غلام احمد پرویز اور قرآن میں اختلاف

پرویز صاحب کا قرآن کے متعلق مقدمہ :
قرآن کے ذریعے اختلاف پیدا ہونا ممکن نہیں:
1۔”قرآن کریم اپنے منجانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں۔ قرآن کے اس دعویٰ کے بعد یہ تسلیم کرنا کہ یہ مختلف فرقوں کو ایسے قوانین دیتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف اور باہم دِگر متضاد ہیں، قرآن کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کے مترادف ہے اور کھلا ہوا کفر‘‘۔ [طلوع اسلام، مارچ ۷۸ء : ص ۴۰]
2۔”اگر خالص قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرلیا جائے تو کوئی اختلاف پیدا ہی نہیں ہوسکتا‘‘۔[اگست ۸۴ء : ص ۱۴]
3۔”قرآن کی تعلیم بڑی واضح، بین اور تضاد و تعارض سے پاک ہے‘‘۔ [طلوع اسلام، ۵۲، ص۴۲]
4۔”قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا‘‘۔ یعنی اگر قرآن خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔ بالفاظِ دیگر، قرآن نے اپنے من جانب اللہ ہونے کی دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں، پھر اس نے یہ بھی کہا کہ میری تعلیم صاف اور واضح ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، ابہام نہیں، التباس نہیں، ریب نہیں، تشکیک نہیں‘‘۔ [طلوع اسلام، اپریل ۵۹ء، ص۸]
5۔”یہ سمجھنا کہ زندگی کے عملی مسائل سے متعلق جو کچھ قرآن میں آیا ہے اس کی متعدد تعبیریں کی جاسکتی ہیں، قرآن کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے یا اس پر پردہ پوشی کی کوشش ہے‘‘۔ [طلوع اسلام، اپریل ۵۹ء، ص۹]
6۔”عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ اس لیے غلط اور صحیح کے پرکھنے میں قرآنی معیار کے نتائج میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات ، درحقیقت قرآن کو سند و حجت تسلیم نہ کرنے کے لیے گریز کی راہیں ہیں۔‘‘ [طلوع اسلام اگست ۷۳: ص ۳۵]
لیکن
پرویز صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن میں اختلاف ممکن ہے: [نعوذ باللہ اختلاف قرآن میں نہیں ہمارے فہم میں ہے]
’’قرآنِ کریم کی تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے جس میں اس نے انسانی زندگی کے لیے راہنمائی دی ہے [اور یہی حصہ اس کے بنیادی مقصد سے متعلق ہے] انھیں اصول حیات یا مستقل اقدار کہا جاتا ہے۔ یہ اصول و اقدار بالکل واضح اور متعین ہیں اور ان کے سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہوسکتا، امور مملکت کا تعلق اسی گوشہ سے ہے۔ قرآنی تعلیم کا دوسرا گوشہ وہ ہے جس کا تعلق، حقائق کائنات اور مابعد الطبیعیاتی (Meta-Physics) مسائل سے ہے۔ ان حقائق کو سمجھنے کا مدار انفرادی فکر اور بہ حیثیت مجموعی انسانی علم کی سطح سے ہے۔ جوں جوں انسانی علم کی سطح بلند ہوتی جائے گی، یہ حقائق بے نقاب ہوتے جائیں گے اور کوئی شخص جس قدر زیادہ غور و فکر سے کام لے گا وہ انھیں اسی قدر زیادہ عمدگی سے سمجھ سکے گا‘‘۔ [مارچ ۸۵ء، ص۶]

دو سوالات:
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں: اوّلاً یہ کہ قرآن کریم کی آیات میں، مابعد الطّبیعاتی مسائل سے متعلقہ آیات اور احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں جو تفریق کی گئی ہے اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر ایک حصہ میں اختلاف کا موجود ہونا اور دوسرے میں معدوم ہونا جو تسلیم کیا گیا ہے، آخر اس کی قرآنی دلیل کیا ہے؟
ثانیاً، یہ کہ مابعد الطّبیعاتی حصہ قرآن کی حد تک تو آپ نے قرآن میں وجودِ اختلاف کو تسلیم کر لیا، اس طرح آپ کا یہ نظریہ﴿لَوَجَدوا فيهِ اختِلٰفًا كَثيرً‌ا ٨٢ ﴾… سورة النساء” والی آیت سے ٹکرا نہیں جاتا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

پرویز صاحب کے دعوی کی حقیقت :
حقیقت یہ ہے کہ مابعد الطبیعیاتی حقائق وحی اور ذات نبوت کے سوا کسی ذریعے سے بے نقاب نہیں ہوسکتے۔ فلسفہ کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ میں کوئی سائنس دان اور فلسفی مابعد الطبیعیاتی حقائق کا ادراک نہیں کرسکا۔ ماڈرن ازم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ عقل کے ذریعے حقیقت [Reality] کو پائے گی لیکن پوسٹ ماڈرن ازم تک آتے آتے فلسفے سے مابعد الطبیعیاتی سوالات خارج ہوگئے۔ امریکا کا سب سے بڑا فلسفی رچرڈ رارٹی کہتا ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے مابعد الطبیعیات کو ختم کر دیا ہے۔ مذہب کا کوئی امکان نہیں۔ [رارٹی کا مکالمہ The Future of Religion مرتبہ SANTIAGO ZADALA کولمبیا یونیورسٹی پریس] پرویز صاحب کا یہ موقف ثابت کرتا ہے کہ وہ جدید فلسفے اور جدید سائنس کے مباحث سے قطعاً ناواقف تھے۔ وہ ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم کے فلاسفہ کے نقطۂ نظر سے بھی واقفیت نہ رکھتے تھے اور چند مشہور انگریزی کتابوں کے اقتباسات سے استناد فرماتے تھے۔

دوسرا دعوی -قرآن میں تعبیر ی اختلاف ممکن نہیں:
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی ہر قسم کی آیات میں تعبیر اختلاف کی گنجائش ہے۔ قرآن میں جس اختلاف کی نفی کی گئی ہے وہ تضاد کا اختلاف ہے ۔ احکام و قوانین سے متعلقہ حصہ میں تعبیرکا اختلاف تو ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے اور یہ اختلاف نیک نیتی کے باوجود بھی ہوسکتا ہے اور بدنیتی کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ البتہ پرویز صاحب جب بھی مسلمانوں میں اختلاف کا ذکرکرتے ہیں تو وہ اِن مختلف وجوہِ اختلاف کو فرقوں سے وابستہ افراد کی بدنیتی ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک اس اختلاف کی بہت سی وجوہ ہیں، جو درج ذیل اقتباسات سے واضح ہیں۔
1۔”آیات قرآنی کی تعبیراس لیے مختلف ہوتی ہیں کہ ہر فرقہ، اس آیت کی تعبیر، اس روایت کی رو سے کرتا ہے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور چونکہ ہر فرقے کی روایات مختلف ہیں، اس لیے ان کی رو سے قرآنی آیات کی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے‘‘۔ [فروری۶۲ء: ص۱۳]
2۔”تعبیرات کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے معتقدات اور مسلک کو اوپر رکھتا ہے اور ان کے تابع قرآن کا مفہوم متعین کرتا ہے‘‘۔ [طلوع اسلام، اگست ۶۲، ص۱۰]
3۔”بات یہ ہے کہ مختلف فرقے، اپنے اپنے ہاں کے احکام کو محکم مانتے ہیں اور قرآن کو کھینچ تان کر ان کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا نام رکھتے ہی ’’قرآن کی تعبیرات‘‘۔۔۔ اگر قرآن کو محکم مان لیا جائے تو اس کے احکام کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں‘‘۔ [طلوع اسلام، دسمبر ۶۲، ص۱۹]
4۔”عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے غلط اور صحیح کے پرکھنے میں، قرآنی معیار کے نتائج میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات، درحقیقت قرآن کو سند و حجت تسلیم نہ کرنے کے لئے گریز کی راہیں ہیں۔” (اگست۷۳ئ: ص ۳۵)
پرویز صاحب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مختلف فرقوں اور امت کے مسلمہ مکاتب فکر میں اختلاف کی اصل وجہ حدیث و سنت پر ان مکاتب کا اعتماد تھا۔ان بلند بانگ دعاویٰ کے بعد
رفع ِاختلاف کا پرویز صاحب نے یہ حل پیش کیا ہے :
”اگر خالص قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرلیا جائے تو کوئی اختلاف پیدا ہی نہیں ہوسکتا” ( طلوع اسلام اگست۸۴ئ: ص ۱۴)
لیکن بارگاہِ قرآن میں آنے کے لئے ایک شرط یہ بھی لگاتے ہیں جس کے بغیر قرآن سے استہداء (ہدایت پانا) ممکن نہیں ہے :
”قرآن سے صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر اس کی طرف آئے اور اس کے ہاں سے جو کچھ ملے، اسے من و عن قبول کرے، خواہ یہ اس کے ذاتی خیالات، رجحانات، معتقدات اور معمولات کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔” (اگست۶۱ئ: ص ۷۴)

باقی مسلمانوں کو تو خیر چھوڑیئے، کم از کم ‘اہل قرآن’ کے جملہ طبقوں سے تویہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سب احزاب اہل قرآن کے تعبیری اختلافات سے خالی الذہن ہو کر بارگاہِ قرآن میں آئیں گے اور وہ نتیجتاً وحدتِ فکر و عمل میں یکتا ہوں گے لیکن — اے بسا آرزو کہ خاک شد!

اہل قرآن کے مابین قرآنی آیات کی تعبیر میں اختلافات:
آج پاکستان میں انکار حدیث سے کچھ وہ لوگ ہیں جو حلقہ ‘طلوعِ اسلام’ میں ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ادارہ ‘بلاغ القرآن’ سے وابستہ ہیں۔ دونوں مخالف ِسنت اور ساتھ ساتھ ہی تمسک بالقرآن کے دعویدار ہیں اور دونوں اس امر کے مُعلن ہیں کہ تنہا قرآن کے ساتھ وابستگی ہی باہمی اختلافات کا ازالہ اور فرقوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ قرآن کے بغیر تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قرآن کی بنیاد پر ‘طلوعِ اسلام’اور ‘بلاغ القرآن’ والے اکٹھے ہوچکے ہیں؟ اور کیا ان دونوں کے تعبیرات کے اختلافات دَم توڑ چکے ہیں؟ اور ان سے وابستہ افراد اپنے باہمی فروق و امتیازات کو ختم کرکے باہم دِ گر متحدو متفق ہوچکے ہیں۔
طلوعِ اسلام اور بلاغ القرآن کے تعبیری اختلافات
یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ تنہا قرآن کی بارگاہ میں آنے کا قصد کرتے ہی سب سے پہلے اس اختلاف سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ ”آیا قرآن، اصول و فروعات اور کلیات و جزئیات پر مشتمل ہے یا صرف اُصول و کلیات پر؟”
طلوعِ اسلام کے مخالفین پہلی بات کے قائل ہیں جیسا کہ چکڑالوی اور لاہوری فرقوں سے متعلقہ اقتباس میں ہم دیکھ چکے ہیں اور خود وابستگانِ طلوعِ اسلام دوسری بات کے قائل ہیں۔ اس اختلاف کی موجودگی میں ایک گروہ قرآن سے جزئیات و فروعات بھی اخذ کرے گا اور دوسرا گروہ کسی ‘آنے والےخیالی’ (مرکز ِملت) کی راہ دیکھے گا جس کا وجود پوری تاریخ میں نظر نہیں آیا ۔اور یہ ایسا شدید اختلاف ہے جس کے باعث ایک طرف دونوں گروہ مرتے دم تک متحد نہیں ہوسکتے اور دوسری طرف؛ یہ اتنا سنگین اختلاف ہے کہ بقولِ پرویز
”اس سے قرآن بدنام ہوتا ہے اور ایسا کرنے والے ناکام و نامراد ٹھہرتے ہیں۔”
تاہم قرآن کے مشتمل برکلیات و جزئیات ہونے یا نہ ہونے کے اَمر کو نظر انداز کرتے ہوئے جب بارگاہِ قرآن میں داخل ہو کر تشریح و تفسیر کا موقع آتا ہے تو یہاں قدم قدم پر اختلاف واقع ہوتا ہے، حالانکہ دونوں گروہ، نیک نیتی سے تمسک بالقرآن کے دعویدار ہیں۔
آئیے! ہم چند اُمور میں یہ دیکھیں کہ بلاغ القرآن اور طلوعِ اسلام نے جب قرآن کو حَکَم بنایا تو کیا ان میں تعبیرات کا اختلاف ختم ہوگیا، یا باقی وبر قرار رہا؟
[۱] مثلاً البقرہ آیت ۱۷۳ کی تشریح میں لحم خنزیر سے چکڑالوی صاحب نے غدود کا گوشت مراد لیا ہے۔ [تفسیر القرآن بالقرآن جلد اول ص ۱۳۶ ادارہ بلاغ القرآن]
پرویز صاحب کے خیال میں لحم خنزیر سے مراد خنزیر کا گوشت ہے۔ [مفہوم القرآن ص ۶۲]
[۲] المائدہ و ان کنتم جنباً فاطھر وا کے معنی چکڑالوی صاحب کے یہاں [جنب] سے مراد بدخوابی ہے۔ [تفسیر القرآن جلد سوم ص ۲۷]
پرویز صاحب کے یہاں حالت جنابت [ہم آغوشی کی رعایت سے] لغات القرآن ص ۴۴۲،
[۳]البقرہ آیت: ۲۴؍۲ کی تشریح میں بیواؤں کے لیے وصیت کے حوالے سے چکڑالوی صاحب فرماتے ہیں لا پتہ شوہر کی بیوی ایک سال تک شوہر کے مال سے نان نفقہ حاصل کرے گی ایک سال کا انتظار فرض ہے۔ [تفسیر القرآن بالقرآن جلد اول ص ۱۹۶ تا ۱۹۷]
پرویز صاحب کے یہاں یہ نان نفقہ صرف بیوہ عورتوں کے لیے ہے۔ [مفہوم القرآن ص ۹۲]
چلو مان لیا کہ ‘ملا’ تو بیچارہ روایات میں اُ لجھ کر ‘رستہ کھو بیٹھا’ مگر حیرت ہے کہ یہ مسٹر لوگ بھی قرآن، قرآن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود باہم متحد اور متفق ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق میں ہی ‘مصروفِ جہاد’ ہیں۔ خود اہل قرآن اور منکرین حدیث میں دو سو سے زیادہ فرقے بن گئے ہیں ۔ جب کہ یہ تمام فرقے صرف اور صرف قرآن کو واحد ماخذ قانون سمجھتے ہیں۔ قرآن وحدت افکار کا آئینہ ہے تو یہ وحدت ان فرقوں کے درمیان وحدت افکار کیوں پیدا نہ کرسکی؟
بلاغ القرآن والے ہوں یا طلوعِ اسلام والے، نیاز فتح پوری کے ہم مسلک ہوں یا عنایت اللہ مشرقی کے ہم مشرب، ‘اُمت ِمسلمہ، امرتسر’ کے وابستگان ہوںیا اسلم جیراجپوری کے متعلقین، ان سب کے ہاں قدرِ مشترک، صرف ‘اسم قرآن’ یا ‘الفاظ قرآن’ ہیں اور عملاً جو چیز درکا رہے وہ ‘الفاظِ قرآن’ نہیں، بلکہ ‘مفہومِ قرآن’ یا ‘تعبیر قرآن’ ہے؛ اور یہ ‘اہل قرآن’ کے ہر گروہ کی الگ الگ ہے، ان تمام احزاب کو ‘اسم قرآن’ پر جمع کر بھی دیا جائے۔ تو اپنی اپنی ‘تعبیر قرآن’ اس تضادات کے گٹھے کو تادیر بندھا نہیں رکھ سکتی۔ ان سب کو اکٹھا کرنا، تناقضات کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔
یہ مثالیں اس امر کو واضح کردیتی ہیں کہ احادیث ِرسول کو نظر انداز کرکے کوئی شخص خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے دعووں کے ساتھ بارگاہِ قرآن میں آئے، وہ اختلاف تعبیرات سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن کی تشریح جب بھی عقل سے کی جائے گی تو اختلاف ہوگا۔ اس اختلاف کا حل حدیث و سنت میں ملے گا ۔ وہاں بھی عقل کے استعمال کے باعث لازماً کچھ نا کچھ اختلاف پیدا ہوگا اس کا حل اجماع امت کے ذریعے تلاش کیا جائے گا۔ جہاں جہاں انسانی عقل استعمال ہوگی اختلاف ہونا فطری امر ہے۔ اس اختلاف کا حل صرف جمہور کے پاس ہے جمہوریت کے پاس نہیں۔ [علامہ اقبالؒ جیسے فلسفی بھی اصطلاح جمہور کو جمہوریت اور پارلیمینٹ کا متبادل سمجھتے ہیں] ۔اسی لیے اوپر پیش کی گئی آیات کا مفہوم احادیث ِرسولﷺ کی روشنی میں بعثت ِنبوی سے لے کر تاحال علمائِاُمت میں متفق علیہ رہا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سنت ِنبویہ کو نظر انداز کرکے تنہا قرآن کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوگا بلکہ چودہ صدیوں میں جن مسائل پر اتفاق پایا جاتا ہے، وہ بھی اختلاف و انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password