اسلام کا نظامِ قانون بنیادی طور پر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ہے، جواسلامی شریعت کے مرکزی مصادر ومآخذ ہیں، فقہ وقانون کی دنیا میں اسلامی نظامِ قانون، عدل وانصاف، توازن واعتدال، غلووتشدد سے اجتناب اور جامعیت وافادیت جیسی امتیازی صفات کے لیے شہرت رکھتا ہے، اس کی وسعت وگہرائی، سہولت پسندی حیرت انگیز بے ساختگی اور لچک اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی تمام حقیقت پسندوں کے یہاں مسلم ہے، جس کا دائرہ عمل پیدائش سے میراث تک اور عقائد وعبادات سے لےکرمعاملات وسیاست وغیرہ امور تک محیط ہے۔ یہ اس کی جامعیت وسعت ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کایہ عہدجدید اور مستقبل کاکوئی بھی ترقی یافتہ اور عصری تمدن اپنے مسائل ومعاملات کے لیے اس کا دامن تنگ نہیں پاسکتاـ
اس کی ترتیب وتدوین اور تالیف وتنظیم ان پاک نفوس اور نابغۂ روزگار علماء ومحدثین کے ہاتھوں انجام پائی جن کے ورع وتقویٰ اور خلوص وللہیت پرکوئی شبہ وکلام نہیں اور جن کی ذہانت وذکاوت، دانائی وبینائی، فقہی بصیرت، فہم وفراست، دقیق وباریک بیں نگاہ اور وسیع وعمیق نظر کی دنیا کے پاس اب کوئی مثال نہیں، جن کے اخاذ ذہن اور نقادفکر نے کتاب وسنت کی نصوص کی روشنی میں اپنے حکیمانہ اجتہاد، فقیہانہ فہم وتدبر، مسائل کے استنباط میں روایت ودرایت پرگہری نظر اور بڑی عرق ریزی، دیدہ وری اور ژرف نگاہی کے بعد فقہی اصول ومبادی کا تعین کیا، اس طرح فقہ اسلامی کوپھلنے اور پھیلنے کا موقع میسر آیا اور تنوع ووسعت کی مزید راہیں نکل آئیں۔
فقہ اسلامی کی ان خصوصیات کی ایک اہم اور بنیادی وجہ فقہی مسائل میں مختلف مکاتب فقہ کا اختلاف ہے اور یہ یقیناً امت کے لیے رحمت ہے ۔ فقہی احکام میں علماء کا یہ اختلاف دراصل عہد صحابہ کے اجتہادی اختلاف ہی کا طبعی نتیجہ ہے، چونکہ رسول اللہﷺ کے بعد غیرمنصوص مسائل میں اجتہاد کے سوا چارہ نہیں تھااس لیے صحابہ کے درمیان اختلافِ رائے بھی پیدا ہوا، عہد رسالت میں احکام ومسائل کے لیے لوگ براہِ راست صاحب شریعت سے رجوع کرتے تھے، عام طور پروحی کے ذریعہ سوالات کے جوابات آجاتے اور کبھی آپﷺ اپنے اجتہاد سے جوخود وحی کا درجہ رکھتا ہے، مسائل حل کرتے (قاموس الفقہ:۱/۱۷۹، مادہ اجتہاد) صحابہ کو اجتہاد کی ضرورت اس زمانہ بہت کم پیش آتی تھی اور عملی زندگی میں صحابہؓ حضوراکرمﷺ کی ایک ایک حرکت وعمل پرنظررکھتے تھے کیونکہ اسوہ اور نمونہ آپﷺ کی ذات ہی تھی اور ہرصحابی اپنے اپنے فہم کے مطابق آپﷺ کے ارشادات، فتاویٰ ومسائل کو سمجھتے اور محفوظ رکھتے اور علامات وقرائن سے ہرعمل کی قیمت وحیثیت (اباحت، استحباب، وجوب وغیرہ) متعین کرتے ۔لیکن جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوچکی تو غیر منصوص مسائل کا حل اجتہاد سے نکالا گیا اور اس کوشش میں اجتہادی آرا میں اختلافات بھی ہوئے۔جیسےحضرت عمر اور عبداللہ بن مسعودؓ کے نزدیک بیوہ حاملہ عورت کی عدت ولادت تک تھی اور غیرحاملہ کی چار مہینے دس روز، حضرت علی اور عبداللہ بن عباسؓ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ولادت اور چارماہ دس دنوں میں سے جومدت طویل ہو وہ عدتِ وفات ہوگی۔حضرت عمر اور عبداللہ بن مسعودؓ کے نزدیک مطلقہ عورت کی عدت تیسرے حیض کے غسل کے بعد پوری ہوتی تھی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہوتے ہی عدت پوری ہوجاتی تھی، حضرت ابوبکر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ باپ کی طرح دادا بھی سگے بھائیوں کومیراث سے محروم کردے گا، حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کواس سے اختلاف تھا۔اس طرح کے بیسیوں اختلاف عہدِ صحابہ میں موجود تھے، کتبِ فقہ اور خاص کرشروحِ حدیث ان کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کے معروف صاحب علم ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ کی موسوعات کوجمع کرنے کا کام شروع کیا ہے، اس سے مختلف صحابہ کی فقہ اور ان کا فقہی ذوق اور منہج استنباط واضح طور پرسامنے آتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے لوگوں کوبعض اختلافی مسائل میں ایک رائے پرجمع کرنے کی خاص طور پرکوشش فرمائی چنانچہ بعض مسائل پراتفاق رائے ہوگیا اور جن میں اتفاق نہیں ہوسکا، ان میں بھی کم سے کم جمہور ایک نقطہ نظر پرآگئے جیسے اس وقت تک شراب نوشی کی کوئی سزا متعین نہیں تھی، حضرت عمرؓ نےاس سلسلہ میں اکابر صحابہؓ سے مشورہ کیا، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص شراب پیتا ہے تونشہ میں مبتلا ہوتا ہے؛ پھرنشہ کی حالت میں ہذیان گوئی شروع کرتا ہے اور اسمیں لوگوں پربہتان تراشی بھی کرگزرتا ہے؛ اس لیے جوسزا تہمت اندازی (قذف) کی ہے، یعنی اسی (۸۰) کوڑے، وہی سزا شراب نوشی پربھی دے دی جانی چاہئے؛ چنانچہ اسی پرفیصلہ ہوا (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر:۷۰۹) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بھی اسی (۸۰) کوڑے کا مشورہ دیا تھا۔اس طرح اگرکوئی شخص لفظ بتہ کے ذریعہ طلاق دے، تواس میں ایک طلاق کا معنی بھی ہوسکتا ہے اور تین طلاق کا بھی۔ چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ طلاق دینے والے کی نیت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا تھا، حضرت عمرؓ کا احساس یہ تھا کہ بعض لوگ اس گنجائش سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی، اس لیے انھوں نے اس کے تین طلاق ہونے کا فیصلہ فرمایا۔
صحابہ فروعی مسائل میں اس اختلاف رائے کوبرا نہیں سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، اگرکوئی شخص سوال کرنے آئے توایک دوسرے کے پاس تحقیق مسئلہ کے لیے بھیجتے تھے اور اپنی رائے پرشدت نہ اختیار کرتے تھے، حضرت عمرؓ سے ایک صاحب ملے اور حضرت علیؓ اور زید بن ثابتؓ کا فیصلہ انھیں سنایا، حضرت عمرؓ نے سن کر کہاکہ اگرمیں فیصلہ کرتا تواس کے برخلاف اس طرح کرتا، ان صاحب نے کہا کہ آپ کوتواس کا حق اور اختیار حاصل ہے پھرآپ اپنی رائے کے مطابق فیصلہ فرمادیں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگرمیرے پاس اللہ، رسول کا حکم ہوتا تومیں اس کونافذ کردیتا لیکن میری بھی رائے ہے اور رائے میں سب شریک ہیں چنانچہ انھوں نے حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے فیصلہ کوبرقرار رکھا:”والرأی مشترک فلم ینقص ماقال علی وزید”۔ (اعلام الموقعین:۱/۵۴)
فقہاءِ صحابہ کے درمیان اختلافِ رائے کے چند اہم اسباب:
قرآن وحدیث کے کسی لفظ میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال، جیسے قرآن نے تین “قرؤ”کوعدت قرار دیا ہے “قرأ” کے معنی حیض کے بھی ہیں اور طہر کے بھی؛ چنانچہ حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس سے حیض کا معنی مراد لیا اور حضرت عائشہ، حضرت زید بن ثابتؓ نے طہر کا۔
بعض دفعہ حضورﷺ کے کسی عمل کا مقصد ومنشاء متعین کرنے میں اختلافِ رائے ہوتا تھا، جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ طواف میں رمل کا عمل آپ نے مشرکین کی تردید کے لیے فرمایا جو کہتے تھے کہ مدینہ کے بخار نے مسلمانوں کوکمزور کرکے رکھ دیا ہے، یہ آپ کی مستقل سنت نہیں، دوسرے صحابہ اس کومستقل قرار دیتے تھے۔اس طرح حج میں منی سے مکہ لوٹتے ہوئے وادی ابطح میں توقف، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ اسے سنت نہیں سمجھتے تھے اور اس کوحضورکا ایک طبعی فعل قرار دیتے تھے کہ اس کا مقصد آرام کرنا تھا لیکن دوسرے صحابہؓ اسے سنت قرار دیتے تھے۔ غور کیا جائے! توصحابہ کے درمیان اختلاف رائے کا ایک سبب ذوق اور طریقہ استنباط کا فرق بھی تھا، بعض صحابہ کا مزاج حدیث کے ظاہری الفاظ پرقناعت کا تھا، جیسے حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابوذرغفاریؓ وغیرہ بعض صحابہؓ حدیث کے مقصد ومنشاء پرنظررکھتے تھے اور قرآن مجید اور دین کے عمومی مزاج ومذاق کی کسوٹی پراسے پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے
اس طرح اسلامی فتوحات کا سلسلہ جب تیزی سے بڑھنے لگا اور صحابہؓ تبلیغِ اسلام کی غرض سے مختلف خطوں اور علاقوں میں پھیل گئے توہرصحابی اپنے علاقہ کے مقتدی اور امام ہوگئے، وہ حضوراکرمﷺ کے ارشادات وفرامین اور آپﷺ کے عمل کی روشنی میں مسائل حل کرتے اگرکسی مسئلہ میں کوئی نص شرعی یاعہدِنبوت کا کوئی نمونہ اپنے یہاں نہ پاتے توکتاب وسنت کی روشنی میں اجتہاد کرتے۔ چونکہ یہ ممکن نہیں کہ بیک وقت تمام صحابہ حضورﷺ کے ساتھ ہروقت اور ہرلمحہ موجود رہے ہوں اور آپﷺ کی ۲۳/سالہ نبوی زندگی کا مستقل مشاہدہ کررہے ہوں اس لیے تمام صحابہ اپنی مرویات میں مختلف تھے اور ہرصحابی حضورﷺ سے اخذ کردہ اپنے آثار واحادیث کے مطابق عمل کرتے تھے اور ان ہی کے مطابق فیصلے دیتے تھے ۔ اس طرح جن جن علاقوں میں جوصحابہ پھیل گئے، وہاں ان کی رائیں کتاب وسنت کی روشنی میں ان کے اجتہاد پرمبنی ہوتی تھیں زیادہ مشہور اور مقبولِ عام ہوئیں اور لازمی طور پر ان صحابہ کی فقہی آراء واجتہادات کی گہری چھاپ، تلامذہ کے ذریعہ ان علاقوں پر پڑگئی اور قائم رہی، حضرت عبداللہ بن عباسؓ چونکہ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور امام شافعیؒ (۹۳۔ ۲۰۴ھ) کی فقہ پراس کا بہت زیادہ اثر ہے اور کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقہ کے علمبردار ابراہیم نخعیؒ تھے (وکان ابراہیم لسان فقہاء اھل الکوفۃ) اس لیے امام ابوحنیفہؒ (۸۰۔۱۵۰ھ) کی فقہ پرابن مسعودؓ کےمسلک اور ان کے فتاویٰ کا اثر نمایاں ہے، اس لحاظ سے مختلف علاقوں میں مختلف فقہی مذاہب ظہور پذیر ہوئے؛ پھران سب میں ائمہ اربعہ کے مذاہب کودوام وبقاء حاصل ہوا۔
واضح رہے کہ فقہاء کے درمیان بھی عقائد وأصول الدين میں کوئ اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اورغیرمُضراختلاف ہے اوریہ اختلاف بهی شرعی دلائل وبراہین کی بنیاد پرہے اور پھر یہ اختلاف صرف ان مسائل میں ہے جن میں روایات دونوں جانب ہوں اور اختلاف بھی محض ترجیح اور فضیلت میں ہوتا ہے۔ ائمہ فقہ کے ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی فقہ وقانون میں بحث ونظرکے نئے گوشے ابھرکرسامنے آئے اور اس میں ایسی وسعت اور لچک پیدا ہوئی کہ زمان ومکان کی تبدیلی، زندگی کی گردش اور تہذیب وتمدن کی کروٹ سے بالکل بے پروا ہوکر وہ زمانہ کے ہرجدید تقاضے کی تکمیل کرسکتا ہے اور یہی صلاحیت کسی زندہ مذہب کے زندہ قانون وفقہ کی دلیل ہے اگریہ اختلاف ائمہ اور اس سے پیدا ہونے والے فقہی نظائر کا ذخیرہ نہ ہوتا تویہ بھی جمود وتعطل اور عسرت وتنگی کا شکار ہوجاتا۔ خلیفہ ہارون رشید نے ایک دفعہ امام مالکؒ سے مشورہ کیا کہ “مؤطا” کوکعبہ میں رکھا جائے اور لوگوں کواس پرعمل کرنے کا حکم دیا جائے، امام مالکؒ نے کہا:ایسا نہ کیجئے، اس لیے کہ مختلف فروع مسائل میں اصحاب رسول اللہﷺ کے درمیان اختلاف ہے اور تمام صحابہؓ مختلف شہروں میں منتشر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ تمام حدیثیں بھی پھیل گئی ہیں۔ (حکاہ السیوطی۔ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف:۲۳)
خلاصہ یہ کہ فروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی موجود تها اورصحابہ کرام جودین اسلام اورقرآن وسنت کے اولین راوی وناقل وحامل جماعت ہے ،ہم تک سارا دین انهی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تها تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین وتبع تابعین وعلماء امت کے درمیان بهی یہ اختلاف موجود ہو اورایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے۔ فقہائے امت کے درمیان مسائل فقہ میں اختلاف بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کے تحت ہے، یہ اختلاف محمود بھی ہے اور مطلوب بھی اور بہت سی دینی مصلحتیں اس سے وابستہ ہیں، اس لیے اس سے انکار کی گنجائش ہے نہ اس سے مفر۔
اگلی تحریر:کیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
(جاری ہے)