مستشرقین کا اعتراض:
بعض مستشرقین نے یہ لکھا کہ فقہ اسلامی براہِ راست قرآنِ حکیم سے اخذ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کا خمیر بنوامیہ کے انتظامی عمل سے اٹھایا گیا ہے اور بعض اوقات بنو امیہ کا عمل قرآن کریم کے الفاظ پر بھاری ہوتا تھا۔ مستشرقین کی اس بات ہم صریح علمی خیانت قرار دینے پر مجبور ہیں اگران کے اس لغومفروضہ کوتسلیم کرلیا جائے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنوامیہ سے پہلے خلافتِ راشدہ اور خلافتِ فاروقی کے عہدِ زرین میں قانونی ضروریات کی تکمیل کس طرح کی جاتی تھی؟ یہ دعویٰ کہ دورِ جاہلیت کے رسم ورواج اور مختلف ملکوں کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا ہوگا، ایک بے بنیاد دعویٰ ہے، جس کی تاریخ کھل کر تکذیب کررہی ہےکیونکہ عہدِ نبوی اور دورِ خلافت میں ایسے بیشمار واقعات رونما ہوئے جس کی نظیر نہ دورِ جاہلیت میں تھی نہ دوسری قوانین میں اور یہ تصور کہ اس انقلاب آفریں دور میں اسلامی معاشرہ کسی قانون کا پابند نہ تھا ایسا نظریہ ہے جواپنی تردید خود کررہا ہے اور جسے کسی درجہ میں تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ قرآن جس طرح ایک اصلاحی پند نامہ ہے اسی طرح ایک جامع اور اٹل قانونی دستور بھی ہے، قرآن جہاں اصلاح باطن اور فکر آخرت پر زور دیتا ہے وہیں اعلیٰ معاشرتی قوانین بھی عطا کرتا ہے، اس کا ہراصول اپنے دامن میں زبردست وسعت اور بے شمار جزئیات کوسمیٹا ہوا ہے، وہ عملی معاشرتی اور عائلی قوانین جوقرآن میں صراحتاً بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد چارسو سے متجاوز ہے، اس کے علاوہ احادیث میں بیان کردہ اصول وقوانین کو بھی ملالیا جائے توا سکی تعداد بے شمار ہوجاتی ہے اور یہی چیزیں فقہ کی اساس اور بنیاد ہیں، اس پسِ منظر میں مستشرقین کے مذکورہ غلط دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لیے انکارِ حقائق میں مہارت اور حالات وواقعات سے نظریں چرانے کی جرأت کی ضرورت ہے۔ نیزان کا یہ دعویٰ کہ بعض اوقات بنی امیہ کا عمل قرآن حکیم کے الفاظ پر بھاری ہوتا تھا، انتہائی دروغ گوئی ہے اور فقہاء ومحدثین پر افتراء ہے۔
مستغربین/متجددین:
ہمارے دور کے متجددین یہ اعتراض ان الفاظ میں دوہراتے ہیں “اسی فقہ کو قبول عام حاصل ہوا جسے حکمران وقت نے قبولیت بخشی۔ مستغربین کے اس طبقے نے اسی طرح اسلامی قانون کے پورے نظام اور اس کی تاریخ کو غلط مفروضات پر قائم کیا ہوا ہے اور ان غلط مفروضات کی حقیقت سواے اس کے کچھ نہیں کہ مستشرقین اور نام نہاد مغربی علمی محققین کے کام سے چند باتیں اکٹھی کرکے ان پر تخیل کا رنگ چڑھا دیا ہے اور اب انھیں حقائق کے طور پر مانتے اور منوار رہے ہیں
درحقیقت یہ بھی محض ایک دعوی ہے اور فقہ کی تاریخ اس کے برعکس بات بتاتی ہے ۔ جوزف شاخٹ جیسے متعصب مستشرق ، جس کا کام بعد کے مستشرقین اور ان کے اندھے مقلد مستغربین کے لیے بنیادی ماخذ ہے ، کافی تفصیل سے بتاچکا ہے کہ 132ھ تک فقہ مفصل طور پر وجود میں آچکی تھی ۔ اس سال اموی خلافت کا خاتمہ ہوا اور عباسیوں نے اپنی حکومت قائم کی ۔ 150ھ تک ، یعنی اٹھارہ مزید سالوں تک ، دونوں عباسی خلفا ، بالخصوص دوسرے خلیفہ منصور نے بھرپور کوشش کی کہ امام ابوحنیفہ کو ساتھ ملالیں لیکن carrot and stick دونوں طریقے آزمانے کے باوجود ناکام رہے اور امام کی وفات قید میں ہی ہوئی ۔ منصور نے امام مالک کو بھی رام کرنے کی کوشش کی اور ابن المقفع کے مشورے کے بعد موطا کو حکومتی سطح پر نافذ کرنے کی تجویز بھی ان کو دی لیکن امام مالک نے اسے مسترد کردیا ۔
مزید دو خلفا اور تقریباً دو دہائیاں گزرنے کے بعد ہارون الرشید جب خلیفہ ہوا تو اس کے بعد ہی اس نے امام ابویوسف کو قاضی القضاۃ بنایا ۔ تب تک فقہ حنفی مکمل طور پر غلبہ پاچکی تھی ۔ نہ صرف یہ کہ فقہ نہایت مفصل اور منظم انداز میں مدون ہوچکی تھی بلکہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور ان کے شاگرد قانون دانوں کی بڑی کھیپ پیدا کرچکے تھے ۔ حکومت کے پاس قانونی اور عدالتی امور ان کے حوالے کرنے کے سوا اور کوئی راستہ باقی ہی نہیں بچا تھا ۔ اس لیے ایسا نہیں کہ وہ فقہ رائج ہوئی جسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہوئی بلکہ حکومت کو وہی فقہ قبول کرنی پڑی جسے عوامی قبولیت حاصل ہوچکی تھی ۔ امام ابو حنیفہ نے جس طرح اموی اور عباسی دور کے قاضیوں کے فیصلوں پر مفصل تنقید کرکے ان کھوکھلی حیثیت واضح کی اس نے پہلے ہی لوگوں کا اعتماد ختم کردیا تھا اور پھر لوگوں کی ضرورت کو جس طرح امام ابوحنیفہ نے منظم اور مفصل طریقے سے پورا کیا اس کے بعد حکومت کے پاس اور کیا راستہ رہ گیا تھا ؟ اور کچھ نہیں تو امام ابو یوسف کی کتاب “اختلاف ابی حنیفۃ و ابن ابی لیلی” ہی پڑھ لیں تو بہت سارے حقائق سامنے آجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ امام ابویوسف پہلے قاضی ابن ابی لیلی کے حلقے میں تھے ۔ بعد میں وہ امام ابوحنیفہ کے شاگرداور پھر انھی کے جانشین بنے۔
ڈاکٹر رفیع الدین احمد صدیقی نے اس کتاب میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ خلیفہ مامون الرشید کے وزیر اعظم فضیل بن سہل کے پاس باقاعدہ طور پر ایک درخواست پیش کی گئی کہ فقہ حنفی کو خلافت کا دستور و قانون کے طور پر نافذ کرنے کا حکم منسوخ کیا جائے۔ جس پر وزیر اعظم نے اپنے رفقاء اور دیگر ذمہ دار حضرات سے مشاورت کی۔ انہیں بتایا گیا کہ فقہ حنفی کو بطور قانون ختم کرنے کا عوامی رد عمل بہت شدید ہوگا جس کا سامنا کرنا آپ لوگوں کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ مختلف حضرات سے اس مشاورت کے بعد مامون الرشید کے وزیر اعظم نے فقہ حنفی کے خلاف یہ درخواست قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ یہ واقعہ ہمارے اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ اقتدار فقہ حنفی کے فروغ کا سبب نہیں بنا بلکہ فقہ حنفی کا فروغ اوراس کی عوامی مقبولیت اس کے حکومتی قانون بننے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔( بحوالہ فقہ حنفی پر ایک نظر، تبصرہ مولانا زاہد الراشدی، ماہنامہ شریعہ)
دیکھا جائے تو فقہ حنفی کے فروغ و مقبولیت کے تین بڑے سبب تھے۔ ایک یہ کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ اور ان کے رفقاء کار نے امت مسلمہ کی ضروریات کو محسوس کر کے اس کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کیا تھا اور قرآن و سنت کی روشنی میں زمانے کی ضروریات کے لحاظ سے یہ پہلی باقاعدہ قانون سازی تھی جس نے نہ صرف اس دور کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ قیامت تک امت مسلمہ اس سے راہ نمائی حاصل کرتی رہے گی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے اپنے تلامذہ اور رفقاء کی معیت میں لاکھوں مسائل مرتب کیے اور زندگی کے کسی گوشے کو مرتب شدہ قوانین سے خالی نہیں رہنے دیا۔
فقہ حنفی کی مقبولیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ شخصی فقہ نہیں بلکہ مشاورتی اور اجتماعی فقہ ہے۔ مسائل پر غور کرنے کے لیے حضرت امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ سرکردہ علماء کرام اور فقہاء کی مجلس ہوتی تھی جس میں مسائل پیش کیے جاتے تھے۔ ان پر باقاعدہ بحث و مباحثہ ہوتا تھا اور اختلاف رائے کا حق دیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کسی کا مجلس کے عمومی موقف سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ طور پر درج کی جاتی تھی۔
فقہ حنفی کی مقبولیت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں عقل و دانش کا متوازن استعمال کیا گیا ہے اور وحی و عقل کے درمیان فطری توازن کو قائم رکھتے ہوئے عقل و قیاس سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ عقل اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اسے اگر وحی کی راہ نمائی میں حدود کے اندر استعمال کیا جائے تو یہ اس کی قدر دانی اور شکر گزاری ہے، جس کا فقہ حنفی میں پوری طرح اہتمام کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ تر اصحاب عقل و دانش کی ترجیح ہمیشہ فقہ حنفی رہی ہے۔
اس پر بھی سوچیے کہ صرف اورنگ زیب کے دور میں ہی نہیں بلکہ اس سے صدیوں پہلے سے ، اور اس کے ڈیڑھ صدی بعد بھی ، ہندوستان میں (یعنی موجودہ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ) اسلامی قانون ہی بطور قانونی نظام رائج رہا ۔ اس بات کی گواہی کسی اور سے کیا پیش کریں ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ ، جو عملاً ہندوستان کا حکمران تھا ‘ اس نے ہندوستان کے قانونی نظام کا مفصل جائزہ لینے کے بعد جو کچھ کہا ہے اور اسلامی قانونی نظام کی جیسی تفاصیل دی ہیں وہ بہت سے لوگوں کے لیے اب بھی ناقابلِ یقین ہوگا۔ اسلامی قانون نے اس دور میں حکمرانوں کی مطلق العنانی کو کیسے لگام ڈالے رکھی ؟ کسی اور وقت تفصیل عرض کروں گا لیکن یہ ایک واقعہ تو اردو کتابوں میں بھی موجود ہے کہ اکبر کے دور میں ایک برہمن نے توہینِ رسالت کے جرم کا ارتکاب کیا تو قاضی نے اسے سزاے موت سنا دی اور اکبر کے پاس اسے نافذ کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے ۔
جملہ معترضہ :ان متجددین کے خیال میں فقہاء تو بادشاھوں کی درباری کرتے رھے البتہ یہ لوگ خود جو اجتہاد کررہے ہیں وہ اصلی علم ہے حالانکہ اپنے مخالفین کی طرف سے یہ خود اسی الزام کی زد میں ہوتے ہیں کہ آپ لوگ بھی تو جدید ریاستی نظام کی غلامی کوممکن بنانے والے اجتہاد کررہے ہیں، تو پھر غرور کیسا؟ کیا یہ لوگ اپنے موجودہ آئمہ میں سے کسی کی مثال دکھا سکتے ھیں جو ریاستی جبر کا شکار رہا ہو ؟انکے پروگراموں کو میڈیا پہ بین کیا گیا ہو یا کبھی قید ہوئے ھوں؟ دیکھا جائے تو انکا اپنا فقہ کبھی ایوب خان کے مہربانی سے پھیلا تو کبھی مشرف کے آشیرواد سے۔
استفادہ تحریر: ڈاکٹر مشتاق ، پروفیسر شعبہ قانون، اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد
اسلامی قانون | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
June 1, 2019 at 9:43 am[…] […]