نبی اکرمﷺ پر جن احادیث میں جادو کیے جانے کا بیان ہے۔ انھیں منکرین حدیث خلافِ قرآن کہہ کر بہت اچھالتے ہیں۔ اس پر کبھی ’’اصل بات تو وہ ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہو‘ کا عنوان قائم کرتے ہیں اور کبھی ’آپﷺ پر جادو ہونے کے سلسلے میں بخاری کی تفصیل اور قرآن کی تردید‘ کی سرخی جماتے ہیں۔ اور یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے مخالفین کو لاجواب کر دیا ہے ۔
منکرین حدیث کا مقدمہ :
غلام احمد پرویز لکھتے ہیں:
اِذۡ یَقُوۡلُ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿۴۷﴾ (۱۷؍بنی اسراء یل:۴۷) کی وضاحت میں قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ یہ کفار کا قول تھا اورقرآن کی اس کی نفی کر رہا ہے ۔‘‘ مطالب الفرقان فی دروس القرآن (سورۃ بنی اسراء یل) ص: ۲۳۲)
اس سے وہ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ قول کفار کے مطابق آپ رجل مسحور تھے جبکہ حدیث میں بھی آپ کو رجل مسحور بتایا گیا ہے تو اس طرح تو یہ کفار کے قول کی تصدیق یا موافقت ہوئی۔ آگے لکھتے ہیں
’’اس سے اس لیے انکار ہے کہ اول تو بہر حال عقل و بصیرت کی بناء پر یہ چیز آ جاتی ہے۔ عقیدت و احترام کو تو چھوڑیے، عزیزانِ من! خالص اس بناء پر یہ لیجیے کہ جو شخص دنیا کے اندر اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے، لاکھوں انسانوں کے دل کے اندر اور پھر باہر کی دنیا کے اندر بھی اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے، اس کی کیفیت یہ ہے۔ جادو کا مارا ہوا اِنسان خود تو وہ کسی اور کے لیے یہ کچھ کرنا ایک طرف رہا، اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ جسے یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ میں نے نماز بھی پڑھ لی یا نہیں، وہ اتنی عظیم مملکت کا بھی انتظام کر لے گا؟ کتنے عظیم انسانوں کے قلب و نگاہ کی دنیا کو بدل کے رکھ دے گا۔ کیا وہ رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ہو گا؟ معاذ اللہ! نہیں، قطعاً نہیں۔‘‘(ایضاً ص:۲۳۳)
یہی ساری باتیں منکرین حدیث سے مستعار لے کر آج کے متجددین بھی دوہراتے ہیں اور خیر خواہی کی آڑ میں عوام سے حدیث کا انکار کرواتے ہیں ۔اس انکار حدیث کی بنیاد دو باتیں ہیں :
1. روایت کا بیان یہ ہے کہ اس جادو کا حضورﷺ کی نبوت اور روحانیت پر بھی اثر ہوگیا تھا ، یہ باتیں عصمت نبوت کے خلاف ہیں ۔
2. چونکہ قرآن کہتا ہے کہ ‘رجلا مسحورا ‘کفار نے حضور ﷺ کو کہا تھا اس لیے اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ کفار کے بیان کی تائید کرتا ہے۔
اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا تھا؟ اور اگر ہوا تھا تو وہ کیا تھا اور کس حد تک تھا؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر اعتراضات وارد بھی ہوتے ہیں یا نہیں جو کیے گئے ہیں؟
جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اُس کا اگر غلط ثابت کیا جاسکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اسے حضرت عائشہؓ ، حضرت زیدؓبن ارقم اور حضرت عبد اللہؓ بن عباس سے بخاری، مسلم، نَسائی، ابن ماجہ، امام احمد، عبد الرزاق، حُمَیدی، بیقہی،طَبرانی، ابن سَعد، ابن مردویہ، ابن ابی شیبہ، حاکم ، عبد بن حمید وغیرہ محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداد سندوں سے نقل کیا ہے کہ اُس کا نفس مضمون تو اُتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے۔
راویوں پر اعتراضات:
بعض لوگ حضورؐ پر جادو کی روایت کو محض اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ یہ ہشام بن عروہ عن عائشہؓ مروی ہے، ان کے زعم میں ہشام ثقہ نہیں اور ام المؤمنینؓ کے علاوہ کوئی اور اس اہم ترین واقعہ کا ذکر نہیں کرتا، یہ بھی محض دھوکہ ہے ۔ امام بخاریؒ کے استاذ امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اپنی سند کیساتھ مسند احمد ج 4 ص 367 طبع بیروت میں جو روایت نقل فرمائی ہے وہ حضرت زید بن ارقمؓ سے ہے اور اس کی سند میں ہشام بن عروہؒ بھی نہیں ہیں جس میں آپؐ پر جادو کی صراحت موجود ہے اور پھر حضرت جبرائیل ؑ کا آپ کے پاس آکر جادو کرنے والے اور اس کے مقام کے بارے میں بتانے کا بالکل واضح ذکر موجود ہے۔
جہاں تک تعلق امام ہشام کا ہے تو ان کو ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’وقد احتج بھشام جمیع الائمۃ ‘ (مقدمہ فتح الباری ص625)’’یقینا ہشام سے تمام ائمہ نے احتجاج پکڑا ہے ۔(یعنی ہشام کی روایت کو بطور دلیل وحجت پکڑا ہے) ‘‘
محمد بن سعد نے کہا :’’کان ثقۃ ثبتا کثیر الحدیث حجۃ ‘‘’’ثقہ تھے ثبت تھے زیادہ احادیث روایت کرنے والے تھے حجت تھے ‘‘
ابو حاتم نے کہا :’’ ثقۃ امام فی الحدیث ‘‘ثقہ اور حدیث کا امام ہے ‘‘
(تہذیب الکمال امام مزی ،الکاشف امام ذھبی ،تقریب التھذ یب ابن حجر العسقلانی ،طبقات ابن سعد )
معوذتین کا وقت نزول :
ان روایات پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ معوذتین مکہ میں نازل ہوئی اور حضورؐ پر جادو مدینے میں ہوا۔
حضرت حسن بصری، عِکْرِمہ ، عطاء اور جابر بن زید کہتے ہیں کہ یہ سورتیں مکّی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ مگر اُن سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ مدنی ہیں اور یہی قول حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ قَتادہ کا بھی ہے۔ اِس دوسرے قول کو جو روایات تقویت پہنچاتی ہیں ان میں سے ایک مسلم،تِرمذی، نَسائی اور مُسندِ امام احمد بن حنبل میں حضرت عُقْبَہؓ بن عامِر کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایک روز مجھ سے فرمایا المُ تراٰیاتٍ اُنزِلَت اللیلۃ، لم یُرَمثلھن، اَعُوّذُ بِرَبّ الْفَلَقِ، اَعُوّذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ ”تمہیں کچھ پتہ ہے کہ آج رات مجھ پر کیسی آیات نازل ہوئی ہیں ؟ یہ بے مثل آیات ہیں ۔ اعوذ بربّ الفلق اور اعوذ بربّ النّاس“۔ یہ حدیث اس بنا پر اِن سورتوں کے مدنی ہونے کہ دلیل ہے کہ حضرت عُقْبہ ؓ بن عامر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں ایمان لائے تھے، جیسا کہ ابو داوٴد اور نسائی نے خود اُن کے اپنے بیان سے نقل کیا ہے۔(تفہیم القرآن ڈاٹ نیٹ)
دوسری روایات جو اِس قول کی تقویت کی موجب نبی ہیں وہ ابن سعد، محیُّ السُّنَّہ بَغَوِی، امام نَسَفِی، امام بَیْہقَیِ، حافظ ابن حَجرَ، حافظ بدر الدین عَینی، عَبْد بن حُمیَد و غَیر ہم کی نقل کردہ یہ روایات ہیں کہ جب مدینے میں یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضورؐ بیمار ہوگئے تھے اس وقت یہ سورتیں نازل ہوئی تھیں۔ ابن سعد نے واقِدی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ سن ۷ ہجری کا واقعہ ہے۔ اِسی بنا پر سُفیان بن عُیَیْنَہ نے بھی اِن سورتوں کو مدنی کہا ہے۔
پھر کسی سورۃ یا آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب لازماً یہی نہیں ہوتا کہ وہ پہلی مرتبہ اُسی موقع پر نازل ہوئی تھی، بلکہ بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک سورت یا آیت پہلے نازل ہوچکی ہوتی تھی، اور پھر کوئی خاص واقعہ یا صورتِ حال پیش آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی کی طرف دوبارہ بلکہ کبھی کبھی بار بار حضور ؐ کو توجہ دلائی جاتی تھی۔ ہمارے نزدیک ایسا ہی معاملہ مُعَوِّذَتَیْن کا بھی ہے۔
حضور ﷺ پر جادو کا اثر اور اسکی نوعیت:
صحیح بخاری میں یہ حدیث کئی مقامات پر آئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں :
رسول اللہﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبیؐ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبیﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔عائشہؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول ! وہ خواب کیا ہے؟فرمایا: میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا:ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔پوچھا: وہ جادو کس چیز میں ہے؟جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔پوچھا: وہ ہے کہاں ؟کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔عائشہؓ نے بیان کیا کہ پھر نبیؐ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہؓ کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا:واللہ! اس کا پانی تو مہندی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔بیان کیا کہ پھر نبیﷺ تشریف لائے اور انھیں کنویں کے متعلق بتایا۔میں نے کہا:اللہ کے رسول ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟نبیؐ نے فرمایا: مجھے اللہ نے شفا دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔( بخاری، الدعوات ۸۰، تکریر الدعاء۵۷، ح: ۶۳۹۱، نیز دیکھیے الطب ۷۶، السحر ۴۷، ح: ۵۷۶۳، ھل یستخرج السحر ۴۹، ح: ۵۷۶۵، ح: ۵۷۶۶، الادب ۷۸، ۵۶، ح: ۶۰۶۳، الجزیۃ والموادعۃ ۵۸، ھل یعفی عن الذمی اذا سحر ۱۴، ح:۳۱۷۵، مسند احمد ۶/۵۷، ۶۳۔۶۴،۹۶)
اس روایت کے جملوں ’’آپ کو خیال گزرتا‘‘،’’ ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ ‘‘ اور ’’اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا اثر صرف آپﷺ کی ذات تک ہی محدود تھا، نبوت ورسالت اس اثر سے محفوظ تھی ۔ چنانچہ اس عرصے میں آپﷺ نے جادو کے اثر سے کوئی شرعی حکم یا عمل ترک نہیں کیا۔ پرویز نے جو صحیح بخاری کے حوالے سے یہ کہا کہ آپ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ ’’حتیٰ کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں ‘‘ یہ وہی ’’علمی دیانت‘‘ ہے جس کا مظاہرہ وہ اکثر اپنی تالیفات میں کرتے رہتے ہیں۔نبیﷺ پر جادو کے اثر کرنے کی بنیاد پر انھوں نے ’’جادو کا مارا ہوا اِنسان‘‘ کے الفاظ غلو و مبالغہ آرائی کرتے ہوئے استعمال کیے ‘ یہ بھی ایک علمی خیانت ہے۔
اس سلسلے کی بخاری کی کسی بھی حدیث میں اس بات کا تذکرہ موجود نہیں کہ آپ کو نماز پڑھنے نہ پڑھنے کا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ اوپر بیان کردہ حدیث میں ’’آپ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا‘‘ کا تذکرہ ہوا ہے۔ باقی روایات میں جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں
کان یخیل الیہ انہ صنع شیئا ولم یصنعہ (ح:۳۱۷۵)
یخیل الیہ انہ یاتی اھلہ ولا یاتی (ح: ۶۰۶۳)
حتی کان یری انہ یاتی النساء ولا یا تیہن (ح: ۵۷۶۵)
لیخیل الیہ انہ یفعل الشیء وما فعلہ (ح: ۵۷۶۶)
اس معنی ومفہوم کے الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ (مسند احمد ۶/۵۷،۶۳،۹۶)
ان حوالہ جات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپﷺ پر جادو کا اثر جسمانی حد تک تھا روحانیت اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے آپ کی دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں کوئی فرق نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ عام لوگ آپﷺ پر جادو کیے جانے کے واقعہ سے واقف تک نہ تھے۔ امہات المؤمنین میں سے بعض اس سحر کے اثرات سے واقف تھیں۔ جب یہ اثرات جسم کی حد تک تھے تو سحر کے نبیؐ پر اثر کر جانے کو عصمت نبوت کے منافی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ لکھتے ہیں :
’’یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ جادو شریعت کے احکام پر ہرگز اثر انداز نہیں ہوا۔ بلکہ یہ اثر محض آپ کی ذاتی حیثیت تک محدود رہا۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت تک آدھے سے زیادہ قرآن نازل ہو چکا تھا۔ عرب کے لوگ اس وقت دو متوازی فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ جن میں ایک فرقہ یا تو مسلمان تھا یا مسلمانوں کا حلیف اور دوسرا فرقہ ان کے مخالف۔ اگر اس دوران آپﷺ پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا۔ یعنی کبھی آپ نماز ہی نہ پڑھاتے یا ایک کے بجائے دو پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کر کے یا غلط سلط پڑھتے یا کوئی اور کام شریعت منزل من اللہ کے خلاف سرزد ہوتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔‘‘(مولانا عبدالرحمن کیلانی: آئینہ پرویزیت، ص: ۷۲۷، ط:۴،۲۰۰۴ء، مکتبۃ السلام، وسن پورہ لاہور)
اگر جسم پر سحر کے اثر کی وجہ سے عصمت نبوت پر حرف آتا ہو تا تو موسیٰؑ پر جادو کا اثر نہ ہوتا جبکہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ موسیٰؑ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی﴿۶۶﴾ فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی﴿۶۷﴾ قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴿۶۸﴾ (۲۰؍طٰہٰ: ۶۶۔۶۸)’’موسیٰ نے کہا: تم ہی ڈالو۔ ڈالتے ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ کے خیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ دوڑ رہی ہیں تو موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا،ہم نے کہا: خوف نہ کرو۔‘‘
جب موسٰی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا تو موسٰی علیہ السلام نے فرمایا :
قَالَ بَلْ أَلْقُوْا فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعٰیoفَأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی (طہ66-67/20)
’’موسٰی علیہ السلام نے فرمایا تم ہی ڈالوپھر ان کے سحر کے اثر سے موسٰی علیہ السلام کو خیال گزرنے لگاکہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یکدم دوڑنے لگ گئیں ،پس موسٰی علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘‘۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَلَمَّآ أَلْقَوْا سَحَرُوْٓا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ (اعراف116/7)’’پھر جب انہوں نے رسیاں پھینکی تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر سحر کیا اورانہیں خوف زدہ کردیا ۔۔۔۔‘‘
ان دونوں آیات سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب جادو گروں نے اپنی رسیاں ڈالیں تو جادو کے اثر سے ہزاروں کے مجمع کی آنکھوں پر ایسای جادو ہوا کہ سب نے انہیں سانپ ہی محسوس کیا ، ان سے لوگ بھی خوف زدہ ہوئے اور موسی علیہ السلام بھی ۔یعنی لوگوں پر اور موسی علیہ السلام پر جادو کااثر ہوا ۔جب موسٰی علیہ السلام پر جادو اثر کرسکتا ہے تو نبی کریم ﷺ پر کیونکر نہیں کرسکتا ؟پھر احادیث جو بیان کررہی ہیں اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصبِ نبوت میں قادِ ح ہو ۔ جب آیت کی طرح احادیث بھی یہی بیان کررہی ہیں کہ اس جادو سے عصمت انبیاء متاثر نہیں ہوئی تو آیت کے ساتھ ان احادیث کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے۔؟ جس طرح موسیٰؑ کے جسم پر جادو کا اثر ہو گیا تھا مگر جادو کی وجہ سے کفار ان پر غالب نہ آسکے تھے۔ اسی طرح جادو کرنے سے یہودی آپﷺ پر غالب نہیں آ گئے تھے بلکہ مسلسل دشمنانِ پیغمبر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے گئے۔
‘رجلا مسحورا ‘کی بحث:
آیات مذکورہ میں موسیٰؑ کے لیے’ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِن’ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور بالکل یہی الفاظ اوپر بیان کردہ احادیث میں نبیﷺ کے لیے آئے ہیں۔ اگر جادو کے اثر ہونے سے موسیٰؑ کو رجل مسحور کہنا درست نہیں تو پیغمبرؑ کو بھی رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا کہنا درست نہیں جیسا کہ پرویز باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موسیٰؑ کے لیے بھی فرعون نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا:
فَقَالَ لَہٗ فِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ لَاَظُنُّکَ یٰمُوۡسٰی مَسۡحُوۡرًا﴿۱۰۱﴾ (۱۷؍الاسراء :۱۰۱)
اور نبی اکرمﷺ کے لیے بھی انھوں نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا:
اِذۡ یَقُوۡلُ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا (۱۷؍الاسراء:۴۷)دوسری آیت میں یہ الفاظ ہیں :وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿۸﴾ (۲۵؍الفرقان :۸)
فرق صرف اتنا باقی رہ جاتا ہے کہ موسیٰؑ پر جو جادو کا اثر (یخیل الیہ) ہوا تھا اس کا ذکر قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرمؐ پر جو جادو کا اثر (یخیل الیہ) ہو گیا تھا، اس کا تذکرہ احادیث نبویہ میں ہے۔ مگر پرویز صاحب کہتے ہیں :بخاری کی اس حدیث کو کوئی کیا کرے۔(مطالب الفرقان فی دروس القراٰن (سورۃ بنی اسراء یل) ص: ۲۳۴)
کیا انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ موسیٰؑ کو مسحورا کہنے کا قول تو کفار کا تھا لہٰذا قرآن کی ان آیات کو کوئی کیا کرے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ موسیٰؑ کے جسم پر جادو کا اثر ہو گیا تھا اور وہ ڈر گئے تھے؟؟پرویز صاحب نے جس انداز سے احادیث سحر کی تردید کی ہے، اس سے تو قرآن کی تردید کا پہلو بھی نکلتا ہے۔
کفار اور حدیث کے بیان میں فرق:
حدیث بخاری کو قرآن کے خلاف قرار دینے سے پہلے اگر پرویز نے ’’خالی الذھن‘‘ ہو کر رجلا مسحورا اور اس جیسی دیگر آیات کے سیاق وسباق پر غور کیا ہوتا تو اُن پر ان الفاظ کے کہنے کا مقصد واضح ہو جاتا اور وقتی طور پر جسم پر جادو کے اثر کر جانے اور مسحور ہونے کا فرق بھی کھل جاتا ۔
کفار نے جو نبی اکرمؐ یا دیگر انبیاء کو مسحور یا مسحّر کہا تو اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ انبیاء کی نبوت کا دعویٰ جادو کے اثر کی وجہ سے ہے۔ وہ انبیاء و رسلؑ کے پیش کردہ شرعی احکام یا معجزات کو جادو کا کرشمہ سمجھتے تھے۔ مثلاً جب تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ(نو واضح نشانیاں ) کے ساتھ موسیٰؑ مبعوث ہوئے تو فرعون نے آپ کو مسحورا (جادو زدہ) کہا تھا۔ (۱۷:۱۰۱)
حضرت صالحؑ نے جب قوم کو دعوت توحید دی تو قوم نے اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَالۡمُسَحَّرِیۡنَ (۲۶:۱۵۳) کے الفاظ سے انہیں جادو زدہ قرار دیا۔ اور ان کی نبوت کو اِس لیے نہ مانا کہ مَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا (۲۶:۱۵۴) ’’تم اور کچھ نہیں ہماری طرح کے آدمی ہو۔‘‘اسی طرح کا جواب حضرت شعیبؑ کو اُن کی قوم نے دیا تھا۔ (۲۶:۱۸۵۔۱۸۶)
نبی اکرمﷺ کے لیے بھی جہاں مسحورا کا لفظ آیا ہے وہاں یہی بات تھی کہ وہ لوگ آپ کو نبی ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آپ کی تعلیمات کو جادو کا کرشمہ قرار دیتے تھے۔ توحید الٰہی کا بیان سن کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور سرگوشیاں کرتے تھے کہ تم تو مسحورا آدمی کی پیروی کرتے ہو لہٰذا وہ گمراہ ہو گئے۔(دیکھیے الاسراء ۱۷: ۴۶،۴۸) دوسرے مقام پر تو اور بھی صراحت سے یہ بات بیان کی گئی کہ نبی اکرمﷺ کے لیے کفار جو طرح طرح کے الفاظ استعمال کرتے تھے تو ان کا مقصد یہ تھا کہ ایسا شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا ۙ﴿۷﴾ اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاۡکُلُ مِنۡہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿۸﴾ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا﴿٪۹﴾ (۲۵؍الفرقان: ۷۔۹)
’’اور انھوں نے کہا یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا،یا اس کی طرف خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں سے کھایا کرتا اور ظالموں نے کہا کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔ دیکھو تو یہ تمھارے بارے میں کس کس طرح کی باتیں کرتے ہیں سو گمراہ ہو گئے اور راستہ نہیں پا سکتے۔‘‘
ان آیات سے واضح ہے کہ کفار انبیاء کو رجلا مسحورا کیوں کہتے تھے ؟ کفار بھی یہ اعتراض نبی ﷺ پر قرآن پیش کرنے کی وجہ سے کرتے تھے نہ کہ جادو کی وجہ سے۔!
کیا کفار کا نبی اکرمﷺ کو اس معنی میں رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا کہنا اور مسلمانوں کا قرآن (حضرت موسیؑ کے واقعے سے ) اور معتبر احادیث کی روشنی میں نبی اکرمﷺ پر سحر کا محض جسمانی اور وقتی اثر تسلیم کرنا ایک جیسا ہے؟ !!! کچھ تو غور کریے۔
کیا جادو کے جن اثرات کا ذکر حدیث میں ہے انکی حضرت موسی ؑ کے حوالے سے قرآنی بیان سے تائید نہیں ہوتی ؟ یہ اعتراض تو ایسے معاملہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق روایات سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمدؐ پر ہوا تھا، نبوت محمدؐ اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔(تفہیم
جادو کے اثر کی کیفیت:
سحر کا اثر دو طرح سے ہوتا ہے ایک اثر روحانیت پر ہوتا ہےدوسرا اُس کا اثر ظاہر اعضائے جسم پر ہوتا ہے ۔ نبی اکرمﷺ پر جو سحر ہوا وہ دوسری قسم کا تھا۔یہ اثر بتقاضائے بشریت تھا۔آپ ؐ کے سر میں درد ہوا، بخار آیا، زہر کا اثر ہوا، اسی طرح مرضِ سحر میں مبتلا ہوئے اور یہ سب لوازمات بشریہ میں سے ہیں۔ ان سے پیغمبر وانبیاءؑ بحثیت انسان مستثنیٰ نہیں ہوتے ۔پہلی قسم کے (روحانیت پر) اثر سے عصمت انبیاء پر فرق آسکتا تھا اس سے اللہ نے آپ کو اپنے وعدے کے مطابق محفوظ رکھا۔’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ جب کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا تو جو شیطان ڈالتا ہے اللہ اسے دُور کر تا ہے پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا ہے۔‘‘ (۲۲؍الحج :۵۲)
چنانچہ احادیث کی کوئی روایت یا ثبوت ایسا موجود نہیں جس سے یہ پتا چلے کہ اس سحر سے آپ کے دل، اعتقاد پر بھی کوئی اثر ہوا ہو۔ جادو کا اثر نبی کریم ﷺ پرصرف اتنا ہوا کہ آپ ﷺ کا دنیاوی معاملہ متاثر ہوا یعنی آپ ﷺ کو خیال ہوتا کہ کوئی کام آپ ﷺنے کیاجبکہ وہ کام نہیں کیاہوتا ۔ایک اور بات کہ نبیﷺ کو سحر کی وجہ سے بعض چیزیں یاد نہیں رہتی تھیں۔ یہ کوئی بڑا عیب نہیں دیکھا جائے تو سحر کے بغیر بھی انبیاء ورسل علیہم السلام کا ایسا نسیان قرآن سے ثابت ہے۔ موسیٰؑ نے اپنے لیے نَسِیْتُ (۱۸؍الکھف:۶۳،۷۳) ’’میں بھول گیا‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ موسیٰؑ اور ان کے ساتھی یوشع بن نون دونوں کے لیے نسیا (۱۸؍ الکھف: ۶۱) (وہ دونوں بھول گئے) کا لفظ قرآن میں آیا ہے۔ آدمؑ کے لیے نَسِیَ (طٰہٰ ۲۰: ۱۱۵) ’’وہ بھول گیا‘‘ کالفظ قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرمﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ نے وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ (۱۸؍الکھف: ۲۴) سے نسیان کا اثبات کیا۔جب بھول اور نسیان قرآن سے ثابت ہے تو پھر صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراض کیوں ؟’جو جواب ان(معترضین) کا نسیان کے بارے میں ہو گا وہی ہمارا جواب سحر کےاس اثر کے بارے میں ہو گا۔
انبیاء ورسلؑ کے نسیان کے باوجود تبلیغ رسالت میں کوئی حرف نہیں آیا اور نہ کوئی خلل واقع ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی مسلسل راہنمائی اور حفاظت کرتا تھا۔ اس لیے اگر ان سے کبھی کوئی لغزش ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فوراً تصحیح کر دیتا۔نبی اکرمﷺ بھی بعض دفعہ بھول جاتے تھے مگر اس نسیان کی وجہ سے کوئی شرعی حکم متاثر نہیں ہوا، بلکہ آپ کے نسیان میں بھی امت کے لیے مکمل اسوہ حسنہ بننے کی حکمت موجود ہوتی تھی کہ امت بھی کسی عمل کی ادائیگی بھول جائے تو اسی طرح کرے جیسے پیغمبرﷺ نے کیا تھا۔ بھولنے پر آپ کی کسی نہ کسی ذریعے سے یاد دہانی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح حالت سحر میں بھی آپ کا بھول جانا تبلیغ رسالت میں مخل نہیں ہوا۔
کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں (یعنی جادو کی کیفیت کے دوران)آپ ﷺقرآن مجید بھول گئے ہوں ،یا کوئی آیت غلط پڑھی ہو۔یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو یا کوئی ایسا کلام وحی کی حیثیت پیش کردیا ہو ۔جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو ۔۔۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادو گر کے جادو نے چت کردیا ۔لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ ﷺ اپنی جگہ محسوس کرکے پریشان ہوتے رہے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن جلد6ص555-554)
ڈاکٹر شبیر احمد منصوری اپنے مقالے ’’رسول اکرمﷺ پر سحر کی حقیقت اور مفسرین‘‘ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مفسرین کرام نے عمل سحر کے اثرات کی مطلقاً نفی نہیں کی۔ ہاروت ماروت کا جادو سکھانے کا واقعہ اور ساحرین فرعون کے جادو کے اثرات اثبات سحر کی نقلی دلیل ہیں۔عقل وقیاس بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اگر انبیاء کرامؑ کو زخم، بیماری اور بچھو کا کاٹنا تکلیف دے سکتا ہے تو جادو کے اثر سے جسمانی یا روحانی اذیت پہنچنا بھی ایسا ہی عمل ہے۔ ساحرین فرعون کے عمل سحر سے دیگر لوگوں کی طرح حضرت موسیٰؑ پر بھی خوف طاری ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تسلی دی اور کہا کہ تم جو تمھارے داہنے ہاتھ میں ہے اسے پھینکو، یہ سب کچھ نگل جائے گی۔
جہاں تک عصمتِ انبیاءؑ کا تعلق ہے، وہ اس سحر کے اثر سے متاثر نہیں ہوتی۔حضور اکرمﷺ پر جادو کے اثرات جسمانی و ذاتی اور باطنی حد تک تھے۔ ان اثرات کو صرف حضورؐ ہی محسوس کر رہے تھے۔ کسی اور پر ہر گز ظاہر نہ ہوتے تھے۔ البتہ جب آپﷺ نے بی بی عائشہ کے سامنے تفصیل بیان کی اور کنویں میں سے مواد سحر کو نکالا گیا۔ تب اکثر لوگوں کو پتا چلا۔جب تک آپ پر جادو کا اثر رہا آپ جسمانی و ذ ہنی کرب و تکلیف محسوس فرماتے رہے لیکن کسی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی بیشی واقع نہ ہوئی۔‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری، رسول اکرمؐ پر سحر کی حقیقت اور مفسرین، محدث (ماہنامہ) ص: ۶۱، فروری ۱۹۹۰ء)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر سحر اور مفسرین کی تائیدی و تنقیدی آراء کا جائزہ-تفصیلی مقالہ یہاں دیکھیے