اس حدیث کو اگر محض سرسری نظر سے دیکھا جائے تو بہت ہی عجیب اور غیرسنجیدہ معلوم ہوتی ہے۔ خاص کر اس وقت جب ہم اسے انگریزی زبان میں دیکھتے یا پڑھتے ہیں تو کچھ لوگ اسے واہیات سمجھنے لگتے ہیں، اور کچھ کے نزدیک یہ محض ایک وہم یا خبط سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ایسے تمام لوگ جو اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی اسکا علم نہیں ہوتا کہ درحقیقت اس کا معنی و مفہوم اور اسکا مقصد و مطلوب کیا ہے۔مذکورہ حدیث دراصل ایک محاورہ ہے جس میں شیطان کے کسی کے کان میں پیشاب کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اگر ہم عربی زبان میں اس محاورے کے استعمال کا تجزیہ کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس محاورے کو ظاہری طور پر ہرگزنہیں لیا جا سکتا۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اسی حدیث اور اس طرح کی دیگر احادیث کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔اور یہ بھی بتانے کی کوشش کریں گے کہ علمائے کرام کا اس کے متعلق کیا مؤقف اور نقطہ نظر ہے ۔ جس سے یقیناََ اس سے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جائے گا۔
٭ تعارف٭
وہ شخص جو رات بھر کسی کھٹر پٹر کرنے والے چوہے کی مانند جاگتا رہتا ہے اور دن چڑھے تک سوتا ہے، اس کی مذمت کرنے کے لیے اس حدیثِ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان ایسے شخص کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے۔ توقع کے عین مطابق، اسلام مخالف اور تعصب پسند لوگ اسی بات کو بہانہ بناتے ہیں اور اسے ایک واہمے اور خبط کے طور پر پیش کرکے استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں۔ نتیجتاََ وہ سادہ لوح مسلمان جو حدیث میں استعمال کیے گیے الفاظ کی بنیادی سوجھ بوجھ سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ،اسکے اصل مطلب کے متعلق شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جس روایت کا اکثر اوقات حوالہ دیا جاتا ہے وہ درج ذیل ہے۔
عن عبد الله رضي الله عنه، قال: ذكر عند النبي صلى الله عليه وسلم رجل نام ليلو حتى أصبح، قال: ” ذاك رجل بال الشيطان في أذنيو، أو قال: في أذنو “۔
حضرت عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک ایسے آدمی کا ذکر ہوا جو صبح تک تمام رات سوتا رہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی کے کانوں میں (یا فرمایا کان میں) شیطان نے پیشاب کردیا ہے۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 529)
٭وضاحت٭
ایک اور روایت میں یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے (کیونکہ اس روایت میں) اس شخص کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذکر بھی کیا گیا تھا کہ وہ شخص صبح کی نماز بھی ترک کر دیتا تھا:
عن عبد الله رضي الله عنه، قال: ذكر عند النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقيل: ما زال نائما حتى أصبح، ما قام إلى الصلاة، فقال: «بال الشيطان في أذنه»
عبداللہ سے روایت کرتے ہیں عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص کا ذکر آیا تو کہا گیا کہ وہ سوتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور نماز کیلئے کھڑا نہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کردیا۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1096)
اسی طرح ایک اور روایت بھی ہے جو معاملے کی اصل حقیقت تک پہنچنے میں اور بھی زیادہ مددگار ہے۔
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الذي ينام من أول الليل إلى آخره، قال: “ذاك الذي بال الشيطان في أذنه” (
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ جو رات کے آغاز سے لے کر اس وقت تک سویا رہے جب تک کہ رات ختم نہ ہو جائے۔تو (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ یہ ہے وہ آدمی جسکے کان میں شیطان نے پیشاب کیا۔(الطحاوی شرح مشکل الاثار جلد 10 حدیث 4020)
یہ روایت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شخص نے نہ صرف صبح کی نماز ترک کی بلکہ رات کی صلوٰۃِ عشاء بھی ترک کر دی۔
٭شیطان کا حوالہ٭
جمائی لینے کو شیطان کا پسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے ابن بطل (449ھ) فرماتے ہیں۔
“اور اسی طرح ہی ان تمام اعمال کا معاملہ بھی ہے جنہیں شیطان سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ان کے دو معنی ہیں۔ (یہ) یا تو (شیطان کی) مرضی اور خوشی کے ذریعے (ہوا) یا پھر دل میں پیدا ہونے والی سرگوشیوں(وسوسوں کی وجہ سے) اور کسی چیز کو دلکش سمجھنے کی وجہ سے (ہوا)۔”( ابن بطل شرح صحیح بخاری جلد 9 صفحہ 370)
یقیناََ شیطان یہ چاہتا ہے کہ انسان ذیادہ سے ذیادہ گھنٹوں تک سو ئے۔ وہ سست اور کاہل ہو جائے، خدا ور خدا کی مخلوق سے متعلق اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہ جائے۔ اس کی فرض نمازیں چُھوٹ جائیں اور وہ اللہ کی رحمتوں سے محروم ہو جائے۔ اگر کوئی شخص ایک دفعہ اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کر دیتا ہے تو پھر وہ شخص شیطان کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتا ہے، اس وقت تک جب تک کہ انسان اپنی تمام مجموعی طاقت کو استعمال میں لا کراس پر قابو نہ پا لے اور خسارے سے اپنے آپ کو محفوظ نہ کر لے۔
٭کانوں کا حوالہ ٭
کان کا ہماری سننے کی صلاحیت سے تعلق ہوتا ہے جس سے پھر ہم کسی کی بات کو سمجھ پاتے ہیں ۔ ان کا گہری نیند سے تعلق اور پھر نیند کی حالت میں ہمارا دنیا لاتعلق ہو جانا ظاہری اور یقینی بات ہے جس کے متعلق قرآن میں بھی ذکر ہے 18:11۔
٭پیشاب کا ذکر٭
روایت کا سب سے اہم حصہ ہونے کے ناتے یہ محاورہ قاری سے عربی زبان میں بہترین علم اور سمجھ بوجھ کا تقاضا کرتا ہے۔ پیشاب کرنے کا ذکر دراصل (انسان پر) حاوی ہونے والی اس بدترین نیند پر دلالت کرتا ہے جو شیطان کو خوش آتی ہے۔ ابنِ حجر (852 ھ) لکھتے ہیں۔
هو مثل مضروب للغافل عن القيام بثقل النوم كمن وقع البول في أذنه فثقل أذنه وأفسد حسه والعرب تكني عن الفساد بالبول
“یہ ایک مثال ہے جو کہ گہری نیند کی وجہ سے نمازوں میں لاپرواہی برتنے والے شخص کی بابت استعمال کی جاتی ہے ۔یُوں کہ جیسے اس کے کان پیشاب سے بھر گئے ہوں اور وہ شخص بوجھ سے جھک گیا ہو (مطلب نیند کے سامنے بے بس ہو گیا ہو) اور اس کے حواس (سب )معطل ہوگئے ہوں۔ عربوں میں پیشاب کے لفظ کا ان معنوں میں استعمال درحقیقت خراب اور ناکارہ چیزوں کو ظاہر کرنےکے لیے ہوتا ہے۔ ” (ابن حجر فتح الباری جلد 3صفحہ 28-29)
اسی طرح امام النواوی (676ھ) فرماتے ہیں۔
“اور اس کا مطلب ہے مذاق کرنا، تمسخر کرنا اور کسی کی حقارت و ملامت کرنا وغیرہ۔ یہ لفظ ایسے شخص کے متعلق بولا جاتا ہے ہے جو کسی انسان کی توہین کرتا ہو اور اسے دھوکہ دیتا ہوایسے کہ وہ اس کے کان میں پیشاب کر ے۔اس اصطلاح کی اصل دراصل ایک جانور سے آئی ہے جو کہ (سوئے ہوئے) شیر کے (کان میں پیشاب کرتا ہے) بطور ایک بے عزت کر دینے والے عمل کے۔” الحربی کہتے ہیں۔ “اس کا مطلب ہے کہ اس (پیشاب کرنے والے) نے دوسرے (سوئے ہوئے شخص) پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور (اپنے اس عمل سے وہ شیطان)اسکا (نہایت توہین آمیز طریقےسے) مذاق اُڑا رہا ہے۔” (النووی شرح صحیح مسلم جلد 6 صفحہ 64)
مزید برآں یہ ایک تمثیلی لفظ ہے جو کہ کسی (سڑن زدہ، تباہ شدہ) خراب چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔(اور بہت زیادہ سونے والے شخص کوایک خراب چیز سے تشبیہ دی گئی ہے)۔ ایک شاعر نے ایک بار کہا ۔
بال سهيل في الفضيخ ففسد ” آسمان کے ایک چمکدار ستارے نے مشروب میں پیشاب کیا اور اسے خراب کر دیا۔”
حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ۔ ” جب ستارہ طلوع ہوتا ہے (جیساکہ عام طور پر اگست کے مہینے میں وسط عرب میں یہ کئی مدھم روشنی کے ہالوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے) اور (اس کے طلوع ہوتے ہی) مشروب بنانا بند کر دیے جاتے ہیں، کیوں کہ کچی کھجوروں کا موسم ختم ہو جاتا ہے اور سب کھجوریں پک جاتی ہیں۔ (مطلب یہ کہ اس ستارے نے مشروب والا موسم ختم کر دیا یا برباد کر دیا)۔
ابنِ بطل، ایک شاعر الفرزدق کے ایک ایسے شعر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیشاب کا ذکر کسی مصیبت یا آفت اورخراب شدہ چیز کے معنوں میں کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں۔
وإن الذى يسعى ليفسد زوجتى
كساع إلى أسد الشرى يستبيلها ”
بے شک وہ شخص جو اپنی بیوی کو خراب کرنے (یا اس کے ساتھ تعلق خراب کرنے) کی کوشش کرتا ہے بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے آپ کو ایش شارہ (یعنی ایک ایسے راستے پر جس پر جانور ہوتے ہیں) کی طرف لے جائے تا کہ ان (جانوروں) کے پیشاب کو وہ اپنے ہاتھوں پر گرا سکے۔” (ابن بطل شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 136)
مذکورہ بالا مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ پیشاب، حالات کی تبدیلی، مصیبت اور ناپسندیدگی کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے مذکورہ حدیث مبارکہ میں پیشاب کا ذکر بھی دراصل اُس برائی اور گناہ کی طرف اشارہ ہے جو کہ اللہ تعالی کے لاگو کردہ احکام اور فرائص سے لاپرواہی برتنے کی وجہ سے سرزد ہوتاہے۔ایک ایسی برائی جو شیطان کی سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
درج ذیل تبصرہ علومِ حدیث کے بہترین عالم اور فقیہ ابو جعفر الطحاوی (321ھ) نے کیا ہے جو اس موضوع پر بہت خوبصورتی کے ساتھ روشنی ڈالتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
“اور یہ نیند (جس کا حدیث میں ذکر کیا جا رہا ہے) ایک ایسی نیند ہے جس میں ایک شخص رات کو اللہ کے حکم (یعنی فرض نمازوں) کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور وہ نیند جونمازِ عشاءسے پہلے کی جائےوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناپسند فرمائی ہے۔بے شک ایسی نیند جو نمازِ عشاء سے محروم رہ جانے یا پھر اسے اللہ کے مقرر کردہ وقت میں ادا کرنے میں تاخیر کر بیٹھنے کا سبب بنتی ہے (قابلِ مذمت ہے)۔ ایسا شخص اپنے اس بد عمل سے ایک طرف تو خدائے تعالٰی کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ شیطان کی فرمانبرداری کا ثبوت بھی دے رہا ہوتا ہے (اور وہ کچھ کررہا ہوتا ہے جو کہ شیطان ) اس سے چاہتا ہے۔ اس نیند کے سبب ایک پردہ اس کے کانوں پر پڑ جاتا ہے اور یہ اس کے کانوں میں نیند کی مصیبت کی وجہ سے ہے۔ عربوں اس چیز کو کانوں پر پردہ پڑ جانا کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک تعالی نے غار کے لوگوں کے متعلق استعمال کیے ۔ ” پھر ہم نے ان کے کانوں پر برسوں نیند کا پردہ ڈالے رکھا۔ “۔ سورۃ الکھف۔ آیت 11) اور یہ عمل شیطان سے منسوب ہے کیونکہ شیطان اس سے خوش ہوتا ہے ۔ لہٰذہ کانوں میں پیشاب کیے جانے کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ یہ عام نیند سے بدتر نیند ہے، یہ حقیقتاََ کان میں پیشاب کیا جانا نہیں بلکہ اسکے معنی محض تشبیہ اور اشارے کے ہیں۔ (الطحاوی شرح مشکل الاثار جلد 10 صفحہ 193-194)
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث اس حد سے بڑھی ہوئی نیند کے متعلق ہے جو کہ فرض نمازوں کی ادائیگی سے محرومی کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں کسی بھی قسم کا کوئی وہم یا خبط وغیرہ نہیں پایا جاتا۔یہ مکمل طور پر حقیقت پر مبنی ہے جس میں محاورے کا استعمال کیا گیا ہے تا کہ اس کا اظہار طاقتور اور با وزن ہو۔
تحریر:وقار اکبر چیمہ .اردو ترجمہ: محمد رفیق