یہ اسلامی قانون کے متعلق ان stereotypes میں سے ہے جو ہمارے “اجتہاد کے علم بردار اردوخوان طبقے “میں پچھلی دو نسلوں سے رائج ہیں ۔ جب ان کے سامنے امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمۂ عظام کی عظیم جدوجہد کی کچھ جھلکیاں پیش کی جائیں تو پھر ان میں سے کچھ دوست یہ تو مان جاتے ہیں کہ ابتدا میں ایسا نہیں تھا لیکن اس کے بعد کہتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں ایسا ہوا ۔ یہ “بعد کا دور” کون سا دور ہے ۔ ذرا امام ابو حنیفہ سے تین سو سال بعد آنے والے ایک عظیم الشان فقیہ کی زندگی اور کام کی کچھ جھلکیاں پیش کیے دیتے ہیں۔
شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل السرخسی کی پیدایش پانچویں صدی ہجری کی ابتدا (400ھ / 1100ء )میں ہوئی۔ “سَرَخس “مشہد اور مرو کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا (ایران کی سرحد کے قریب موجودہ ترکمانستان میں ) ۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں ایک بڑا نام شمس الائمہ عبد العزیز الحلوانی کا ہے جن کاانتقال 448ھ / 1056ء میں ہوا ۔ امام سرخسی کے مایہ ناز شاگردوں میں صاحبِ ہدایہ امام مرغینانی کے نانا ابو حفص عمر بن حبیب بھی شامل تھے۔
امام سرخسی ابتدا میں حلب میں “حلویہ” میں اسلامی قانون کا درس دیتے رہے ۔ اسی درس گاہ میں دو نسلوں کے بعد صاحب ِ بدائع الصنائع امام کاسانی نے اسلامی قانون کی تدریس کی ۔
اپنی عمر کے آخری حصے میں امام سرخسی اپنے آبائی علاقے فرغانہ میں اسلامی قانون کی تدریس کرتے رہے جب اس علاقے کے حکمران کو امام سرخسی کے ایک فتوے پر طیش آیا اور اس نے پہلے تو امام پر اچھا خاصا دباو ڈالا کہ وہ یہ فتوی واپس لیں لیکن اس میں ناکامی کے بعد اس نے آپ کو قلعے کے ایک کنویں میں قید کیا ۔ 466ھ (1074ء) سے 480ھ (1088ء )تک اس قید میں امام سرخسی نے چودہ سال گزارے لیکن وہ فتوی واپس نہیں لیا ۔
یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہوا ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسی قید خانے سے امام سرخسی نے اسلامی قانون کی وہ عظیم الشان خدمت کی جس کی مثال نہیں ملتی ۔ میں ان کی صرف تین کتابوں کا حوالہ دوں گا ۔
امام سرخسی نے فقہ حنفی کے سب سے تفصیلی متن “الکافی ” پر مفصل شرح لکھوائی ۔ یہ شرح ، جسے دنیا “المبسوط” کے نام سے جانتی ہے ، تیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور اسلامی قانون کے اصولوں اور حرکیات کی توضیح اس سے بہتر طریقے پر کبھی نہیں ہوسکی۔ اس شرح کی تفصیلی خصوصیات الگ سے لکھوں گا ، ان شاء اللہ۔
اس کے علاوہ یہیں قید میں امام سرخسی نے حنفی فقہ کے اصولوں کی تدوین کروائی جس کا عنوان انھوں نے “تمھید الفصول فی الاصول” رکھا لیکن وہ عام طور پر “اصول السرخسی “کے نام سے مشہور ہے اور دو جلدوں میں شائع ہوتی ہے ۔
قیدخانے میں امام سرخسی نے امام محمد کی کتاب السیر الکبیر پر ، جو جہاد کے متعلق اسلامی قانون کی سب سے مفصل کتاب تھی ، شرح لکھوائی جو پانچ جلدوں میں شائع ہوتی ہے ۔
مبسوط میں کہیں کہیں امام سرخسی اپنی قید کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بہت ہی پراثر الفاظ میں دعا بھی مانگتے ہیں جو ان کے اخلاص اور تقوی کی بھی شہادت دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس حق کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں ان کے بڑھاپے کے باوجود ان کو کمزورنہ کرسکیں ۔ کسی وقت موقع ملے تو ، ان شاء اللہ ، مبسوط کی کتاب الاکراہ کا کچھ تعارف اور اس کی کچھ جزئیات بھی پیش کروں گا تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح وہ قید میں رہ کر بھی ظالم حکمرانوں اوران کے چمچوں کے علاوہ ڈاکووں اور باغیوں کے متعلق بھی اسلامی قانون کے احکام اور اصول کس شرح و بسط سے واضح کرتے ہیں ۔ اجتہاد کے علم بردار ہمارے بیش تر معاصرین ایسے موقع پر ان کے سامنے بالکل بونے نظر آتے ہیں!
آخر میں مبسوط کی کتاب السیر کے اختتامی الفاظ پڑھ لیں اور پھر اس عظیم الشان فقیہ کے حق میں دعا کریں ۔ کیا پتہ یہ دعا خود ہمارے لیے مغفرت کی باعث بن جائے !
انتهى شرح السير الصغير ، المشتمل على معني اثير ،باملاء المتكلم بالحق المنير ، المحصور لاجله شبه الاسير ، المنتظر للفرج من العالم القدير السميع البصير ، المصلى على البشير الشفيع لامته النذير ، وعلى كل صاحب له ووزير ، والله هو اللطيف الخبير۔
تحریر: ڈاکٹر مشتاق ، پروفیسر شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد