاں قیامت تک امن و چین سے رہیں۔ ہاں وہ اِس دارالاسلام/ جماعۃ المسلمین / اسلامی ریاست کی ہیئتِ ترکیبی کو نہیں چھیڑیں گے۔ وہ آئینِ مملکت میں دخل دینے کے مجاز نہ ہوں گے؛ کہ مملکت جس دین پر قائم ہے اسے ہی متنازعہ کریں! کیونکہ جانتے ہیں محمدﷺ پر ایمان لانے والے یہ لوگ خاص اِس دین کی خاطر پوری دنیا سے مفارقت کر، یہاں پہنچے.. اور اپنی جانوں کے نذرانے دےدے، اِس خطۂ ارضی کو اسلام کی قلمرو بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جوکہ اب خاص محمدﷺ کی اتباع کے نام پر قائم ایک انسانی اکٹھ (الجماعۃ) ہے؛ اور اس کا بنیادی آئین بلکہ وجہِ تاسیس ہی محمدﷺ کی رسالت اور شریعت ہے۔ اس کا بنیادی محور ہی آسمان سے اترے ہوئے اُس عہدکی پابندی ہے جس کو دنیا کی سب قوموں نے رد کردیا البتہ اِس ایک انسانی جماعت نے زمین پر اُس کی رُو سے زندگی گزارنا قبول کر لیا اورخاص اِس نیک مقصد کےلیے ایک قطعۂ ارضی بہم پہنچایا۔ اس رسالت اور شریعت کےلیے یہ اپنا سب کچھ تج دینے اور آپﷺ کی رسالت اور شریعت کو نہ ماننے والی ہر ملت اور ہر وطن کو خیربادکہہ آنے والے لوگ ہیں۔ لہٰذا یہ تو نہیں ہوسکتا کہ یہاں کے کسی کافر یا کسی فاسق کی فرمائش پر یہ لوگ اپنے اُس اکٹھ (الجماعۃ) کی ہیئتِ ترکیبی بدل ڈالیں، یعنی اُس مقصد سے دستبردار ہوجائیں جس کےلیے یہ معرضِ وجود میں آئے۔ اِس دائرہ میں تو اِن کے ہاں حوالہ: آسمانی رسالت اور شریعت ہی رہے گی۔ اور یہ تو اِن کے وجود کا سوال ہے؛ کیونکہ اِن کا اجتماعی وجود ہے ہی اِس رسالت کےلیے جینا۔ اِن کی بلا سے، دوسری اقوام کے ہاں ’’اجتماع‘‘ اور ’’سوسائٹی‘‘ کی کیا بنیادیں رائج ہیں؛ کیونکہ وہ قومیں اِن کی نظر میں ’’ہدایت‘‘ سے تہی دامن ہیں؛ البتہ اِنہیں یہ سب باتیں پڑھانے کےلیے خدائے علیم وخبیر نے اِن کی طرفایک رسول بھیج رکھا ہے جس پر یہ ایمان لا چکے؛ لہٰذا اُس کی شریعت سے
متصادم ہر بات اور اُس سے اِن کو ہٹانے کی آرزومند ہر کوشش اِن کےلیے }وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكَ (المائدۃ: 49) ’’ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں اللہ کے اتارے ہوئے احکام کے کسی ایک بھی حصے سے بہکا دیں‘‘{کے زمرہ میں آئے گی۔ پس اس عہدِآسمانی کی اتباع تو اِن سے نہیں چھڑوائی جا سکتی خواہ پوری دنیا اِن سے آمادۂ جنگ ہو جائے۔ ہاں یہ اپنا دین کسی پر نہیں ٹھونستے۔ خود یہ دین ہی اِنہیں ایسی کسی فوجداری کی اجازت نہیں دیتا۔ لہٰذا بنی آدم ہونے کے ناطے جو کوئی بھی اِن کے زیرسایہ سرزمینِ اسلام میں اقامت کرنا چاہے وہ ضرورتشریف لائے؛ اور یہاں اسے جان و مال کی حفاظت اِس شریعت کے اپنی ہی طرف سے حاصل ہے۔
یعنی ’اقلیتوں‘ کے حقوق بھی کوئی انیکٹمنٹ enactment یا کوئی ’قومی اتفاقِ رائے‘ نہیں بلکہ یہ دین خود دیتا ہے؛ ’اقلیتوں کے حقوق‘ پر حوالہ بھی اِس کی شریعت خود ہے۔بلاشبہ یہ ایسا ہی ایک کامل و شامل دین ہے۔
بنابریں… محمدﷺ کی رسالت کو رد کرنے والا ایک شخص اِس ’’الجماعۃ‘‘کا شہری ہوسکتا ہے۔ البتہ وہ جماعۃ المسلمین کا بنیادی حصہ نہیں ہوتا؛ الجماعۃ (’’اکٹھ‘‘) کا ’’بنیادی حصہ‘‘ ہونے کےلیے محمدﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے۔
یہ ہے انسانوں کا خدا کی طرف سے اتری کتاب پر اکٹھے ہونا۔ ایک معبود اور ایک رسالت پر مجتمع انسانی کیمپ کا تشکیل پانا۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا۔
نہایت واضح ہو:
خدا کی شریعت کے کسی حصے پر عمل پیرا ہونے کی، اِس کیمپ میں یا کیمپ کے کسی حصے میں اگر استطاعت نہیں، یا یہ اِس معاملہ میں خدا کے کسی دشمن کے ہاتھوں اندرونی یا بیرونی طور پر بےبس ہے، تواحکامِ اضطرار کے باب سےیہ شرعِ خداوندی کے ان تمام حصوں پر عملدرآمد کو اتنی دیر تک مؤخر کر سکتا ہے جب تک بس نہ چلنے کی یہ صورت ختم نہیں کر لی جاتی۔ اِس کی یقیناً گنجائش ہے۔( اس موضوع پر ہم نے اپنے ان دو مضامین میں گفتگو کر رکھی ہے: ’’درمیانی مرحلہ کے بعض احکام‘‘ (ایقاظ، اپریل 2013) اور ’’لوگوں کو بتدریج دین پر لانا‘‘ (ایقاظ، اکتوبر 2014)۔) یہ بےبسی خواہ کسی زورآور ہندو آبادی کے ساتھ معاملہ کرنے میں درپیش ہو یا بااثر عیسائیوں یا سیکولروں کے ساتھ۔ کوئی بیچ کی راہ اختیار کرنا یہاں اضطرار ہو گا؛ جس سے نکلنے کی خردمندانہ کوشش ہی اس مرحلہ کےلیے ان پر فرض ہوگی خواہ وہ جتنا بھی وقت لے (جس کی ایک صورت __ اصولاً __ وہ تھی جو تحریکِ پاکستان کے وقت اختیار کی گئی)۔ اِس باب میں یقیناً کوئی سختی نہیں۔ لیکن اس کیمپ کی طبعی حالت، جس کی طرف اِسے لوٹنے کی دانشمندانہ کوشش کرنی ہے وہی ہے، جو اوپر بیان ہوئی؛ یعنی کتاب اللہ پر اجتماع اور اس کی جانب تحاکم۔ }وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكَ (المائدۃ: 49) ’’اور یہ کہ ان کے مابین فیصلے کرو اللہ کے اتارے ہوئے احکام کی رُو سے ہی۔ ان کی خواہشات کے پیچھے مت جاؤ۔ اور اس بات سے ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں اللہ کے اتارے ہوئے احکام کے کسی ایک بھی حصے سے بہکا دیں‘‘{۔
*****
پس اُس نقطہ کی نشاندہی ضروری ہے جہاں سے محمدﷺ پر ایمان رکھنے والوں اور محمدﷺ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے راستے الگ ہوتے اورکیمپ تشکیل پاتے ہیں۔یہاں پر مٹی ڈالنا؛ اور پھر آگے چل کر اس کیمپ کی سرزمین پر رہائش پزیر غیر مسلم عنصر کے حق میں سوال اٹھاتے پھرنا… اِس مسئلہ کو الجھا دینے کی ہی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہے۔
’’قوم‘‘ کی تعریف اگر درست کر لی جائے؛ (جوکہ تحریکِ پاکستان کے وقت بھی بہت واضح طور پر دہرائی گئی تھی، گو ہماری پرانی زبان میں اس کےلیے صحیح تر لفظ ’’جماعت‘‘ ہے).. تو یہ سوال فضول ہے کہ تنہا ہمارے نبیؐ کی رسالت ہی یہاں پر کیوں حَکَم اور مرجع ہے؛ یہاں بائبل، ویدا یا گرنتھ کا بھی عین وہی آئینی سٹیٹس کیوں نہیں جو یہاں قرآن کو حاصل ہے۔
(اقتباس: ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘ فصل ’’جماعت فرض تو امامت خودبخود ضروری‘‘۔ یہ فصل ابھی تک ایقاظ میں شائع نہیں ہوئی)
تحریر حامد کمال الدین