گذشتہ ایک تحریر میں راقم نے مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی فکر میں موجود تصورِ خلافت پر اپنی طالب علمانہ گزارشات پیش کی تھیں۔اس تحریر میں زیادہ فوکس ان بزرگوں کی قرآنی فکر اور تفسیری آرا پر رہا اور اپنے تفسیری افکار کے ضمن میں انھوں نے جہاں اسلامی روایت میں پائے جانے والے تصورِ خلافت پر گفتگو کی ہے، اسے ان کے تفسیری لٹریچر سے نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہاں ضمناً اس حقیقت کا اظہار بھی مناسب ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی تفسیر ”البیان“ تقریباً اکثر وبیشتر مولانا اصلاحی کی ”تدبرِ قرآن“ کے اقتباسات پر مشتمل ہے، جنھیں وہ ”استاذ امام لکھتے ہیں“ کے الفاظ سے نقل فرماتے ہیں۔ ”البیان“ کو ترجمۂ قرآن میں نظم کی رعایت، بعض مشکلاتِ قرآنی پر عمدہ کلام اور مولانا اصلاحی کی قرآنی فکر کی تلخیص کے حوالے سے جدید تفسیری لٹریچر میں عمدہ اضافہ کہا جا سکتا ہے، تاہم اسلام کے نظمِ اجتماعی سے متعلق آیات کی تفسیر کے ذیل میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے مذکورہ بالا خیالات (جو سابق تحریر میں پیش کیےگئے تھے۔) کو ”البیان“ میں جگہ نہیں دی گئی۔
زیرِ نظر تحریر میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ کے ایک بنیادی سوال پر مولانا اصلاحی کی فکر کی روشنی میں گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ”یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرار دادِ مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔“ کیوں کہ پورے بیانیے میں یہی شق (خصوصاً پاکستان کے تناظرمیں) سب سے زیادہ خطرناک، قیامِ پاکستان کے وقت سے اب تک کی مساعی (جو نہایت مخلص، دین وملت کا درد رکھنے والے صاحبِ علم وعمل اہلِ وطن کے جذبِ دروں کا ثمر ہیں۔) کو سبوتاژ کرنے میں فیصلہ کن، قانون کو سیکولرائز کرنے کا جذبہ رکھنے والی قوتوں کے لیے تر نوالہ اور مستقبل کے نتائج کے لحاظ سے فکری و عملی دونوں پہلوؤں سے نہایت مُضر ہے۔
جاوید صاحب نے اگرچہ اپنے بیانیے میں اربابِ حکومت کی دینی ذمے داریوں کے کاموں کا انکار نہیں فرمایا ہے (جیسا کہ تفصیل سےا نھوں نے اپنی کتاب ”میزان“ میں بھی لکھا ہے اور جوابی بیانیے کے بعد دوسرے کالم ”ریاست وحکومت“ میں اس کو اختصار سے بیان کیا ہے۔) لیکن احساس ہوتا ہے کہ جب آئین کی اسلامائزیشن کے تصور کا کلی طور پر انکار کر دیا جائے (جیسا کہ پاکستان کو بھی انھوں نے اسی ضمن میں شمار کیا ہے۔) تو پھر محض اخلاقی احساس کی بنیاد پر اربابِ حکومت (خاص طور پر آج کے) کی طرف سے ان ذمے داریوں کی بجا آوری کی توقع بھی ایک خواب ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ یہاں غامدی صاحب نےقانون سازی کے معاملے میں Nation State کو سامنے رکھ کر مکمل طور پر Pragmatic پوزیشن لی، یعنی چوں کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم نیشن سٹیٹ میں رہ رہے ہیں، لہذا یوں ہونا چاہیے، لیکن نام کے مسلمان حکم رانوں (جن میں سے بعض سورۂ اخلاص کی قراءت سے بھی نابلد ہونے کا ثبوت پیش فرما چکے ہیں۔) کی دینی ذمے داریاں شمار کرتے ہوئے اور انھیں دوزخ سے ڈراتے ہوئے خالص Theoretical پوزیشن لی؛ یعنی ان کو گویا عمربن عبدالعزیز فرض کر کے ان کی دینی ذمے داریاں شمار کی گئی ہیں۔ اصول کا تقاضا یہ تھا کہ دونوں معاملوں میں زمینی حقیقت کو ہی سامنے رکھا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منطقی اعتبار سے یہاں Perfectionist Fallacy والا منطقی مغالطہ موجود ہے۔ یعنی دوسرے معاملے میں ایک Ideal چیز کو ترجیح دی گئی، جب کہ پہلی صورت میں Real چیز کو۔
جدید سٹیٹ کے اجزاے ترکیبی میں سے ایک اہم جز Sovereignty یا اقتدارِ اعلی ہے اور اسی کے مزاج کی اساس پر قانون استوار ہوتا ہے۔ اگر یہ انسانی ہواے نفس کے تابع ہو اور اس پر سماوی دین کے اصولوں کی حکم رانی نہ ہو تو پھر اس کا انجام لادینی نظم ہی کا نفاذ ہوگا۔ عملی اعتبار سے گئے گزرے ”قانونی“ مسلمانوں کے سر پر سے اگر دستور کی اسلامی پابندیاں بھی اٹھ جائیں تو اس کا حتمی انجام ہمارے ملک میں صرف اور صرف مغرب کے سیکولر قانون کی بالادستی ہے۔ پھر وہی قانون (جو حقیقت میں Agenda Oriented اور ایک خاص تصورِ حیات کی اساس پر استوار ہونے کی وجہ سے ایک ”مذہب“ ہی ہے اور جدید ریاست اس حوالے سے پورے طور پر ”مذہبی“ ہی ہے۔) ارباب حکومت کے ہاتھوں اپنی تنفیذ کے ذریعے جو گل کھلائے گا، وہ واضح ہی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات ذکر کرنا ضروری ہے۔ سابقہ تحریر کے ذیل میں ایک قاری نے لکھا کہ اگر مولانا فراہی و اصلاحی کے ہاں یہ چیز موجود ہے تو دین کی یہ سیاسی تعبیر تو مولانا وحید الدین خان رد کر چکے ہیں۔ ہمارے بعض جدید نوجوانوں کے ذہن میں غلط طور پر خلافت یا اسلامی حکومت کے تصورکے بارے میں یہ غلط فہمی بیٹھ گئی ہے کہ یہ کسی ”سیاسی اسلام“ کا شاخسانہ ہے۔ یہ ”اسلام“ زیادہ تر عرب دنیا میں اخوان المسلمون اور ہمارے ہاں جماعتِ اسلامی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آئیڈیالوجی کی سطح پر ان جماعتوں کے افکار میں اصلاح کی پوری گنجائش موجود ہے اور عملی حقائق کی سطح پر ان کی پالیسیوں میں تبدیلیاں بھی ضرور آئی ہیں، لیکن دستور کے اسلامی ہونے کے تصورات وغیرہ ظاہر ہے ان جماعتوں کے پیش کردہ نہیں ہیں، بلکہ مسلم روایت میں پہلے سے اور غیر منقطع طور پر ان کا وجود موجود ہے اور پاکستان میں جماعت اسلامی سے سخت اختلاف رکھنے والے علما کے حلقے بھی پورے طور پر اس جدجہد میں شروع سے شریک رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جمعیت علماے اسلام سے وابستہ علما کی پالیسی اور کوششیں اس معاملے میں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اخوان کی بنیاد 1929ء میں شیخ حسن البنا نے رکھی تھی اور جماعت اسلامی کی بنیاد 1941ء میں مولانا مودودی نے؛ مولانا حمید الدین فراہی کا انتقال 1930ء میں ہوا تھا، اس لیے یقیناًان کے ہاں ”سیاسی اسلام“ سے متاثر ہونے کا سوال ہی نہیں ہے۔ پھر ان کے قرآنی تدبر کے بارے میں جاوید صاحب کا حلقہ بھی پوری قوت کے ساتھ تسلیم کرتا ہے کہ انھوں نے دین کے بنیادی مصادر کا براہ راست طالب علم بن کر اپنی فکر کو مرتب کیا ہے تو پھر دین کے سیاسی تصورات کے بارے میں یہ حضرات کیسے گمان کریں گے کہ ان کے افکار کسی ”روایت“ یا ”ماحول“ سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہیں؟
جہاں تک مولانا امین احسن اصلاحی کی بات ہے تو ممکن ہے کسی کے ذہن میں ہو کہ انھوں نے چوں کہ سترہ سال جماعت اسلامی میں شامل ہو کر سرگرم طور پر مولانا مودودی کی رفاقت اختیار کی، اس لیے ان کی فکر ”سیاسی اسلام“ کا شاخسانہ ہی ہوگی تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ مولانا اصلاحی کی ایک تحریریں وہ ہیں جو جماعتِ اسلامی کے دور کی ہیں (جیسے ”دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار“، ”تنقیدات“، ”توضیحات“ وغیرہ؛ چناں یہ کتابیں جماعتِ اسلامی کے مکتبوں اسلامک پبلیکیشنز وغیرہ سے شائع ہوتی رہی ہیں۔)، لیکن 1957ء میں انھوں نے جماعتِ اسلامی چھوڑی تو اس کے بعد کی تحریروں میں بھی اسلامی حکومت، اس میں آئین کے اسلامیانے وغیرہ کے تصورات کے حوالے سے ان کی فکر وہی ہے جو ”جوابی بیانیے“ کی مذکورہ بالا شق سے کسی طرح بھی مطابقت رکھتی نہیں دکھائی دیتی۔ اپنی تفسیر ”تدبرِ قرآن“ بھی انھوں نے جماعتِ اسلامی سے نکلنے کے بعد لکھنا شروع کی اور اس کے مقدمے میں انھوں نے یہی لکھا ہے کہ انھوں نے ”ساری عمر اپنے استاد کے سُر سے ساتھ اپنا سُر ملانے کی کوشش کی ہے۔“ مولانا اصلاحی کی ان تحریروں میں تین کتابوں کے جو دیباچے اور مقدمے لکھے گئے ہیں، ان کی تاریخیں حسبِ ذیل ہیں:
1- ”اسلامی ریاست“، 6 اکتوبر 1976ء، جناب احسن تہامی نے دارالتذکیر سے جنوری 2002ء میں اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع کیا۔
2- ”اسلامی قانون کی تدوین“، 15 مئی 1976ء؛ مولانا اصلاحی کے شاگرد جناب ماجد خاور نے 20 جولائی 1991ء کو مولانا اصلاحی کی حیات کے آخری سالوں (انتقال 15 دسمبر 1997ء) میں اس کا نیا ایڈیشن فاران فاؤنڈیشن سے شائع کیا۔
3- ”جدید اسلامی ریاست میں قانون سازی اور مسائل“، ترتیب جناب رفیع مفتی (شاگرد جناب جاوید احمد غامدی)؛ اس کتاب میں مذکورہ بالا کتاب ”اسلامی قانون کی تدوین“ کو ضم کرنے کےساتھ مولانا اصلاحی کے بعض دیگر مقالات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کو جناب احسن تہامی (جو غامدی صاحب کے رشتہ دار اور ان کی فکر ہی کے خوشہ چین ہیں۔) نے سال 2005ء میں دارالتذکیر سے شائع کیا۔ اور ”عرضِ ناشر“ کے ذیل میں یہ الفاظ لکھے: ”مولانا کا یہ سارا کام دورِ جدید کی اسلامی ریاست کے لیے ہمیں وہ رہنما اصول فراہم کرتا ہے جس سے ہم اس کا تفصیلی نقشہ تیار کر سکتے ہیں، نیز آپ کا یہ کام ہمیں بتاتا ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ کے حوالے سے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے اور اس سلسلے وہ کیا کیا گمراہیاں ہیں جن سے ہمیں بچنا ہوگا۔“
یہاں ایک دل چسپ تقابل غامدی صاحب کی کتاب ”میزان“ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔”میزان“ کے مختلف حصے پہلے الگ بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ ایک روز ایک بازار میں چلتے چلتے راقم ایک پرانی کتابوں کی دکان میں داخل ہوا تو مارچ 1993ء کی شائع شدہ غامدی صاحب کی کتاب ”سیاست ومعیشت“ نظر آئی تو خرید لی۔ اس میں ”قانونِ سیاست“ کے عنوان کے تحت ایک ذیلی عنوان ”بنیادی اصول“ کے نام سے ملتا ہے جس میں یہ عبارت درج ہے: ”اسلام نے اپنے قانون ِ سیاست کی بنا جس اصول پر رکھی ہے، وہ یہ ہے کہ نظامِ ریاست میں اصل مرجع ِ اطاعت کی حیثیت صرف اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔ ہر وہ معاملہ جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنت کے ذریعے کر دیا ہے، اس میں اولوالامر کو خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان، اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ اولوالامر کے احکام اس اطاعت کے بعد اور اس کے تحت ہی مانے جاسکتے ہیں۔ اس اطاعت سے پہلے یا اس سے آزاد ہو کر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چناں چہ اسلامی ریاست میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہویا جس میں ان کی ہدایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ (ص11)“؛ یہ سطور لکھتے وقت خوشی کے احساس سے ”میزان“ 2009ء کا ایڈیشن اٹھایا تو عبرت ہوئی کہ سرے سے یہ تمام تمہید اس سے غائب کر دی گئی ہے۔
اوپر جناب احسن تہامی کے الفاظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سال 2005ء تک بھی ”ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں“ کے مصداق اس حلقے میں کسی ”اسلامی ریاست“ کا تصور موجود تھا جس میں ”اسلامی قانون کے نفاذ“ کے جذبے کا الاؤ روشن تھا۔ افسوس ہے کہ اس کے بعد کے تکوینی حالات (جن کا خصوصی آغاز نائن الیون کا واقعہ ہے۔) ملک میں شدید سے شدید تر ہوتے چلےگئے، وطنِ عزیز کچھ غیروں اور کچھ اپنوں کی نادانیوں سے آتش وآہن کی گھن گرج کی نذر ہوا، لاشیں گرنے لگیں، حوا کی بیٹیوں کے سہاگ اجڑنے کا روح فرسا منظر نامہ شروع ہوا، معصوم غنچے، بہارِجاں فزا دکھلائے بغیر بِن کھلے مرجھانے لگے، جہاں استعمار نے ڈرون کلچر کو انسانیت پر ظلم کے لیے خوب استعمال کیا، وہیں اسلام کے پرامن تصورِ خلافت سے پرتشدد تحریکوں نے بھی خوب فائدہ اٹھایا جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے، اور لگتا یہی ہے کہ گردوں کے افق پر خونی شفق کی دھاریاں موجود ہیں جو دور تک سیاہ دھندلکوں میں گم ہوتی جاتی ہیں؛ یہاں تک کہ ذہنوں میں یہ راسخ ہونے لگا ہے کہ ہو نہ ہو، یہ اصطلاحات اور تصورات بھی سرے سے جڑ بن سے اکھیڑ کر پھینک دینے کی ضرورت ہے، آئین کے اسلامیانے کے تصور سے بھی تشدد جنم لے رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس تصور کا ہی خاتمہ کر کے ”جوابی بیانیہ“ پیش کر دیا جائے جس میں یہ شق بھی لکھ دی جائے کہ ”یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قراردادِ مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔“ یوں دینی تناظر میں اس حلقے کی Socio Political Thought کے زوال کا وہ سفر جو کافی پہلے شروع ہوا تھا، اپنے عروج پر آ پہنچا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون. اللھم اغفر لحينا وميتنا.) کاش یہاں اس خیال کو بےبنیاد کہتے ہوئے غامدی صاحب صرف بیس سال ہی پہلے کی اپنی لکھی ہوئی سطور پر نظر فرما لیتے۔
یہ تمہید طویل ہوگئی، لیکن بعض وجوہ سے ناگریز تھی۔ یہاں یہ بات خصوصی طور پر ملحوظ رہے کہ مولانا اصلاحی افراد کی تربیت، معاشرے کی تیاری وغیرہ کی مسلسل محنت کے نہایت سرگرم داعی ہیں، اور جماعت ِاسلامی سے نکلنے کے بعد انھوں نے جماعت کی عملی پالیسیوں پر اس پہلو سے مضبوط تنقیدیں بھی کی ہیں جن کی رو سے جماعت، اصلاح معاشرہ کے کام سے نسبتاً سبکدوش ہو کر رہ گئی؛ چناں چہ اپنی کتاب ”تزکیۂ نفس“ (جس کا پہلا ایڈیشن 1957ء میں شائع ہوا۔) میں فرد کے ریاست سے تعلق کی بحث میں مختلف حکومتوں کی قسمیں بیان کرتے ہوئے پاکستان کے تناظر میں بھی بات کی ہے اور اس حوالے سے کام کی تجاویز دی ہیں۔ اپنی کتاب ”تفہیمِ دین“ ( مرتبہ جناب خالد مسعود مرحوم) میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ”جو لوگ اسلامی نظام کے قیام کے خواہاں ہیں، ان کا مقدم فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر معاشرہ کی تعمیر کی جدوجہد کریں اور اسی تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو آگے بڑھائیں جس تدریج و ترتیب کے ساتھ اس کو قرآن اور پیغمبر نے آگے بڑھایا تھا۔ اس بنیادی کام کے بغیر جو لوگ ”انقلابِ قیادت“ اور ”حکومتِ الہیہ“ کا نعرہ لے کر اٹھے ہیں، ہم ان کے کام کو اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صرف بے نتیجہ بلکہ بعض پہلوؤں سے نہایت مضر خیال کرتے ہیں۔اس طرح کے لوگ یا تو درخت لگائے بغیر پھل کھانا چاہتے ہیں یا اندرائن یا گلوئے نیم کی بیلوں سے انگورکے خوشے توڑنا چاہتے ہیں۔( ص 138)“؛ لیکن اس سب کے باوجوداسلامی سیاسی نظم کی حقیقی فکر، قوانین کے اسلامیانے وغیرہ کے حوالے سے بھی انھوں نے اسی دور میں مسلسل لکھا ہے اور اس حوالے سے ان کی فکر جمہور علماء والی ہی رہی ہے۔
اب مولانا امین احسن اصلاحی کی مذکورہ بالا کتابوں سے ان کے اسلامی ریاست کے تصور، قانون کے اسلامیانے اور اس کے نفاذ کے حوالے سے ان کی فکر کو بغایتِ اختصار نکات کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی تفسیر سے ان کے تصورات پیش کیے جاچکے ہیں، یہاں گفتگو ان کی مذکورہ کتابوں تک محدود ہوگی، جس میں انھوں نے اپنی اسلامی سیاسی فکر کو مربوط انداز میں بیان کیا ہے:
1– اصطلاحِ خلافت (جسے جوابی بیانیے میں سرے سے کوئی دینی اصطلاح ہی نہیں سمجھا گیا۔) کے بارے میں کہتے ہیں: ”ریاست کا اسلامی تصور اس اصطلاح کے اندر چھپا ہوا ہے جو اسلام نے ریاست کی تعبیر کے لیے اختیار کی ہے۔ اسلامی لٹریچر پر نگاہ رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ اسلام نے اصولوں پر قائم شدہ سیاسی تنظیم کے لیے ریاست یا سلطنت یا حکومت کی اصطلاحیں نہیں اختیار کی ہیں، بلکہ خلافت یاامامت یا امارت کی اصطلاحیں اختیار کی ہیں۔ اس وجہ سے ریاست کا اسلامی تصور واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے ان اصطلاحات پر غور کرنا اور ان کے مضمرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ (اسلامی ریاست، ص 16)“۔
(مولانا اصلاحی ان اصطلاحوں کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ یہ ”اسلام“ نے اختیار کی ہیں۔ جاوید صاحب کہتے ہیں کہ دینی اصطلاحیں تب بنتی ہیں جب ”ان کا اصطلاحی مفہوم قرآن وحدیث کے نصوص یا دوسرے الہامی صحائف سے ثابت کر دیا جائے۔“ اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اس حوالے سے اگر کتبِ احادیث کی طرف مراجعت کی جائے کئی احادیث میں ان الفاظ کو انھی اصطلاحی مفاہیم میں لیا گیا ہے۔)۔
2- اگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کے مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان اصطلاحات کے مفہوم الگ الگ ہیں۔ خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر ایک قائم شدہ ریاست کے لیے استعمال ہوتی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے جو خلافت کے ارادوں کی تنفیذ کرتی اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو یوں سمجھیے کہ جو فرق State اور Government کے درمیان ہے، وہی فرق خلافت اور امامت و امارت کے درمیان ہے۔
(یہاں جناب جاوید صاحب کا وہ کالم ذہن میں رہے جو انھوں نے جوابی بیانیے کے بعد مولانا تقی عثمانی صاحب کے کالم کے جواب پہلے کالم کے طور پر ”ریاست و حکومت“ کے نام سے لکھا تھا۔ مولانا اصلاحی اسلامی State کو ”مذہبی“ فرما رہے ہیں. (اسلامی اصولوں پر قائم شدہ حکومت)، جب کہ غامدی صاحب اس کو ”کسی قرار دادِمقاصد“ کی رو سے ”مسلمان بنانے“ کی نفی فرما رہے ہیں۔)
3- خلافت انسانی شعور میں ودیعت کردہ شے ہے، باہر سے مسلط شدہ نہیں۔ اس زمین میں قانون سازی اور تصرف کے جو اختیارات انسانوں کو حاصل ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے تحت ہیں یا پھر ان دائروں کے اندر ہیں جن میں اللہ تعالی نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے۔ (نفسِ مصدر، ص 18، 19)
4- خلافت کی اساس قوم یا وطن یا نسل اور نسب کے تصورات پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے مزاج اور اپنی فطرت کے لحاظ سے ایک اصولی اور جہانی ریاست ہے۔ (نفسِ مصدر، ص 19)۔
5- خلافت اور عام ریاست میں ظاہری ڈھانچے کے لحاظ سے خاص فرق نہیں، لیکن جہاں تک ان دونوں کے اصول اور مقاصد تک تعلق ہے، دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ (ص 22 ملخص)
6- اسلامی نظمِ ریاست میں جمہور کی نمائندگی کی نفی نہیں ہوتی۔ شورائی نظم اس کی نہایت بنیادی خصوصیت ہے۔ (ص 30 و مابعد)۔
7- خدا کے اس کائنات کے خالق ومالک ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اگرا س کی دنیا اور اس کی رعایا پر قانون کسی اور کا چلے؛ لیکن اس کی تشریعی حاکمیت جبر پر قائم نہیں ہے، بلکہ اس کو اس نے انسانوں کے اختیار پر چھوڑا ہے اور اسی کو ان کی عزت وذلت کا معیار بنایا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اس کو اختیار کر کے خدا کے بندے اور اس کی رعیت بن سکتے ہیں اور اپنے لیے اس کے ہاں بڑا اجر حاصل کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو اس سے منحرف ہو کر اس کے باغی اور شیطان کی رعیت بن سکتے ہیں اورا پنے آپ کو دنیا میں خدا کی لعنت اور آخرت میں اس کے عذاب کا مستحق بنا سکتے ہیں۔(ص 24)۔
(پاکستان میں فیڈرل لیول پر پارلیمنٹ اور صوبائی لیول پر صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کرتی ہیں۔اگر ہم اپنے ملک میں ”کسی قرار داد مقاصد کے ذریعے“ قانون کو ”مسلمان“ نہ بنائیں تو پھر ارباب حکومت جس چیز کی تنفیذ کریں گی، وہ کیا ہوگا؟ کیا یہ راستہ اللہ کی نظر میں عزت کا ہوگا یا ذلت کا، اور اخروی لحاظ سے جنت کی راہ ہے یا دوزخ کی؟ محض اربابِ حکومت کو دینی ذمے داریاں یاد دلانا، لیکن وہ جس قانون کی تنفیذ کی قوت رکھتے ہیں، اسے کسی الہی منشا کے تابع کرنے کی مخالفت ایک ایسا عجیب Paradox ہے جس کے نتیجے میں اربابِ حکومت سے کسی خیر کی توقع ایک خیالی جنت کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔)
تحریر سید متین احمد